کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 16 رکوع 3 سورہ الکھف آیت نمبر 102 تا 110
اَفَحَسِبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ یَّتَّخِذُوْا عِبَادِیْ مِنْ دُوْنِیْۤ اَوْلِیَآءَؕ-اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِیْنَ نُزُلًا(۱۰۲)
تو کیا کافر یہ سمجھتے ہیں کہ میرے بندوں کو (ف۲۱۳) میرے سوا حمایتی بنالیں گے (ف۲۱۴) بےشک ہم نے کافروں کی مہمانی کو جہنم تیار کر رکھی ہے
(ف213)
مثل حضرت عیسٰی و حضرت عزیر و ملائکہ کے ۔
(ف214)
اور اس سے کچھ نفع پائیں گے یہ گمان فاسد ہے بلکہ وہ بندے ان سے بیزار ہیں اور بے شک ہم ان کے اس شرک پر عذاب کریں گے ۔
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًاؕ(۱۰۳)
تم فرماؤ کیا ہم تمہیں بتادیں کہ سب سے بڑھ کر ناقص عمل کن کے ہیں(ف۲۱۵)
(ف215)
یعنی وہ کون لوگ ہیں جو عمل کر کے تھکے اورمشقّتیں اٹھائیں اور یہ امید کرتے رہے کہ ان اعمال پر فضل و نوال سے نوازے جائیں گے مگر بجائے اس کے ہلاکت و بربادی میں پڑے ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا وہ یہود و نصارٰی ہیں ۔ بعض مفسِّرین نے کہا کہ وہ راہب لوگ ہیں جو صوامع میں عُزلت گزین رہتے تھے ۔ حضرت علیِ مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ یہ لوگ اہلِ حروراء یعنی خوارج ہیں ۔
اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا(۱۰۴)
ان کے جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں گم گئی (ف۲۱۶) اور وہ اس خیال میں ہیں کہ اچھا کام کررہے ہیں
(ف216)
اور عمل باطل ہو گئے ۔
اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ لِقَآىٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵)
یہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیتیں اور اس کا ملنا نہ مانا(ف۲۱۷) تو ان کا کیا دھرا سب اکارت (ضائع)ہے تو ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی تول نہ قائم کریں گے (ف۲۱۸)
(ف217)
رسول و قرآن پر ایمان نہ لائے اور بعث و حساب و ثواب و عذاب کے منکِر رہے ۔
(ف218)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ روزِ قیامت بعضے لوگ ایسے اعمال لائیں گے جو ان کے خیالوں میں مکّہ مکرّمہ کے پہاڑوں سے زیادہ بڑے ہوں گے لیکن جب وہ تولے جائیں گے تو ان میں وزن کچھ نہ ہوگا ۔
ذٰلِكَ جَزَآؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوْا وَ اتَّخَذُوْۤا اٰیٰتِیْ وَ رُسُلِیْ هُزُوًا(۱۰۶)
یہ ان کا بدلہ ہےجہنم اس پر کہ اُنہوں نے کفر کیا اور میری آیتوں اور میرے رسولوں کی ہنسی بنائی
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًاۙ(۱۰۷)
بےشک جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے فردوس کے باغ ان کی مہمانی ہے (ف۲۱۹)
(ف219)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ سے مانگو تو فردوس مانگو کیونکہ وہ جنّتوں میں سب کے درمیان اور سب سے بلند ہے اور اس پر عرشِ رحمٰن ہے اوراسی سے جنّت کی نہریں جاری ہوتی ہیں ۔ حضرت کعب نے فرمایا کہ فردوس جنّتوں میں سب سے اعلٰی ہے ، اس میں نیکیوں کا حکم کرنے والے اور بدیوں سے روکنے والے عیش کریں گے ۔
خٰلِدِیْنَ فِیْهَا لَا یَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا(۱۰۸)
وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے ان سے جگہ بدلنا نہ چاہیں گے (ف۲۲۰)
(ف220)
جس طرح دنیا میں انسان کیسی ہی بہتر جگہ ہو اس سے اور اعلٰی و ارفع کی طلب رکھتا ہے یہ بات وہاں نہ ہوگی کیونکہ وہ جانتے ہوں گے کہ فضلِ الٰہی سے انہیں بہت اعلٰی و ارفع مکان و مکانت حاصل ہے ۔
قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا(۱۰۹)
تم فرمادو اگر سمندر میرے رب کی باتوں کے لیے سیاہی ہو تو ضرور سمندر ختم ہوجائے گا اور میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں گی اگرچہ ہم ویسا ہی اور اِس کی مدد کو لے آئیں (ف۲۲۱)
(ف221)
یعنی اگر اللہ تعالٰی کے علم و حکمت کے کلمات لکھے جائیں اور ان کے لئے تمام سمندروں کا پانی سیاہی بنا دیا جائے اور تمام خَلق لکھے تو وہ کلمات ختم نہ ہوں اور یہ تمام پانی ختم ہو جائے اور اتنا ہی اور بھی ختم ہو جائے ۔ مدعا یہ ہے کہ اس کے علم و حکمت کی نہایت نہیں ۔
شانِ نُزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ یہود نے کہا اے محمّد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) آپ کا خیال ہے کہ ہمیں حکمت دی گئی اور آپ کی کتاب میں ہے کہ جسے حکمت دی گئی اسے خیرِ کثیر دی گئی پھر آپ کیسے فرماتے ہیں کہ تمہیں نہیں دیا گیا مگر تھوڑا علم ؟ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی ۔ ایک قول یہ ہے کہ جب آیۂِ وَمَا اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلاَّ قَلِیْلاً نازِل ہوئی تو یہود نے کہا کہ ہمیں توریت کا علم دیا گیا اور اس میں ہر شے کا علم ہے ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی ، مدعا یہ ہے کہ کل شے کا علم بھی علمِ الٰہی کے حضور قلیل ہے اتنی بھی نسبت نہیں رکھتا جتنی ایک قطرے کو سمندر سے ہو ۔
قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠(۱۱۰)
تم فرماؤ ظاہر صورت بشری میں تو میں تم جیسا ہوں (ف۲۲۲) مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے (ف۲۲۳) تو جسے اپنے رب سے ملنے کی امید ہو اُسے چاہئے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے (ف۲۲۴)
(ف222)
کہ مجھ پر بشری اعراض و امراض طاری ہوتے ہیں اور صورتِ خاصّہ میں کوئی بھی آپ کا مثل نہیں کہ اللہ تعالٰی نے آپ کو حسن و صورت میں بھی سب سے اعلٰی و بالا کیا اور حقیقت و روح و باطن کے اعتبار سے تو تمام انبیاء اوصافِ بشر سے اعلٰی ہیں جیسا کہ شفاءِ قاضی عیاض میں ہے اور شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مشکوٰۃ میں فرمایا کہ انبیاء علیہم السلام کے اجسام و ظواہر تو حدِّ بشریت پر چھوڑے گئے اور ان کے ارواح و بواطن بشریت سے بالا اور ملاءِ اعلٰی سے متعلق ہیں ۔ شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے سورۂ والضحٰی کی تفسیر میں فرمایا کہ آپ کی بشریت کا وجود اصلاً نہ رہے اور غلبۂ انوارِحق آپ پر علی الدوام حاصل ہو بہرحال آپ کی ذات و کمالات میں آ پ کا کوئی بھی مثل نہیں ۔ اس آیتِ کریمہ میں آپ کو اپنی ظاہری صورتِ بشریّہ کے بیان کا اظہار تواضع کے لئے حکم فرمایا گیا ، یہی فرمایا ہے کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے ۔ (خازن)
مسئلہ : کسی کو جائز نہیں کہ حضورکو اپنے مثل بشر کہے کیونکہ جو کلمات اصحابِ عزّت و عظمت بہ طریقِ تواضع فرماتے ہیں ان کا کہنا دوسروں کے لئے روا نہیں ہوتا ، دوئم یہ کہ جس کو اللہ تعالٰی نے فضائلِ جلیلہ و مراتبِ رفیعہ عطا فرمائے ہوں اس کے ان فضائل و مراتب کا ذکر چھوڑ کر ایسے وصفِ عام سے ذکر کرنا جو ہر کہ و مِہ میں پایا جائے ان کمالات کے نہ ماننے کا مُشعِر ہے ، سویم یہ کہ قرآنِ کریم میں جا بجا کُفّار کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ وہ انبیاء کو اپنے مثل بشرکہتے تھے اور اسی سے گمراہی میں مبتلا ہوئے پھر اس کے بعد آیت یُوْحٰۤی اِلَیَّ میں حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مخصوص بالعلم اور مکرّم عنداللہ ہونے کا بیان ہے ۔
(ف223)
اس کا کوئی شریک نہیں ۔
(ف224)
شرکِ اکبر سے بھی بچے اور ریاء سے بھی جس کو شرکِ اصغر کہتے ہیں ۔ مسلم شریف میں ہے کہ جو شخص سورۂ کہف کی پہلی دس آیتیں حفظ کرے اللہ تعالٰی اس کو فتنۂ دجال سے محفوظ رکھے گا ۔ یہ بھی حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص سورۂ کہف کو پڑھے وہ آٹھ روز تک ہر فتنہ سے محفوظ رہے گا ۔