تین طلاقیں تین ہی ہیں
تین طلاقیں تین ہی ہیں }
یہ بات واضح ہے کہ جب شوہر اپنی بیوی کو طلاق دیتاہے توصرف پندرہ بیس منٹ بعد مولوی صاحب یاد آجاتے ہیں یعنی اُس کا چند لمحوں میں سارا غصّہ ٹھنڈا ہوجاتاہے اب مولوی اورمفتی صاحبان کو ڈھونڈھنا شروع کردیا جاتاہے ایسی صورت میں نام نہاد اہلحدیث مولوی چند ٹکوں کے عِوض یہ فتویٰ دیتاہے کہ تین طلاقیں تین نہیں وہ تو ایک طلاق ہے ۔
مسئلہ : دراصل مسئلہ یہ ہے کہ غیر مقلدین نام نہاد اہل حدیث کا یہ مؤقف ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک وقت میں تین طلاقیں دے تو وہ ایک واقع ہوگی۔ مطلب یہ کہ ’’مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ‘‘ اورآپ اس بات پر ذرا غور کریں تویہ بالکل ایسی بات ہوگی کہ جیسے کوئی آدمی کسی شخص کو تین ڈنڈے مارے اورتھانے چلے جائیں توایس ۔ ایچ ۔ او صاحب یہ کہیں کہ چونکہ ایک وقت میں تین ڈنڈے لگے ہیں لہٰذا ایف ۔آئی ۔ آر توایک ڈنڈے کی کٹے گی۔ یہ نہیں ہوسکتا۔
تین طلاقوں کے ایک وقت میں تین ہونے پر پوری اُمّت کا اجماع ہے تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان اورچاروں ائمہ کا اس پر اجماع ہے ۔
غیرمقلدین کی دلیل}
غیر مقلدین یہ حدیث لاتے ہیں کہ حضرت رُکانہ رضی اللہ عنہ، حضور ﷺکی خدمت میں آئے حضرت رُکانہ رضی اللہ عنہ کے پوتے نے یہ حدیث بیان کی کہ میرے داد ا نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں تین طلاق دینے کے بعدوہ حضور ﷺکی خدمت میںآئے عرض کی یارسول اللہ ﷺ!میں نے اس اس طرح اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں اورکہا کہ میںنے تین تو دی ہیں مگر نیت ایک ہی کی تھی ؟ اُنہوں نے کہا کہ نیت ایک ہی کی تھی توحضور ﷺنے فرمایا کہ رجوع کرلو حضرت رُکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا۔
دوسری دلیل}
ابو داؤد کی حدیث میں ہے کہ حضور ﷺکے زمانے میں تین طلاق ایک ہوتی تھی مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یہ قانون بن گیا کہ تین طلاقیں تین واقع ہوں گی لہٰذا ہمیں تو اس پر عمل کرنا چاہیے جو حضور ﷺکے زمانے میں ہوتاتھا تویہ تین طلاقوں کا مسئلہ حضرت عمرر ضی اللہ عنہ نے تبدیل کیا۔ غیر مقلدّین کی یہ دودلیلیں ہیں۔
غیر مقلدین کی دلیل کا جواب }
محترم حضرات! اگر ہم پچھلی حضرت رُکانہ رضی اللہ عنہ والی حدیث پر غور کریں تو بات سمجھ میں آجائے گی حضرت رُکانہ رضی اللہ عنہ نے طلاق دی حدیث میں طلاق کے الفاظ یوں نقل ہیں کہ حضرت رُکانہ رضی اللہ عنہ نے کہا ’’اَنْتِ طَالِقٌ‘‘ ،طالقٌ،طَالِقٌ یوں طلاق دی حضور ﷺنے فرمایا تم اس سے رجوع کرلو۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان کو میرے مولا ﷺنے منع فرمایا تھا کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں نہ دے تو صحابہ کرام علیہم الرضوان کی عادت تھی کہ الاماشاء اللہ تین طلاقیں نہیں دیتے مگر کلمات یہ ہوتے ۔انت طالقٌ ، طالقٌ ، طالقٌ یعنی وہ طلاق ایک ہی دیتے دوسے اس کی تکرار کرتے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے یہ جُملے کوئی نہیں دکھا سکتا کہ اُنہوں نے یہ کہا ہو’’میں نے تجھے طلاق دی ، میں نے تجھے طلاق دی، میں نے تجھے طلاق دی۔ ‘‘ مطلب یہ کہ طلاق ایک ہی دیتے دوسے اس کی تکرار کرتے ۔
مثلاً:میں آپ کے گھر افطاری کرنے کے لئے آیا اورمیں یہ کہوں کہ ’’مجھے افطاری کرنی ہے ، افطاری ، افطاری۔ تو آپ کیا تین مرتبہ افطاری رکھیں گے کہ مولانا نے تین مرتبہ کہا ہے مجھے افطاری توایک ہی مرتبہ کرنی ہے دوسے میں نے تکرار کی۔
مثلاً: میں صدر جاؤں گا، صدر ، صدر توکیا میں تین مرتبہ صدر جاؤں گا نہیں بلکہ میںجاؤں گاایک مرتبہ دوسے اس کی تکرار کروں گا۔
اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور آیا طلاق کی کثرت ہوگئی حضرت عمر رضی اللہ عنہ دیکھنے لگے کہ طلاقیں بہت بڑھ جائیں گی ۔اصل میں ہوتا یہ تھا کہ طلاق دینے کے بعد جب مقدمہ قاضی کے پاس آتا توطلاق دینے والا یہ کہتا کہ میں نے ایک طلاق دی ہے دوسے اس کی تکرار کی ہے یعنی مندرجہ بالا حدیث کی آڑ لے کر تین طلاق دینے کے بعد بہانے تلاش کرتے تو حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا روایت ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول ﷺنے جہاں تمہیں گنجائش دی تھی یعنی ایک مرتبہ طلاق اوردو سے اس کی تکرار تواس گنجائش سے تم نے ناجائز فائدہ اُٹھایا۔ ‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ قانون بنادیا کہ اب کسی کی یہ بات نہیںمانی جائے گی کہ میںنے ایک طلاق دی اوردو سے اس کی تکرار کی ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب جو تین دے گا اس کی تین مانی جائیں گی اس وقت پوری جماعتِ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اس پر اجماع کیا۔ غیر مقلدین اہلحدیث جن کو دو حدیثیں یاد نہیں وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول پر تنقید کرتے ہیں کیا تم لوگوں نے حضور ﷺکی یہ حدیث نہیں سُنی ۔
میرے مولا ﷺنے ارشاد فرمایا کہ میری سنّت کو اورخلفائے راشدین (علیہم الرضوان) کی سنّت کو لازم پکڑ لو۔
ان تمام دلائل کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کیا جاسکتاہے کہ کسی حدیث کی یہ مُراد نہیںکہ تین طلاق دینے کے بعد بیوی کو رکھ لیاجائے یہ بہت سنگین مسئلہ ہے تین طلاقوں کے بعد بیوی حرام ہوجائے گی اوراگر ان کا نکاح کوئی پڑھا دے توقاضی صاحب کا بھی نکاح ٹوٹ جائے گا قاضی صاحب کو بھی تجدید ایمان وتجدید نکاح کرنی ہوگی ۔
مسئلہ : جو جماعتیں ، برادریاں یا ان کے لوگ تین طلاقوں کے بعد صلح کرادیتے ہیں اُن کا بھی نکاح ٹوٹ جائے گا وہ بھی تجدید ایمان اور تجدید نکاح کریں۔
مسئلہ : ایک طلاق یہ ہے کہ میں تجھے طلاق دیتاہوں اگراس کو فنی اعتبار سے سمجھیں تویہ کہہ دیں کہ میں تجھے ایک طلاق رجعی دیتاہوں مطلب یہ کہ طلاق تومیں دیتاہوں اس میں اتنی گنجائش ہے کہ میں دوبارہ رجوع کرسکتاہوں یا مطلق یہ کہہ دے کہ میں تجھے ایک طلاق دیتاہوں تویہ طلاق رجعی ہے ۔
مسئلہ : اب ایک مہینہ یا پندرہ دن ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے بہت ہوتے ہیں اگر صلح صفائی ہوجائے تو وہ ایک طلاق کی صورت میں اتنا کہہ دے کہ میں اپنی ایک طلاق واپس لیتاہوں اب اس میں نکاح کی بھی ضرورت نہیں۔
مسئلہ : علماء نے لکھا کہ رجوع کی دوقسمیں ہیں ایک باللسّان ہے ایک بالفعل ہے کوئی شخص زبان سے کہہ دے کہ میں تجھے ایک طلاق دی تھی اب رجوع کرتاہوں یہ زبان سے رجوع ہے اگر زبان سے نہ کہے سُسرال جاکر اُسے لے آئے اورصحبت کرلے تو یہ بھی رجوع ہے۔
مسئلہ : حمل کے دوران اگر طلاق دے دی تو طلاق واقع ہوجائے گی اورمطلقہ حاملہ کی عدّت چونکہ وَضع حمل (بچہ جننے) تک ہے ، اس لئے لڑکے کو لڑکی کانان نُفقہ اس کے وَضع حمل (بچہ جننے ) تک دینا ہوگا۔ (بہار شریعت)
مسئلہ : طلاق دینے کے بعد مرد بچے کی پرورش کا خر چ شرعاً مرد پرلازم ہے اوراس کی پرورش کا حق عورت کو ہے پرورش کی میعاد شریعت نے سات برس تک رکھی ہے یعنی مرد کو اپنے بچے کی پرورش کا خرچ سات برس تک دینا ہوگا لیکن اگر بچہ سات برس سے پہلے ہی اپنے آپ کھانا ، پینا اوراستنجاء کرلیتاہے تومرد کواختیار ہے کہ بچہ عورت سے واپس لے سکتاہے ۔(فتاویٰ فیضِ الرسول )
مسئلہ : کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہہ دے کہ تومیری ماں جیسی ہے ، غُصّے میںکہہ دے کہ تو میری بہن اوربیٹی جیسی ہے اس کو ظِہار کہتے ہیں اس صورت میںبیوی اس پر حرام ہوجائے گی مگر اس کا کفّارہ اداکیا جائیگا کفّارہ اد اکرنے کے بعد اس کی بیوی اس پر حلال ہوجائے گی ۔
کفّارہ پے درپے ساٹھ روزے رکھنا ہے اورایسے رکھنا کہ اگراس نے انسٹھ روزے رکھے اورایک روزہ چھوڑ دیا تو دوبارہ شروع سے ساٹھ رکھنے ہوں گے تب اس کی بیوی اس پر حلال ہوگی ۔
مسئلہ : روزے رکھنے پر اگر قدرت نہ ہو کہ بیمار ہے اوراچھے ہونے کی اُمید نہیں یا بہت بوڑھا ہے توساٹھ مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اوریہ اختیار ہے کہ ایک دم سے ساٹھ مسکینوں کو کِھلا دے یا متفرق طور پر مگر شرط یہ ہے کہ اس اثناء (بیچ) میں روزے پر قدرت حاصل نہ ہو۔ نہیں تو کِھلانا صدقہ ہوجائے گا۔ اورکفّارے میں روزے رکھنے ہوں گے اوراگر ایک وقت ساٹھ کو کھلایا دوسرے وقت اس کے سوا دوسرے ساٹھ کو کھلایا توکفّارہ ادا نہ ہو ا بلکہ ضرور ہے کہ پہلو ں یا پچھلوں کو پھر ایک وقت کھلائے ۔ (درمختار وردالمختار وہندیہ )