مقاصدِ نکاح اور ملحدین

۔

مثنوی شریف میں مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک قصہ نقل کیا ہے ۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ لکھتے ہیں! کہ ہلدی، تیل اور مرچیں بیچنے والے ایک پنساری کے پاس نہایت خوب صورت اور طرح طرح کی بولیاں بولنے والا ایک طوطا تھا۔تمام دن وہ پنساری کی دکان پر بیٹھا رہتا اور گاہکوں سے مزے مزے کی باتیں کرتا۔

۔

ایک دن ایسا ہوا کہ پنساری کسی کام سے اپنے گھر گیا اور طوطے کو دکان کی نگہبانی کے لیے چھوڑ گیا۔

یکا یک ایک بلی چوہے پر لپکی طوطا اپنی جان بچانے کے لیے ایک طرف اُڑا تو تیل کی کپیاں دکان میں لڑھک گئیں اور فرش پر سب تیل ہی تیل پھیل گیا۔

۔

پنساری دکان پر واپس آیا تو دیکھا کہ فرش پر تیل کی کپیاں لڑھکی پڑی ہیں اور بہت سا تیل ضائع ہوچکا ہے۔ ۔

۔

پنساری نے طیش میں آکر طوطے کی کھوپڑی پر ایسا ہاتھ مارا کہ اُس کے سر کے سارے بال جھڑگئے اور وہ گنجا ہوگیا۔ ۔

طوطے کو اپنے بال جھڑ جانے کا ایسا افسوس ہوا کہ کہاں تو بُلْبُلِ ہزار داستان بنا ہوا تھا اور کہاں ایک دم بولنا چالنا سب چھوڑ دیا۔

پنساری نے طوطے کو منانے اور خوش کرنے کے بہیترے کوششیں کیں، لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔

۔

پنساری کو طوطے سے بڑی محبت تھی اور طوطے کی خاموشی اس کے لیے ناقابل برداشت بنتی جاتی تھی۔

اُسے اپنی حرکت پر پشیمانی اور ندامت تھی کہ خواہ مخواہ ذراسی بات پر طوطے کو دھپ ماری۔

اسی رنج میں وہ ہر فقیر اور درویش کے آگے نذرانے پیش کرکے دعا کا خواستگار ہوا تاکہ کسی طرح طوطے کی بند زبان کھل جائے۔

کئی دن گزرگئے اور طوطا نہ بولا۔

۔

ایک روز بے چارہ پنساری اسی غم میں حیران و پریشان اپنی دکان پر بیٹھا تھا کہ اتنے میں ایک درویش خدامست چار ابرو کا صفایا کیے اور الٹے پیالے کی طرح کھوپڑی گھٹائے، پنساری کی دکان کے سامنے سے گزرا ۔

۔

طوطے نے جوں ہی اسے گنجے فقیر کو دیکھا

۔

بے اختیار پکارا:’’ابے او گنجے فقیر معلوم ہوتا ہے تو نے بھی کہیں تیل کی کپی گرائی ہے جو تجھے سزا کے طور پر گنجا ہونا پڑا‘‘۔ طوطے کا آوازہ سن کر پاس پڑوس والے ہنس پڑے اور کہنے لگے سبحان اللہ! یہ طوطا بھی اس فقیر کو اپنی طرح سمجھ رہا ہے ۔

۔

قارئینِ محترم! بلاتشبیہ یوں سمجھئے ہمارے زمانہ کے ملحدین اور دین بیزار لوگ بھی قیاس الفارق سے کام لےکر پاک ہستیوں کو خود پر قیاس کرتے ہیں ۔

۔

ملحدینِ زمانہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہم اپنی جنسی خواہش کی تسکین کےلئے کنواری بچیوں کو فلموں، ڈراموں میں کام دےکر اُن کا جنسی استحصال کرتے ہیں ہماری طرح دیگر لوگ بھی ایسے ہی کرتے ہوں گے ۔

۔

لبرلز کا خیال ہے جس طرح ہم آفیسز ،ہوٹلز، ائیرپورٹس پر بھری جسمانیت والی پرگوشت خوبرو عورتوں کو دیکھ گندی لذت لیتے ہیں دیگر پاکباز لوگ بھی ہمارے جیسے ہوں گے ۔

۔

ملحدین زمانہ گنجے طوطے کی طرح اِس گمانِ فاسد میں مبتلا ہیں کہ سب نے تیل کی کپیاں گرائ ہیں ۔

۔

ملحدینِ زمانہ، لبرلز، دین بیزار، نفس پرست، شیطان کے پیروکاروں سے ہم کہنا چاہتے ہیں کہ اے خبیث نفس والو! تمھاری تربیت گندے ماحول میں، ننگی فلمیں، ڈرامیں دیکھنے سے ہوئ ہے ۔نوجوانی میں جنسی قوت بڑھانے کےلئے تم ویاگرا ٹیبلیٹس یوز کرتے ہو کیونکہ تم سمجھتے ہو دنیا مزے کی ہے ۔۔۔۔۔

تو اے ملحدو! سب کو اپنی طرح مت سمجھو کیونکہ بعض پاک ہستیوں کی تربیت میرا رب بذاتِ خود فرماتا ہے ۔

اُن پاک ہستیوں کی زندگی، اُن کا جینا، اُن کی عبادات، اُن کا اِس دنیا سے چلے جانا سب رب کےلئے ہوتا ہے ۔

ایسی پاک ہستیاں ایک سیکنڈ کے کروڑویں حصے میں بھی کوئ کام اپنے نفس کےلئے نہیں کرتے ۔

قرآنِ کریم ایسی پاک ہستیوں کےلئے فرماتا ہے “قل اِنّ صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ ربّ العٰلمین ” ۔

آپ فرمادیجئے میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور موت اللہ رب العٰلمین کےلئے ہے ۔

۔

ملحدین بدبخت لوگ انتہائ گھٹیا سوچ کے مالک ہیں ۔

۔

حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کئ شادیاں کیں آپ کی زوجاتِ محترمات رضی اللہ عنھن میں سے سب سے چھوٹی عمر کی زوجہ سیدہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا ہیں ۔

۔

ملحدین مسلمانوں کے طیش دلانے، اُن کے دلی جذبات مجروح کرنے اور مسلمانوں کو دین بیزار کرنے کےلئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شادیوں پر اعتراضات کرتے ہیں ۔

ہمارے علماء نے اس عنوان کے تعلق سے کئ ایک جوابات لکھے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شادیاں تسکین نفس کےلئے تھیں ہی نہیں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد شادیاں مختلف نیک مقاصد کی خاطر کیں اُن میں سے ایک مقصد تشریعی بھی ہے ۔

۔

غورفرمائیے! نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک جب 25 برس ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک چالیس کی بیوہ اور بچوں کی ماں سے شادی کرتے ہیں ۔

۔

اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شادیاں تسکینِ نفس کےلئے ہوتیں تو آپ عین جوانی میں بیوہ اور بچوں کی ماں سے نکاح نہ فرماتے ۔

۔

جب تک سیدہ خدیجہ پاک رضی اللہ تعالٰی عنھا زندہ تھیں آپ نے دوسری کسی عورت سے نکاح نہ فرمایا ۔

جب عمر مبارک 49 سال کو پنہچا کنپٹی کے بال سفیدی کی طرف مائل ہیں تب آپ نے دوسرا نکاح کیا ۔

۔

نکاحِ کی تشریعی مقاصد ۔

ہجرتِ مدینہ کے بعد جب اسلام اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ پھیلنے لگا “اللہ نے قرآن میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زندگی مسلمانوں کےلئے اسوہ حسنہ فرمایا ۔

“لقد کان فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ “

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر مبارک کی زندگی بھی مسلمانوں کےلئے اسوہ حسنہ ہے.

۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گھریلو زندگی کے حالات امت تک پنہچیں اس کےلئے ضرورت تھی ایک ہونہار، ذہین بیوی کی جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک ایک بات کو یاد رکھے اور امت تک پنہچائے ۔

میرے رب نے اِس نیک کام کےلئے ام المؤمنین سیدہ عائشہ پاک رضی اللہ عنھا کا انتخاب فرمایا اور اللہ کے حکم سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن سے شادی کی۔

۔

معاملاتِ دین کے متعلق سیدہ عائشہ پاک رضی اللہ عنھا کی روایت کردہ احادیث کی تعداد 2000 سے زیادہ ہے ۔

۔

سوچئے اگر یہ 2000 سے زائد احادیث امت تک نہ پہنچتیں تو اسلام کا دینِ کامل ہونا کیسے درست ہوتا ؟۔

۔

قرآنِ کریم متن ہے اس کی شرح میرے آقاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال وافعال ہیں ۔

“لیظھرہ علی الدین کلہ” ہوکر رہا اور ریے گا ان شاء اللہ اگرچہ “ولوکرہ الکافرون “کے مصداق ملحد پڑے برا مانیں ۔

✍️ ابوحاتم

09/03/2021/