کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 16 رکوع 12 سورہ طٰہٰ آیت نمبر 55 تا 76
مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ وَ فِیْهَا نُعِیْدُكُمْ وَ مِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى(۵۵)
ہم نے زمین ہی سے تمہیں بنایا (ف۶۷)اور اسی میں تمہیں پھر لے جائیں گے (ف۶۸) اور اسی سے تمہیں دوبارہ نکالیں گے (ف۶۹)
(ف67)
تمہارے جدِ اعلٰی حضرت آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام کو اس سے پیدا کر کے۔
(ف68)
تمہاری موت و دفن کے وقت ۔
(ف69)
روزِ قیامت ۔
وَ لَقَدْ اَرَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا كُلَّهَا فَكَذَّبَ وَ اَبٰى(۵۶)
اور بےشک ہم نے اسے (ف۷۰) اپنی سب نشانیاں (ف۷۱) دیکھائیں تو اس نے جھٹلایا اور نہ مانا (ف۷۲)
(ف70)
یعنی فرعون کو ۔
(ف71)
یعنی کل آیات تسع جو حضرت موسٰی علیہ السلام کو عطا فرمائی تھیں ۔
(ف72)
اور ان آیات کو سحر بتایا اور قبولِ حق سے انکار کیا اور ۔
قَالَ اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِكَ یٰمُوْسٰى(۵۷)
بولا کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں اپنے جادو کے سبب ہماری زمین سے نکال دو اے موسیٰ(ف۷۳)
(ف73)
یعنی ہمیں مِصر سے نکال کر خود اس پر قبضہ کرو اور بادشاہ بن جاؤ ۔
فَلَنَاْتِیَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِهٖ فَاجْعَلْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَكَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُهٗ نَحْنُ وَ لَاۤ اَنْتَ مَكَانًا سُوًى(۵۸)
تو ضرور ہم بھی تمہارے آگے ویسا ہی جادو لائیں گے (ف۷۴) تو ہم میں اور اپنے میں ایک وعدہ ٹھہرادو جس سے نہ ہم بدلہ لیں (آگے پیچھے ہوں)نہ تم ہموار جگہ ہو
(ف74)
اور جادو میں ہمارا تمہارا مقابلہ ہو گا ۔
قَالَ مَوْعِدُكُمْ یَوْمُ الزِّیْنَةِ وَ اَنْ یُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى(۵۹)
موسیٰ نے کہا تمہارا وعدہ میلے کا دن ہے (ف۷۵) اور یہ کہ لوگ دن چڑھے جمع کیے جائیں (ف۷۶)
(ف75)
اس میلہ سے فرعونیوں کا میلہ مراد ہے جو ان کی عید تھی اور اس میں وہ زینتیں کر کر کے جمع ہوتے تھے ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ یہ دن عاشوراء یعنی دسویں محرّم کا تھا اور اس سال یہ تاریخ سنیچر کو واقع ہوئی تھی ، اس روز کو حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اس لئے معیّن فرمایا کہ یہ روز ان کی غایتِ شوکت کا دن تھا اس کو مقرر کرنا اپنے کمالِ قوّت کا اظہار ہے نیز اس میں یہ بھی حکمت تھی کہ حق کا ظہور اور باطل کی رسوائی کے لئے ایسا ہی وقت مناسب ہے جب کہ اطراف و جوانب کے تمام لوگ مجتمع ہوں ۔
(ف76)
تاکہ خوب روشنی پھیل جائے اور دیکھنے والے باطمینان دیکھ سکیں اور ہر چیز صاف صاف نظر آئے ۔
فَتَوَلّٰى فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ كَیْدَهٗ ثُمَّ اَتٰى(۶۰)
تو فرعون پھرا اور اپنے دانؤں(مکروفریب) اکٹھے کئے (ف۷۷) پھر آیا (ف۷۸)
(ف77)
کثیر التعداد جادوگروں کو جمع کیا ۔
(ف78)
وعدہ کے دن ان سب کو لے کر ۔
قَالَ لَهُمْ مُّوْسٰى وَیْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا فَیُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍۚ-وَ قَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰى(۶۱)
ان سے موسیٰ نے کہا تمہیں خرابی ہو اللہ پر جھوٹ نہ باندھو (ف۷۹) کہ وہ تمہیں عذاب سے ہلاک کردے اور بےشک نامراد رہا جس نے جھوٹ باندھا (ف۸۰)
(ف79)
کسی کو اس کا شریک کر کے ۔
(ف80)
اللہ تعالٰی پر ۔
فَتَنَازَعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ وَ اَسَرُّوا النَّجْوٰى(۶۲)
تو اپنے معاملہ میں باہم مختلف ہوگئے (ف۸۱) اور چھپ کر مشورت کی
(ف81)
یعنی جادوگر حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کا یہ کلام سُن کر آپس میں مختلف ہو گئے ، بعض کہنے لگے کہ یہ بھی ہماری مثل جادوگر ہیں ، بعض نے کہا کہ یہ باتیں ہی جادوگروں کی نہیں وہ اللہ پرجھوٹ باندھنے کو منع کرتے ہیں ۔
قَالُوْۤا اِنْ هٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ یُرِیْدٰنِ اَنْ یُّخْرِجٰكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِهِمَا وَ یَذْهَبَا بِطَرِیْقَتِكُمُ الْمُثْلٰى(۶۳)
بولے بےشک یہ دونوں (ف۸۲) ضرور جادوگرہیں چاہتے ہیں کہ تمہیں تمہاری زمین سے اپنے جادو کے زور سے نکال دیں اور تمہارا اچھا دین لے جائیں
(ف82)
یعنی حضرت موسٰی و حضرت ہارون ۔
فَاَجْمِعُوْا كَیْدَكُمْ ثُمَّ ائْتُوْا صَفًّاۚ-وَ قَدْ اَفْلَحَ الْیَوْمَ مَنِ اسْتَعْلٰى(۶۴)
تو اپنا دانؤں(فریب) پکا کرلو پھر پَرا باندھ (صف بنا )کر آؤ اور آج مراد کو پہنچا جو غالب رہا
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِمَّاۤ اَنْ تُلْقِیَ وَ اِمَّاۤ اَنْ نَّكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰى(۶۵)
بولے (ف۸۳) اے موسیٰ یا تو تم ڈالو (ف۸۴) یا ہم پہلے ڈالیں (ف۸۵)
(ف83)
جادوگر ۔
(ف84)
پہلے اپنا عصا ۔
(ف85)
اپنے سامان ۔ ابتداء کرنا جادو گروں نے ادباً حضرت موسٰی علیہ السلام کی رائے مبارک پر چھوڑا اور اس کی برکت سے آخر کار اللہ تعالٰی نے انہیں دولتِ ایمان سے مشرف فرمایا ۔
قَالَ بَلْ اَلْقُوْاۚ-فَاِذَا حِبَالُهُمْ وَ عِصِیُّهُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰى(۶۶)
موسیٰ نے کہا بلکہ تمہیں ڈالو (ف۸۶) جبھی اُن کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کے زور سے ان کے خیال میں دوڑتی معلوم ہوئیں (ف۸۷)
(ف86)
یہ حضرت موسٰی علیہ السلام نے اس لئے فرمایا کہ جو کچھ جادو کے مَکر ہیں پہلے وہ سب ظاہر کر چکیں اس کے بعد آپ معجِزہ دکھائیں اور حق باطل کو مٹائے اور معجِزہ سحر کو باطل کرے تو دیکھنے والوں کو بصیرت و عبرت حاصل ہو چنانچہ جادوگروں نے رسیاں لاٹھیاں وغیرہ جو سامان لائے تھے سب ڈال دیا اور لوگوں کی نظر بندی کر دی ۔
(ف87)
حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے دیکھا کہ زمین سانپوں سے بھر گئی اور مِیلوں کے میدان میں سانپ ہی سانپ دوڑ رہے ہیں اور دیکھنے والے اس باطل نظر بندی سے مسحور ہو گئے کہیں ایسا نہ ہو کہ بعض معجِزہ دیکھنے سے پہلے ہی اس کے گرویدہ ہو جائیں اور معجِزہ نہ دیکھیں ۔
فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِهٖ خِیْفَةً مُّوْسٰى(۶۷)
تو اپنے جی میں موسیٰ نے خوف پایا
قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى(۶۸)
ہم نے فرمایا ڈر نہیں بےشک تو ہی غالب ہے
وَ اَلْقِ مَا فِیْ یَمِیْنِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْاؕ-اِنَّمَا صَنَعُوْا كَیْدُ سٰحِرٍؕ-وَ لَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰى(۶۹)
اور ڈال تو دے جو تیرے دہنے ہاتھ میں ہے (ف۸۸)وہ ان کی بناوٹوں کو نگل جائے گا وہ جو بناکر لائے ہیں وہ تو جادوگر کا فریب ہے اور جادوگر کا بھلا نہیں ہوتا کہیں آوے (ف۸۹)
(ف88)
یعنی اپنا عصا ۔
(ف89)
پھر حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والتسلیمات نے اپنا عصا ڈالا وہ جادوگروں کے تمام اژدہوں اور سانپوں کو نگل گیا اور آدمی اس کے خوف سے گھبرا گئے ، حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اسے اپنے دستِ مبارک میں لیا تو مثلِ سابق عصا ہو گیا یہ دیکھ کر جادوگروں کو یقین ہوا کہ یہ معجِزہ ہے جس سے سحر مقابلہ نہیں کر سکتا اور جادو کی فریب کاری اس کے سامنے قائم نہیں رہ سکتی ۔
فَاُلْقِیَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ هٰرُوْنَ وَ مُوْسٰى(۷۰)
تو سب جادوگر سجدے میں گرالیے گئے بولے ہم اُس پر ایمان لائے جو ہارون اور موسیٰ کا رب ہے (ف۹۰)
(ف90)
سبحان اللہ کیا عجیب حال تھا جن لوگوں نے ابھی کفر و جحود کے لئے رسیاں اور عصا ڈالے تھے ابھی معجزہ دیکھ کر انہوں نے شکر و سجود کے لئے سر جھکا دیئے اور گردنیں ڈال دیں ۔ منقول ہے کہ اس سجدے میں انہیں جنّت اور دوزخ دکھائی گئی اور انہوں نے جنّت میں اپنے منازل دیکھ لئے ۔
قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْؕ-اِنَّهٗ لَكَبِیْرُكُمُ الَّذِیْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَۚ-فَلَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ٘-وَ لَتَعْلَمُنَّ اَیُّنَاۤ اَشَدُّ عَذَابًا وَّ اَبْقٰى(۷۱)
فرعون بولا کیا تم اُس پر ایمان لائے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں بےشک وہ تمہارا بڑا ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا (ف۹۱) تو مجھے قسم ہے ضرور میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹوں گا (ف۹۲) اور تمہیں کھجور کے ڈنڈ(سوکھے تنے)پر سولی چڑھاؤں گا اور ضرور تم جان جاؤ گے کہ ہم میں کس کا عذاب سخت اور دیرپا ہے (ف۹۳)
(ف91)
یعنی جادو میں وہ استادِ کامل اور تم سب سے فائق ہیں ۔ (معاذا للہ)
(ف92)
یعنی داہنے ہاتھ اور بائیں پاؤں ۔
(ف93)
اس سے فرعون ملعون کی مراد یہ تھی کہ اس کا عذاب سخت تر ہے یا ربُّ العالمین کا ، فرعون کا یہ متکبرانہ کلمہ سُن کر وہ جادوگر ۔
قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَكَ عَلٰى مَا جَآءَنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الَّذِیْ فَطَرَنَا فَاقْضِ مَاۤ اَنْتَ قَاضٍؕ-اِنَّمَا تَقْضِیْ هٰذِهِ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاؕ(۷۲)
بولے ہم ہرگز تجھے ترجیح نہ دیں گے ان روشن دلیلوں پر جو ہمارے پاس آئیں (ف۹۴) ہمیں اپنے پیدا کرنے والے کی قسم تو تو کر چک جو تجھے کرنا ہے (ف۹۵) تو اس دنیا ہی کی زندگی میں تو کرے گا (ف۹۶)
(ف94)
یدِ بیضا اور عصائے موسٰی ۔ بعض مفسِّرین نے کہا ہے کہ ان کا استدلال یہ تھا کہ اگر تو حضرت موسٰی علیہ السلام کے معجِزہ کو بھی سحر کہتا ہے تو بتا وہ رسّے اور لاٹھیاں کہاں گئیں ۔ بعض مفسِّرین کہتے ہیں کہ بیِّنات سے مراد جنّت اور اس میں اپنے منازل کا دیکھنا ہے ۔
(ف95)
ہمیں اس کی کچھ پروا نہیں ۔
(ف96)
آگے تو تیری کچھ مجال نہیں اور دنیا زائل اور یہاں کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے تو مہربان بھی ہو تو بقائے دوام نہیں دے سکتا پھر زندگانی دینا اور اس کی راحتوں کے زوال کا کیا غم بالخصوص اس کو جو جانتا ہے کہ آخرت میں اعمالِ دنیا کی جزا ملے گی ۔
اِنَّاۤ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغْفِرَ لَنَا خَطٰیٰنَا وَ مَاۤ اَكْرَهْتَنَا عَلَیْهِ مِنَ السِّحْرِؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰى(۷۳)
بےشک ہم اپنے رب پر ایمان لائے کہ وہ ہماری خطائیں بخش دے اور وہ جو تو نے ہمیں مجبور کیا جادو پر (ف۹۷) اور اللہ بہتر ہے (ف۹۸) اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا (ف۹۹)
(ف97)
حضرت موسٰی علیہ السلام کے مقابلے میں ۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ فرعون نے جب جادوگروں کو حضرت موسٰی علیہ السلام کے مقابلہ کے لئے بلایا تھا تو جادو گروں نے فرعون سے کہا تھا کہ ہم حضرت موسٰی علیہ السلام کو سوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں چنانچہ اس کی کوشش کی گئی اور انہیں ایسا موقع بہم پہنچا دیا گیا ، انہوں نے دیکھا کہ حضرت خواب میں ہیں اور عصائے شریف پہرہ دے رہا ہے یہ دیکھ کر جادوگروں نے فرعون سے کہا کہ موسٰی جادوگر نہیں کیونکہ جادوگر جب سوتا ہے تو اس وقت اس کا جادو کام نہیں کرتا مگر فرعون نے انہیں جادو کرنے پر مجبور کیا ۔ اس کی مغفرت کے وہ اللہ تعالٰی سے طالب اور امیدوار ہیں ۔
(ف98)
فرمانبرداروں کو ثواب دینے میں ۔
(ف99)
بلِحاظ عذاب کرنے کے نافرمانوں پر ۔
اِنَّهٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَنَّمَؕ-لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَ لَا یَحْیٰى(۷۴)
بےشک جو اپنے رب کے حضور مجرم (ف۱۰۰) ہوکر آئے تو ضرور اس کے لیے جہنم ہے جس میں نہ مرے (ف۱۰۱) نہ جئے (ف۱۰۲)
(ف100)
یعنی کافِر مثل فرعون کے ۔
(ف101)
کہ مرکر ہی اس سے چھوٹ سکے ۔
(ف102)
ایسا جینا جس سے کچھ نفع اٹھا سکے ۔
وَ مَنْ یَّاْتِهٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ فَاُولٰٓىٕكَ لَهُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰىۙ(۷۵)
اور جو اُس کے حضور ایمان کے ساتھ آئے کہ اچھے کام کیے ہوں (ف۱۰۳) تو انہیں کے درجے اونچے
(ف103)
یعنی جن کا ایمان پر خاتمہ ہوا ہو اور انہوں نے اپنی زندگی میں نیک عمل کئے ہوں ، فرائض اور نوافل بجا لائے ہوں ۔
جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-وَ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَكّٰى۠(۷۶)
بسنے کے باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ اُن میں رہیں اور یہ صلہ ہے اس کا جو پاک ہوا (ف۱۰۴)
(ف104)
کُفر کی نجاست اور معاصی کی گندگی سے ۔