مزاجِ شریعت اور میرا کوکب
مزاجِ شریعت اور میرا کوکب
۔
مولانا ڈاکٹر کوکب نورانی صاحب اہلِ سنت وجماعت کے اچھے خطیب ہیں۔
آپ دامت برکاتہم العالیہ خطیبِ پاکستان حضرت مولانا محمد شفیع اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ کے فَرْزَنْدِ اَرْجُمَنْد ہیں ۔
۔
حضرت مولانا محمد شفیع اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ بہت اچھے خطیب تھے، مُحَرّمُ الحرام شریف میں واقعہ کربلا ایک خاص وجدانی وروحانی کیفیت میں بیان کرتے تھے جسے سن کر سامعین پر ایک پُرذوق کیفیت طاری ہوتی تھی ۔
۔
خطیبِ پاکستان حضرت مولانا محمد شفیع اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ محسنِ دعوتِ اسلامی بھی ہیں ۔
۔
خطیبِ پاکستان کے فرزند مولانا ڈاکٹر کوکب نورانی اوکاڑوی صاحب نے جس آنگن میں پرورش پائی وہاں بچوں کو لوریوں میں محبتِ اہلِ بیت سنائی جاتی تھی ۔
۔
ڈاکٹر کوکب نورانی صاحب اگر سوال کریں کہ مُحَرّمُ الحَرام شریف میں شادی کے مسئلہ کو میڈیا پر کیوں بیان کیاگیا؟ کیا وجہ اور مجبوری تھی کہ اِس مسئلہ کو چھیڑا گیا تو علمائے دین کا فرضِ منصبی ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو اچھی طرح اطمینان بخش جواب دیں ۔
۔
سوال کرنا سائل کا حق ہے سائل سے اُس کا حق مت چھینئے ۔
پروپیگنڈہ، دھونس، سوشل میڈیا پوسٹنگ کے ذریعے کسی صحیح العقیدہ سنی مسلمان کو بلاوجہِ شرعی بدنام کرنا، سوال کا جواب دینے کی بجائے اُسے چپ کرانا ظلمِ عظیم ہے ۔
۔
آتے ہیں مولانا ڈاکٹر کوکب نورانی اوکاڑوی صاحب کے سوال کے جواب کی طرف ۔
۔
ڈاکٹر صاحب! محرم الحرام شریف میں شادی کا مسئلہ اس وجہ سے چھیڑا گیا کہ بعض لوگ محرم شریف میں شادی کرنے کو ناجائزوحرام سمجھتے ہیں ۔اس غلط فہمی میں اچھے خاصے اہلِ علم سمجھنے جانے والے خطیب اور پیر حضرات بھی مبتلا ہیں ۔
۔
ڈاکٹر صاحب! کسی شئ کو حلال قطعی یا حرام قطعی قرار دینا یہ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کام ہے ۔فروعی مسائل میں کسی شئ کو مضبوط دلائل کی بنیاد پر حلال ظنی یا حرام ظنی قرار دینا یہ علمائے کرام ومجتھدین عظام کا کام ہے ۔
۔
محرم الحرام شریف میں شادی کو شرع شریف نے حلال وجائز قرار دیا ہے ۔جس شئ کو شرع شریف جائز قرار دے اور لوگ اپنی من پسند ترجیحات کی بنیاد پر اگر اُس شئ کو ناجائز قرار دیں تو یہ اللہ ورسول پر تہمت ہے ۔
۔
ڈاکٹر صاحب! اب آپ خود بتائیے کیا آپ پسند کریں گے کہ لوگ لاعلمی میں اللہ ورسول پر تہمت باندھتے پھریں؟ یقیناً آپ یہ بات پسند نہیں کریں گے تو ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ علمائے شریعت اللہ ورسول پر تہمت کو پسند کریں اِسی مجبوری کی بناپر محرم الحرام شریف شادی کا مسئلہ برسرِمنبر میڈیا پر بیان کیاگیا تاکہ لوگوں کی اصلاح ہو اور وہ اللہ ورسول پر تہمت باندھنے سے باز آجائیں ۔
۔
ڈاکٹر صاحب! غور فرمائیے اللہ پاک کو شریعتِ اسلام پر تہمت قطعاً پسند نہیں ہے میں اس بات کو ایک قرآنی واقعہ سے نقل کرکے آپ کی بارگاہ میں طالبعلم کی حیثیت سے پیش کروں گا تاکہ آپ میری تصحیح فرمائیں ۔
ڈاکٹر صاحب ! عرب کے معاشرہ میں لوگ اپنے مُتَبَنّی(منہ بولے بیٹوں) کو حقیقی بیٹا سمجھتے تھے ۔
جس طرح بعدِ طلاق عدت مکمل ہونے یا بیٹے کے وفات پاجانے کی صورت میں حقیقی بہو سے سسر کا نکاح ناجائز ہے اسی طرح لوگ اپنے مُتَبَنّی بیٹے کی بیوی سے بعدِ عدت نکاح کو ناجائز سمجھتے تھے ۔
۔
مُتَبَنّی کو حقیقی بیٹا سمجھنا اور اُس کی بیوی سے بعدِ عدت نکاح کو ناجائز سمجھنا یہ شریعت اسلام پر تہمت تھا ۔
اللہ پاک نے شریعتِ اسلام سے اس تہمت کو دور فرمانے کےلئے جس ہستی کا انتخاب فرمایا اُن کی شان وعظمت آپ بھی بہتر جانتے ہیں ۔
۔
معاشرے میں ایک جاھلانہ رسم ختم کرنے اور شریعت سے تہمت دور فرمانے کےلئے اللہ پاک نے اپنے معصوم، گناہوں سے پاک نبی، محسنِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتخاب فرمایا ۔
۔
اگر کوئ عالم دین محرم الحرام شریف میں شادی کو حرام وناجائز سمجھنے سے لوگوں کو بچانے، شریعت سے تہمت دور فرمانے کےلئے کہہ دیتا ہے کہ محرم شریف میں شادی جائز ہے تو اُس میں کیا برائ ہے؟
۔
ڈاکٹر صاحب! غور کیجئے ” فلما قضٰی زید منھا وطرا زوجنٰکھا ” یہ محکم آیات میں سے ہے، اِس آیت کا حکم منسوخ بھی نہیں ہے ۔دو شرعی مسئلے اِس آیت کے ذریعے سمجھائے گئے ہیں کہ منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹا مت کہئے اور اُس کی بیوی سے پردہ وغیرہ رکھئے حقیقی بہو مت سمجھئے ۔
قرآنِ کریم کی جملہ آیات کےبارے میں اہلِ اسلام کا نظریہ ہے کہ یہ آیات محض حکایات نہیں ہیں بلکہ اِن میں مسائل، احکامات، وعظ ونصیحت اور عبرتیں پوشیدہ ہیں ۔
۔
اگر علمائے کرام اجازت دیں تو میں یہاں ایک علمی نکتہ بیان کروں وہ نقطہ یہ ہے کہ سورہ احزاب کی اِس آیت میں اِن دومسائلِ شرعیہ کے سمجھانے کے علاوہ بطورِ اشارۃ النص یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب معاشرے میں کوئ خراب رسم جڑ پکڑجائے اور لوگ اپنی پسندیدہ ترجیحات کی بناپر حلال کو حرام قرار دینے کی نحوست میں مبتلا ہوجائیں تو ایسے وقت میں حاملانِ شریعت پر فرض بنتا ہے کہ اپنا فرضِ منصبی ادا کرتے ہوئے شرعی مسئلہ کی وضاحت ڈنکے کی چوٹ پر کریں ۔
۔
ممکنہ سوال
آپ نے یہ نقطہ کہاں سے بیان کیا؟ اور قرآن میں اپنے رائے سے کچھ کہنا یہ تو تفسیر بالرائے ہے اور تفسیر بالرائے حرام ہے ۔
جواب ۔
تفسیر بالرائے کسے کہتے ہیں یہ ایک مکمل علمی بحث ہے اس کے اپنے دلائل ہیں میں نے جو نقطہ بیان کیا وہ تفسیر بالرائے ہرگز نہیں ہے کیونکہ اصول ہے “اَلْاِعْتِبَارُ لعموم الالفاظ لا لسسب خاص”
اسی اصول کے پیشِ نظر ہم نے یہ نکتہ بیان کیا ۔
ڈاکٹر صاحب! فقیہ ابھی زندہ ہیں مقاصدِ شرع کو سمجھتے ہیں ہم نے بھی مفتیانِ کرام کی مشاورت اور کافی سوچ بچار کے بعد محرم الحرام شریف میں شادی کا مسئلہ برسرِ منبر بیان کیا ہے ۔
علمِ دین پڑھنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ علمائے دین اِس دینِ متین کی تعلیمات کے اندر غالیوں کے غلو اور جاہلوں کی تاویلات کو جدا کرکے درست دینی مسائل کی وضاحت کریں ۔
حدیثِ صحیح میں ارشاد ہوا” یحمل ھذالعلم من کل خلف عدولہ ینفون عنہ تحریف الغالین وانتحال المبطلین وتاویل الجاھلین “
۔
گزارش ہے کہ پیارومحبت سے ہمیں کام کرنے دیا جائے۔
✍️ ابوحاتم
17/03/2021/