جہمیوں ، اور اہلسنت کے نزدیک ایمان کی تعریف!!!

ازقلم: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

امام ابو حنیفہ کے موقف اور جہمیوں کے موقف میں ایمان کی تعریف میں ایک چیز کا فرق تھا اور اصحاب الحدیث اور ابو حنیفہ کے موقف میں بھی فقط ایک چیز کا فرق تھا جو درج ذٰیل ہے

امام ابو سعید الاعرابی اپنی تصنیف میں ایک روایت سندصحیح سے پیش کرتے ہیں :

نا زَكَرِيَّا، نا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ التَّيْمِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ قَبِيصَةَ بْنَ عُقْبَةَ يَقُولُ: كَانَ جَهْمٌ يَقُولُ: الْإِيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ، وَكَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يَقُولُ: الْإِيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ، وَإِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ، وَكَانَ الثَّوْرِيُّ يَقُولُ: الْإِيمَانُ، مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ، وَإِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ، وَأَدَاءُ الْفَرَائِضِ.

زکریا بن یحییٰ الساجی (ثقہ امام) بیان کرتے ہیں مجھے بیان کیا (محمد بن خلف تمیمی (صدوق) نے وہ کہتے ہیں میں نے سنا قبیصہ بن عقبہ سے وہ کہتے یہں

جہمیوں کا یہ کہنا تھا کہ ایمان کی معرفت صرف قلب سے اقرار کرنا ہے

اور امام ابو حنیفہ کہتے تھے کہ ایمان کی معرفت قلب کے اقرار اور زبان سے اقرار کرنے کا نام ہے

اور سفیان ثوری کہتے تھے کہ ایمان کی معرفت قلب سے اقرار ، زبان سے اقرار اور فرائض کی ادائیگی کا نام ہے

اب جبکہ آج اہلسنت کاعقیدہ ہے کہ کوئی بھی کلمہ گو جس نے فقط کلمہ کا اقرار قلب سے کیا اور زبان سے بھی اسکے بعد وہ چاہے جو کچھ بھی کرتا رہے سوائے شرک اکبر کے تو وہ ضرور جنت میں جائے گا

جہنم کا عذاب جھیل کر

کیونکہ انہی لوگوں کے بارے اللہ نے نبی اکرمﷺ سے فرمایا تھا کہ جس کے دل میں رائ کے برابر بھی ایمان ہے تو انکو بھی جنت میں لے جائیں

لیکن اس نفیس فرق کو اصحاب الحدیث سمجھے بغیر ابو حنیفہ کو جہمیوں کی لسٹ میں ڈال دیا

بس ابو حنیفہ اعمال کو ایمان میں شامل نہیں کرتے تھے

اس طرح نتیجہ یہ نکلا کہ آج کے دور میں وہ جمہور مسلمین جو تارک نماز ہیں وہ سب کافر ہیں

بقول سفیان ثوری اور اصحاب الحدیث کے

بلکہ شاید واجب القتل بھی

جبکہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک ایسے تارک نماز فاسق و فاجر ہیں

بولو سبحان اللہ 😂