ذات الرقاع کے دن نماز خوف
حدیث نمبر 647
روایت ہے حضرت یزید ابن رومان سے وہ صالح ابن خوات سے راوی ۱؎ وہ ان سے راوی جنہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ذات الرقاع کے دن نماز خوف پڑھی ۲؎ کہ ایک ٹولہ آپ کے ساتھ صف آراء ہوا اور دوسرا ٹولہ دشمن کے مقابل رہا آپ نے اپنے ساتھ والے ٹولے کو ایک رکعت پڑھائی پھر یوں ہی کھڑے رہے انہوں نے اپنی نماز پوری کرلی پھر چلے گئے ۳؎ اور دشمن کے مقابل صف بستہ ہوگئے پھر دوسرا ٹولہ آیا آپ نے انہیں رکعت پڑھائی جو آپ کی نماز سے باقی تھی پھر آپ یوں ہی بیٹھے رہے ان صاحبوں نے اپنی نماز پوری کرلی پھر حضور نے ان سب کے ساتھ سلام پھیرا ۴؎(مسلم،بخاری)بخاری نے دوسری اسناد سے قاسم سے انہوں نے صالح ابن خوات سے انہوں نے سہل ابن ابی حثمہ سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔
شرح
۱؎ یہ دونوں بزرگ تابعی ہیں،ثقہ ہیں،خوات صحابی ہیں،جنگ احد وغیرہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔
۲؎ غزوات ذات الرقاع ۵ھ میں واقع ہوا،چونکہ اس غزوہ میں صحابہ پیدل اور ننگے پاؤں تھے،سفر کرتے کرتے ان کے ناخن جھڑگئے اور پاؤں پھٹ گئے انہوں نے پھٹے ہوئے پاؤں پر چیتھیڑے لپیٹے پھر یہ راہ طے کیا اس لیئے اس کا نام ذات الرقاع یعنی چیتھڑوں اور پیوندوں والا غزوہ ہوا،نیز اس کے رستہ میں ایک ایسا پہاڑ اور جنگل پڑا تھا جس میں رنگ برنگے پتھر اور رنگ برنگی زمینیں تھیں اس لیئے بھی ذات الرقاع کہا گیا۔
۳؎ یعنی پہلی جماعت اپنی دو رکعتیں پوری کرکے ایک رکعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اور ایک رکعت تنہا پھر دشمن کے مقابل گئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر تک خاموش منتظر کھڑے رہے،یہ حدیث پہلی روایت کے مقابل مرجوع ہے کہ آیت قرآنیہ سے بعید ہے نیز امام کا مقتدیوں کے انتظار میں کھڑا رہنا خلاف اصول ہے اس لیئے امام اعظم نے پہلی روایت کو لیا۔
۴؎ اس طرح کہ سلام میں صرف یہ دوسرا گروہ شریک ہوا تاکہ پہلے گروہ کو تحریمہ کی فضیلت مل جائے اور اس کو سلام کی۔نماز خوف کا یہ طریقہ امام شافعی و مالک نے اختیار کیا اور امام اعظم نے پہلا طریقہ اس کی وجہ ترجیح ہم پہلے عرض کرچکے۔