کتب حدیث میں لااصل لہ کا معنیٰ و مفہوم
کتب حدیث میں لااصل لہ کا معنیٰ و مفہوم
محدثین بکثرت اس اصطلاح کا استعمال موضوع روایت کے لیے کرتے ہیں جیسا کہ امام جمال الدين عبد الرحمن بن علي بن محمد الجوزي (المتوفى: 597هـ) اپنی کتاب الموضوعات میں فرماتے ہیں:
قَالَ أَبُو حَاتِم بن حبَان: هَذَا حَدِيث كذب مَوْضُوع لَا أَصْلَ لَه۔
امام ابوحاتم بن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث جھوٹ موضوع ہے جس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
قَالَ أَبُو حَاتِم بن حبَان: هَذَا شئ مَوْضُوع لَا أَصْلَ لَهُ من حَدِيث رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
امام ابوحاتم بن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث موضوع ہے جس کی حدیثِ رسولﷺ سے کوئی اصل نہیں ہے۔
قَالَ الْعقيلِيّ: هَذَا الحَدِيث مَوْضُوع لَا أَصْلَ لَهُ.
حضرت عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ روایت موضوع ہے جس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
لااصل لہ کے قول کی وضاحت کرتے ہوئے امام عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ) رحمہ اللہ اپنی کتاب اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعةمیں فرماتے ہیں:
قَالَ الجوزقاني: بَاطِل، مَوْضُوع لَا أصل لَه۔
علامہ جوزقانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یہ حدیث باطل ہے موضوع ہے جس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
لااصل لہ کے قول کی وضاحت کرتےہوئے امام محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي (المتوفى: 986هـ)رحمہ اللہ اپنی کتاب تذکرۃ الموضوعات میں فرماتے ہیں:
وَأعلم أَن الْأَحَادِيث الَّتِي لَا أصل لَهَا لَا تقبل وَالَّتِي لَا إِسْنَاد لَهَا لَا يرْوى بهَا۔
اور جان لوکہ وہ احادیث جن کی کوئی اصل نہیں ہے ان کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ اور جن احادیث کی اسناد نہیں ہیں ان کو بھی روایت نہیں کیا جائے گا۔
لااصلہ لہ سے مرادبعض اوقات بغیر سند روایت مراد لی جاتی ہے۔
لااصل لہ:معناہ لیس لہ اسناد
بغیر سند روایت کے متعلق شیخ عبدالفتاح بن محمد بشیر بن حسن ابوغدہ حلبی حنفی رحمہ اللہ مقدمۃ المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع میں فرماتے ہیں:
واذا کان الحدیث لا اسناد لہ ، فلا قیمۃ لہ ولا یلتفت الیہ اذ الاعتماد فی نقل کلام سیدنا رسول اللہ ﷺ الینا ، انما ھو علی الاسناد الصحیح الثابت أو ما یقع موقعہ ۔ وما لیس کذلک فلا قیمۃ لہ ۔
اور جب کوئی حدیث بغیر سند کے ہوتو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی اس کی طرف توجہ دی جائے گی کیونکہ رسول ﷺ کے کلام کونقل کرنے میں ہمارے نزدیک اعتماد شرط ہے اور وہ صحیح ثابت سند کے ساتھ ہی ممکن ہے اور جس کی سند صحیح ثابت نہ ہو اس روایت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
بغیر سند کے حدیث کے متعلق احمد محرم شیخ اپنی کتاب الضوء اللامع المبين عن مناهج المحدثين میں لکھتے ہیں:
أن الحديث بغير إسناد كالدابة بغير زمام، وتعتبر أسانيد، أحسن الأسانيد۔
بیشک حدیث بغیر سند کے ایسے ہے جیسا کہ بغیر مہار کے جانور ہوتا ہے۔ روایتِ حدیث میں احسن اسناد کا اعتبار کیا جاتا ہے۔
اورکبھی سند کے ساتھ روایت کےلیے بھی لااصل لہ بولاجاتا ہے۔
شیخ عبدالفتاح بن محمد بشیر بن حسن ابوغدہ حلبی حنفی رحمہ اللہ مقدمۃ المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع میں فرماتے ہیں:
ھذاالحدیث لاأصل لہ ‘‘ یعنون بہ أنہ موضوع مکذوب علی رسول اللہ ﷺ او علی الصحابی ، أو علی التابعی ، الذی أسند قولہ الیہ ، وذلک بان یکون للحدیث سند مذکور، ولکن فی سندہ کذاب أو وضاع أو دلالۃ صریحۃ ، أو قرنیۃ ناطقۃ بکذب المنقول بہ ، فقولھم فیہ حینئذ: لا أصل لہ ، یعنون بہ:کذب الحدیث ، لانفی وجود اسناد لہ ۔
اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے۔یعنی انہوں نے اس سے مراد لیا ہے کہ یہ روایت رسولﷺ پر یا صحابی پر یا تابعی کی طرف جھوٹ منسوب کیاگیا ہے۔باوجود اس کہ یہ حدیث سند کے ساتھ ہے لیکن پھر بھی موضوع ہے کیونکہ اس کی سند میں کذاب اور وضاع راوی موجود ہیں۔یا کوئی ایسا قرینہ موجود ہے جو اس کے جھوٹ ہونے پر دلالت کر رہا ہے۔ ان کا قول لااصل لہ سے مراد جھوٹی روایت ہے۔ لیکن سند کی نفی نہیں کی گئی۔
Pواللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
✍اسد الرحمن