نکاح کا بیان
{نکاح کا بیان}
چونکہ آدمی کی نسل کا باقی رہنا نکاح پر موقوف ہے اور آدمی کی طبعی خواہش بھی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے نکاح کرنے کا حکم دیا ہے ،نکاح کاکرنا سرکارِ اعظم ﷺکی سنّت ہے ۔
حدیث شریف : بخاری و مسلم وغیرہ حدیث کی کتابوں میں لکھا ہے کہ سرکارِ اعظم ﷺنے فرمایا کہ اے جوانو! تم میں جو نکاح کرسکتا ہے وہ نکاح کرے کہ نکاح بُری نظر اوربُرے کام سے روکنے والا ہے اور جس نہ ہوسکے وہ روزہ رکھے کہ روزہ شہوت کو توڑنے والا ہے اورفرمایا جو میرے طریقہ کو دوست رکھے وہ میری سنّت پر چلے اورمیری سنّت سے نکاح ہے کہ نکاح کرے پھر نکاح نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ۔
مسئلہ : اعتدال کی حالت میں یعنی نہ شہوت کا بہت زیادہ غلبہ ہونہ عنین نامرد ہو اورمہر و نفقہ پر قدرت بھی ہوتو نکاح کرنا سنّت مؤکّدہ ہے کہ نکاح نہ کرنے پر اڑا رہنا گناہ ہے ۔ (درمختار وردالمختار)
کب نکاح کرنا فرض وواجب ہے }
مسئلہ : شہوت کا غلبہ ہے کہ نکاح نہ کرے توڈر ہے کہ زنا ہوجائے گا اورمہر ونفقہ کی قدرت بھی ہے تونکاح واجب ہے ۔ یوں ہی جب کہ پَرائی عورت کی طرف دیکھنے سے رُک نہیں سکتا یا ہاتھ سے کام لینا پڑے گا تونکاح واجب ہے ۔(درمختار وردالمختار)
مسئلہ : ایجاب وقبول (یعنی ) مثلاً ایک کہے کہ میں نے اپنے کو تیری زوجیت میں دیا ۔دوسرا کہے میں نے قبول کیا یہ نکاح کے رُکن ہیں پہلے جو کہے وہ ایجاب ہے اوراس کے جواب میں دوسرے کے الفاظ کو قبول کہتے ہیں ۔(درمختار وردالمختار)
مسئلہ : گواہ ہونا(یعنی ) ایجاب وقبول ومر د یا ایک مردا اوردوعورتوں کے سامنے ہو۔گواہ آزاد عاقل بالغ ہوں اور سب نکاح کے الفاظ ساتھ نہیں۔ بچوں اور پاگلوں کی گواہی سے نکاح نہیں ہوسکتا نہ غلام کی گواہی سے اگر چہ مدّبر یامکاتب ہو۔ مسلمان مرد کا نکاح مسلمان عورت کے ساتھ ہو توگواہوں کا مسلمان ہونا شرط ہے لہٰذا اگر کتابیہ سے مسلمان مرد کا نکاح ہوتواس نکاح کے گواہ ذمی کافر بھی ہوسکتے ہیں۔(بہار شریعت)
مسئلہ : گواہ اسی کو نہیں کہتے جو دوشخص مجلسِ عقد میں مقرر کرلئے جاتے ہیں بلکہ وہ تمام حاضرین گواہ ہیں جنہوں نے ایجاب وقبول سُنا اگر قابلِ شہادت ہوں ۔
مسئلہ: عورت سے اذن لیتے وقت گواہوں کی ضرورت نہیںیعنی اگر اس وقت گواہ نہ بھی ہوں لیکن نکاح پڑھاتے وقت ہوں تونکاح ہوجائے گا البتہ اذن کے لئے دو گواہوں کی یوں ضرورت ہے کہ اگر اس نے انکار کر دیا اور یہ کہا کہ میںنے اذن نہیںدیا تھا تواب گواہوں سے اس کا اذن لینا ثابت کیا جائے گا۔
مسئلہ : نکاح کے جواز کے لئے شرط یہ ہے کہ مجلس نکاح میں دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول ہو، فریقین (یعنی لڑکا اور لڑکی ) دونوں موجود ہوں اوربراہِ راست ایجاب وقبول کریں یا وہ دونوں یاان میں سے کوئی ایک موجود نہ ہوتو اپنے اپنے وکیل کے ذریعے ایجاب وقبول کرسکتے ہیں ، حکومت کے مجوزہ نکاح نامے میں دونوں وکیل مع گواہوں کے کالم اوردستخطوں کی نشاندہی موجود ہے ۔ ہمارے یہاں عام طو ر پر یہ ہوتاہے کہ لڑکا محفل نکاح میںموجود ہوتاہے اورلڑکی کی طرف سے اس کا وکیلِ مجاز ایجاب وقبول کرتاہے جو باقاعدہ گواہوں کی موجودگی میں لڑکی سے نکاح کی اجازت لے کر آتاہے ۔ لہٰذا اگر لڑکے یا لڑکی نے جو محفل نکاح میں اصالۃً یا وکالۃًموجود نہیںہے ، محض ٹیلی فون پرایجاب وقبول کیا تویہ نکاح شرعاً نہیں ہوا اوروہ دونوں بد دستور ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہیں۔ ایسے نکاح کے جواز کی شرعی صورت یہ ہے کہ لڑکا یا لڑکی جو مجلس نکاح میںموجود نہیں، تحریر ی طور پر یا ٹیلی فون پر کسی کواپنا وکیل بنالے اوروہ وکیل اس کی جانب سے بالمشافہ ایجاب وقبول کرے تویہ شرعاً نکاح جائز ہوگا۔
مسئلہ : مایوں اورمہندی کی شرعی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے یہ معاشرتی رسوم ہیں لیکن اگر اس میں خلاف شرع باتیں شامل ہو ں مثلاً بے پردگی، گانا بجانا، مرد وزن کااختلاط وغیرہ توان محرمات کے سبب یہ حرام ہوں گی۔
مسئلہ : زوجین میں سے جب کسی ایک سے کفر سرزد ہوجائے گا توان کا نکاح ٹوٹ جائے گا اوروہ ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہو جائیں گے ، دونوں میں سے اگر کسی ایک نے بھی ارتکابِ کفر کیا اس پر لازم ہے کہ کُفر سے توبہ کرے ، تجدید ایمان کرے اوردوگواہوں کی موجودگی میں تجدیدِ نکاح کریں لیکن یہ تجدیدِ نکاح عورت کی رضامندی پر موقوف ہے ، یک طرفہ طور پر نہیںہوسکتا ،
باقاعدہ ایجاب وقبول ہو گا اور مہر بھی مقرر کیا جائے گا۔
مسئلہ : مہر کی شرعی مقدار کیا ہے ؟ مہر شرعی وہی ہے جس پر فریقین نکاح کا آپس میں اتفاق ہوجائے، شریعت نے اس کی کوئی انتہائی حد مقرر نہیں کی بلکہ اسے فریقین کی باہمی رضامندی پر چھوڑا ہے اوراس میںمختلف مالی حیثیتوں کے افراد کے لئے کم یا زیادہ کی گنجائش رکھی ہے البتہ حدیث پاک میںمہر کی رقم کم ازکم دس درہم (یعنی تقریباً 30.618گرام) چاندی یا (اس کی قیمت ) مقرر کی گئی ہے ۔