أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَالُوۡۤا اِنَّكُمۡ كُنۡتُمۡ تَاۡتُوۡنَنَا عَنِ الۡيَمِيۡنِ ۞

ترجمہ:

(پیروکار) کہیں گے بیشک تم ہمارے پاس دائیں جانب سے آتے تھے

نیک کاموں کو دائیں جانب سے شروع کرنے کے متعلق احادیث

الصّٰفّٰت : ٢٧ میں فرمایا وہ ایک دوسرے کی طرف ملتفت ہو کر سوال کریں گے پھر الصّٰفّٰت : ٢٨ میں ‘ سوال جواب کی کیفیت بتائی : کہ پیروکار کہیں گے بیشک تم ہمارے پاس دائیں جانب سے آتے تھے

اس آیت میں بتایا ہے کہ پیروکار اپنے پیشواؤں سے کہیں گے کہ تم ہمارے پاس دائیں جانت سے آتے تھے ‘ دائیں جانب کی تخصیص کی حسب ذیل وجوہ ہیں :

اس پر سب کا اتفاق ہے کہ دائیں جانب کو بائیں جانب پر شرف اور فضیلت حاصل ہے تمام نیک ‘ مستحسن اور مبارک کام دائیں ہاتھ سے کیے جاتے ہیں اور گھٹیا اور نا مبارک کام بائیں ہاتھ سے کیے جاتے ہیں ‘ اس سلسلے میں حسب ذیل احادیث ہیں :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جوتی پہننے میں ‘ کنگھی کرنے میں ‘ وضو کرنے میں اور تمام کاموں میں دائیں جانب سے ابتداء کرنا پسند تھا۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٦٨‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٨‘ سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٤١٤٠‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٦٠٨‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠١‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ١١٢‘ السنن الکبریٰ رقم الحدیث : ٩٣٢٠‘ مسند احمد ج ٦ ص ٩٤‘ مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٤٨٥١‘ صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ١٧٩‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ١٠٩١‘ سنن کبریٰ للبیہقی ج ١ ص ٢١٦‘ شرح السنہ رقم الحدیث : ١١٦)

حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک مشروب کا پیالہ لایا گیا ‘ آپ کی دائیں جانب لوگوں میں سب سے کم عمر ایک لڑکا تھا اور بڑی عمر کے لوگ آپ کے بائیں جانب تھ ‘ آپ نے فرمایا اے لڑکے کیا تم مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں ( اپنا تبرک) بڑی عمر کے لوگوں کو دے دوں ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ! آپ کے بچے ہوئے تبرک لینے کو میں اپنے اور کسی کو ترجیح نہیں دوں گا ‘ پھر آپ نے ( وہ تبرک) اس لڑکے کو عطا فرمایا۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٣٥١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٠٣٠‘ السنن الکبریٰ النسائی رقم الحدیث : ٦٨٦٨ )

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ایک بکری کا دودھ دوہ کر لایا گیا ‘ وہ بکری حضرت انس بن مالک کے گھر میں تھی ‘ سول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک پیالہ میں دودھ پیش کیا گیا ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں سے کچھ دودھ پیا حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منہ سے پیالہ ہٹا لیا ‘ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بائیں جانب حضرت ابوبکر (رض) تھے اور دائیں جانب ایک اعرابی (دیہاتی) تھا ‘ حضرت عمر کو یہ خدشہ ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا تبرک اس اعرابی کو دے دیں گے انہوں نے جلدی سے کہا : یا رسول اللہ ! ابوبکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہیں ان کو عطا فرما دیں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا تبرک اس اعرابی کو عطا فرما دیا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دائیں جانب تھا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دائیں جانب سے ابتداء کرو ‘ اس کے بعد پھر دائیں جانب سے ابتداء کرو۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٣٥٢‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٠٢٩‘ سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٣٧٢٦‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٨٩٣‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٤٢٥ )

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص جوتی پہنے تو دائیں جانب سے ابتداء کرے اور جب جوتی اتارے تو بائیں جانب سے ابتداء کرے تاکہ جوتی پہننے کی ابتداء بھی دائیں جانب سے ہو اور انتہاء بھی دائیں جانب سے ہو۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٨٥٥‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٠٩٧‘ سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٤١٣٩‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٧٧٤‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٦١٦‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٧٣٤٣‘ علم الکتب)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں پہلے دایاں پیر داخل کرتے تھے۔ (مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٢٦١١)

حضرت انس بن مالک (رض) نے کہا کہ سنت سے یہ ہے کہ جب تم مسجد میں داخل ہو تو دائیں پیر سے ابتداء کرو اور جب تم مسجد سے نکلو تو بائیں پیر سے ابتداء کرو۔ ( المستدرک ج ١ ص ٢١٨‘ قدیم ‘ المستدرک رقم الحدیث : ٧٩١ طبع جدید)

حضرت ابن عمر (رض) جب مسجد میں داخل ہوتے تو دایاں پیر پہلے داخل کرتے اور جب باہر نکلتے تو بایاں پیر پہلے نکالتے۔ (صحیح البخاری باب التیمن فی و خول المسجد وغیرہ رقم : ٤٧ )

حضرت عمر بن ابی سلمہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نوخیز لڑکا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گود میں بیٹھا ہو اتھا اور میں پلیٹ میں ہر طرف سے لے کر کھا رہا تھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے لڑکے بسم اللہ پڑھو اور داہنے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے قریب سے کھاؤ‘ پھر میں ہمیشہ اس طرح سے کھاتا رہا۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٣٧٦‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٠٢٢‘ سنن کبریٰ قم الحدیث : ٦٧٥٩‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٢٦٧ )

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم لباس پہنو یا وضو کرو تو دائیں جانب سے ابتدا کرو۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤١٤١‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠٢)

دائیں ہاتھ کے شرف اور فضیلت کی وجہ سے کوئی گھٹیا اور بےتوقیر کام دائیں ہاتھ سے نہ کرنے کے متعلق یہ حدیث ہے :

حضرت ابو قتادہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص پانی پئے تو برتن میں سانس نہ لے اور جب بیت الخلا میں جائے تو اپنی شرم گاہ کو دائیں ہاتھ سے نہ چھوئے اور نہ دائیں ہاتھ سے استنجاء کرے۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٥٣‘ صحیح مسلم الحدیث : ٢٦٧‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣١‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٥‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٥۔ ٢٤‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣١٠‘ السنن الکبریٰ رقم الحدیث : ٤١ )

دائیں جانب کی شرف اور فضیلت کی وجہ سے انسان کے نیک اعمال کو وہ فرشتہ لکھتا ہے جو اس کی دائیں جانب ہوتا ہے اور اس کے برے اعما کو وہ فرشتہ لکھتا ہے جو اس کی بائیں جانب ہوتا ہے۔

کافر پیشوائوں اور ان پیروکاروں کا آخرت میں مکالمہ

دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ سے قوی ہوتا ہے ‘ اس لیے کافر سرداروں کے پیروکار اپنے پیشوائوں سے کہیں گے کہ تم افضل اور قوی جانب سے ہمیں حکم دیتے تھے اس لیے ہم تمہارے احکام کی پیروی کرتے تھے اور تم نے ہم کو کفر اور شرک پر مجبور کردیا ‘ پھر کافر پیشوا اپنے پیروکاروں کو جواب دیں گے ‘ نہیں بلکہ تم خود ایمان لانے والے نہ تھے ‘ ہمارے پاس ایسی کوئی قدرت اور طاقت نہ تھی کہ ہم تمہاری مرضی کے خلاف تمہارے دل و دماغ پر تصرف کر کے تم کو کافر اور مشرک بنا دیتے ‘ بلکہ تم خود اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور سرکشی میں انتہاء کو پہنے ہوئے تھے ‘ اللہ تعالیٰ نے ہم کو عذاب دینے کی خبر دی ہے اور اس کی دی ہوئی خبر صادق اور برحق ہے سو ہم کو یہ عذاب ضرور ہوگا ‘ ان کے اس قول میں اس آیت کی طرف اشارہ ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے شیطان سے فرمایا تھا :

قال فالحق ز والحق اقول ج لاملئن جھنم منک و ممن تبعک منہم اجمعین (ص : ٨٥۔ ٨٤)

فرمایا تو یہ حق ہے اور میں حق ہی فرماتا ہوں میں ضرور تجھ سے اور ان سب لوگوں سے دوزخ کو بھر دوں گا جو تیری پیروی کریں گے۔

پھر ان کے پیشوائوں نے اعتراف کیا بیشک ہم نے تم کو گمراہ کیا تھا ‘ بےہم خود بھی گمراہ تھے ‘ اگر یہ اعتراض ہو کہ اس سے پہلے تو انہوں نے پیروکاروں کے الزام کے جواب میں کہا تھا بلکہ تم خود ہی ایمان لانے والے نہ تھے ‘ ہمارا تم پر کوئی زور نہ تھا ‘ اور اب یہ کہا کہ ہم نے تم کو گمراہ کیا تھا ‘ اور ان دونوں باتوں میں تعارض ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا مطلب یہ تھا کہ ہم نے زبردستی اور جبراً تم کو مشرک نہیں بنایا تھا۔ اور اس آیت میں انہوں نے یہ کہا کہ ہم نے تم کو صرف گمراہی کی دعوت دی تھی اور ہم تمہاری گم راہی کا سبب تھے اور اس میں انہوں نے زبردستی کرنے اور جبر کرنے کا اعتراف نہیں کیا۔

القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 28