جامع معقول و منقول، سیف اللہ المسلول، معین الحق والاصول علامہ فضلِ رسول قادری،  عثمانی، بدایونی، ولادت 1213  ھ، وفات 1289 ھ، تَغَمَّدَہُ اللّٰہُ بِغُفْرَانِہِ کی ذات بر صغیر کے مشائخ میں ایک امتیازی مقام رکھتی ہے ۔ آپ ایک بہترین، متبحر عالمِ دین، حسنِ اخلاق کا مرکز، عشقِ رسول کا پیکر اور علم و عمل کا بحرِ بے کراں ہیں، احقاقِ حق وابطالِ باطل آپ کی زندگی کا اصل مقصد اور احیائے سنت آپ کا شعار ہے تھا۔

جب تیرہویں صدی ہجری کے وسط میں کچھ باطل پرست لوگوں نے محمد بن عبد الوہاب نجدی کے باطل عقائد و نظریات اور اس کے ناپاک منصوبوں کو فروغ دینے کی سعی کی تو آپ نے برجستہ ان باطل عقائد نظریات کا ردِبلیغ فرمایا، اور باطل کی ایسی سرکوبی فرمائی کہ جاء الحق وزھق الباطل کی مثال صادق آئی ۔

آپ نے متعدد کتبِ متداولہ مثلاً “سوط الرحمان علی قرن الشیطان، المعتقد المنتقد، اور سیف الجبار “وغیرھم ان کے باطل عقائد ونظریات کے ردوابطال می  تصنیف فرمائیں جن پر بر صغیر ہندوپاک کے غیر واحد علما نے حواشی وتعلیقات مرتب فرمائیں

انھیں شخصیات میں سے اعلیٰ حضرت امام احمد فاضلِ بریلوی ہیں جن کی ذات محتاجِ تعارف نہیں جب آپ نے سیف اللہ المسلول علامی فضلِ رسول قادری کی حیات وخدمات کا بغور مطالعہ فرمایا تو آپ کے قلبِ ناز میں موصوفِ مذکور سے محبت و الفت، شخصیت شناسی اور علم دوستی کی قندیل فروزاں ہوئی اور جب آپ نے اس امرِ حقیقت کا اعتراف کیا تو دو قصیدے معرضِ وجود میں آئے ۔

سنِ تالیف و سببِ تالیف

       حضرت سیدنا ومولانا سیف اللہ المسلول، معین الحق والاصول علامہ فضلِ رسول قادری، برکاتی، عثمانی دام ظلہ العالی کی وفات 1289 ھ کے بعد سے 1319  ھ تک آپ کا عرس مبارک یکم جمادی الاخری سے ہفتم جمادی الاخری تک ہفت روزہ منعقد ہوا کرتا تھا۔ جس میں ملک و ملت کے مشاہیر علماے ذوی الاحترام و مشائخِ عظام شریکِ اجلاس ہوا کرتے تھے، اس وقت درگاہ کےصاحب سجادہ تاج الفحول علامہ عبد القادر بدایونی تھے۔

اور جلسہ کے ناظم ومہتمم فضیلۃ الشیخ مولانا انوار الحق عثمانی، بدایونی رہاکرتے تھے ۔ ان اعراسِ مبارکہ میں اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کی شرکت ہوا کرتی تھی۔

    جب 1300  ھ میں منعقد احتفال کا افتتاح ہوا تو آپ بھی شریکِ بزم ہوئے، اور آپ نے سیف اللہ المسلول علامہ فضلِ رسول قادری بدایونی نور اللہ مرقدہ کی بارگاہِ پرانوار میں منقبت کے طور پر دو قصیدوں کا خراجِ عقیدت پیش کیا ۔

جن میں پہلا قصیدہ دالیہ اور دوسرا قصیدہ نونیہ تھا یہ دونوں قصیدے بانتسابِ اہلِ بدر 313/ اشعار پر مشتمل تھے۔جیساکہ مصنفِ علام نے خود اس امرکی وضاحت مقدمہ میں فرمادی ہے۔

آپ فرماتے ہیں

         قصیدتان مشتملتان علی 313  شعرا بعددِ اصحابِ بدر رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین فی مدح تاج الفحول، سیف اللہ المسلول علی اعداء الرسول العثمانی، القادری، الحنفی، البدایونی رحمہ اللہ تعالیٰ (مقدمہ قصیدتان رائعتان، ص:1) اس وقت کا معمول یہ تھا کہ جلسہ کے اختتام کے بعد شعرا کی جدید نعت و منقبت بنام جلسہ کی روداد شائع کردی جاتی تھی، یہ روداد بھی بنام “ماہِ تابانِ اوجِ مغفرت “شائع ہوئی لیکن اس میں قصیدہ دالیہ ہی شائع ہوسکا اور قصیدہ نونیہ بخوفِ کثرتِ طوالت شائع نہ ہوسکا۔

         قصیدوں کے تاریخی نام

      زیرِ نظر دونوں قصیدوں میں سے قصیدہ دالیہ کا نام “حماید فضلِ الرسول” اور قصیدہ نونیہ کا نام “مدایح فضلِ الرسول”تاریخی نام ہیں جن سے ان قصائد کی تاریخِ نظم برآمد ہوتی ہے اس لیے کہ ان قصائد کا مجموعی عدد 313 ہے۔

       بعض حضرات نے قصیدہ دالیہ کا نام”مدائح فضل الرسول”اور قصیدہ نونیہ کا نام “حمائد فضل الرسول” رکھا جو محض باطل پر مبنی ہے ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ملک العلما علامہ ظفر الدین بہاری نے اپنی تصنیفِ لطیف “المجمل المعدد” میں ان دونوں قصیدوں کا ذکر کیا ہے اور حمائد فضل الرسول کے آگے مطبوعہ اور مدائح فضل الرسول کے آگے مبیضہ لکھا ہے۔

اور یہ بات نیم روز سے زیادہ واضح ہے کہ اس وقت تک قصیدہ دالیہ ہی جلسے کی روداد بنام “ماہِ تابانِ اوج معرفت”طبع ہوا تھا  اور قصیدہ نونیہ بخوفِ طوالت چھوڑ دیا تھا لہذا متعین ہوگیا کہ حمائد فضل الرسول قصیدہ دالیہ ہے نہ کہ نونیہ۔

        دیگر بعض حضرات کا خیال یہ بھی ہے کہ قصیدہ دالیہ کا نام”مدائحِ فضلِ رسول “اور قصیدہ نونیہ کا نام“حمائدِ فضلِ رسول” بالہمزہ وبدونِ اللام فی الموضعین ہے۔حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ “مدائحِ فضلِ رسول”اور “حمائدِ فضلِ رسول” کا مجموعی عدد 1259 برآمد ہوتا ہے جو اس کا سن نظم نہیں ہے اور اگر اسی کو “مدایح فضلِ الرسول” اور “حماید فضلِ الرسول” بالیاء واللام فی الموضعین پڑھیں تو اس کا مجموعی عدد 1300 برآمد ہوتا ہے اور یہی اس کا سنِ نظم ہے۔

         اشعار کی تعداد

      ان قصائد میں پہلا قصیدہ نون کی روی پر 243/ اشعار پر محتو و مشتمل بحرِ کامل میں ہے، اور دوسرا قصیدہ دال کی روی پر 70/اشعار پر مشتمل بحرِ کامل مجزو میں ہے۔

       مخطوطے کا تعارف

      اعلٰی  حضرت فاضلِ بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان یہ اشعار پڑھنے کے بعد جناب گرامی قدر تاج الفحول عبد القادر بدایونی کو عطا کردیے، مولانا موصوف نے اس مخطوطے کو بڑی حفاظت سے اپنے پاس رکھا، ان قصائد میں قصیدہ دالیہ جلسہ کی مختصر روداد بنام “ماہِ تابانِ اوجِ معرفت “طبع ہوچکا تھا

لیکن اس پر بھی ایک عرصہ دراز گزر گیا اور از سرِ نو طباعت نہ ہوسکی اور ہاں قصیدہ دالیہ تو ابھی تک تشنہ طباعت تھا، لہذا دونوں ہی قصیدوں پر تقریبا ایک قرن سے زیادہ کا وقت گزر گیا، لیکن پھر بھی یہ مخطوطہ طویل عرصے تک خانقاہِ قادریہ میں مصون ومحفوظ رہا ۔تمام روے زمین پر اس وقت یہ واحد نسخہ تھا کہ جسے عام علما تو درکنار خانقاہِ رضویات کے اہم کارکنان بھی اس سے نابلد تھے، یقینا اگر یہ نسخہ دست برد زمانہ کا شکار ہوجاتا تو ضرور دنیا ایک فن پارے اور بیش قیمت سرمایے سے محروم ہوجاتی۔

           طباعت واشاعت

     ادیبِ شہیر علامہ مولانا محمد احمد مصباحی (سابق پرنسپل الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ) جب 1988 ء میں فضیلۃ الشیخ مولانا عبد الحمید (صاحبِ سجادہ خانقاہِ قادریہ بدایوں) کے پاس تشریف لے گیے اور ان سے ملاقات کی تو صاحبِ سجادہ نے مصباحی صاحب کو اس مخطوطہ کی زیارت کرائی۔

آپ نے ان سے اس مخطوطے کے عکس کی خواہش کا اظہار کیا، تو صاحبِ سجادہ نے بسببِ علم دوستی ،دین پروری؛ اعلی ظرفی اور وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ کو اس مخطوطے کا عکس عنایت کردیا، پھر مصباحی صاحب نے اسے جنوری، 1989ء میں مکتبہ “المجمع الاسلامی ” سے “قصیدتان رائعتان ” کے نام سے شائع کردیا۔

        قصیدتان رائعتان کی مقبولیت

      یہ قصائد بارگاہِ ممدوحین میں کچھ اتنے زیادہ مقبول ہوئے کہ جتنی ان کی امید بھی نہ تھی، خود فاضلِ بریلوی اس کا انکشاف اپنی کتاب “العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ” میں فرماتے ہیں، اور قصیدہ دالیہ کے کچھ اشعار بھی اس میں نقل کیے ہیں، فرماتے ہیں:۔

        وَمِمَّاقُلْتُ قَدِیْمًافِیْ رَبِیْعِ الْآخَرِسَنَۃَ اَلْفٍ وَّثَلٰثِ مِئَۃٍ فَرَءَیْتُ الْاِجَابَۃَ فَوْقَ الْعَادَۃِ وَ فَوْقَ الْمَطْلَبِ وَالْاِرَادَۃِ سَرِیْعًا فِیْ السَّاعَۃِ، وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ اَبَدًا، وَاَرْجُوْ مِثْلَہُ سَرْمَدًا۔

    ترجمہ: اور ان میں وہ(قصیدہ) ہے جو میں نے ایک زمانہ قبل 1300ھ میں نظم کیا تھا، تو میں نے حیرت انگیز طور پر مطلب و ارادے سے فزوں تر نہایت سرعت کے ساتھ اس کی قبولیت و اجابت کا مشاہدہ کیا، تمام تعریفیں ہمیشہ اللہ ہی کے لیے ہیں، میں امید کرتاہوں کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہے۔

       قصیدتان رائعتان کا ایک اہم ہہلو

      قصیدتان رائعتان کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ان قصائد کے درمیان کہیں بھی تکرار قافیہ نہیں ہے جیسا کہ ظاہراً وہم ہوتا ہے۔ ہم ذیل میں صرف تین مثالیں آپ کے سامنے ہیش کرتے ہیں جس سے معلوم ہوگا کہ نفس الامر میں تکرار نہیں ہے۔

   ۔ (1)لفظِ اعیان شعر:  49،199،227  تین جگہ آیا۔ مگر پہلی جگہ “العین”بمعنی “سردارِ قوم”اور دوسری جگہ “اعیا”فعلِ ماضی اور”نی”ضمیرِ منصوب متصل ہے ۔اور تیسری جگہ “اعیانی”العین بمعنی آنکھ کی جمع ہے جو یاے متکل کی طرف مضاف ہے۔

   ۔  (2) لفظِ “آن”شعر: 156،59،16 تین مقامات پر ذکر کیا گیاہے۔مگر پہلے مقام پر “قریب”کے معنی میں ہے، دوسری جگہ “الآن“”اسی وقت”کے معنی میں اور تیسری جگہ “الآن“”گرم پانی کے معنی میں مستعمل ہے۔یہ دونوں مثالیں قصیدہ نونیہ کی تھیں، ایک مثال قصیدہ “دالیہ” کی دیکھیں۔

    ۔  (3)شعر:12میں لفظِ “احمد “مذکور ہوا، پھر شعر:28 میں بھی یہی لفظ مذکور ہوا جس سے تکرارِ قافیہ کا وہم ہوا۔اس کا ازالہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :پہلے احمد سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے ، اور دوسری جگہ “احمد” سے معنی لغوی مراد ہے۔اس کو حاشیے میں اس طرح بیان کیا:” اَرَادَ الْمَعْنَی اللُّغَوِیَّۃَ فَصَحَّ قَوْلُہُ” یُوْصَفُ” وَلَمْ یَلْزَمْ تَکْرَارُ الْقَافِیَۃِ ، ترجمہ:یہاں لفظِ احمد سے مراد معنی لغوی ہے، لہذا شاعر کا قول” یوصف” کہنا درست ہے اور تکراتِ قافیہ بھی لازم نہیں آئی۔

قصیدتان رائعتان میں قرآنی تعبیرات

قرآن کریم فصاحت و بلاغت کی اعلی حد پر فائز ہے۔ اس میں معانی کی تعبیرات فصاحت و بلاغت کے اس معیار پر مرتقی ہے کہ عقلِ انسانی اس کا مثل پیش کرنے سے قاصر اور محوِ استعجاب ہے۔ قصیدتان رائعتان میں بھی قرآنی تعبیرات کو اپنے اندر جذب کرنے کی مکمل کوشش کی گئی۔

ذیل میں کچھ ایسی مثالیں ھدیہ قارئین کرتے ہیں۔

۔(١)اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:”وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُھَارَبُّھَا نَسْفَا، فَیَذَرُھَاقَاعًاصَفْصَفًا، لَاتَرَی فِیْھَاعِوَجًاوَّلَااَمْتًا“۔

ترجمہ:(اے محبوب!) یہ لوگ آپ سے پہاڑوں کی نسبت پوچھتے ہیں، آپ کہ دیجیے، کہ میرا رب ان کو ریزہ ریزہ کرکے اڑادے گا، پھر انھیں ہموار بے آب و گیاہ بنادے گا جس میں آپ نشیب و فراز نہیں دیکھیں گے۔

اس آیتِ کریمہ سے استفادہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں”  ان کان ارضی صفصفا قاعا فلا   باس ولا یاس من الاغصان

ترجمہ:اگر میری زمین بے آب و گیاہ ہےتو اس میں کوئی حرج نہیں اور نہ موسلادھار بارش سے ناامیدی ہے۔

۔(٢)ارشادِ باری تعالیٰ ہے :” اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَھُمْ مَا فِیْ الْاَرْضِ جَمیْعًاوَّمِثْلَہ مَعَہُ لِیَفْتَدُوا بِہِ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَا تُقُبِّلَ مِنْھُمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْم“۔

ترجمہ: کافروں کے پاس جو کچھ زمین میں ہے وہ اور اس کے مثل اور بھی ہو وہ اسے دے کر قیامت کے دن نجات چاہیں تو قبول نہیں کیا جائے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

اس آتِ کریمہ سے استفادہ کرتے ہوئے فرمایا:۔ ”  لو یفتدی من بؤسہ لکنہ لن یفتدی“۔

ترجمہ:اگر وہ(ضال ومضل) اپنے عذاب کا فدیہ دینا چاہیں تو ان کا فدیہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا (قصیدہ دالیہ، ش:۴١)۔

۔(٣)فرمانِ باری تعالی ہے:” اَلَمْ تَرَی اَنَّ اللّٰہَ یُزْجِیْ سَحَابًاثُمَّ یُاَلِّفُ بَیْنَہُ ثُمَّ یَجْعَلُہُ رُکَامًافَتَرَی الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلَالِہِ“۔(النور، آیت:۴٣)۔

ترجمہ:کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ ہی بادلوں کو آہستہ آہستہ چلاتاہے، پھر انھیں آپس میں ملاتاہے، پھر انھیں تہ بتہ بناتاہے تو تم دیکھتے ہو کہ اس کے درمیان سے پانی نکلتا ہے!۔

اس آیتِ کریمہ سے استفادہ کرتے ہوئے فرماتےہیں:۔  الودق یخرج من خلال سحابہ :  فالرعد یندب این من ظمآن

ترجمہ:(ممدوح کے جودوسخاکے) بادلوں کے درمیان سے بارش نکلتی ہےاور کڑکنے والی بجلی پکارتی ہےکہ پیاسے کہاں ہیں؟ (کہ میں ان کو سیراب کردوں)۔

۔(۴)رب کریم ارشاد فرماتاہے:”وَمَالَھُمْ بِہِ مِنْ عِلْمٍ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلّا الظَّنَّ وَإِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا “(النجم:آیت:٢٨)۔

ترجمہ:اور ان کافروں کو اس کا کچھ بھی علم نہیں ہے، وہ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں اور بیشک گمان حق کے مقابلے کسی کام نہیں آتا۔

اس آیتِ شریفہ سے استفادہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔   ھذاک ظنھم الذی اردھم؛ والظن لا یغنی من الایقان۔

ترجمہ:یہی ان کا گمان ہے جس نے انھیں ہلاک کردیا، اور گمان یقین کے مقابلے میں کسی کام نہیں آتا۔(شعر:١۵۴)۔

حدیثی اشارات

۔(١)جامع ترمذی میں حضرتِ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ”جب کسی مبتلا کو دیکھو تو یہ دعا پڑھو!”الحمد لللہ الذی عافانی مما ابتلاک بہ وفضلنی علی کثیرممن خلق تفضیلا ” تو جب تک وہ شخص زندہ رہے گا اس بلا سے محفوظ ومامون رہے گا”(جامع ترمذی، ٣۴٣١/٣۴٣٢)۔

اس حدیثِ پاک سے استفاده کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔  لم اعتقد فیکم بسوء ساعۃ؛ الحمد لللہ الذی عافانی

میں نے آپ کے متعلق ایک لمحہ بھی برا اعتقاد نہیں رکھا اللہ رب العزت لائقِ حمد ہے جس نے مجھے اس سے عافیت دی۔

(٢)سننِ کبری میں حضرتِ عبد اللہ ابنِ عباس سے روایت ہے، کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”موتان الارض لللہ ولرسولہ فمن احیا منھا شیئا فہو لہ(السنن الکبری للبہیقی، ج:۶،ص:١۴٣)

ترجمہ:بنجر زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے تو جس نے اسے زندہ رکھاوہ اسی کی ہے۔

اس حدیثِ پاک سے استفادہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔  یاغوثنا قلبی یجود بنفسہ و ن: داک خیر ند علی الموتان

۔(٣)حضرتِ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے روایت، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”لست من دد ولا دد منی “۔

ترجمہ: نہ میں لہوو لعب سے ہوں اور نہ لہو ولعب مجھ سے ہے۔(المجمع الزوائد، ج:٨،ص٢٢٩)۔

اس حدیثِ پاک سے استفادہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اذ ماددمنی ولاانامن دد اذجئت رحلۃ لاوانی۔

ترجمہ:کیوں کہ نہ لہو ولعب مجھ سے ہے اور نہ میں لہو لعب سے ہوں، میں تو صرف اس ذاتِ گرامی کی مدح سرائی کے لیے آیا ہوں جو کائنات کے لیے مرجعِ خلائق ہے۔

۔(۴) حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: “انا عند ظن عبدی بی“۔(بخاری شریف، حدیث نمبر:٧۴۰۵)۔

اس حدیث شریف سے اخذ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔  قد قلت انی عند ظن عبد بی : ظنی بک الاحسان یا منانی

ترجمہ:تیرا فرمان ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان پر ہوں۔تو اے میرے محسن! میرا تیرے متعلق احسان وکرم کا گمان ہے۔

محاورات کا استعمال

ان قصائد میں گاہے بگاہے امثال و محاورات بھی استعمال کیے گئے ہیں جو کلام کے حسن کو دوبالا کردیتے ہیں، ہم یہاں محض ایک مثال پر اکتفا کرتے ہیں۔

جب کوئی شخص کہیں بہت تیزی کے ساتھ جارہاہو تو عام طور سے اس کے کپڑے زمین پر گھسٹتے ہیں اس وقت اہلِ عرب بولتے ہیں:”جاء یجر ردائہ”کہ وہ اپنی چادر گھسیٹتاہوا آیا، اور اس سے مجازاً تیز آنا مراد لیتے ہیں۔

اس مختصر شرح کے بعد شعر ملاحظہ کریں۔اعلی حضرت امام احمد رضا فاضلِ بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان اپنے پیرو مرشد سید آلِ رسول احمدی مارہروی (تغمدہ اللہ بغفرانہ) کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں :۔

۔(١) یوما احاط بی العدی ودنی الردی : اذجاء یجر ردائہ فرعانی

ترجمہ:جس روز مجھے دشمنوں نے گھیرلیا اور ہلاکت قریب آگئی، تو اچانک وہ اپنی چادرِ مبارک کھینچتے ہوئے تشریف لائے اور میری مدد فرمائی ۔

شاعر نے یہاں “اذجاء یجر ردائہ”پر “اذ”داخل کرکے جو کلام کے حسن میں اضافہ کیا ہے وہ کسی ذی شعور پر مخفی نہیں ہے۔

اصنافِ بدیع کا استعمال

اسی طرح شاعر نے اپنے کلام میں بدیع کا استعمال کرکے کلام کے حسن کی رعنائی، دل کشی اور دل آویزی میں مزید اضافہ کیا ہے۔جن میں سے ہم یہاں صرف ایک دو شعروں پر اکتفا کررہے ہیں۔

اصنافِ بدیع سے تقابل

۔(١) شرقت شوارق لطفہ فتبلجت زھر الرشاد تبلج العتیان۔ ۔(٢) برقت بوارق سیفہ فتاجّجت ھام العناد تاجج النیران۔

ترجمہ:ان کے لطف وکرم می بجلیاں چمکیں تو رشدو ہدایت کے ایسے شگوفے چمکے جیسے خالص سونا۔ ان کی تلوار چمکی تو بغض و عناد کے سر بھڑک اٹھے جیسے آگ بھڑکتی ہے۔

۔(١)صنعتِ جناس کی ایک اور عمدہ مثال ملاحظہ ہو:  واللوز فیہ الفوزوالتفاح والرطب ولا تسال عن الرمان۔

ترجمہ:اور اس(شاخ) میں بادام ہے جس میں کامیابی ہے، سیب اور تر کھجوریں ہیں اور انار(کی مٹھاس) کے بارے میں مت پوچھو۔

نحوی ولغوی رموز

قصائد کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ شاعر کو عربی زبان وبیان پر کامل عبور ودسترس حاصل تھی۔اس لیے کہ عربی زبان و بیان پر عبور کے حصول کے بغیر ایسے قصائد منظم کرنا جس میں الفاظ وبیان کا تسلسل اور غیر مرئی سلکِ مروارید ہو ایک متعسر امر ہے۔

ایسے قصائد وہی منظم کر سکتا ہے جسے کثرتِ اطلاعِ لغت اور قواعدِ نحویہ وصرفیہ کا حصولِ تام ہو۔ہم یہاں صرف ایک مثال سپردِ قرطاس کرتے ہیں ۔شاعر نے شعر:١٣١ میں فرمایا:۔ ابدلھما دارا وجارا خیر من ھؤلاء الدور والجیران۔

ترجمہ:انھیں اس دنیا کے گھر کے بدلے (جنت میں) بہتر گھر اور پڑوس عطا فرما۔

یہاں ایک شبہ یہ پیدا ہوتاہے کہ “الدور” اور “الجیران“غیر ذوی العقول ہیں تو ان کے لیے اسمِ اشارہ “ھؤلاء“کیوں لایا گیا ؟ تو اس شبہ کا ازالہ حاشیے میں فرماتے ہیں:۔

۔ “اولاء“ربما یشار الی غیر ذوی العقول کماقال تعالی :” ان السمع والبصر والفؤاد کل اولائک کان عنہ مسؤولا ” قال ابو اسماعیل الجوھری ھذا “۔

ترجمہ:اولاء کے ذریعے کبھی غیر ذوی العقول کے لیے بھی اشارہ کیاجاتا ہے۔جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:” کل اولائک کان عنہ مسؤولا ” ابو اسماعیل جوھری نے یہی کہا ہے۔

کتبہ :محمد ایوب مصباحی

استاذ دار العلوم گلشنِ مصطفی بہادرگنج مراداباد، یوپی، ہند۔

١۶/ذی الحجہ، ١۴۴١ھ مطابق

٧/اگست، ٢۰٢۰ء بروز جمع

 

قصیدتان رائعتان