حدیث نمبر 648

روایت ہے حضرت جابر سے فرماتے ہیں کہ ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے حتی کہ جب ذات الرقاع میں پہنچے فرماتے ہیں کہ جب ہم کبھی کسی سایہ دار درخت پر پہنچتے تھے تو وہ درخت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیئے چھوڑ دیتے تھے ۱؎فرماتے ہیں کہ کفار کا ایک شخص آیا اور رسول ا ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار درخت سے لٹکی ہوئی تھی تو اسنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار سونت لی ۲؎ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا کیا آپ مجھ سے ڈرتے ہیں،فرمایا نہیں وہ بولا مجھ سے آپ کو کون بچائے گا فرمایا مجھے تجھ سے ا ﷲ بچائے گا۳؎ فرماتے ہیں کہ اسے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے دھمکایا تو اس نے تلوار میان میں کرکے لٹکا دی۴؎ فرماتے ہیں کہ نماز کی اذان ہوئی تو آپ نے ایک ٹولے کو دو رکعتیں پڑھادیں وہ پیچھے ہٹ گئے اور دوسرے ٹولے کو دو رکعتیں پڑھادیں تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعتیں ہوئی اور قوم کی دو،دو رکعتیں ۵؎(مسلم،بخاری)

شرح

۱؎ تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سایہ میں آرام کریں،باقی لوگ اور درختوں کے نیچے دوپہرگزارتے تھےکیونکہ ان کے ساتھ خیمے اورچھولداریاں نہ تھیں،جب پہننے کے لیئے جوتے نہ تھے تو خیمے وغیرہ کہاں سے آتے یہاں بھی حسبِ دستور ایک درخت کے نیچے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آرام کیا صحابہ نے اور درخت کے نیچے۔

۲؎ کیونکہ اس وقت سرکار یا سو رہے تھے یا اس طرف سے بےتوجہ تھے۔

۳؎ یہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تو کل رب تعالٰی پر کیوں نہ ہوتا،رب تعالٰی نے آپ سے وعدہ کرلیا تھا”وَاللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ”۔اس واقعہ سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت،آپ کا تکلیفوں پرصبر،جاہلوں پرحلم سب کچھ معلوم ہوا۔

۴؎ علامہ واقدی نے اس جگہ لکھا کہ اسے قدرتی طور پر ایسی بیماری ہوگئی جس سے تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی اور وہ خود بھی گرگیا۔بعض روایات میں ہے کہ وہ مسلمان ہوگیااور اس سے بہت خلقت نے ہدایت پائی،مگر ابو عمارہ فرماتے ہیں وہ اسلام تو نہ لایا لیکن آئندہ کبھی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل نہ ہوا،آپ کے اخلاق کریمانہ دیکھ کر کیونکہ وہ تو قتل کا مستحق ہوچکاتھا مگر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے معاف کردیا۔ہوسکتا ہے کہ اسےصحابہ نے دھمکایابھی ہو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت بھی اس پر طاری ہوگئی ہو جس سے پہلے وہ گر گیا،بعد میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے تسلی دینے پر اٹھ کر تلوار اس نے خود ہی ٹانگی ہو۔(از مرقاۃ)

۵؎ یہ حدیث مشکلات میں سے ہے کیونکہ اس سے پہلے ذات الرقاع میں دو رکعتیں پڑھنے کا ذکر ہوچکا ہے اوریہاں چار کا اس لیے علماء فرماتے ہیں کہ پچھلی حدیث میں نماز فجر کا ذکر تھا اور یہاں نماز ظہر کا ذکر ہے کیونکہ ابھی یہاں دھوپ میں آرام کرنے کا ذکر ہوچکا ہے،نیز یہ حدیث امام شافعی کے بھی مخالف ہے کیونکہ ان کے نزدیک اگر امام چار رکعتیں پڑھے گا تو مقتدیوں کو چار رکعتیں لامحالہ پڑھنی پڑیں گی اور یہاں ذکر ہوا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے چار رکعتیں پڑھی اور قوم نے دو۲ دو۲۔اس کی توجیہ صرف یہی ہوسکتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں پندرہ دن ٹھہر کر کفار کے محاصرے کی نیت فرمائی ہو اور اس بناء پر تمام صحابہ نے اور آپ نے چار رکعتیں ہی پڑھیں مگرصحابہ کی ہر جماعت نے دو رکعتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑھیں اور دو علیٰحدہ یہاں دو رکعتیں پڑھنے سے یہی مراد ہے اس کے علاوہ اور کوئی توجیہ اشکال سے خالی نہ ہوگی۔بعض نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی جماعت کے ساتھ فرض ادا کئے اور دوسری جماعت کے ساتھ نفل مگر یہ غلط ہے ورنہ پھر درمیان میں سلام پھیرنا چاہیئے تھا،نیز پھرصحابی یہ نہ فرماتے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعتیں ہوئیں کیونکہ اب تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی دو نمازیں ہوئیں نہ کہ ا یک نماز کی چار رکعتیں،بعض نے فرمایا کہ اس وقت قصر کے احکام آئے نہ تھے اس لیئے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو چار پڑھائیں،دو اپنی اقتداءمیں اور دوعلیٰحدہ مگر یہ بھی درست نہیں کیونکہ ذات الرقاع کا غزوہ ۵ھ؁ یا ۷ ھ؁ میں ہے،بعض نے کہا ۸ھ؁ میں ہے کیونکہ اس غزوہ میں ابوموسیٰ اشعری بھی شریک تھے اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں فتح خیبر کے بعد آئے ہیں اور فتح خیبر ۷ھ؁ میں ہے،بعض مؤرخین نے فرمایا کہ غزوہ ذات الرقاع دوبار ہوا ہے ایک بار ۵ھ؁ میں اور ایک بار ۷ھ؁ یا ۸ ھ؁ میں کچھ بھی سہی نماز قصر ۵ھ؁ سے پہلے آچکی تھی،لہذا جوفقیرنے پہلےعرض کیا وہ ہی زیادہ قوی ہے۔