بیٹی کی رضا
sulemansubhani نے Wednesday، 17 March 2021 کو شائع کیا.
بیٹی کی رضا
ام المومنین صدیقہ بنتِ صدیق اکبر سیدہ عائشہ پاک فرماتی ہیں:
ایک نوجوان لڑکی رسالت مآب ﷺ کے پاس حاضر ہوکر عرض کرنے لگی:
اے اللہ کے رسول! میرے والد نے میرا نکاح اپنے بھتیجے سے کر دیا ہے ، وہ میری وجہ سے اُس پست کو بلند کرنا چاہتاہے ۔
رحمتِ عالم ﷺ نے اُس لڑکی کو اختیار دے دیا ( کہ چاہے تو نکاح قائم رکھو اور چاہے تو اس سے علاحدگی اختیار کرلو ، تمھارے اوپر کوئی جبر نہیں ) ۔
اُس نے ( رحیم و کریم آقا ﷺ کا فطرت کے عین مطابق حکم سن کر ) عرض کی:
حضور! جو فیصلہ میرے والد گرامی نے کر دیا ہے میں اسے ہی برقرار رکھتی ہوں ۔
میں نےآپ سے یہ بات اس لیے پوچھی تا کہ عورتوں کو پتا چل جائے کہ:
ان لیس للآباء من الامر شئ ۔
نکاح کے معاملے میں والدین کو کوئی حق نہیں ( کہ بیٹیوں پر زبردستی کریں ) ۔
( مسند احمد بن حنبل ، مسند عائشہ رضی اللہ عنھا ، ر25557 ، قال المحقق: صحیح )



آپ اس کے مستقبل کے لیے بھی بہتر ہی سوچتے ہیں ، جس کا وہ کبھی انکار نہیں کرسکتی ؛ لیکن تھوڑا سا اس پر غور کرلیا کریں کہ:
جس گھر کی طرف اسے ہمیشہ کے لیے روانہ کر رہے ہیں ، وہاں جانے پہ وہ کتنی رضا مند ہے ۔
اُس گھر میں اس نے رہنا ہے ، آپ نے نہیں ؛ اس گھر کا برا بھلا اس کے ساتھ پیش آنا ہے ، آپ کے ساتھ نہیں ؛ بلکہ کل کلاں اس گھر سے اُسی کی میت اٹھائی جانی ہے آپ کی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر کیوں آپ اپنی مرضی اس کی خوشی پر قربان نہیں کردیتے !!
لقمان شاہد
ٹیگز:-
لقمان شاہد