روزِ قیامت بھی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا تعلق و نسب برقرار رہیگا

تحریر : اسد الطحاوی الحنفی

امام الآجری ایک روایت بیان کرتے ہیں اپنی سند صحیح مرسل سے :

أنبأنا ابن أبي داود قال: حدثنا إسحاق بن منصور الكوسج قال: حدثنا عبيد الله بن موسى , عن إسرائيل , عن عثمان بن المغيرة , عن محمد بن علي قال: خرج عمر رضي الله عنه إلى الناس فقال: رفئوني بابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: فكأنهم قالوا له , فقال: لقد كانت لي صحبتي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم , ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «كل سبب ونسب منقطع يوم القيامة إلا سببي ونسبي»

امام محمد باقر فرماتے ہیں :

حضرت عمرؓ بن خطاب لوگوں کے پاس آئے اور بولے : نبی اکرمﷺ کی صاحبزادی (یعنی نواسی) سے شادی کے حوالے سے مجھے مبارکباد دیں ۔ لوگوں نے انہیں اس حوالے سے کچھ کہا تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا :

میں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ رہاہوں میں نے نبی اکرمﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے قیامت کے دن ہر رشتہ و نسب منطقع ہو جائے گا البتہ میرے رشتہ اور میرے نسب کا معاملہ مختلف ہوگا

اس روایت کے سارے رجال ثقہ ہیں امام محمد باقر تک ۔ لیکن انہوں نے حضرت عمر کا دور نہیں پایا لیکن امام محمد باقر سے ثابت ہو گیا کہ وہ نسب اور نبی اکرم کے باقی رشتہ داوروں کے بھی فضیلیت کے قائل تھے

اس روایت کو متصل اور صحیح سند سے امام طبرانی نے بیان کیا ہے جو درج ذیل ہے :

حدثنا محمد بن عبد الله الحضرمي، ثنا الحسن بن سهل الحناط، ثنا سفيان بن عيينة، عن جعفر بن محمد، عن أبيه، عن جابر، قال: سمعت عمر بن الخطاب رضي الله عنه يقول: ” سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «ينقطع يوم القيامة كل سبب ونسب إلا سببي ونسبي»

(المعجم الكبير برقم: 2635)

اور امام ہیثمی اس روایت کے باے حکم لگاتے ہوئے کہتے ہیں :

رواه الطبراني في الأوسط والكبير باختصار، ورجالهما رجال الصحيح، غير الحسن بن سهل وهو ثقة.

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، برقم: 15019)

اس سے معلوم ہوا کہ نبی اکرمﷺ کے اہل بیت کی طرح نبی اکرمﷺ کے رشتہ دار جو بنے انکو بھی فضیلت حاصل ہوگی

جسکو امام الآجری بیان کرتے ہیں :

حدثنا ابن أبي داود قال: حدثنا محمد بن مصفى قال: حدثنا مروان بن محمد قال: حدثنا عبد الله بن جعفر المخرمي قال: حدثتني أم بكر بنت المسور , عن أبيها المسور قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «كل نسب ينقطع يوم القيامة , وكل صهر ينقطع إلا صهري»

ام بکر بن مسور اپنے والد حضرت مسورؓ سے بیان کرتی ہیں

نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا :

قیامت کے دن ہر نسب منقطع ہوجائے گا اور ہر سسرالی رشتہ منقطع ہو جائے گا البتہ میرے سسرالی رشتہت کا معاملہ مختلف ہے

سند کے رجال کا مختصرہ جائزہ

۱۔امام ابو بکر ابن ابی داود (ثقہ متفقہ علیہ )

۲۔امام محمد بن مصفى بن بهلول (صدوق بحکم امام ابو حاتم )

۳۔امام مروان بن محمد بن حسان الأسدي(ثقہ بحکم امام ابو حاتم )

۴۔ امام المخرمي عبد الله بن جعفر بن عبد الرحمن (ثقہ بحکم امام احمد )

۵۔ أم بكر بنت المسور

انکو امام ابن حجر عسقلانی نے مقبولہ قرار دیا ہے یعنی مستور جسکی معتبر شاہد و متابعت مل جائے تو ایسے راوی کی روایت قبول ہوتی ہے اور اوپر ہم جید شاہد بیان کر دیے جس سے تقویت حاصل کرے یہ روایت بھی حسن درجے کی ہے

اس لیے اس روایت کو بیان کرنے کے بعد امام الآجری فرماتے ہیں :

قال محمد بن الحسين رحمه الله: لما سمع عمر بن الخطاب رضي الله عنه بهذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم خطب إلى علي بن أبي طالب رضي الله عنه ابنته أم كلثوم رضي الله عنها , وأمها فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم , وهي صبية صغيرة , فقال له علي رضي الله عنه: فإني حبستها على ابن أخي جعفر رضي الله عنهم , وهي صبية فبعث إليه عمر وإن كانت صغيرة , فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «كل نسب وصهر منقطع يوم القيامة إلا نسبي وصهري» فلذلك رغبت فيها فزوجه إياها، فرضي الله عن عمر وعن علي وعن أهل بيت رسول الله صلى الله عليه وسلم

امام آجری فرماتے ہیں : جب حضرت عمر بن خطاب ؓ نے یہ بات نبی اکرمﷺ کی زبانی سنی تو انہوں نے حضر علی بن ابو طالب کو ان کی صاحبزادی سیدہ ام کلثوم کے لیے شادی کا پیغام بھیجا جن کی والدہ سید ہ فاطمہؓ تھیں ۔ وہ صاحبزادی ابھی کمسن تھیں حضرت علیؓ نے ان سے کہا میں نے تو یہ ارادہ کیا ہے کہ اپنے بھتیجے کے ساتھ اسکی شادی کرونگا کیونکہ یہ ابھی کمسن ہے تو حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ کو پیغام بھیجا :

(پھر بھی میں ان کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہوں ) کیونکہ میں نے نبی اکرمﷺ کو یہ ارشاد فرماتے سنا ہے :

قیامت کے دن ہر نسب اور ہر سسرالی رشتہ منطقع ہو جائے گا البتہ میرے نسب اور سسرالی رشتہ کا معاملہ مختلف ہے اس وجہ سےمیں (حضرت عمر) اس خاتون کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہوں

تو حضرت علیؓ نے حضرت عمر کے ساتھ ان صاحبزادی کی شادی کر دی ۔ اللہ تعالیٰ حضرت عمر سے حضرت علیؓ سے اور نبی اکرم کے تمام اہل بیت سے راضی ہو ۔

(الشریعہ الآجری )

اسی طرح حضرت امیر معاویہ ؓنبی محمد مصطفی کے سسرالی رشتہ دار بھی ہیں۔ ان کی ہمشیرہ اُمّ المؤمنین اُمّ حبیبہؓ آپؐکی زوجہ ہیں۔ یہ حضرت امیر معاویہؓ کی بہن ہیں۔ لہٰذا امیر معاویہؓ کا رسولِ کریمؐ سے دوہرا رشتہ ہے

اور حضرت عمرؓ جن پر رافضیہ بکواسات کرتے ہیں مولا علیؓ نے خود انکو اپنا رشتہ دار بنایا صحابہ و اہلبیت آپس میں رشتہ داریاں بناتے رہے

اور بد نصیب ایرانی رافضی اپنی چھاتیاں پھوڑتے تبرہ کرتے رہہ جائیں گے

تحقیق: دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی