بیٹی کی رضا🥀

ام المومنین صدیقہ بنتِ صدیق اکبر سیدہ عائشہ پاک فرماتی ہیں:
ایک نوجوان لڑکی رسالت مآب ﷺ کے پاس حاضر ہوکر عرض کرنے لگی:
اے اللہ کے رسول! میرے والد نے میرا نکاح اپنے بھتیجے سے کر دیا ہے ، وہ میری وجہ سے اُس پست کو بلند کرنا چاہتاہے ۔
رحمتِ عالم ﷺ نے اُس لڑکی کو اختیار دے دیا ( کہ چاہے تو نکاح قائم رکھو اور چاہے تو اس سے علاحدگی اختیار کرلو ، تمھارے اوپر کوئی جبر نہیں ) ۔
اُس نے ( رحیم‌ و کریم آقا ﷺ کا فطرت کے عین مطابق حکم سن کر ) عرض کی:
حضور! جو فیصلہ میرے والد گرامی نے کر دیا ہے میں اسے ہی برقرار رکھتی ہوں ۔
میں نےآپ سے یہ بات اس لیے پوچھی تا کہ عورتوں کو پتا چل جائے کہ:
ان لیس للآباء من الامر شئ ۔
نکاح کے معاملے میں والدین کو کوئی حق نہیں ( کہ بیٹیوں پر زبردستی کریں ) ۔
( مسند احمد بن حنبل ، مسند عائشہ رضی اللہ عنھا ، ر25557 ، قال المحقق: صحیح )
🌸 اگرچہ شریعت میں نکاح کے معاملے میں بیٹیوں پر کوئی جبر نہیں ، لیکن اس کے باوجود جو بیٹیاں والدین کی رضا کو ترجیح دیتی ہیں وہ بڑی سعادت مند ہیں ۔
🌺 والدین کو چاہیے کہ نکاح کے معاملے میں اپنی مرضی ٹھونسنے کے بجائے ، پیار محبت اور باہمی رضا مندی سے بیٹیوں کو اپنے گھر بھیجیں ، تاکہ ان کی زندگی سکون و اطمینان سے گزرے اور عمر بھر دلی دعائیں دیتی رہیں ۔
🌸 بے شک آپ نے بیٹی کو پالا پوسا ہوتا ہے اور اِس احسان کا بدلہ وہ زندگی بھر نہیں چکا سکتی ۔۔۔۔۔۔۔
آپ اس کے مستقبل کے لیے بھی بہتر ہی سوچتے ہیں ، جس کا وہ کبھی انکار نہیں کرسکتی ؛ لیکن تھوڑا سا اس پر غور کرلیا کریں کہ:
جس گھر کی طرف اسے ہمیشہ کے لیے روانہ کر رہے ہیں ، وہاں جانے پہ وہ کتنی رضا مند ہے ۔
اُس گھر میں اس نے رہنا ہے ، آپ نے نہیں ؛ اس گھر کا برا بھلا اس کے ساتھ پیش آنا ہے ، آپ کے ساتھ نہیں ؛ بلکہ کل کلاں اس گھر سے اُسی کی میت اٹھائی جانی ہے آپ کی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر کیوں آپ اپنی مرضی اس کی خوشی پر قربان نہیں کردیتے !!

✍️لقمان شاہد