ثم الاحسن زوجة پراعتراض کاجواب*

سوال: حنفی فقہ میں جو قول ہے کہ امام اس کو بناو جس کی بیوی خوبصورت ہو۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی کیا توجیح ہو گی؟

جواب: ایسی کوئی عبارت نہیں ورنہ پیش کریں۔۔۔۔ اردو میں لکھیر کے فقیر نہ بنو۔ عربی عبارت کا کہا ہے جو آپ پیش نہیں کر سکتے ۔۔۔اور جس سے استدلال کر رہے ہو اس کی آپ کو سمجھ نہیں ۔۔۔

حل مسئلہ

یہاں الاحسن سے حسن سیرت مراد ہے نہ کہ حسن صورت۔۔۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اصل عبارت ہے ثم الاحسن زوجة نحوی ترکیبی حیثیت سے اس کا صحیح ترجمہ “حسن سیرت” مراد ہے۔ کیونکہ الاحسن صیغہ اسم تفضیل معرف بالللام ہے اور صیغہ اسم تفضیل جب معرف بالللام ہو تو اس کا اپنی موصوف کے ساتھ مطابقت ضروری ہوتا ہے تو الاحسن مذکر ہے تو اس کا موصوف بھی مذکر ہوگا جو الامام الاحسن ہے وہ امام جو “احسن” ہوگا اور “احسن” سے حسن سیرت مراد ہے وہ امام جس کی سیرت اچھی ہو خوب سیرت ہو زوجة باعتبار زوجہ کے۔ یعنی اپنی زوجہ کے ساتھ اخلاق اچھا ہو تو جس امام کے اپنی زوجہ کے ساتھ اخلاق اچھے ہو وہ اولی بالامامہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خيركم خيركم لاهله. و فی رواية: خياركم خياركم لنسائه…

تو “الاحسن” یہ “الامام” کی صفت ہے “الامام الاحسن” وہ امام جو خوبصورت ہو یعنی خوب سیرت ہو۔

اب یہ جہلاء “الاحسن” کو “زوجة” کی صفت بنا رہے ہیں تو پھر “الاحسن” تو مذکر ہے اور “زوجة” مونث ہے تو موصوف صفت کے مابین مطابقت کہاں؟

معنوی خرابی یہ کہ مسئلہ امام کی اولیت کا چل رہا ہے اور یہ جہلاء زوجہ کی خوبصورتی مراد لے رہے ہیں۔

اگر بالفرض زوجہ کی خوبصورتی مراد ہو تو پھر بھی ایک توجیہ ہے کہ جس امام کی زوجہ خوبصورت ہو وہ اورع یعنی متقی پرہیزگار ہوتا ہے اور اورع اولی بالامامہ ہے۔

باقی عورت کی خوبصورتی معلوم کرنے کے لئے عورت کا دیکھنا ضروری نہیں۔ کیونکہ پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے ذریعہ بھی معلوم ہوسکتا ہے۔ یعنی کسی پوشیدہ چیز کو معلوم کرنے کے لئے دیکھنا ضروری نہیں۔ یہ قرائن اور حالات سے بھی معلوم ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔

واللہ اعلم بالصواب

ابو الحسن محمد شعیب خان

8 مارچ 2021