قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْۙ(۲۵)

عرض کی اے میرے رب میرے لیے میرا سینہ کھول دے (ف۲۷)

(ف27)

اور اسے تحمّلِ رسالت کے لئے وسیع فرما دے ۔

وَ یَسِّرْ لِیْۤ اَمْرِیْۙ(۲۶)

اور میرے لیے میرا کام آسان کر

وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْۙ(۲۷)

اور میری زبان کی گرہ کھول دے (ف۲۸)

(ف28)

جو خورد سالی میں آ گ کا انگارہ منہ میں رکھ لینے سے پڑ گئی ہے اور اس کا واقعہ یہ تھا کہ بچپن میں آپ ایک روز فرعون کی گود میں تھے آپ نے اس کی داڑھی پکڑ کر اس کے منہ پر زور سے طمانچہ مارا اس پر اسے غصہ آیا اور اس نے آپ کے قتل کا ارادہ کیا آسیہ نے کہا کہ اے بادشاہ یہ نادان بچہ ہےکیا سمجھے ؟ تو چاہے تو تجربہ کر لے اس تجربہ کے لئے ایک طشت میں آ گ اور ایک طشت میں یاقوت سرخ آپ کے سامنے پیش کئے گئے آپ نے یاقوت لینا چاہا مگر فرشتہ نے آپ کا ہاتھ انگارہ پر رکھ دیا اور وہ انگارہ آپ کے منہ میں دے دیا اس سے زبانِ مبارک جل گئی اور لکنت پیدا ہو گئی اس کے لئے آپ نے یہ دعا کی ۔

یَفْقَهُوْا قَوْلِیْ۪(۲۸)

کہ وہ میری بات سمجھیں

وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْۙ(۲۹)

اور میرے لیے میرے گھر والوں میں سے ایک وزیر کردے (ف۲۹)

(ف29)

جو میرا معاون اور معتمد ہو ۔

هٰرُوْنَ اَخِیۙ(۳۰)

وہ کون میرا بھائی ہارون

اشْدُدْ بِهٖۤ اَزْرِیْۙ(۳۱)

اس سے میری کمر مضبوط کر

وَ اَشْرِكْهُ فِیْۤ اَمْرِیْۙ(۳۲)

اور اُسے میرے کام میں شریک کر (ف۳۰)

(ف30)

یعنی امرِ نبوّت و تبلیغِ رسالت میں ۔

كَیْ نُسَبِّحَكَ كَثِیْرًاۙ(۳۳)

کہ ہم بکثرت تیری پاکی بولیں

وَّ نَذْكُرَكَ كَثِیْرًاؕ(۳۴)

اور بکثرت تیری یاد کریں (ف۳۱)

(ف31)

نمازوں میں بھی اور خارجِ نماز بھی ۔

اِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِیْرًا(۳۵)

بےشک تو ہمیں دیکھ رہا ہے (ف۳۲)

(ف32)

ہمارے احوال کا عالِم ہے ۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کی اس درخواست پر اللہ تعالٰی نے ۔

قَالَ قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَكَ یٰمُوْسٰى(۳۶)

فرمایا اے موسیٰ تیری مانگ تجھے عطا ہوئی

وَ لَقَدْ مَنَنَّا عَلَیْكَ مَرَّةً اُخْرٰۤىۙ(۳۷)

اور بےشک ہم نے (ف۳۳) تجھ پر ایک بار اور احسان فرمایا

(ف33)

اس سے قبل ۔

اِذْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّكَ مَا یُوْحٰۤىۙ(۳۸)

جب ہم نے تیری ماں کو الہام کیا جو اِلہام کرنا تھا (ف۳۴)

(ف34)

دل میں ڈال کر یا خواب کے ذریعے سے جبکہ انہیں آپ کی ولادت کے وقت فرعو ن کی طرف سے آپ کو قتل کر ڈالنے کا اندیشہ ہوا ۔

اَنِ اقْذِفِیْهِ فِی التَّابُوْتِ فَاقْذِفِیْهِ فِی الْیَمِّ فَلْیُلْقِهِ الْیَمُّ بِالسَّاحِلِ یَاْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّیْ وَ عَدُوٌّ لَّهٗؕ-وَ اَلْقَیْتُ عَلَیْكَ مَحَبَّةً مِّنِّیْ ﳛ وَ لِتُصْنَعَ عَلٰى عَیْنِیْۘ(۳۹)

کہ اس بچے کو صندوق میں رکھ کر دریا میں (ف۳۵) ڈال دے تو دریا اسے کنارے پر ڈالے کہ اسے وہ اٹھالے جو میرا دشمن اور اُس کا دشمن(ف۳۶)اور میں نے تجھ پر اپنی طرف کی محبت ڈالی (ف۳۷) اور اس لیے کہ تو میری نگاہ کے سامنے تیار ہو (ف۳۸)

(ف35)

یعنی نیل میں ۔

(ف36)

یعنی فرعون چنانچہ حضرت موسٰی علیہ السلام کی والدہ نے ایک صندو ق بنایا اور اس میں روئی بچھائی اور حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کو اس میں رکھ کر صندوق بند کر دیا اور اس کی درزیں روغنِ قیر سے بند کر دیں آپ اس صندوق کے اندر پانی میں پہنچے پھر اس صندوق کو دریائے نیل میں بہا دیا اس دریا سے ایک بڑی نہر نکل کر فرعون کے محل میں گرتی تھی فرعون مع اپنی بی بی آسیہ نہر کے کنارہ بیٹھا تھا نہر میں صندوق آتا دیکھ کر اس نے غلاموں اور کنیزوں کو اس کے نکالنے کا حکم دیا وہ صندوق نکال کر سامنے لایا گیا کھولا تو اس میں ایک نورانی شکل فرزند جس کی پیشانی سے وجاہت و اقبال کے آثار نمودار تھے نظر آیا دیکھتے ہی فرعون کے دل میں ایسی مَحبت پیدا ہوئی کہ وہ وارفتہ ہو گیا اور عقل و حواس بجا نہ رہے اپنے اختیار سے باہر ہو گیا اس کی نسبت اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے ۔

(ف37)

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے انہیں محبوب بنایا اور خَلق کا محبوب کر دیا اور جس کو اللہ تبارک و تعالٰی اپنی محبوبیت سے نوازاتا ہے قلوب میں اس کی مَحبت پیدا ہو جاتی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا یہی حال حضرت موسٰی علیہ ا لصلٰوۃ والسلام کا تھا جو آپ کو دیکھتا تھا اسی کے دل میں آپ کی مَحبت پیدا ہو جاتی تھی ۔ قتادہ نے کہا کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کی آنکھوں میں ایسی ملاحت تھی جسے دیکھ کر ہر دیکھنے والے کے دل میں مَحبت جوش مارنے لگتی تھی ۔

(ف38)

یعنی میری حفاظت و نگہبانی میں پرورش پائے ۔

اِذْ تَمْشِیْۤ اُخْتُكَ فَتَقُوْلُ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى مَنْ یَّكْفُلُهٗؕ-فَرَجَعْنٰكَ اِلٰۤى اُمِّكَ كَیْ تَقَرَّ عَیْنُهَا وَ لَا تَحْزَنَ۬ؕ-وَ قَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّیْنٰكَ مِنَ الْغَمِّ وَ فَتَنّٰكَ فُتُوْنًا ﲕ فَلَبِثْتَ سِنِیْنَ فِیْۤ اَهْلِ مَدْیَنَ ﳔ ثُمَّ جِئْتَ عَلٰى قَدَرٍ یّٰمُوْسٰى(۴۰)

تیری بہن چلی (ف۳۹) پھر کہا کیا میں تمہیں وہ لوگ بتادوں جو اس بچہ کی پرورش کریں (ف۴۰) تو ہم تجھے تیری ماں کے پاس پھیر لائے کہ اُس کی آنکھ (ف۴۱) ٹھنڈی ہو اور غم نہ کرے (ف۴۲) اور تو نے ایک جان کو قتل کیا (ف۴۳) تو ہم نے تجھے غم سے نجات دی اور تجھے خوب جانچ لیا (ف۴۴) تو تو کئی برس مَدیَن والوں میں رہا (ف۴۵) پھر تو ایک ٹھہرائے وعدہ پر حاضر ہوا اے موسیٰ (ف۴۶)

(ف39)

جس کا نام مریم تھا تاکہ وہ آپ کے حال کا تجسّس کرے اور معلوم کرے کہ صندوق کہاں پہنچا آپ کس کے ہاتھ آئے جب اس نے دیکھا کہ صندوق فرعون کے پاس پہنچا اور وہاں دودھ پلانے کے لئے دائیاں حاضر کی گئیں اور آپ نے کسی کی چھاتی کو منہ نہ لگایا تو آپ کی بہن نے ۔

(ف40)

ان لوگوں نے اس کو منظور کیا وہ اپنی والدہ کو لے گئیں آپ نے ان کا دودھ قبول فرمایا ۔

(ف41)

آپ کے دیدار سے ۔

(ف42)

یعنی غمِ فراق دور ہو اس کے بعد حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ایک اور واقعہ کاذکر فرمایا جاتا ہے ۔

(ف43)

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرعون کی قوم کے ایک کافِر کو مارا تھا وہ مرگیا ، کہا گیا ہے کہ اس وقت آپ کی عمر شریف بارہ سال کی تھی اس واقعہ پر آپ کو فرعون کی طرف سے اندیشہ ہوا ۔

(ف44)

محنتوں میں ڈال کر اور ان سے خلاصی عطا فرما کر ۔

(ف45)

مدیَن ایک شہر ہے مِصر سے آٹھ منزل فاصلہ پر یہاں حضرت شعیب علیہ الصلٰوۃ والسلام رہتے تھے حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام مِصر سے مدیَن آئے اور کئی برس تک حضرت شعیب علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پاس اقامت فرمائی اور ان کی صاحبزادی صفوراء کے ساتھ آپ کا نکاح ہوا ۔

(ف46)

یعنی اپنی عمر کے چالیسویں سال اور یہ وہ سن ہے کہ انبیاء کی طرف اس سن میں وحی کی جاتی ہے ۔

وَ اصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِیْۚ(۴۱)

اور میں نے تجھے خاص اپنے لیے بنایا (ف۴۷)

(ف47)

اپنی وحی اور رسالت کے لئے تاکہ تو میرے ارادہ اور میری مَحبت پر تصرُّف کرے اور میری حُجّت پر قائم رہے اور میرے اور میری خَلق کے درمیان خِطاب پہنچانے والا ہو ۔

اِذْهَبْ اَنْتَ وَ اَخُوْكَ بِاٰیٰتِیْ وَ لَا تَنِیَا فِیْ ذِكْرِیْۚ(۴۲)

تو اور تیرا بھائی دونوں میری نشانیاں (ف۴۸) لے کر جاؤ اور میری یاد میں سستی نہ کرنا

(ف48)

یعنی معجزات ۔

اِذْهَبَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰىۚۖ(۴۳)

دونوں فرعون کے پاس جاؤ بےشک اس نے سر اٹھایا

فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰى(۴۴)

تو اُس سے نرم بات کہنا (ف۴۹) اس امید پر کہ وہ دھیان کرے یا کچھ ڈرے (ف۵۰)

(ف49)

یعنی اس کو بہ نرمی نصیحت فرمانا اور نرمی کا حکم اس لئے تھا کہ اس نے بچپن میں آپ کی خدمت کی تھی اور بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ نرمی سے مراد یہ ہے کہ آپ اس سے وعدہ کریں کہ اگر وہ ایمان قبول کرے گا تو تمام عمر جوان رہے گا کبھی بڑھاپا نہ آئے گا اور مرتے دم تک اس کی سلطنت باقی رہے گی اور کھانے پینے اور نکاح کی لذّتیں تادمِ مرگ باقی رہیں گی ا ور بعدِ موت دخولِ جنتّ میسّر آئے گا جب حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرعون سے یہ وعدے کئے تو اس کو یہ بات بہت پسند آئی لیکن وہ کسی کام پر بغیر مشورۂ ہامان کے قطعی فیصلہ نہیں کرتا تھا ، ہامان موجود نہ تھا جب وہ آیا تو فرعون نے اس کو یہ خبر دی اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ہدایت پر ایمان قبول کر لوں ، ہامان کہنے لگا میں تو تجھ کو عاقل و دانا سمجھتا تھا تو رب ہے بندہ بنا چاہتا ہے ، تو معبود ہے عابد بننے کی خواہش کرتا ہے ؟ فرعون نے کہا تو نے ٹھیک کہا اور حضرت ہارون علیہ السلام مِصر میں تھے اللہ تعالٰی نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو حکم کیا کہ وہ حضرت ہارون کے پاس آئیں اور حضرت ہارون علیہ السلام کو وحی کی کہ حضرت موسٰی علیہ السلام سے ملیں چنانچہ وہ ایک منزل چل کر آپ سے ملے اور جو وحی انہیں ہوئی تھی اس کی حضرت موسٰی علیہ السلام کو اطلاع دی ۔

(ف50)

یعنی آپ کی تعلیم و نصیحت اس امید کے ساتھ ہونی چاہیئے تاکہ آپ کے لئے اجر اور اس پر الزامِ حُجّت اور قطع عذر ہو جائے اور حقیقت میں ہونا تو وہی ہے جو تقدیرِ الٰہی ہے ۔

قَالَا رَبَّنَاۤ اِنَّنَا نَخَافُ اَنْ یَّفْرُطَ عَلَیْنَاۤ اَوْ اَنْ یَّطْغٰى(۴۵)

دونوں نے عرض کیا اے ہمارے رب بےشک ہم ڈرتے ہیں کہ وہ ہم پر زیادتی کرے یا شرارت سے پیش آئے

قَالَ لَا تَخَافَاۤ اِنَّنِیْ مَعَكُمَاۤ اَسْمَعُ وَ اَرٰى(۴۶)

فرمایا ڈرو نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں (ف۵۱) سنتا اور دیکھتا (ف۵۲)

(ف51)

اپنی مدد سے ۔

(ف52)

اس کے قول و فعل کو ۔

فَاْتِیٰهُ فَقُوْلَاۤ اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّكَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﳔ وَ لَا تُعَذِّبْهُمْؕ-قَدْ جِئْنٰكَ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكَؕ-وَ السَّلٰمُ عَلٰى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰى(۴۷)

تو اُس کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں تو اولاد یعقوب کو ہمارے ساتھ چھوڑ دے (ف۵۳) اور انہیں تکلیف نہ دے (ف۵۴) بےشک ہم تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے نشانی لائے ہیں (ف۵۵) اور سلامتی اُسے جو ہدایت کی پیروی کرے (ف۵۶)

(ف53)

اور انہیں بندگی و اسیری سے رہا کر دے ۔

(ف54)

محنت و مشقت کے سخت کام لے کر ۔

(ف55)

یعنی معجزے جو ہمارے صدقِ نبوّت کی دلیل ہیں فرعون نے کہا وہ کیا ہیں ؟ تو آپ نے معجِزۂ یدِ بیضا دکھایا ۔

(ف56)

یعنی دونوں جہان میں اس کے لئے سلامتی ہے وہ عذاب سے محفوظ رہے گا ۔

اِنَّا قَدْ اُوْحِیَ اِلَیْنَاۤ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰى مَنْ كَذَّبَ وَ تَوَلّٰى(۴۸)

بےشک ہماری طرف وحی ہوئی ہے کہ عذاب اس پرہے جو جھٹلائے(ف۵۷)اورمنہ پھیرے (ف۵۸)

(ف57)

ہماری نبوّت کو اور ان احکام کو جو ہم لائے ۔

(ف58)

ہماری ہدایت سے حضرت موسٰی و حضرت ہارون علیہما السلام نے فرعون کو یہ پیغام پہنچا دیا تو وہ ۔

قَالَ فَمَنْ رَّبُّكُمَا یٰمُوْسٰى(۴۹)

بولا تو تم دونوں کا خدا کون ہے اے موسیٰ

قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْۤ اَعْطٰى كُلَّ شَیْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى(۵۰)

کہا ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کے لائق صورت دی (ف۵۹) پھر راہ دکھائی (ف۶۰)

(ف59)

ہاتھ کو اس کے لائق ایسی کہ کسی چیز کو پکڑ سکے ، پاؤں کو اس کے قابل کہ چل سکے ، زبان کو اس کے مناسب کہ بول سکے ، آنکھ کو اس کے موافق کہ دیکھ سکے ، کان کو ایسی کہ سن سکے ۔

(ف60)

اور اس کی معرفت دی کہ دنیا کی زندگانی اور آخرت کی سعادت کے لئے اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کو کس طرح کام میں لایا جائے ۔

قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰى(۵۱)

بولا (ف۶۱) اگلی سنگتوں کا کیا حال ہے (ف۶۲)

(ف61)

فرعون ۔

(ف62)

یعنی جو اُمّتیں گزر چکی ہیں مثل قومِ نوح و عاد و ثمود کے جو بُتوں کو پُوجتے تھے اور بَعث بعدالموت یعنی مرنے کے بعد زندہ کرکے اُٹھائے جانے کے منکِر تھے اس پر حضرت موسٰی علیہ السلام نے ۔

قَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ فِیْ كِتٰبٍۚ-لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَ لَا یَنْسَى٘(۵۲)

کہا ان کا علم میرے رب کے پاس ایک کتاب میں ہے (ف۶۳) میرا رب نہ بہکے نہ بھولے

(ف63)

یعنی لوحِ محفوظ میں ان کے تمام احوال مکتوب ہیں روزِ قیامت انہیں ان اعمال پر جزا دی جائے گی ۔

الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا وَّ سَلَكَ لَكُمْ فِیْهَا سُبُلًا وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًؕ-فَاَخْرَجْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰى(۵۳)

وہ جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا کیا اور تمہارے لیے اس میں چلتی راہیں رکھیں اور آسمان سے پانی اُتارا (ف۶۴) تو ہم نے اُس سے طرح طرح کے سبزے کے جوڑے نکالے (ف۶۵)

(ف64)

حضرت موسٰی علیہ السلام کا کلام تو یہاں تمام ہو گیا اب اللہ تعالٰی اہلِ مکہ کو خِطاب کر کے اس کو تتمیم فرماتا ہے ۔

(ف65)

یعنی قِسم قِسم کے سبزے مختلف رنگتوں خوشبویوں شکلوں کے ، بعض آدمیوں کے لئے بعض جانوروں کے لئے ۔

كُلُوْا وَ ارْعَوْا اَنْعَامَكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّهٰى۠(۵۴)

تم کھاؤ اور اپنے مویشیوں کو چَراؤ (ف۶۶) بےشک اس میں نشانیاں ہیں عقل والوں کو

(ف66)

یہ امر اباحت اور تذکیرِ نعمت کے لئے ہے یعنی ہم نے یہ سبزے نکالے تمہارے لئے ان کا کھانا اور اپنے جانوروں کو چرانا مباح کر کے ۔