اَفَمَا نَحۡنُ بِمَيِّتِيۡنَۙ ۞- سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 58
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَفَمَا نَحۡنُ بِمَيِّتِيۡنَۙ ۞
ترجمہ:
(جنتی لوگ فرشتوں سے کہیں گے) کیا اب ہم مرنے والے نہیں ہیں ؟
عذاب قبر پر ایک اشکال کا جواب
الصفت : ٦١۔ ٥٨ میں ہے : (جنتی لوگ فرشتوں سے کہیں گے) کیا اب ہم مرنے والے نہیں ہیں ؟ سوا اس پہلی موت کے اور کیا ہم کو عذاب نہیں دیا جائے گا ؟ پھر تو بیشک یہ بہت بڑی کامیابی ہے ! اسی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے
ان آیات میں جنتیوں کی آپس کی گفتگو کا پھر ذکر فرمایا ہے ان کو جب فرشتوں سے معلوم ہوگا کہ وہ اب جنت میں ہمیشہ رہیں گے اور ان کو موت نہیں آئے گی تو وہ اس نعمت سے بہت زیادہ خوش ہوں گے اور ایک دوسرے سے کہیں گے اسی نعمت کے حصول کے لیے کوشش کرنی چاہیے ‘ کیونکہ اگر انسان کو عیش و آرام اور اسکی دل پسند چیزیں مہیا کی جائیں اور اس کو یہ بتادیا جائے کہ چند دن بعد اس سے یہ نعمتیں لے لی جائیں گی تو وہ عین حالت نعمت میں فکر مند اور غم زدہ رہے گا اور صحیح معنی میں وہ اسی وقت خوش ہوگا جب اس کو معلوم ہو کہ یہ نعمتیں اس کے پاس دائمار ہیں گی ‘ سو جنتیوں کو جب یہ بتادیا جائے گا کہ اب ان پر موت نہیں آئے گی تب وہ حقیقت میں خوش ہوں گے۔
اہل جنت کو دنیا میں جو موت آئی تھی اس پہلی موت کے سوا ان کو اور کوئی موت نہیں آئے گی ‘ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اس آیت سے معلوم ہا کہ پھر قبر میں ان کو زندہ نہیں کیا جائے گا ورنہ پھر دو موتیں ہوجائیں گی اور جب ان کو قبر میں زندہ نہیں کیا جائے گا تو پھر عذاب قبر کی بھی نفی ہوجائے گی کیونکہ عذاب تو درد کے ادراک کو کہتے ہیں اور ادراک رندہ آدمی کرتا ہے ‘ مردہ ادراک نہیں کرتا ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں جو فرمایا وہ ان کو اس پہلی موت کے سوا اور موت نہیں آئے گی اس سے مراد دنیا کی موت ہے خواہ وہ قبر میں جانے کے بعد آئی ہو ‘ اسی طرح اس آیت میں بھی یہی مراد ہے :
لایذوقون فیھا الموت الا الموتۃ الاولی۔ (الدخان : ٥٦) جنت میں وہ پہلی موت کے سوا اور کسی موت کا مزہ نہیں چکھیں گے۔
اہل سنت کے نزدیک فرشتوں کے سوالات کے جوابات کے لیے مردہکو قبر میں زندہ کیا جاتا ہے لیکن یہ حیات تام اور مکمل نہیں ہوتی اور اس کا زمانہ بہت کم ہوتا ہے ‘ اہل جنت کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کو جنت میں موت نہیں آئے گی کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) ان کو دنیا میں بتادیتے ہیں کہ جنت میں دائمی حیات ہوگی یا جنت میں داخل ہوتے وقت فرشتے ان سے کہتے ہیں :
سلم علیکم طبتم فادخلوھا خلدین (زمر۔ ٧٣) تم پر سلام ہو ‘ تم نے اچھی زندگ گزاری ‘ اب جنت میں ہمیشہ رہنے کے لیے داخل ہو جائو ‘ ایک قول یہ ہے کہ اہل جنت کو ابتداء یہ علم نہیں ہوگا کہ ان کو موت نہیں آئے گی ‘ حتیٰ کہ موت کو ایک سرمئی مینڈھے کی شکل میں لاکر ذبح کردیا جائے گا ‘ پھر ندا کی جائے گی اے اہل جنت ! اب بغیر موت کے ہمیشہ رہنا ہے اور اے اہل دوزخ اب بغیر موت کے ہمیشہ رہنا ہے ‘ تب انہیں علم ہوگا اور وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اظہار کرتے ہوئے خوشی سے کہیں گے : کیا اب ہم مرنے والے نہیں ہیں سوا اس پہلی موت کے اور کیا ہم کو عذاب نہیں دیا جائے گا پھر تو بیشک یہ بہت بڑی کامیابی ہے (روح المعانی جز ٢٢ ص ١٣٨‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)
امام احمد نے سند صحیح ساتھ حضرت البراء بنعازب (رض) سے روایت کیا ہے کہ قبر میں میت کے جسم میں روح لوٹائی جاتی ہے ‘ پھر فرشتے اس سے سوال کرتے ہیں ‘ اور مومنکے لیے جنت سے کھڑکی کھول دی جاتی ہے اور کافر کے لیے دوزخ سے کھڑکی کھول دی جاتی ہے۔ (مسند احمد ج ٤ ص ٢٨٨۔ ٢٨٧ طبع قدیم)
لیکن قبر کی یہ حیات برزخی ہوتی ہے ‘ اس سے صرف ثاب کی لذتوں کا یا عذاب کی کلفتوں کا ادراک کیا جاتا ہے ‘ یہدنیاوی حیات کی طرح تام اور مکمل نہیں ہوتی اور اس میں حواس اور حرکت ارادیہ کے آثار مرتب نہیں ہوتے ‘ اور دنیاوی حیات کے مقابلہ میں یہ کالعدم ہوتی ہے اس لیے اس کا اعتبار نہیں کیا جاتا اس لیے قرآن میجد میں یہ ارشاد ہے کہ اہل جنت ‘ جنت میں سوا اس پہلی موت کے اور کسی موت کا مزہ نہیں چکھیں گے اور اس پہلی موت سے مراد وہ موت ہے جو دنیا میں روح کو قبض کرنے سے واقع ہوتی ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 58
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]