کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 16 رکوع 5 سورہ مریم آیت نمبر 16 تا 40
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مَرْیَمَۘ-اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِیًّاۙ(۱۶)
اور کتاب میں مریم کو یاد کرو(ف۲۳) جب اپنے گھر والوں سے پورب(مشرق) کی طرف ایک جگہ الگ گئی (ف۲۴)
(ف23)
یعنی اے سیدِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قرآنِ کریم میں حضرت مریم کا واقعہ پڑھ کر ان لوگوں کو سنائیے تاکہ انہیں ان کا حال معلوم ہو ۔
(ف24)
اوراپنے مکان میں یا بیتُ المقدس کی شرقی جانب میں لوگوں سے جدا ہو کر عبادت کے لئے خلوت میں بیٹھیں ۔
فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا ﱏ فَاَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا(۱۷)
تو ان سے ادھر (ف۲۵) ایک پردہ کرلیا تو اس کی طرف ہم نے اپنا روحانی بھیجا (ف۲۶) وہ اس کے سامنے ایک تندرست آدمی کے روپ میں ظاہر ہوا
قَالَتْ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْكَ اِنْ كُنْتَ تَقِیًّا(۱۸)
بولی میں تجھ سے رحمٰن کی پناہ مانگتی ہوں اگر تجھے خدا کا ڈر ہے
قَالَ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ ﳓ لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِیًّا(۱۹)
بولا میں تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں کہ میں تجھے ایک ستھرا بیٹا دوں
قَالَتْ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ وَّ لَمْ اَكُ بَغِیًّا(۲۰)
بولی میرے لڑکا کہاں سے ہوگا مجھے تو نہ کسی آدمی نے ہاتھ لگایا نہ میں بدکار ہوں
(ف27)
یہی منظورِ الٰہی ہے کہ تمہیں بغیر مرد کے چھوئے ہی لڑکا عنایت فرمائے ۔
(ف28)
یعنی بغیر باپ کے بیٹا دینا ۔
(ف29)
اور اپنی قدرت کی برہان ۔
(ف30)
ان کے لئے جو اس کے دین کا اِتّباع کریں اس پر ایمان لائیں ۔
(ف31)
علمِ الٰہی میں ، اب نہ رد ہو سکتا ہے نہ بدل سکتا ہے ۔ جب حضرت مریم کو اطمینان ہوگیا اور ان کی پریشانی جاتی رہی تو حضرت جبریل نے ان کے گریبان میں یا آستین میں یا دامن میں یا منہ میں دم کیا اور بقدرتِ الٰہی فی الحال حاملہ ہو گئیں اس وقت حضرت مریم کی عمر تیرہ سال یا دس سال کی تھی ۔
قَالَ كَذٰلِكِۚ-قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌۚ-وَ لِنَجْعَلَهٗۤ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَ رَحْمَةً مِّنَّاۚ-وَ كَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا(۲۱)
کہا یونہی ہے (ف۲۷) تیرے رب نے فرمایا ہے کہ یہ (ف۲۸) مجھے آسان ہے اور اس لیے کہ ہم اسے لوگوں کے واسطے نشانی(ف۲۹) کریں اور اپنی طرف سے ایک رحمت (ف۳۰) اور یہ کام ٹھہرچکا ہے (ف۳۱)
فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهٖ مَكَانًا قَصِیًّا(۲۲)
اب مریم نے اسے پیٹ میں لیا پھر اسے لیے ہوئے ایک دور جگہ چلی گئی (ف۳۲)
(ف32)
اپنے گھر والوں سے اور وہ جگہ بیت اللحم تھی ۔ وہب کا قول ہے کہ سب سے پہلے جس شخص کو حضرت مریم کے حمل کا علم ہوا وہ ان کا چچا زاد بھائی یوسف نجار ہے جو مسجدِ بیت المقدس کا خادم تھا اور بہت بڑا عابد شخص تھا اس کو جب معلوم ہوا کہ مریم حاملہ ہیں تو نہایت حیرت ہوئی ، جب چاہتا تھا کہ ان پر تہمت لگائے تو ان کی عبادت و تقوٰی ، ہر وقت کا حاضر رہنا ،کسی وقت غائب نہ ہونا یاد کر کے خاموش ہو جاتا تھا اور جب حمل کا خیال کرتا تھا تو ان کو بُری سمجھنا مشکل معلوم ہوتا تھا بالآخر اس نے حضرت مریم سے کہا کہ میرے دل میں ایک بات آئی ہے ہر چند چاہتا ہوں کہ زبان پر نہ لاؤں مگر اب صبر نہیں ہوتا ہے آپ اجازت دیجئے کہ میں کہہ گزروں تاکہ میرے دل کی پریشانی رفع ہو ، حضرت مریم نے کہا کہ اچھی بات کہو تو اس نے کہا کہ اے مریم مجھے بتاؤ کہ کیا کھیتی بغیر تخم اور درخت بغیر بارش کے اور بچہ بغیر باپ کے ہو سکتا ہے ؟ حضرت مریم نے فرمایا کہ ہاں تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالٰی نے جو سب سے پہلے کھیتی پیدا کی بغیر تخم ہی کے پیدا کی اور درخت اپنی قدرت سے بغیر بارش کے اگائے کیا تو یہ کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالٰی پانی کی مدد کے بغیر درخت پیدا کرنے پر قادر نہیں ؟ یوسف نے کہا میں یہ تو نہیں کہتا بے شک میں اس کا قائل ہوں کہ اللہ ہر شے پر قادر ہے جسے کن فرمائے وہ ہو جاتی ہے ، حضرت مریم نے کہا کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالٰی نے حضرت آدم اور ان کی بی بی کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا ، حضرت مریم کے اس کلام سے یوسف کا شبہ رفع ہو گیا اور حضرت مریم حمل کے سبب سے ضعیف ہو گئیں تھیں اس لئے وہ خدمتِ مسجد میں ان کی نیابت انجام دینے لگا ، اللہ تعالٰی نے حضرت مریم کو الہام کیا کہ وہ اپنی قوم سے علٰیحدہ چلی جائیں اس لئے وہ بیت اللحم میں چلی گئیں ۔
فَاَجَآءَهَا الْمَخَاضُ اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَةِۚ-قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَ كُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا(۲۳)
پھر اسے جننے کا درد ایک کھجور کی جڑ میں لے آیا (ف۳۳) بولی ہائے کسی طرح میں اس سے پہلے مَرگئی ہوتی اور بھولی بسری ہوجاتی
(ف33)
جس کا درخت جنگل میں خشک ہو گیا تھا ، وقت تیز سردی کا تھا ، آپ اس درخت کی جڑ میں آئیں تاکہ اس سے ٹیک لگائیں اور فضیحت کے اندیشہ سے ۔
فَنَادٰىهَا مِنْ تَحْتِهَاۤ اَلَّا تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِیًّا(۲۴)
تو اسے (ف۳۴) اس کے تلے سے پکارا کہ غم نہ کھا (ف۳۵) بےشک تیرے رب نے تیرے نیچے ایک نہر بہادی ہے (ف۳۶)
(ف34)
جبریل نے وادی کے نشیب سے ۔
(ف35)
اپنی تنہائی کا اور کھانے پینے کی کوئی چیز موجود نہ ہونے کا اور لوگوں کی بدگوئی کرنے کا ۔
(ف36)
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے یا حضرت جبریل نے اپنی ایڑی زمین پر ماری تو آبِ شیریں کا ایک چشمہ جاری ہو گیا اور کھجور کا درخت سرسبز ہو گیا ، پھل لایا وہ پھل پختہ اور رسیدہ ہو گئے اور حضرت مریم سے کہا گیا ۔
وَ هُزِّیْۤ اِلَیْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسٰقِطْ عَلَیْكِ رُطَبًا جَنِیًّا٘(۲۵)
اور کھجور کی جڑ پکڑ کر اپنی طرف ہلا تجھ پر تازی پکی کھجوریں گریں گی (ف۳۷)
(ف37)
جو زچہ کے لئے بہترین غذا ہیں ۔
فَكُلِیْ وَ اشْرَبِیْ وَ قَرِّیْ عَیْنًاۚ-فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًاۙ-فَقُوْلِیْۤ اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّاۚ(۲۶)
تو کھا اور پی اور آنکھ ٹھنڈی رکھ (ف۳۸) پھر اگر تو کسی آدمی کو دیکھے (ف۳۹) تو کہہ دینا میں نے آج رحمٰن کا روزہ مانا ہے تو آج ہرگز کسی آدمی سے بات نہ کرو ں گی (ف۴۰)
(ف38)
اپنے فرزند عیسٰی سے ۔
(ف39)
کہ تجھ سے بچے کو دریافت کرتا ہے ۔
(ف40)
پہلے زمانہ میں بولنے اور کلام کرنے کا بھی روزہ ہوتا تھا جیسا کہ ہماری شریعت میں کھانے اور پینے کا روزہ ہوتا ہے ، ہماری شریعت میں چپ رہنے کا روزہ منسوخ ہوگیا ۔ حضرت مریم کو سکوت کی نذر ماننے کا اس لئے حکم دیا گیا تاکہ کلام حضرت عیسٰی فرمائیں اور ان کا کلام حجّتِ قویہ ہو جس سے تہمت زائل ہو جائے اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے ۔
مسئلہ : سفیہ کے جواب میں سکوت و اعراض چاہیئے ؎ جواب جاہلاں باشد خموشی ۔
مسئلہ : کلام کو افضل شخص کی طرف تفویض کرنا اولٰی ہے ، حضرت مریم نے یہ بھی اشارہ سے کہا کہ میں کسی آدمی سے بات نہ کروں گی ۔
فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗؕ-قَالُوْا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْــٴًـا فَرِیًّا(۲۷)
تو اسے گود میں لیے اپنی قوم کے پاس آئی (ف۴۱) بولے اے مریم بےشک تو نے بہت بڑی بات کی
(ف41)
جب لوگوں نے حضرت مریم کو دیکھا کہ ان کی گود میں بچہ ہے تو روئے اور غمگین ہوئے کیونکہ وہ صالحین کے گھرانے کے لوگ تھے اور ۔
یٰۤاُخْتَ هٰرُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّ مَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِیًّاۖۚ(۲۸)
اے ہارون کی بہن (ف۴۲) تیرا باپ (ف۴۳) برا آدمی نہ تھا اور نہ تیری ماں (ف۴۴) بدکار
(ف42)
اور ہارون یا توحضرت مریم کے بھائی کا نام تھا یا بنی اسرائیل میں اور نہایت بزرگ اور صالح شخص کا نام تھا جن کے تقوٰی اور پرہیزگاری سے تشبیہ دینے کے لئے ان لوگوں نے حضرت مریم کو ہارون کی بہن کہا یا حضرت ہارون برادرِ حضرت موسٰی علیہ السلام ہی کی طرف نسبت کی باوجود یکہ ان کا زمانہ بہت بعید تھا اور ہزار برس کا عرصہ ہو چکا تھا مگر چونکہ یہ ان کی نسل سے تھیں اس لئے ہارون کی بہن کہہ دیا جیسا کہ عربوں کا محاورہ ہے کہ وہ تمیمی کو یا اخا تمیم کہتے ہیں ۔
(ف43)
یعنی عمران ۔
(ف44)
حنّہ ۔
فَاَشَارَتْ اِلَیْهِؕ-قَالُوْا كَیْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا(۲۹)
اس پر مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا(ف۴۵) وہ بولے ہم کیسے بات کریں اس سے جو پالنے میں بچہ ہے (ف۴۶)
(ف45)
کہ جو کچھ کہنا ہے خود ان سے کہو اس پر قوم کے لوگوں کو غصّہ آیا اور ۔
(ف46)
یہ گفتگو سن کر حضرت عیسٰی علیہ الصلٰوۃ و السلام نے دودھ پینا چھوڑ دیا اور اپنے بائیں ہاتھ پرٹیک لگاکر قوم کی طرف متوجہ ہوئے اور داہنے دستِ مبارک سے اشارہ کر کے کلام شروع کیا ۔
قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ ﳴ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّاۙ(۳۰)
بچہ نے فرمایا میں ہوں اللہ کا بندہ (ف۴۷) اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے غیب کی خبریں بتانے والا(نبی) کیا (ف۴۸)
(ف47)
پہلے اپنے بندہ ہونے کا اقرار فرمایا تاکہ کوئی انہیں خدا اور خدا کا بیٹا نہ کہے کیونکہ آپ کی نسبت یہ تہمت لگائی جانے والی تھی اور یہ تہمت اللہ تبارک و تعالٰی پر لگتی تھی اس لئے منصبِ رسالت کا اقتضا یہی تھا کہ والدہ کی براءت بیان کرنے سے پہلے اس تہمت کو رفع فرما دیں جو اللہ تعالٰی کے جنابِ پاک میں لگائی جائے گی اور اسی سے وہ تہمت بھی رفع ہو گئی جو والدہ پر لگائی جاتی کیونکہ اللہ تبارک و تعالٰی اس مرتبۂ عظیمہ کے ساتھ جس بندے کو نوازتا ہے بالیقین اس کی ولادت اور اس کی سرشت نہایت پاک و طاہر ہے ۔
(ف48)
کتاب سے انجیل مراد ہے ۔ حسن کا قول ہے کہ آپ بطنِ والدہ ہی میں تھے کہ آپ کو توریت کا الہام فرما دیا گیا تھا اور پالنے میں تھے جب آپ کو نبوّت عطا کر دی گئی اور اس حالت میں آپ کا کلام فرمانا آپ کا معجزہ ہے ۔ بعض مفسِّرین نے آیت کے معنٰی میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ نبوّت اور کتاب ملنے کی خبر تھی جو عنقریب آپ کو ملنے والی تھی ۔
وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ۪-وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّاﳚ(۳۱)
اور اس نے مجھے مبارک کیا (ف۴۹) میں کہیں ہوں اور مجھے نماز و زکوٰۃ کی تاکید فرمائی جب تک جیوں
(ف49)
یعنی لوگوں کے لئے نفع پہنچانے والا اور خیر کی تعلیم دینے والا اور اللہ تعالٰی اور اس کی توحید کی دعوت دینے والا ۔
وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیْ٘-وَ لَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا(۳۲)
اور اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا(ف۵۰)اور مجھے زبردست بدبخت نہ کیا
(ف50)
بنایا ۔
وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَ یَوْمَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا(۳۳)
اور وہی سلامتی مجھ پر (ف۵۱)جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گااور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں گا (ف۵۲)
(ف51)
جو حضرت یحیٰی پر ہوئی ۔
(ف52)
جب حضرت عیسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے یہ کلام فرمایا تو لوگوں کو حضرت مریم کی براءت و طہارت کا یقین ہو گیا اور حضرت عیسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام اتنا فرما کر خاموش ہو گئے اور اس کے بعد کلام نہ کیا جب تک کہ اس عمر کو پہنچے جس میں بچے بولنے لگتے ہیں ۔ (خازن)
ذٰلِكَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَۚ-قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْهِ یَمْتَرُوْنَ(۳۴)
یہ ہے عیسٰی مریم کا بیٹا سچی بات جس میں شک کرتے ہیں (ف۵۳)
(ف53)
کہ یہود تو انہیں ساحر کذّاب کہتے ہیں (معاذ اللہ) اور نصارٰی انہیں خدا اور خدا کا بیٹا اور تین میں کا تیسرا کہتے ہیں تَعَا لٰی اللہُ عَمَّا یَقُوْلُوْنَ عُلُوّاً کَبِیْراً ۔ اس کے بعد اللہ تبارک وتعالٰی اپنی تنزیہ بیان فرماتا ہے ۔
مَا كَانَ لِلّٰهِ اَنْ یَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍۙ-سُبْحٰنَهٗؕ-اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُؕ(۳۵)
اللہ کو لائق نہیں کہ کسی کو اپنا بچہ ٹھہرائے پاکی ہے اس کو (ف۵۴) جب کسی کام کا حکم فرماتا ہے تو یونہی کہ اُس سے فرماتا ہے ہوجا وہ فوراً ہوجاتا ہے
(ف54)
اس سے ۔
وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(۳۶)
اور عیسٰی نے کہا بےشک اللہ رب ہے میرا اور تمہارا (ف۵۵) تو اس کی بندگی کرو یہ راہ سیدھی ہے
(ف55)
اور اس کے سوا کوئی ربّ نہیں ۔
فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَیْنِهِمْۚ-فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ مَّشْهَدِ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(۳۷)
پھر جماعتیں آپس میں مختلف ہوگئیں (ف۵۶) تو خرابی ہے کافروں کے لیے ایک بڑے دن کی حاضری سے (ف۵۷)
(ف56)
اور حضرت عیسٰی کے باب میں نصارٰی کے کئی فرقے ہوگئے ، ایک یعقوبیہ ، ایک نسطور یہ ، ایک ملکانیہ ۔ یعقوبیہ کہتا تھا کہ وہ اللہ ہے ، زمین پر اتر آیا تھا ، پھر آسمان پر چڑھ گیا ۔ نسطوریہ کا قول ہے کہ وہ خدا کا بیٹا ہے ، جب تک چاہا اسے زمین پر رکھا پھر اٹھا لیا اور تیسرا فرقہ یہ کہتا تھا کہ وہ اللہ کے بندے ہیں ، مخلوق ہیں ، نبی ہیں ، یہ مؤمن تھا ۔ (مدارک)
(ف57)
بڑے دن سے روزِ قیامت مراد ہے ۔
اَسْمِعْ بِهِمْ وَ اَبْصِرْۙ-یَوْمَ یَاْتُوْنَنَا لٰكِنِ الظّٰلِمُوْنَ الْیَوْمَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۳۸)
کتنا سنیں گے اور کتنا دیکھیں گے جس دن ہمارے پاس حاضر ہوں گے (ف۵۸) مگر آج ظالم کُھلی گمراہی میں ہیں (ف۵۹)
(ف58)
اور اس دن کا دیکھنا او رسننا کچھ نفع نہ دے گا جب انہوں نے دنیا میں دلائلِ حق کو نہیں دیکھا اور اللہ تعالٰی کے مواعید کو نہیں سنا ۔ بعض مفسِّرین نے کہا کہ یہ کلام بطریقِ تہدید ہے کہ اس روز ایسی ہولناک باتیں سنیں اور دیکھیں گے جن سے دل پھٹ جائیں ۔
(ف59)
نہ حق دیکھیں نہ حق سنیں ، بہرے اندھے بنے ہوئے ہیں ، حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اِ لٰہ اور معبود ٹھہراتے ہیں باوجود یکہ انہوں نے بصراحت اپنے بندہ ہونے کا اعلان فرمایا ۔
وَ اَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُۘ-وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ وَّ هُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(۳۹)
اور انہیں ڈر سناؤ پچھتاوے کے دن کا (ف۶۰) جب کام ہوچکے گا (ف۶۱) اور وہ غفلت میں ہیں (ف۶۲) اوروہ نہیں مانتے
(ف60)
حدیث شریف میں ہے کہ جب کافِر منازلِ جنّت دیکھیں گے جن سے وہ محروم کئے گئے تو انہیں ندامت و حسرت ہوگی کہ کاش وہ دنیا میں ایمان لے آئے ہوتے ۔
(ف61)
اور جنّت والے جنّت میں اور دوزخ والے دوزخ میں پہنچیں گے ایسا سخت دن درپیش ہے ۔
(ف62)
اور اس دن کے لئے کچھ فکر نہیں کرتے ۔
اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَ مَنْ عَلَیْهَا وَ اِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ۠(۴۰)
بےشک زمین اور جو کچھ اس پر ہے سب کے وارث ہم ہوں گے (ف۶۳) اور وہ ہماری ہی طرف پھریں گے (ف۶۴)
(ف63)
یعنی سب فنا ہو جائیں گے ہم ہی باقی رہیں گے ۔
(ف64)
ہم انہیں ان کے اعمال کی جزا دیں گے ۔