بشارتِ حُسْنٰی اور چمن زمان کی چالاکیاں

۔

سابقہ خوش عقیدہ مفتی چمن زمان نجم القادری صاحب کا کتابچہ بنام “موقف اھل السنۃ من الشھادۃ بالجنۃ ” المعروف جدید نعرے اور اہلِسنت کی رائے “پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔۔

حضرت نے بڑی محنت اور جانفشانی سے کتابچہ لکھ کر مالکوں کا نمک حلال کرنے کی کوشش کی ہے ہمیں صرف اُمید نہیں بلکہ قطعی یقین ہے کہ حضرت سے اُن کے مالکان راضی ہوئے ہوں گے ۔۔

اگر شیخ چمن زمان صاحب شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی دو کتابوں “تحقیق الاشارۃ فی تعمیم البشارہ” اور “تکمیل الایمان” کا مطالعہ کرتے تو اُنہیں 73 صفحات کالے کرنے کی نوبت ہی پیش نہیں آتی ۔۔

ہم آج کے مضمون میں چمن زمان صاحب کے کتابچے پر مختصر طور پر نقدونظر کرنے کی کوشش کریں گے ۔

یہ نقد ونظر مندرجہ ذیل نکات پر مشتمل ہے ۔۔

معاویہ پاک رضی اللہ عنہ سے ہمارا رشتہ کیا ہے ؟۔

کیا اہلِ سنت کے نظریات محدود ہیں؟۔

ہر صحابئ نبی جنتی جنتی کیا یہ خبر تام ہے؟۔

تمام صحابہ کرام علیھم الرضوان کے جنتی ہونے کے بارے میں اہلِ سنت کا نظریہ؟۔

چمن زمان صاحب کے لئے چند مفید باتیں ۔۔

دعا ہے ربّ کریم علم نافع عطا فرمائے، عملِ صالح کی توفیق بخشے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

آتے ہیں اپنے اصل مقصد کی طرف ۔۔

چمن زمان صاحب اپنی کتابچہ کے صفحہ نمبر 4 پر لکھتے ہیں

“مشاجراتِ صحابہ میں نہ پڑیں ۔بات اگر طرفداری کی آئے تو طرفداری اہلِ بیت کرام کی کریں کیونکہ ہم سرکار اہل بیت کے غلامانِ خانہ زاد ہیں ہمیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کیا رشتہ خدانخواستہ اُن کی حمایتِ بےجا کریں “۔

چمن زمان صاحب! مشاجراتِ صحابہ کے بارے میں خوش عقیدہ علمائے کرام میں سے کسی نے بھی اب تک لب کشائ کرنے کی جرات نہ کی ہے۔۔

آپ کے پیٹی بھائ حنیف قریشی اپنی محافل میں مشاجرات کا عنوان چھیڑ کر سیدنا معاویہ پاک رضی اللہ عنہ ، سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ، سیدتنا ہندہ رضی اللہ عنھا کی شان میں ہرزہ سرائیاں کرتے رہتے ہیں لہذا یہ نصیحت وقتاً فوقتاً اُنہیں ضرور کرتے رہیں تاکہ اُنہیں افاقہ ہو ۔۔

چمن زمان صاحب! مشاجرات کے باب میں اہلِ بیت کی طرفداری سُنی مَنْھَجْ پر رہ کریں یا رافضی مَنْھَجْ پر؟۔

اگر آپ کہیں گے کہ سُنی مَنْھَج پر رہ کر اہلِ بیت کی طرفداری کی جائے تو آپ کی اطلاع کےلئے عرض ہے کہ بابِ مشاجرات میں ہم آل ریڈی مولائے کائنات رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اجتھاد شریف کو ہی ترجیح دیتے ہیں لیکن باقی اصحاب رضی اللہ عنھم کی اجتھاد شریف کو بھی من حیث الاجتھاد اہمیت دیتے ہیں۔۔

چمن زمان صاحب! آپ نے لکھا کہ ہمیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کیا رشتہ کہ اُن کے ہمایتِ بےجا کریں ۔۔

یا خُوَیْدَمَ الرھبان السوء ! ہمایتِ بےجا کسے کہتے ہیں یہ آپ کو خوب معلوم ہے ۔

ہم خارجی نہیں ہیں کہ آپ اِس نصیحت کے ذریعے ہمیں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ہم معاویہ پاک رضی اللہ عنہ کے حمایت بےجا کرتے ہیں ۔۔

ہمایت بےجا والی بات آپ نے اس لئے لکھی ہے تاکہ آپ اپنے مالکوں کو یہ باور کرا سکیں کہ ہم حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا عرس شریف مناکر، اُن کے نام کے نعرے لگوا کر ہمایتِ بےجا کرتے ہیں حالانکہ یہ بات آپ بھی جانتے ہیں کہ یہ ہمایت بےجا نہیں ہے ۔

بس مالکوں کو خوش کرنے کےلئے آپ نے ہمایت بےجا والی بات لکھ دی صرف اس لئے کہ آپ کے مالکوں کو عرس امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔۔

معاویہ پاک رضی اللہ عنہ سے ہمارا کیا رشتہ ہے یہ آپ کو معلوم ہے کیونکہ آپ بھی ایک زمانہ میں خوش عقیدہ رہ چکے تھے اب اگرچہ آپ نے اپنا قبلہ بدل دیا ہے تو ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اُن سے ہمارا کیا رشتہ ہے ۔۔

معاویہ پاک رضی اللہ عنہ سے ہمارا رشتہ ایمانی ہے ۔وہ ایک عظیم صحابئ رسول ہیں اور صحابہ کرام علھیم الرضوان امت کےلئے مُقْتَدَا کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اس پر شاہد خود رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک حدیث ہے فرمایا ” اصحابی کالنّجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم “

میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کی پیروی کرو گے ہدایت پاجاؤ گے ۔۔

خُوَیْدم الرھبان السوء تجھ پر لازم ہے باربار اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پڑھنا اور آیاتِ قرآنیہ میں غوروفکر کرنا کہ رب فرماتا ہے

“مااٰتٰکم الرسول فخذوہ ومانھٰکم عنہ فانتھوا “یہ رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمھیں جو کچھ دیں اسے لو اور جس سے منع کریں رک جاؤ ۔

دوسری جگہ قرآن میں اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق فرمایا

“وماینطق عن الھوٰی اِنْ ھو الّا وحی یّوحٰی “یہ رسول اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے یہ تو وہی کہتے ہیں جو اُن کی طرف وحی ہوتی ہے ۔۔

رسول علیہ الصلٰوۃ والسلام نے تو اپنے صحابہ کو مقتدا کہا اور امت کو ترغیب دی کہ وہ اُن کی پیروی کریں اور تم کہو امیرِ معاویہ سے ہمارا کیا رشتہ ؟

لاحول ولاقوۃ الاباللہ ۔۔

یا خویدم ! باز آجاؤ، سدھر جاؤ، توبہ کرلو، کسی پیرِ کامل کا دامن پکڑ لو تاکہ تیرا باطن صاف ہو اور احکاماتِ شرع سمجھنے کی تجھے توفیق نصیب ہو ۔۔

رافضی تو ابنِ سبا کی ناپاک اولاد ہیں جیسے ابنِ سبا اور دیگر یہود کا طریقہ تھا کہ وہ فضائلِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھپاتے تھے ایسے ہی رافضی بھی فضائلِ حقہ چھپاتے ہیں لیکن آپ کو کیا ہوگیا ہے کہ آپ اس روش پر چل پڑے ہیں؟۔

سنو اے خویدم البطن ! معاویہ پاک رضی اللہ عنہ سے ہمارا رشتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے ہے اس لئے کہ معاویہ پاک رضی اللہ عنہ کی حکومت سلطنتِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔۔

وہ مقدمہ تھا اب دلیل سنو ۔

دلائل النبوۃ للبیھقی ج 6 صفحہ 281 اور مشکاۃ المصابیح کتاب الفضائل اسی طرح المستدرک، کتاب التواریخ المتقدمین من الانبیاء والمرسلین ج 3 صفحہ 526 پر فضائلِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعلق سے حدیث موجود ہے جس کے راوی دو مختلف سندوں کے ساتھ ایک صحابی ہیں اور دوسرے تابعی ہیں ۔

صحابی کا جن کا نام عبداللہ بن سلام ہے جو اسلام سے پہلے یہودیوں کے بڑے عالم تھے اور تابعی جن کا نام کعب الاحبار ہے یہ بھی یہودیوں کےبہت بڑے عالم تھے دونوں بزرگ ہستیوں سندِ صحیح کے ساتھ حدیث مروی ہے کہ یہ دونوں فرماتے ہیں توریت شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق لکھا ہے

“مولدہ بمکۃ ومُھَاجرتۃ بطیبۃ ومُلْکُہ بالشّام ” وہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں پیدا ہوگا اور مدینہ کو ہجرت کرےگا اور اُس کی حکومت شام میں ہوگی”

کیا آپ کے نزدیک امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت سلطنتِ مصطفٰی نہیں ہے کہ آپ کہہ ریے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے ہمارا کیا رشتہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔

نظریاتِ اہلِ سنت ۔

چمن زمان صاحب! آپ کی کتابچہ کے صفحہ نمبر 5 پانچ پر لکھا ہے “کسی نئے نظریے کا اختراع مقصود نہیں بلکہ اہلِ سنت کے طے شدہ نظریات کی ترجمانی مقصود ہے “۔

پھر چند سطر بعد اسی صفحہ کی عبارت ہے “من پسند افکار کو اہل سنت کی افکار کا حصہ سمجھنے سے گریز کیا جائے “۔

رات بیٹھ کر یہ مضمون لکھ ہی رہا تھا کہ سوشل میڈیا کے توسط سے آپ کے ایک شاگرد کا مضمون پڑھنے کو ملا جس کا عنوان تھا موبائل کی سہولت کی وجہ سے ہمیں اب وہ اہلِ سنت وجماعت والے نظر نہیں آتے جو ڈیڑھ دہائ پہلے تھے پھر کچھ اعمال بطورِ مثال بھی مذکور تھے ۔۔

مدعا یہ ہے کہ آپ کی کتاب اور آپ کے شاگرد کا مضمون پڑھ کر ایسا لگا کہ جیسے اہلِ سنت کوئ نوپید فرقہ ہے کہ اس کے بنیادی نظریات انگلیوں پر گنا دیا جائیں ۔۔

میرے پرانے شیخ! اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اہل سنت کی صرف چند مخصوص نظریات وبنیادی عقائد ہیں تو یہ غلط ہے ۔۔

عقائد کی دو قسمیں ہیں

نمبر 1

عقائد قطعیہ ۔۔۔۔جیسے رب کی وحدانیت، وجود، استحقاقِ عبادت، ختم نبوت، حشرونشر، جنت ودوزخ، فرشتوں، جنات کے وجود کو ماننا ۔۔۔۔۔ان کو ضروریاتِ دین سے تعبیر کیاجاتا ہے۔

نمبر 2

عقائد ظنیہ۔۔۔اہل سنت وجماعت کے وہ بنیادی عقائد جو کتاب وسنت کا خلاصہ اور صحابہ وتابعین کے افکار ونظریات اور اعمال وافعال کا نچوڑ ہیں ۔۔

میرے پرانے خوش عقیدہ اسلامی بھائ! اسلام و کفر کے درمیان حدفاصل عقائد قطعیہ ہیں کہ جو اُن کو مانے وہ مسلمان اور جو نہ مانے وہ کافر ۔۔

اہل سنت وبدمذھبوں کےدرمیان حدِّ فاصل بعض صورتوں میں عقائد قطعیہ اور اکثر صورتوں میں حدّفاصل عقائد ظنیہ ہیں ۔۔

اہلِ سنت وجماعت جن عقائد ونظریات کی بنا پر دوسری جماعتوں سے ممتاز ہے وہ ہر دور میں مختلف رہے ہیں ۔۔

شہید بغداد علامہ اسیدالحق محمد عاصم قادری بدایونی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک انتہائ مختصر مگر جامع مضمون اِسْ وقت میرے سامنے ہے آپ لکھتے ہیں کہ” ہر زمانہ میں جب جب کسی جماعت نے سوادِ اعظم کے جن عقائد سے اختلاف کیا وہی عقائد اُس دور میں جماعت کا امتیاز، اور سُنیت کی علامت قرار پائے جیسے خوارج نے فتنہ تکفیر برپاکی تو اُس وقت یہی مسئلہ سُنی اور غیر سُنی کے درمیان وجہِ امتیاز تھا یعنی جو مرتکب کبیرہ کی تکفیر نہ کرتا وہ سُنی اور جو مرتکب کبیرہ کی تکفیر کرے وہ غیر سنی ۔۔

امام اہلِ سنت کے زمانہ میں تعظیمِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوادِ اعظم کو غیر سے ممتاز کرتی تھی کہ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم وتوقیر کرے وہ سنی اور جو نہ کرے وہ غیر سنی ۔۔

شہیدِ بغداد کی اس عبارت سے مدد لیتے ہوئے میں بھی کہتا ہوں کہ اِس زمانہ میں معاویہ پاک رضی اللہ عنہ کی عظمت وشان جماعت اہل سنت کو غیروں سے ممتاز کرتی ہے کہ جو سیدنا معاویہ پاک رضی اللہ عنہ کی سیادت تسیلم کرے، آپ کے جنتی ہونے میں شک نہ کرے وہ سُنی اور جو شک کرے، سیاست معاویہ رضی اللہ عنہ کو ناپسند کرے وہ غیر سُنّی ۔نوٹ جبکہ ایسا شخص خوش عقیدہ پہلے سے ہو۔

ہر صحابئ نبی جنتی جنتی ۔۔

چمن زمان صاحب! آپ کے کتابچے کا مقدمہ اس نعرے کے خبرتام ہونے کی طرف مُشعر ہے ۔اس مقدمہ کو قائم کرنے کے بعد آپ نے ایک نظریہ قائم کیا کہ کسی کو جنتی قرار دینا یہ غیبی خبر ہے اور یہ صرف کے صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بتاسکتے ہیں کسی اور کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی کو جنتی قرار دیں ۔پھر آپ کے دلائل بھی اسی محور میں گھوم ریے ہیں ۔

دلائل کا تعلق عامی لوگوں سے تھا کہ اُن کو جنتی کہیں یا نہ کہیں لیکن آپ نے اُن دلائل سے مدد لےکر خود ساختہ نظریہ گھڑکر یہ تاثر دیا کہ مخصوص صحابہ کرام کے علاوہ باقی صحابہ کرام علیھم الرضوان کو جنتی نہیں کہہ سکتے ۔۔

آپ نے اپنے کتابچے کے صفحہ نمبر 45 پر لکھا ہے “بلاتخصیص سارے صحابہ کو جنتی کہنے کے بارے میں تلاشِ بسیار کے باوجود کتبِ متقدّمین بلکہ ایک ڈیڑھ صدی پہلے کی کتب اہل سنت میں اس فکر کا “بطور سنی فکر ” نام ونشان تک نہیں ملتا ۔سوائے ابن حزم کے ۔۔۔۔۔۔۔اور آپ نے ابنِ حزم کو بھی اہل بدعت کہہ دیا ۔۔

چمن زمان صاحب ! اتنی زیادہ محنت کی کیا حاجت تھی ہم سے رابطہ کرلیتے ہم آپ کو کُتُبِ سلف وخلف سے اس نعرے”””ہرصحابئ نبی جنتی جنتی “””””کی حقیقت بتادیتے۔۔

سوہنیا سنو! شیخِ مُحَقّقْ شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے دورسالے اسی موضوع پر ہیں ۔

نمبر 1

تحقیق الاشارۃ فی تعمیم البشارہ

لفظ تعمیم البشارہ سے ہی آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ شیخِ مُحَقّقْ نے گویا بہت زمانہ پہلے نگاہ فیض سے اثر سے دیکھ لیاتھا کہ قاری ظہور بے فیضی کا بھائ چمن زمان ایک کتابچہ “موقف اھل السنۃ من الشھادۃ بالجنۃ ” لکھ کر اپنے ایمان کا چمن اجاڑنے والا ہے گویا آپ کے بونگیوں کی دھجیاں شیخِ محقق نے بہت پہلے ہی بکھیر دیں تھیں ۔

نمبر 2

شیخ محقق کی دوسری مایہ ناز کتاب “تکمیل الایمان ” بھی اسی موضوع پر ہے تھوڑا سا ٹائم نکال کر پڑھ لیتے ہوسکتا ہے شیخ محقق کی کتابوں کی برکت سے آپ کو توبہ کی توفیق نصیب ہوجاتی اور حنیف قریشی کی نحوست سے آپ کو پناہ مل جاتی ۔۔

سنو! شیخِ مُحَقّقْ لکھتے ہیں “عام مخلوق جان لے کہ دخول جنت کی بشارت ان ہی دسوں کی ساتھ قطعی اور مخصوص ہے یہ گمان محض غلط اور صریح جھالت ہے ۔۔

چمن زمان صاحب! آگے اسی لائن میں شیخ محقق لکھتے ہیں

“اور بعض عربی کے طالب علم جو ناپختہ اور عام جھلاء سے بڑھ کر ہیں کہتے ہیں کہ دوسروں کو بھی بشارت لیکن ان عشرہ مبشرہ کی بشارت قطعی ہے اور اِن کے سوا اوروں کےلئے ظنی ہے اور ان دسوں کی درجہ بشارت سے قوت وشہرت اور تواتر میں کم ہے ۔اس گمان فاسد کی منشاء عدم تتبع اور علم حدیث کی خدمت میں کوتاہی کی وجہ سے ہے، اللہ تعالٰی اُن سے درگزر فرمائے ۔

شیخ محقق مزید لکھتے ہیں ” حق وصواب یہی ہے کہ خلفاء اربعہ فاطمہ وحسن وحسین وغیرہم رضی اللہ عنھم کی بشارت مشہور اور اصل بحدِ تواتر معنوی ہے، باقی عشرہ مبشرہ کی بشارت بھی بحدِ شہرت پنہچی ہوئ ہے اور بعض دیگر صحابہ بھی اخبار احاد سے تفاوتِ مراتب کے ساتھ صاحبِ بشارت ہیں ۔

تکمیل الایمان صفحہ 161 تا 165 مکمل پڑھ لیں وہاں شیخِ محقق رحمۃ اللہ علیہ نے 5 درجات بناکر اُن کے مطابق احادیث ذکر فرماکر تمام صحابہ کرام علیھم الرضوان کو جنتی ثابت کیا ہے ۔

✍️ ابوحاتم

18/03/2021/

شب 5:17