مبسملاوحامدا::ومصلیا ومسلما

ضروریات دین کے موضوعات ومحمولات

 

عدم توجہ اور بے التفاتی کے سبب کبھی بدہیات میں بھی شبہہ ہونے لگتا ہے۔ذراسی توجہ سے وہ شبہہ دور ہوجاتا ہے،لیکن بعض قلوب میں باطل شبہات اس قدر مستحکم ہوجاتے ہیں کہ ہر ممکن کوشش کے باوجود شبہات کا ازالہ مشکل ہوجاتا ہے۔

بسا اوقات اہل شبہہ کفروضلالت کی وادی میں بھٹکتا رہ جاتا ہے،یہاں تک کہ موت کا آہنی پنجہ اسے دبوچ لیتا ہے۔

کافر کلامی کوکافر ماننا ضروریات دین میں سے ہے۔یہ ایک بدیہی امر ہے،گر چہ بعض لوگوں کوشبہہ ہوجاتا ہے۔

چندمثالوں کے ذریعہ اس کی وضاحت مندرجہ ذیل ہے۔

(الف)منا طقہ کے یہاں یقینیات میں سے ہے کہ:”ہر انسان حیوان ناطق ہے۔

مذکورہ بالا قاعدہ کلیہ میں لفظ انسان موضوع ہے،پس جو بھی انسان ہوگا،وہ یقینی طورپرحیوان ناطق ہوگا۔اس کے موضوع کے تمام افراد پراس قاعدہ کے محمول یعنی حیوان ناطق کا حمل یقینی طورپرہوگا،اور انسان کے ہر فرد کا حیوان ناطق ہونا یقینییات میں سے ہوگا۔

(1)ناہدانسان ہے،او ر ہرانسان یقینی طورپرحیوان ناطق ہے،پس ناہد یقینی طورپر حیوان ناطق ہے۔

(2)خالد انسان ہے،اور ہرانسان یقینی طورپرحیوان ناطق ہے،پس خالد یقینی طورپر حیوان ناطق ہے۔

جب قاعدہ کلیہ یقینی ہے تو اس کے موضوع کے تمام افراد پرمحمول کا انطباق واطلاق یقینی طور پرہو گا۔اس میں نہ شبہہ کی گنجائش ہے،نہ شک کی کوئی راہ،لہٰذا ناہددخالد کا حیوان ناطق ہونا یقینیات میں سے ہوگا۔

(ب)جب کوئی قاعدہ کلیہ ظنیات میں سے ہوتو اس کے موضوع کے افراد پر محمول کا اطلاق وانطباق بھی ظنی طورپر ہوگا،مثلاً:جورات کو چھپ چھپ کر گھومتا ہے,وی چور ہے۔

مذکورہ بالا قاعدہ کلیہ ظنیات میں سے ہے۔اس میں ”جورات کوچھپ چھپ کر گھومتا ہے” موضوع ہے،پس جو بھی رات کوچھپ چھپ کرگھومے گا،وہ ظنی طورپرچورہوگا۔اس کے موضوع کے تمام افراد پراس قاعدہ کے محمول یعنی چور کا حمل ظنی طورپرہوگا۔

یہ قضیہ کلیہ ظنی ہے،کیوں کہ ممکن ہے کہ کوئی مجرم پولیس کے خوف سے چھپ چھپ کر رات کو گھومتا ہو۔یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی مظلوم کسی ظالم کے خوف سے چھپ چھپ کر گھومتا ہو۔

(ج) اہل اسلام کے یہاں یہ ضروریات دین میں سے ہے کہ: ہر گستاخ رسول کا فر ہے۔

(1)زید گستاخ رسول ہے،اور ہر گستاخ رسول کا کافرہونا ضروریات دین میں سے ہے، پس زید کا کافر ہونا ضروریات دین میں سے ہے۔

(2)بکر گستاخ رسول ہے،اور ہر گستاخ رسول کا کافرہونا ضروریات دین میں سے ہے، پس بکر کا کافر ہونا ضروریات دین میں سے ہے۔

یہ تمام نتائج بدیہی ہیں،شبہہ کی گنجائش نہیں،پھر بھی لوگ شبہہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

مذکورہ قاعدہ کلیہ”ہرگستاخ رسول کافرہے“۔ یہ ضروریات دین میں سے ہے،پس اس کے موضوع کے تمام افراد کا کافر ہونا ضروریات دین میں سے ہوگا۔ مذکورہ مثالوں میں زید وبکر کا کافر ہونا ضروریات دین میں سے ہوگا،جیسے ارباب منطق کے یہاں انسان کے تمام افرادکا حیوان ناطق ہو نایقینیات میں سے ہے۔اسی طرح قادیانی اور اشخاص اربعہ کا کافر ہونا ضروریات دین میں سے ہے۔

(د)جب قضیہ کلیہ کاذب اور غلط ہو تو اس کے موضوع کے افراد پر اس کے محمول کا اطلاق بھی غلط ہو گا,مثلا:ہر انسان چوپایہ ہے۔یہ ایک غلط اور کاذب قضیہ کلیہ ہے,پس انسان کے افراد یعنی زید و بکر پر چوپایہ کا حمل واطلاق بھی غلط ہو گا۔مثلا

(1)زید انسان ہے اور ہر انسان چوپایہ لہذا زید چوپایہ ہے۔

(2)بکر انسان ہے اور ہر انسان چوپایہ ہے,لہذا بکر چوپایہ ہے۔

مذکورہ بالا مثالوں میں کبری غلط ہے,لہذا نتیجہ بھی غلط ہے۔

الحاصل وہ قضیہ کلیہ جو کبری بنے,وہ یقینی ہو تو اس کے موضوع کے افراد یقینیہ کے لئے اس کے محمول کا ثبوت یقینی ہو گا۔

اگر وہ قضیہ کلیہ ظنی ہو تو اس کے موضوع کے افراد کے لئے اس کے محمول کا ثبوت بھی ظنی ہو گا۔

اگر وہ قضیہ کلیہ غلط ہو تو اس کے موضوع کے افراد کے لئے اس کے محمول کا ثبوت بھی غلط ہو گا۔

اسی طرح اگر وہ قضیہ کلیہ ضروریات دین سے ہو تو اس کے موضوع کے افراد کے لئے اس کے محمول کا ثبوت بھی ضروریات دین میں سے ہو گا۔

الغرض قضیہ کلیہ جیسا ہو گا۔اس کے موضوع کے افراد کے لئے محمول کا ثبوت بھی اسی نوعیت کا ہو گا۔

کافر کلامی کوکافر ماننا ضروری دینی کیسے؟

(1)کافر کلامی کوکافر کلامی ماننا ضروریات دین میں سے ہے۔

یہ اجماع متصل اورقرآن وسنت سے ثابت ہے۔

(2)متکلمین صرف ضروری دینی کے انکار پر حکم کفر عائد کرتے ہیں اور متکلمین کافر کلامی کے کفر کے انکار پر حکم کفر عائد کرتے ہیں۔ اس کا صریح مفہوم یہ ہوا کہ کافر کلامی کو کافر کلامی ماننا ضروریات دین میں سے ہے،ورنہ متکلمین منکر پر حکم کفر عائد نہیں فرماتے۔

کیاعہد حاضرکے کسی کا فرکوکافر ماننا ضروریات دین میں سے ہے؟

سوال:کیاکسی مدعی الوہیت کوکافرماننا ضروریات دین میں سے ہے؟

کیاجو اس کے کفر کا منکر ہو، وہ بھی کافر ہے؟

جواب:جس کا دعویٰ الوہیت،قطعی بالمعنی الاخص طورپرثابت ہوجائے، اور شرائط تکفیر کے تحقق کے بعد کفر کلامی کا حکم صحیح عائد ہوجائے،اس کو کافر ماننا ضروریات دین میں سے ہے۔اس میں اختلاف کی گنجائش نہیں۔

سوال:

ضروریات دین کا ثبوت جن دلائل اربعہ سے ہوتا ہے،زید یعنی مدعی الوہیت کے کفر کاثبوت ان دلائل سے نہیں ہوا، پھر اس کو کافر ماننا ضروریات دین میں سے کیسے ہوگیا؟

جواب:ضروریات دین کا ثبوت چار دلائل سے ہوتا ہے:(1)عقل صحیح (2) آیت قرآنیہ قطعی الدلالت (3)حدیث متواتر قطعی الدلالت (4)اجماع متصل۔

ضروریات دین مذکورہ دلائل اربعہ سے ثابت وماخوذ ہوتے ہیں۔ضروریات دین کے افراد وجزئیات کا ثبوت مذکورہ دلائل اربعہ کے علاوہ خبر متواتر اور حواس ظاہرہ سے بھی ہوتا ہے۔

خبرمتواتر اورحواس ظاہرہ سے حاصل ہونے والا علم بھی قطعی بالمعنی الاخص ہوتا ہے،جیسے مذکورہ دلائل اربعہ سے حاصل ہونے والا علم قطعی بالمعنی الاخص ہوتا ہے۔

افراد وجزئیات کا حکم خبر متواتر یاحواس ظاہر ہ سے ثابت نہیں ہوتا،بلکہ افراد وجزئیات کا اس کلی کا فرد وجزئی ہونا خبر متواتر یا حواس ظاہر ہ سے ثابت ہوتا ہے۔

مثلاً:ہر بت پرست کا فر ہے۔ اس قاعدہ کلیہ میں موضوع یعنی بت پرست کلی ہے،اوراس کلی کے لیے یہ حکم بیان گیا کہ وہ کافر ہے،اوریہ حکم ضروریات دین سے ہے،کیوں کہ بت پرست کا کافر ہونا قرآن وحدیث اور اجماع متصل سے ثابت ہے۔

اب ہم رام کو روزانہ مندر میں بت کوپوجتے ہوئے دیکھتے ہیں تو رام کا بت پرست ہونا ہمارے لیے حواس ظاہرہ (حاسہ بصر) سے ثابت ہوگیا۔اسی طرح رام کو بت کو اپنا معبود کہتے ہوئے بھی ہم سنتے ہیں تو حاسہ سمع سے بھی اس کا بت پرست ہونا ثابت ہو گیا،اور حواس ظاہر ہ سے جو علم حاصل ہو، وہ قطعی بالمعنی الاخص ہوتا ہے تو رام کا بت پرست کا ایک فرد ہونا قطعی بالمعنی الاخص ہوگیا۔

حاسہ سمع وبصرسے صرف رام کا بت پرست ہونا ثابت ہوا۔ اس کا کافر ہوناحاسہ سمع وبصرسے ثابت نہیں ہوا،بلکہ اس کا کافر ہو نا ان آیات قطعیہ واحادیث مقدسہ واجماع متصل سے ثابت ہوا،جن میں بت پرست کوکافر قرار دیا گیا ہے۔بت پرست کا فرد قطعی ثابت ہوتے ہی اس کے لیے کافر ہونے کا حکم ثابت ہوگیا،اور بت پر ست کا کافر ہونا ضروری دینی ہے تو رام کاکافرہونا بھی ضروری دینی ہوگیا۔

خبر متواتر سے معلوم ہواکہ رام بت پرست ہے تو اس کا بت پرست کاایک فرد ہونا قطعی ہوگیا،کیوں کہ خبر متواتر سے حاصل ہو نے والا علم قطعی ہوتا ہے۔

اب رام کا کافر ہونا انہی آیات واحادیث واجماع متصل سے ثابت ہوا، جن سے بت پرست کا کافرہونا ثابت ہوا۔موضوع کے فرد کاتعین خبر متواترسے ہوا۔

موضوع کے اس خاص فرداور جملہ افراد کا حکم قرآن حدیث سے ثابت ہوا۔

فردیت وجزئیت کا قطعی بالمعنی الاخص ثبوت قرآن مجید کی قطعی الدلالت آیت مقدسہ، قطعی الدلالت حدیث متواتریااجماع متصل سے بھی ہوتا ہے، اسی طرح حواس ظاہرہ اور خبر متواتر سے بھی فردیت وجزئیت کاقطعی بالمعنی الاخص ثبوت ہوتا ہے۔

اگر کچھ شک گزرتا ہے تو اس پر غور کریں کہ قرآن مقدس،احادیث متواترہ و عقائد ومسائل متواترہ اجماعیہ خبرمتواتر ہی کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں،جب قرآن مجید خبر متواتر سے موصول ہوتو قطعی ہوجائے،اور زید کے بت پرست ہونے کی بات خبرمتواتر سے معلوم ہوتو وہ ظنی رہ جائے، ایسا کیوں کرہوسکتا ہے۔

اسی طرح یہ غور کریں کہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے جوکچھ ہمیں ملا،وہ حواس ظایرہ ہی کے ذریعہ ملا ہے۔قرآن مجید،احادیث متواتر ہ وغیر متواتر ہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے صحابہ کرام نے سنا،اور افعال نبویہ کو دیکھا، اورپھر روایت فرمایا۔

اقوال نبویہ وافعال نبویہ کا مجموعہ ہی شریعت اسلامیہ ہے۔مکمل شریعت اسلامیہ حواس ظاہرہ کے ذریعہ امت کو ملی۔جب قرآن مجید حواس ظاہرہ کے ذریعہ امت کو موصول ہوتووہ قطعی ہوجائے اور زید کے بت پر ست ہونے کا علم حواس ظاہر ہ سے حاصل ہو،تووہ ظنی رہ جائے، ایسا کیوں کر ہوسکتا ہے۔

ضروریات دین کی دوقسمیں:

احکام جزئیہ اور احکام کلیہ

ضروریات دین میں دوقسم کے امور شامل ہیں:

(1)جزئی احکام (2) احکام کلیہ (قواعد کلیہ)

قرآن مجید،حدیث متواترواجماع متصل میں جزئی احکام اور کلی احکام موجود ہیں۔ اگرموضوع فرد خاص ہے تووہ حکم جزئی ہے۔

اگر موضوع کلی ہے تووہ حکم کلی ہے،یعنی موضوع کے تمام افراد کے لیے ہے۔ کلی احکام سے قواعد کلیہ بنائے گئے۔

ضروریات دین کی قسم اول:جزئی احکام:

جزئی احکام سے وہ احکام مرادہیں جن میں کسی جزئی اور فرد خاص کا حکم بیان کیا گیا ہو۔

جزئی احکام کی چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں:

(محمد رسول اللّٰہ) (سورہ فتح:آیت 29)

(ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین)

(سورہ احزاب:آیت40)

(اِنَّکَ لَمِنَ المُرسَلِینَ)(سورہ یٰسین:آیت 3)

قوم جن کے ایک خاص فرد، شیطان سے متعلق ارشا د الٰہی ہے:

(ابٰی واستکبر وکان من الکٰفرین)(سورہ بقرہ:آیت34)

مذکورہ بالا مثالوں سے واضح ہوگیا کہ قرآن مجید میں،اسی طرح احادیث مقدسہ میں جزئی وشخصی احکام بھی بیان کیے گئے ہیں۔

ضروریات دین کی قسم دوم:احکام کلیہ:

احکام کلیہ سے وہ احکام مرادہیں،جن میں کسی کلی کا حکم بیان کیا گیا ہو۔

چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں:

(والسّٰبقون الاولون من المہاجرین والانصار والذین اتبعوہم باحسان رضی اللّٰہ عنہم ورضوا عنہ) (سورہ توبہ:آیت100)

(والذین معہ اشداء علی الکفار ورحماء بینہم)(سورہ فتح:آیت29)

(اولئک علیہم صلوات من ربہم ورحمۃ واولئک ہم المہتدون)

(سورہ بقرہ:آیت157)

(اولئک علٰی ہدی من ربہم واولئک ہم المفلحون)

(سورہ بقرہ:آیت 5)

باب ضروریات کے احکام کلیہ واحکام جزئیہ کا ثبوت ضروریات دین کے دلائل اربعہ میں سے کسی دلیل سے ہوتا ہے،لیکن احکام کلیہ کے موضوع کے افراد کا تعین دلائل اربعہ سے ہونا ضروری نہیں،بلکہ دلائل اربعہ سے بھی کسی فرد کا ثبوت ہوسکتا ہے، اور ان کے علاوہ کسی بھی قطعی دلیل سے ہوسکتا ہے۔

حکم شرعی کاثبوت دلائل اربعہ سے ہوگا اور کسی فرد کی فردیت وجزئیت کا ثبوت کسی بھی قطعی دلیل سے ہوسکتا ہے۔قطعی دلائل یعنی علم یقینی کے تین اسباب ہیں:

(1)خبر صادق (قول رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام وخبرمتواتر)

(2)حواس خمسہ ظاہرہ (3) عقل صحیح۔

قول رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام میں قرآن مجید اور احادیث طیبہ شامل ہیں۔ اجماع متصل کا ماخذ قول رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام وفعل رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام ہوتا ہے۔

اس طرح ان تین یقینی دلائل کی تفصیل کی جائے تو چھ دلائل بن جاتے ہیں۔

(1)قرآن مجید (2)حدیث متواتر (3)اجماع متصل

(4)خبرمتواتر (5)عقل صحیح (6)حواس خمسہ ظاہرہ۔

ان میں سے چارضروریات دین کے دلائل ہیں۔

(1)عقل صحیح (2)آیت قرآنیہ قطعی الدلالت

(3)حدیث متواتر قطعی الدلالت (4)اجماع متصل۔

مذکورہ بالا چاردلائل کے بعددو دلائل باقی رہتے ہیں:

(1)خبر متواتر (2)حواس خمسہ ظاہرہ۔

کسی فرد کی فردیت وجزئیت کا قطعی بالمعنی الاخص ثبوت مذکورہ بالا دلائل ستہ میں سے ہرایک دلیل سے ہوجاتا ہے۔

عہد نبوی کے بعد افراد کا قطعی کا ثبوت کیسے ہوگا؟

وصال نبوی کے سبب قرآن وحدیث کا سلسلہ موقوف ہوچکا۔ اجماع متصل کا ماخذ بھی قول نبوی وفعل نبوی ہوتا ہے،پس اجماع متصل کا سلسلہ موقوف ہوگیا۔اب صرف قرآن وحدیث واجماع متصل کی روایت جاری ہے۔اب چھ قطعی دلائل میں سے تین قطعی دلائل موقوف ہوگئے تو جن امور میں حکم کے ثبوت کے لیے قطعیت کی ضرورت ہوتی ہے، مثلاً کفرکلامی کا حکم نافذہونے کے لیے قطعی طورپر ضروریات دین کی تکذیب کا ثبوت چاہئے تووہاں لا محالہ باقی ماندہ قطعی دلائل یعنی عقل صحیح،خبرمتواتر اور حواس ظاہرہ سے قطعی ثبوت کا لحاظ ہونا چاہئے،اور حکم شرعی جاری ہونا چاہئے۔

اگر یہ کہا جائے کہ جن افراد وجزئیات کے لیے قطعی حکم دلائل ثلاثہ یعنی قرآن مجید، حدیث متواترواجماع متصل میں بیان ہوچکے، اب حکم انہی افراد تک محدود رہے گا،اور دیگر افراد کے لیے حکم شرعی ثابت نہیں ہوگا تو یہ حکم شرعی کو معطل اور موقت قرار دیناہے، حالاں کہ مذہب اسلام قیامت تک کے لیے دین حق ہے،اوراس کے احکام بلا شرکت دیگر مذاہب سماویہ انفرادی طورپر قیامت تک جاری رہیں گے، پس ضروری ہے کہ جو دیگر دلائل ثبوت قطعی کا افادہ کرتے ہیں،ان دلائل کا لحاظ کیا جائے، پھر ان دلائل سے کسی فرد کی فرد یت کا قطعی ثبوت ہوجائے تو حکم شرعی نافذ کیا جائے،ورنہ احکام شرعیہ معطل ہوجائیں گے۔

اگر بالفرض حکم ان ہی افراد تک محدود ہوتا،جن کا ذکر قرآن مقدس،حدیث متواتر واجماع متصل میں ہوچکا ہے تو دیگر مومنین کو مومن نہیں مانا جاتا،نہ ہی دیگرکفار کو کافر کہا جاتا، کیوں کہ ان کا ذکردلائل ثلاثہ میں نہیں ہے۔

اسی طرح جس نبی کا ذکر دلائل ثلاثہ میں نہ ہوتا، لیکن خبر متواتر سے ان کانبی ہونا ثابت ہوتا تو ان کی نبوت کے انکار پر حکم کفر نہیں ہوتا،حالاں کہ اگر کسی نبی کی نبوت کا علم یقینی خبر متواتر سے حاصل ہوجائے تو ان کی نبوت کا انکار کفر کلامی ہے۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ دلائل ثلاثہ میں قریباًایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام میں سے اسم شریف کی صراحت کے ساتھ کسی کے مومن ہونے کا ذکر نہیں ملتا۔

نام کی تصریح کے ساتھ بعض صحابہ کرام واہل بیت عظام کے جنتی ہونے کا ذکر احادیث غیرمتواترہ میں ہے،احادیث متواترہ میں نہیں۔

جو جنتی ہو گا,وہ یقینا مومن ہو گا,پس ان احادیث طیبہ سے ان حضرات کے مومن ہونے کا ثبوت بھی فراہم ہوتا ہے,لیکن یہ متواتر احادیث نہیں۔لہذا یہ احادیث دلائل ثلاثہ سے خارج ہیں۔

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحبت کا ذکر قرآن مجید میں ہے،لیکن مومن ہونے کا ذکر نہیں۔صحبت کا ذکر بھی بلاتصریح اسم ہے،گرچہ وہاں آپ ہی مراد ہیں،اسی لیے ان کی صحبت کا انکار کفر کلامی ہے۔

اگر کسی صحابی کے مومن ہونے کا ذکر دلائل ثلاثہ میں ہوتا تو ان کو کافر کہنا کفرکلامی ہوتا کیوں کہ دلائل ثلاثہ (قرآن مقدس کی قطعی الدلالت آیت طیبہ،قطعی الدلالت حدیث متواتر،اجماع متصل)سے جوامردینی ثابت ہو،وہ ضروری دینی ہوتا ہے،اوراس کا انکار کفر کلامی ہوتا ہے،لیکن انفرادی طورپرکسی صحابی کی تکفیر،کفر کلامی نہیں۔

خوارج نے شیر خداحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تکفیر کی،لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان خوارج کی تکفیر نہیں فرمائی۔اگر دلائل ثلاثہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مومن ہونے کا ذکر ہوتا تو ضروران کے ایمان کا انکار کفر کلامی قرار پاتا،اور اس صورت میں خوارج کی تکفیر کلامی لازم ہوتی۔

جس حدیث نبوی میں حضرات عشرہ مبشرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے جنتی ہونے کی بشارت ہے،وہ حدیث متواتر نہیں۔اگر وہ حدیث متواتر ہوتی تو حضرات عشرہ مبشرہ کا مومن ہونا دلائل ثلاثہ سے ثابت ہوجاتا،کیوں کہ جنتی وہی ہوگا جومومن ہوگا۔

یہ امر بھی ممکن ہوتا کہ کسی صحابی کے مومن ہونے کا ذکر دلائل ثلاثہ میں ہوجائے،اس کے بعد وہ معاذاللہ کفروبت پرستی اختیار کر لے توپھر اس کی تکفیر لازم ہوتی۔نہار الرجال صحابی تھا،لیکن اس نے مسیلمہ کذاب کی جھوٹی نبوت کو مان لیا اور کفر پر اس کی موت ہوئی۔

افراد کا ثبوت خبرمتواتر اور حواس ظاہرہ کے ذریعہ:

ابوجہل کے بت پرست ہونے کا ثبوت خبر متواترسے ہوگیا تو ابوجہل کا بت پرست ہونایقینی ہے،یا ابوجہل کو بت پرستی کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا،یا اپنے کانوں سے اس کو بتوں کی معبود یت کاقرارکرتے سنا تو حاسہ سمع وحاسہ بصر کے ذریعہ اس کے بت پرست ہونے کا یقین ہوگیا۔اس طرح خبر متواتر یا حواس ظاہرہ کے ذریعہ ابوجہل کا یقینی طورپر بت پرست ہونا ثابت ہوگیا اور ہربت پرست کا کافر ہونا ضروریات دین میں سے ہے تو اب ابوجہل کا کافر ہونا ضروریات دین میں سے ہوگیا۔

اصل کلی کا حکم ضروریات دین میں سے ہے تو اس کلی کے افراد کا حکم بھی ضروریات دین میں سے ہوگا۔جب ہر بت پرست کاکافر ہوناضروریات دین میں سے ہے،اور ابوجہل یقینی طورپر بت پرست ہے تو اس کا کافر ہونا بھی ضروریات دین میں سے ہوگا۔

قواعد کلیہ کے موضوع کے حکم کا ثبوت دلائل اربعہ سے:

قواعد کلیہ جو ضروریات دین میں سے ہو، ان کے موضوع کا حکم دلائل اربعہ سے ثابت ہوگا،یعنی ضروریات دین کے جو چار دلائل ہیں،ان سے کسی بھی دلیل سے موضوع کے حکم کا ثبوت ہوگا۔وہ چار دلائل مندرجہ ذیل ہیں:

(1)عقل صحیح (2)آیت قرآنیہ قطعی الدلالت (3)حدیث متواتر قطعی الدلالت

(4) اجماع متصل

قواعد کلیہ کے موضوع کے کسی فرد کی فردیت کا ثبوت علم یقینی کے تمام اسباب سے ہوتا ہے۔وہ کل چھ اسباب ہیں۔ان میں سے کسی بھی سبب سے فرد کی فردیت وجزئیت قطعی طورپرثابت ہوجائے گی۔وہ دلائل ستہ مندرجہ ذیل ہیں:

(1)عقل صحیح (2)آیت قرآنیہ قطعی الدلالت (3)حدیث متواتر قطعی الدلالت

(4) اجماع متصل(5)خبر متواتر (6)حواس ظاہرہ۔

عقل حاکم ہوتو حکم عقلی ہوگا، شریعت حاکم ہوتوحکم شرعی ہوگا۔

کسی فرد کی فردیت کے ثبوت کے بعد کبھی عقل کا حکم نافذ ہوتا ہے،اور کبھی شریعت کا حکم نافذ ہوتا ہے۔اسی حاکم کے اعتبار سے حکم کو عقلی یا شرعی کہا جاتا ہے۔خواہ فردکی فردیت وجزئیت کسی بھی قطعی طریقہ پر ثابت ہوئی ہو۔

حکم کا ثبوت جس سے ہوتا ہے،حکم اسی جانب منسوب ہوتا ہے۔ کسی نبی نے نبوت کا دعویٰ کیا،مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام نے دعویٰ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نبی ورسول بناکر بھیجا ہے،اوران کواپنی کتاب انجیل عطا فرمائی ہے۔ اپنے دعویٰ کے ثبوت میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام نے معجزہ ظاہر فرمایا۔

جس مدعی نبوت سے معجزہ کا ظہور ہو تووہ سچے نبی ہوتے ہیں،یعنی نوع نبی کے ایک قطعی فرد ہوتے ہیں۔اب ان کے نبی ہونے کا فیصلہ انجیل کی کسی آیت سے نہیں ہوگا، کیوں کہ جب تک ان کو نبی نہ مانا جائے،تب تک انجیل کوبھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔

اب عقل فیصلہ کرتی ہے کہ انہوں نے اپنے دعویٰ پر یقینی ثبوت پیش کردیا ہے تو ان کا نبی ہونا قطعی اوریقینی ہے۔معجزہ کو انسان اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے، اوراسی معجزہ کے سبب کسی نبی کا نوع نبی کا ایک قطعی فرد ہونا ثابت ہوتا ہے،لیکن فیصلہ عقل کرتی ہے،اسی لیے کہا جاتا ہے کہ نبوت ورسالت کا ثبوت عقل پر موقوف ہے،اورشریعت کا ثبوت،نبوت کے ثبوت پر موقوف ہے،یعنی پہلے عقل کے فیصلہ کے مطابق نبی کونبی مانا جاتا ہے،پھر ان کے پیش کردہ دینی احکام کوتسلیم کیا جاتا ہے۔انہی احکام کا مجموعہ شریعت ہے۔

نبوت ورسالت کے علاوہ بھی متعدداعتقادیات کا ثبوت عقل سے ہوتا ہے،جیسے اللہ تعالیٰ کاوجود، صدق خداوندی،ارسال رسل،کلام، نبی کا صدق وغیرہ۔اگر ان امورکو شریعت سے ثابت مانا جائے تودور لازم آئے گا،کیوں کہ ان امور کی تصدیق وتسلیم اوران پرایمان کے بعد شریعت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ شریعت موقوف ہے اور عقل موقوف علیہ۔اگر مذکورہ بالا امور شریعت سے ثابت ہوں تو جن امور پر شریعت موقوف تھی،ان امور کا شریعت پر موقوف ہونا لازم آئے گا، یہی دور ہے۔ ہاں،ان امورعقلیہ کی تائید وتصدیق شریعت میں وار د ہوتی ہے۔تائید وتصدیق الگ ہے اور ثبوت واثبات الگ ہے۔

قال العلامۃ البدایونی ناقلًا عن ابن ابی شریف رحمہ اللّٰہ تعالٰی:(اِنَّ الشَّرعَ اِنَّمَا یَثبُتُ بالعقل فان ثبوتہ یتوقف علٰی دلالۃ المعجزۃ علٰی صدق المُبَلِّغِ وانما تثبتُ ہذہ الدلالۃُ بالعقل-فَلَو اَتَی الشَّرعُ بما یُکَذِّبُ العَقلَ وہو شَاہِدُہ لَبَطَلَ الشَّرعُ والعقل معًا)(المعتقد المنتقد: ص73-استنبول: ترکی)

ترجمہ:شریعت عقل سے ثابت ہوتی ہے،اس لیے کہ شریعت کا ثبوت نبی کی سچائی پر معجزہ کی دلالت پر موقوف ہے،اور معجزہ کی یہ دلالت عقل سے ثابت ہوتی ہے،پس اگر شریعت کوئی ایسی بات لائے جو عقل کی تکذیب کرے تو شریعت وعقل دونوں باطل ہو جائیں گی،کیوں کہ عقل شریعت کے لیے گواہ ہے۔

توضیح:شریعت کا ثبوت عقل سے ہوتا ہے۔ اگر شریعت کوئی ایسا حکم لائے،جس سے عقلی حکم باطل ہوجائے تو اس صورت میں عقل وشریعت دونوں کا بطلان ہوجائے گا،کیوں کہ موقوف علیہ کے بطلان سے موقوف خودبخود باطل ہوجاتا ہے۔

اسی لیے جب عقلی حکم وشرعی حکم میں اختلاف ہوتو شرعی حکم کوعقلی حکم کے موافق کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ حکم اعتقادیات سے متعلق ہے۔فقہی وعملی احکام کا ثبوت عقل سے نہیں ہوتا،نہ ہی وہاں عقلی حکم سے مطابقت کی ضرورت ہے۔

چوں کہ علم عقائد کا مبنیٰ عقل صحیح ہے،جو معجزہ کے سبب نبوت کوتسلیم کرتی ہے،اور پھر اسی تسلیم وتصدیق پر ساری شریعت کا مدار ہوتاہے،اس لیے علوم اعتقادیہ کوعقل کی طرف منسوب کرکے علوم عقلیہ کہا جاتا ہے،کیوں کہ اعتقادیات کے ابتدائی مسائل اوربہت اہم مسائل کا ثبوت عقل سے ہوتا ہے،مثلاً وجود باری تعالیٰ اورمتعددصفات الٰہیہ کا ثبوت،پھر نبوت ورسالت کا ثبوت،صدق الٰہی وصدق رسول علیہ السلام کا ثبوت عقل سے ہوتا ہے۔

قال صدر الشریعۃ البخاری:((والمذہب عندنا التوسط بینہما-اِذ لَا یُمکِنُ ابطالُ العقل بالعقل ولا بالشرع وہو مَبنِیٌ عَلَیہِ)اَیِ الشَّرعُ مَبنِیٌ علی العقل-لانہ مبنی علٰی معرفۃ اللّٰہ تَعَالٰی والعلم بوحدانیتہ والعلم بان المعجزۃَ دَالَّۃٌ عَلَی النُّبُوَّۃِ-وہٰذہ الامورُ لا تُعرَفُ شرعًا بل عقلًا قطعًا لِلدَّورِ)(التوضیح جلددوم:ص160)

ترجمہ:ہمار امذہب عقل وشرع کے درمیان اعتدال کا ہے،اس لیے کہ عقل کو نہ عقل سے باطل کرنا ممکن ہے،نہ ہی شرع سے باطل کرنا ممکن،کیوں کہ وہ عقل پر مبنی ہے،یعنی شریعت عقل پر مبنی ہے،اس لیے کہ شریعت اللہ تعالیٰ کی معرفت،اس کی وحدانیت کے علم اور اس بات کے علم پر مبنی ہے کہ معجزہ نبوت پر دلالت کرنے والا ہے،اور یہ امو ر شرعا معلوم نہیں ہوتے ہیں،بلکہ عقل سے معلو م ہوتے ہیں،دورکومنقطع کرنے کے لیے۔

قال التفتازانی:((قولہ قَطعًا لِلدَّورِ)یعنی اَنَّ ثبوت الشرع موقوفٌ علٰی معرفۃ اللّٰہ تعالٰی وکلامہ وبعثۃ الانبیاء بدلالۃ المعجزات-فَلَو تَوَقَّفَت مَعرفۃ ہذہ الامور علی الشرع لزم الدور)(التلویح جلددوم:ص161)

ترجمہ:یعنی شریعت کا ثبوت، معجزہ کی دلالت کے سبب اللہ تعالیٰ کی معرفت،کلام الٰہی کی معرفت اوربعثت انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کی معرفت پر موقوف ہے،پس اگر یہ امور شریعت پر موقوف ہوجائیں تو دور لازم آئے گا۔

توضیح: حضرات انبیائے کرام ومرسلین عظام علیہم الصلوٰۃوالسلام جو مذہبی احکام اپنی امتوں کو بتاتے ہیں،انہیں دینی احکام کا مجموعہ شریعت ہے۔معجزہ دیکھ کر عقل سلیم فیصلہ کرتی ہے کہ نبوت ورسالت کے یہ دعوید ار اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے سچے نبی ورسول ہیں،جن کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجا ہے، اس تسلیم وایمان کے بعد حضرات انبیائے کرام ومرسلین عظام علیہم الصلوٰۃوالسلام کے مذہبی فرمودات یعنی شرعی احکام کو قبول کیا جاتا ہے،پس شریعت کا ثبوت عقل پر موقوف ہے۔ عقل ہی مدار تکلیف ہے۔

حکم اپنے حاکم کی طرف منسوب ہوتاہے:

بطورتمثیل حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے عہد میں کسی نبی نے نبوت کا دعویٰ پیش فرمایا، اور ثبوت کے طورپر اپنا معجزہ پیش فرمایا۔ کسی نبی کی نبوت کے ثبوت کے لیے معجزہ ایک عقلی دلیل ہے،یعنی معجزہ دیکھ کر عقل صحیح ان کے دعوائے نبوت کو سچ تسلیم کرتی ہے،اور ان کو نبی مان لیتی ہے۔

معجزہ آنکھوں نے دیکھا،لیکن ان کے نبی ہونے کا فیصلہ عقل نے کیا تو حکم کو عقل کی طرف منسوب کیا جاتا ہے،اور کہا جاتا ہے کہ نبی کی نبوت عقل صحیح سے ثابت ہوتی ہے۔

عقل سے نبوت کے ثبوت کا یہی مفہوم ہے کہ عقل فیصلہ کرتی ہے کہ جس نے اپنے دعوائے نبوت کی سچائی وصداقت پر معجزہ ظاہر فرمایا،وہ اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں۔اس کا واضح مفہوم یہی ہے کہ جو فیصل وحاکم ہو گا،حکم اسی کی جانب منسوب ہوگا۔

دیوار کے پیچھے سے کسی انسان کی آواز آرہی ہے توآنکھوں نے دیکھا نہیں کہ وہاں کوئی انسان ہے،لیکن آواز سن کر عقل فیصلہ کرتی ہے کہ وہاں کوئی انسان ہے۔ آواز کی سماعت حاسہ سمع سے ہوگی،لیکن فیصلہ عقل کرتی ہے،اسی لیے اس کودلالت عقلیہ لفظیہ کہا جاتا ہے۔ دھواں دیکھنے کے بعد عقل فیصلہ کرتی ہے کہ وہاں آگ ہے۔دھواں کوآنکھوں نے دیکھا،لیکن فیصلہ عقل نے کیا،اس لیے اس کو دلالت عقلیہ غیر لفظیہ کہا جاتا ہے۔

آنکھ سے دھواں دیکھنے کے سبب اس کودلالت بصریہ غیر لفظیہ نہیں کہا گیا۔اسی طرح کانوں سے آواز سننے کے بعد اس کودلالت سمعیہ لفظیہ نہیں کہا گیا،بلکہ جس نے فیصلہ کیا، اسی کی طرف دلالت منسوب ہوئی،یعنی عقل کی طرف منسوب ہوکر دلالت عقلیہ کے نام سے موسوم ہوئی۔

معجزہ آنکھوں نے دیکھا،اسی معجزہ کے سبب ان مدعی نبوت کا نوع نبی کا ایک فرد ہونا قطعی طورپرثابت ہوا،لیکن حکم حاسہ بصر کی طرف منسوب نہ ہوا،بلکہ عقل کی طرف منسوب ہوا، اوریہ کہا گیا کہ نبی کی نبوت کا ثبوت عقل سے ہوتا ہے۔

شریعت کے سارے مسائل کی تصدیق نبی کونبی مان لینے پر موقوف ہے،اورنبی کے نبی ہونے کا فیصلہ عقل پر موقوف ہے،اسی لیے کہا جاتا ہے کہ شریعت عقل پرموقوف ہے۔

اسی طرح افراد کی فردیت ثبوت حواس ظاہرہ سے ہو، یا خبر متواتر سے۔فیصلہ شریعت کرتی ہے،یعنی شرعی اصولوں کے مطابق مومن یاکافر ہونے کا حکم عائدہوتا ہے تووہ حکم شرعی ہوگا،اور چوں کہ یہ حکم اس کے لیے قطعی بالمعنی الاخص ہے،اور قطعی بالمعنی الاخص شرعی حکم کوضروری دینی کہا جاتا ہے تو اس کا مومن یا کافر ہونا ضروری دینی ہوگا،اسی لیے کہا جاتا ہے کہ مومن کومومن اور کافر کوکافرماننا ضروریات دین سے ہے۔

الحاصل حکم اپنے حاکم کی طرف منسوب ہوگا۔ایمان وکفر کا فیصلہ شریعت کرتی ہے تووہ حکم شرعی ہوگا۔افرادکے ثبوت کے سبب کا لحاظ نہیں ہوگا۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے شیام کوبت پرستی کرتے دیکھا تووہ قطعی طورپر ہمارے نزدیک کا فر ہے،لیکن یہاں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ شیام کا کافر ہونا ہماری آنکھوں سے ثابت ہوا،بلکہ حاسہ بصرسے قطعی طورپربت پرست ہوناثابت ہوا،اور شرعی قانون کے اعتبارسے شیام کاکافر ہونا ثابت ہوا۔

کسی فردکی فردیت کا ثبوت الگ امر ہے،اور حکم شرعی کا ثبوت الگ امر ہے۔مکرہ ومجبور کو ہم نے بت پرستی کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا،لیکن اکراہ واجبار کے سبب وہاں حکم شرعی کا ثبوت نہیں ہوگا، لیکن حاسہ بصر سے اس کا قطعی طورپربت پرست ہونا ثابت ہے۔

شریعت اسلامیہ نے جبرواکراہ کے عذر کے سبب اس کے کا فر ہونے کا فیصلہ نہیں کیا تو ہم اسے کافر نہیں مانیں گے،گر چہ ہماری آنکھوں نے اسے بت پرستی کرتے دیکھا ہے۔

قسط اول میں یہ وضاحت پیش کی گئی کہ قضیہ کلیہ اگر یقینی ہوگا تو اس کے موضوع کے افرادپر اس کے محمول کا حمل واطلاق یقینی طورپر ہوگا،اور قضیہ کلیہ اگر ظنی ہوگا تو اس کے موضوع کے افراد پر اس کے محمول کا حمل واطلاق ظنی ہوگا۔

اسی طرح قضیہ کلیہ کاذبہ ہوتو اس کے موضوع کے افرادپر اس کے محمول کا حمل واطلاق کذب وغلط ہوگا۔

اسی طرح جب قضیہ کلیہ ضروریات دین میں سے ہوتو اس کے موضوع کے افراد پر اس کے محمول کا حمل واطلاق ضروریات دین سے ہوگا۔

نیز یہ بھی بیان کیا گیا کہ قاعدہ کلیہ جو ضروریات دین میں سے ہو، اس کے موضوع کے افرادکا تعین چھ دلائل سے ہوسکتا ہے۔

(1)عقل صحیح (2)آیت قرآنیہ قطعی الدلالت (3)حدیث متواتر قطعی الدلالت

(4) اجماع متصل(5)خبر متواتر (6)حواس ظاہرہ۔

ان میں سے تین دلائل وصال نبوی کے سبب منقطع ہوچکے ہیں اور تین دلائل باقی ہیں۔

قسط دوم میں مذکورہ بالا دلائل ستہ کی وضاحت اور مثالیں مرقوم ہیں۔

دلیل اول:عقل صحیح-افراد کا ثبوت عقل صحیح کے ذریعہ:

”نبی“ایک نوع ہے۔اس کے افراد کا ثبوت عقل صحیح کے ذریعہ ہوتا ہے۔ نبی ورسول اپنی نبوت ورسالت کی نشانی اور دلیل کے طورپر معجزہ ظاہر فرماتے ہیں۔ معجزہ دیکھ کر عقل صحیح ان کی نبوت وپیغمبری کو صحیح قرار دیتی ہے،پس نوع نبی کے افرادکاتعین عقل کے ذریعہ ہوتا ہے۔

دلیل دوم:قرآن مجید کی قطعی الدلالت آیت مقدسہ:

افراد کا ثبوت قرآن مجیدکی قطعی الدلالت آیت مقدسہ کے ذریعہ

متعددانبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کی نبوت ورسالت کا ذکر قرآن مجید میں ہے، پس ان انبیائے عظام علیہم الصلوٰۃ والسلام کا نبی و رسول ہونا قرآن مجید سے ثابت ہوا۔

(واذکر فی الکتٰب موسی انہ کان مخلصًا وکان رسولا نبیا)

(سورہ مریم:آیت51)

(واذکر فی الکتٰب اسماعیل انہ کان صادق الوعد وکان رسولا نبیا)

(سورہ مریم:آیت54)

(واذکر فی الکتب ادریس انہ کان صدیقا نبیا)(سورہ مریم:آیت 56)

قرآن مجید میں قوم فرعون کے ایک مومن کا ذکر ہے،جسے مومن آل فرعون کہا گیا۔

(وقال رجل مؤمن من آل فرعون یکتم ایمانہ:الاٰیۃ)(سورہ غافر:آیت 28)

مومن آل فرعون کے مومن ہونے کا ثبوت قرآن مقدس میں موجودہے۔

سورہ یٰسین شریف میں بھی عہد عیسوی کے چند مبلغین اور ایک مومن کا ذکر ہے۔

(واضرب لہم مثلا اصحاب القریۃ اذجاء ہا المرسلون::اذ ارسلنا الیہم اثنین فکذبوہما فعززنا بثالث فقالوا انا الیکم مرسلون)

(سورہ یٰسین:آیت 13-14)

توضیح:آیات منقوشہ بالا میں مرسلین سے مبلغین مرادہیں۔شخص ثالث سے حضرت شمعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ مراد ہیں۔حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اپنے دوحواری کو تبلیغ دین کے واسطے انطاکیہ بھیجا تھا۔ان دونوں کی تبلیغ سے انطاکیہ کے حبیب نجار ایمان لائے تھے۔قبول ایمان کے بعدوہ پہاڑ کے غار میں مصروف عبادت ہوگئے۔

بعض مفسرین نے فرمایاکہ ان دونوں کے نام یوحنا اور بولس تھے۔بعض نے فرمایا کہ دونوں کے نام صادق ومصدوق تھے۔

ان دونوں مبلغین نے باشندگان انطاکیہ کو دین کی تبلیغ فرمائی۔اہل انطاکیہ نے انکار کیا،تب حبیب نجار غار سے نکل کر آئے،اور گاؤں والوں کوسمجھایا۔ قرآن مجیدمیں ہے۔

(وجاء من اقصا المدینۃ رجل یسعٰی قال یقوم اتبعوا المرسلین:: اتبعوا من لا یسئلکم اجرًا وہم مہتدون::ومالی لا اعبد الذی فطرنی والیہ ترجعون::ء اتخذ من دون اللہ آلہۃ ان یردن الرحمن بضر لا تغن عنی شفاعتہم شیئا ولا ینقذون::انی اذا لفی ضلال مبین::انی آمنت بربکم فاسمعون::(سورہ یٰسین:آیت25-20)

دلیل سوم وچہارم:قطعی الدلالت حدیث متواتر واجماع متصل:

افراد کا ثبوت قطعی الدلالت حدیث متواتر واجماع متصل کے ذریعہ:

جیسے قرآن مجید سے افراد کا ثبوت ہوتا ہے،ویسے ہی حدیث متواتر اور اجماع متصل سے بھی افراد کا ثبوت ہو گا۔ اجماع متصل سے قرآن مجید کا کتاب الٰہی ہونا ثابت ہے۔ کتاب الٰہی ایک نوع ہے۔

توریت،انجیل،زبور،قرآن مجید اس نوع کے افراد ہیں۔

دلیل پنجم:حواس ظاہرہ-افراد کا ثبوت حواس ظاہرہ کے ذریعہ:

قاعدہ کلیہ کے موضوع کے افراد کا یقینی ثبوت مذکورہ دلائل ثلاثہ کے علاوہ عقل صحیح،خبر متواتر اور حواس ظاہر ہ سے بھی ہوتا ہے۔جب کسی فرد کی فردیت یقینی ہوجائے تو موضوع کلی کے لیے جوحکم بیان کیا گیا ہے، وہ حکم اس فرد کے لیے یقینی طورپر ثابت ہوگا۔

حواس ظاہرہ کے ذریعہ فردیت کے ثبوت کاذکر منقو شہ ذیل آیت مقدسہ میں ہے۔

قال اللّٰہ تعالٰی:(یٰٓاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا اِذَا ضَرَبتُم فِی سَبِیلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَن اَلقٰی اِلَیکُمُ السَّلٰمَ لَستَ مُؤمِنًا تَبتَغُونَ عَرَضَ الحَیٰوۃِ الدُّنیَا فَعِندَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیرَۃٌ کَذٰلِکَ کُنتُم مِّن قَبلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیکُم فَتَبَیَّنُوا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعمَلُونَ خَبِیرًا)(سورہ نسا:آیت94)

توضیح: ایک سریہ کے موقع پر کافروں کی آبادی میں رہنے والے ایک مسلمان، صحابہ کرام کے لشکر کودیکھ کر نہ بھاگے،کیوں کہ وہ مسلمان تھے۔ ان کی قوم کے لوگ بھاگ گئے۔

اس مسلمان نے اسلامی لشکر کو مسلمانوں کے طریقے پر سلام کیا۔مسلمانوں نے سمجھا کہ یہ محض اپنی جان بچانے کے لیے ایسا کررہے ہیں اورانہیں قتل کردیا۔

اسی موقع پریہ آیت مقدسہ نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ جب کوئی سلام کرے تو بلاتحقیق اسے کافر سمجھ کرقتل نہ کیا جائے،کیوں کہ اس نے اسلام ظاہر کیا تو اسے ابتدائی مرحلہ میں مسلما ن ہی سمجھا جائے گا،پھر تحقیق کے بعد جوحقیقت ظاہرہو، اس پرعمل ہوگا۔

منقوشہ بالاآیت مقدسہ میں حواس ظاہرہ کے ذریعہ کسی فرد کے تعین کی واضح دلیل ہے۔ہجرت سے قبل مومنین بھی مکہ معظمہ میں کفار کے درمیان اقامت گزیں تھے،بلکہ ہجرت کے بعد بھی بہت سے ضعیف وناتواں لوگ مکہ مکرمہ سے نکل نہ پائے،پس کفار کے درمیان اقامت گزینی کو دلیل بناکر اسے کافر نہیں سمجھا جائے گا،بلکہ جو کلمہ اسلام یا شعار اسلام اس سے ظاہر ہو،اس اعتبارسے اسے مسلمان تسلیم کیا جائے گا۔

امام جلال الدین سیوطی شافعی (۹۴۸؁ھ-۱۱۹؁ھ)نے آیت منقوشہ بالا کی تفسیر میں بہت سی حدیثیں نقل فرمائی ہیں۔ان سے بالکل واضح ہے کہ کوئی آدمی کسی کے سامنے اسلامی کلمہ پڑھے،یا اسلامی شعارکا اظہار کرے تواسے مومن سمجھا جائے گا۔ان احادیث طیبہ سے واضح ہے کہ حواس ظاہرہ کے ذریعہ کسی کی فردیت کاتعین ہوگا۔

کوئی کلمہ اسلام پڑھے تو کانوں سے سناجائے گا۔کوئی اسلامی شعار اختیار کرے تو آنکھوں سے دیکھا جائے گا،مثلاً اسلامی لباس پہنے۔بعض شعار اسلامی مثلاً اذان دے تو کانوں سے سنا جائے گا۔کلمہ اسلام پڑھنے والوں اورشعار اسلامی اختیار کرنے والوں کو مومن سمجھا جائے گا۔

اس سے واضح ہوگیا کہ فرد کی فردیت کا تعین حاسہ سمع وبصر بھی ہوگا۔

دل کی حالت سے کوئی عام انسان باخبر نہیں،بلکہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو کیسے اس کے ایمان کا علم ہواتوارشاد فرمایا:اس کی زبان سے،یعنی اقرارمعتبر ہے۔

اقرار اورسماعت اقرار،یا کسی اسلامی فعل کی ادائیگی اور دوسروں کواس کا ادراک،یہ تمام امورحواس ظاہرہ سے انجام پاتے ہیں۔

حدیث اول:

(1)قال السیوطی:(اخرج ابن ابی حاتم عن ابن عباس قال:کان الرجل یتکلم بالاسلام ویؤمن باللّٰہ والرسول،ویکون فی قومہ-فاذا جائت سریۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اخبر بہا حیہ،یعنی قومہ-واقام الرجل لا یخاف المؤمنین من اجل انہ علٰی دینہم حتی یلقاہم فیلقی الیہم السلام فیقولون:لست مؤمنًا وقد القی السلٰم فیقتلونہ فقال اللّٰہ تعالٰی:

یا ایہا الذین آمنوا اذا ضربتم فی سبیل اللّٰہ فتبینوا-الٰی-تبتغون عرض الحیاۃ الدنیا

یعنی تقتلونہ ارادۃ ان یحل لکم مالہ الذی وجدتم معہ وذلک عرض الحیاۃ الدنیا فان عندی مغانم کثیرۃ-والتمسوا من فضل اللّٰہ۔

وہو رجل اسمہ مرداس،خلی قومہ ہاربین من خیل بعثہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علیہا رجل من بنی لیث اسمہ قلیب-حتی اذا وصلت الخیل سَلَّمَ علیہم فقتلوہ فامر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لاہلہ بدیتہ-ورد الیہم مالہ ونہی المؤمنین عن مثل ذلک)

(الدر المنثور فی التفسیر الماثور:جلددوم:ص634-مکتبہ شاملہ)

حدیث دوم:

(2)قال القرطبی:(حدثنا بشربن معاذقال،حدثنا یزید قال،حدثنا سعید عن قتادۃ قولہ:یا ایہا الذین آمنوا اذا ضربتم فی سبیل اللّٰہ فتبینوا، الاٰیۃ-قال:وہذا الحدیث فی شأن مرداس رجل من غطفان-ذکر لنا ان نبی اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعث جیشا علیہم غالب اللیثی الی اہل فدک-وبہ ناس من غطفان وکان مرداس منہم۔

ففر اصحابہ فقال مرداس-انی مؤمن وانی غیر متبعکم-فصبحتہ الخیل غدوۃ فلما لقوہ سلم علیہم مرداس-فرماہ اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقتلوہ واخذوا ما کان معہ من متاع فانزل اللّٰہ جل وعزفی شانہ-ولا تقولوا لمن القی الیکم السلام لست مؤمنًا-لان تحیۃ المسلمین السلام-بہا یتعارفون وبہا یحیی بعضہم بعضا)

(تفسیر قرطبی:جلد9 ص77-مکتبہ شاملہ)

(الدر المنثور فی التفسیر الماثورجلددوم:ص634-مکتبہ شاملہ)

ترجمہ:حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کلام الٰہی (یا ایہا الذین آمنوا اذا ضربتم فی سبیل اللّٰہ فتبینوا)کی تفسیر میں فرمایا:یہ کلام قبیلہ غطفان کے ایک شخص مرداس کے بارے میں ہے۔ہمیں بتایا گیاکہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اہل فدک کی طرف ایک لشکر روانہ فرمایا۔اس کے امیر غالب لیثی تھے۔فدک میں قبیلہ غطفان کے کچھ لوگ تھے،اور انہیں میں مرداس تھے،پس مرداس کے لوگ بھاگ گئے تو مرداس نے کہا:میں مومن ہوں اور میں تم لوگوں کے ساتھ جانے والا نہیں۔

پس گھوڑسواروں کا قافلہ صبح سویرے انہیں آلیا۔صحابہ کرام نے انہیں تیر مار کر ہلاک کردیا اور جو کچھ ان کے پاس مال ومتاع تھا،وہ لے لیے،پس اللہ تعالیٰ تعالیٰ نے ان کے بارے میں نازل فرمایا:(جو تمہیں سلام کرے،اسے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو)،اس لیے کہ مسلمانوں کی تحیت سلام ہے۔اسی کے ذریعہ وہ پہچانے جاتے ہیں اور اسی کے ذریعہ ان میں سے بعض،بعض کو تحیت پیش کرتے ہیں۔

توضیح:منقولہ بالا دونوں حدیثوں سے واضح ہوگیا کہ سلام کرنا مسلمان ہونے کی علامت ہے۔ جب کوئی سلام کرے تو اسے مسلمان سمجھا جائے گا۔ہاں،کوئی ظاہری علامت مسلمان ہونے کی مخالفت کرے تواس کا بھی لحاظ کیا جائے گا،مثلاً کوئی پنڈت جو زنار باندھے،ماتھے پر قشقہ لگائے اور دیگر علامتوں کے ساتھ ہوتو اسے مومن نہیں سمجھا جائے گا۔

اسلام کے قرن اول میں عرب میں ”السلام علیکم“ کہنا مسلمانوں کا ہی طریقہ تھا۔ دیگر اقوام کی تحیت وسلام کا طریقہ جداگانہ تھا،اس لیے یہ اسلامی تحیت قائل کے مسلم ہونے کی علامت اور دلیل تسلیم کی جائے گی۔یہ شبہہ کہ اپنی جان کے خوف سے اس نے اسلام ظاہر کیا ہوتو اس شبہہ کے سبب اس کوکافر نہیں کہا جاسکتا۔

حدیث سوم:

(3)قال السیوطی:(اخرج ابن ابی حاتم والبہیقی فی الدلائل عن الحسن:ان ناسا من اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذہبوا ینطرقون فلقوا اناسا من العدو فحملوا علیہم فہزموہم فشد رجل منہم فتبعہ رجل یرید متاعہ فلما غشیہ بالسنان-قال:انی مسلم،انی مسلم۔

فاوجرہ السنان فقتلہ واخذ متیعہ فرفع ذلک الٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم للقاتل:أ قتلتہ بعد ان قال انی مسلم؟قال:یا رسول اللّٰہ! انما قالہا متعوذًا-قال:أ فلا شققت عن قلبہ؟قال:لم یا رسول اللّٰہ؟ قال:لتعلم أ صادق ہو او کاذب! قال:وکنت عالم ذلک یا رسول اللّٰہ! قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:انما کان یعبر عنہ لسانہ-انما کان یعبر عنہ لسانہ-الحدیث)

(الدر المنثور فی التفسیر الماثور:جلددوم:ص635-مکتبہ شاملہ)

توضیح:حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ زبان یعنی اس آدمی کا اقرار ایمان کو ظاہر کررہا ہے۔یہی اقرار ہی ایمان کا معیار ہے۔اسی طرح کفر کا اقرار کفر کی علامت ہے۔ دل کی کیفیت پرنہ ہم مطلع ہیں،نہ ہمیں قلبی کیفیت کی جانکاری کا مکلف بنایا گیا،پس جو ایمان کا اقرار کرے،ہم اسے مومن تسلیم کریں گے۔

حدیث چہارم:

(4)(عن اسامۃ بن زید قال:بعثنا رسول االلّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سریۃ الی الحرقات،فنذروا بنا فہربوا- فادرکنا رجلا فلما غشیناہ،قال:لا الہ الا اللّٰہ فضربناہ حتی قتلناہ فذکرتُہ للنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔

فقال:من لک بلا الٰہ یوم القیامۃ؟ فقلت:یا رسول اللّٰہ! انما قالہا مخافۃ السلاح۔قال:ا فلا شققت عن قلبہ حتی تعلم،من اجل ذلک قالہا ام لا-من لک بلا الٰہ الا اللّٰہ یوم القیامۃ-فما زال یقولہا حتی وددت انی لم اسلم الا یومئذ)(سنن ابی داؤد:باب علی ما یُقُاتُلُ المشرکون)

ترجمہ:حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا کہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہمیں (قبیلہ جہینہ کے) قبیلہ حرقات کی طرف ایک سریہ میں بھیجا،پس وہ لوگ ہماری آمد کا احساس کرکے بھاگ گئے تو ہم نے ان میں سے ایک آدمی پالیا، پس جب ہم نے اس پر حملہ کیا تو اس نے کہا:لا الہ الا اللہ،تو ہم نے اسے مارا،یہاں تک کہ ہم نے اسے ہلاک کر دیا، پھر میں نے اس کا ذکر حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے کیا۔

پس آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تیرے لیے قیامت کے دن ”لاالہ الا اللہ“کے بالمقابل کون ہوگا؟میں نے عرض کی۔یارسول اللہ!(صلی اللہ علیہ وسلم) اس نے ہتھیار کے خوف سے ایسا کہا۔آ پ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:کیوں تم نے اس کا دل نہیں چیرا،تاکہ تمہیں معلوم ہوجاتا کہ اس نے خوف کی وجہ سے کہا یا نہیں! تیرے لیے قیامت کے دن ”لاالہ الا اللہ“کے بالمقابل کون ہوگا؟حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اسے کہتے رہے،یہاں تک کہ میری خواہش ہوئی کہ آج ہی میں اسلام لاتا۔(کیوں کہ اسلام کے سبب ماقبل اسلام کے جرائم وگناہ معاف ہوجاتے ہیں)

توضیح:منقولہ بالا حدیث شریف میں ہے کہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہما ایک سریہ میں گئے۔مخالف لوگ لشکر اسلامی کو دیکھ کربھاگ کھڑے ہوئے۔ایک آدمی بھاگ نہیں سکا،وہ گرفت میں آگیا۔اب اسے اپنی موت نظر آنے لگی۔جب حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر حملہ کا ارادہ فرمایا تواس نے کلمہ اسلام پڑھ لیا۔

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمجھے کہ یہ آدمی صرف اپنی جان بچانے کے واسطے اسلامی کلمہ پڑھ رہا ہے،اس لیے انہوں نے اسے قتل کردیا۔حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بات حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عرض کی۔حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس واقعہ پرسخت ناراضگی کا اظہار فرمایا۔

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے عرض کیا:یا رسول اللہ!(علیہ الصلوٰۃو السلام) اس آدمی نے صرف قتل کے خوف سے کلمہ پڑھا تھا۔

حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جواب میں ارشادفرمایا کہ تم اس کا دل چیر کر دیکھ لیتے کہ وہ قتل کے خوف سے کلمہ پڑ ھا تھا،یا نہیں؟

اس حدیث مبارک سے واضح ہوگیا کہ کوئی آدمی ہمارے سامنے اسلامی کلمہ پڑھ لے تو اسے مومن ماننا ہوگا۔شریعت کا حکم ظاہر پر ہوتا ہے۔

اگر کوئی اپنے دل میں کفر چھپاکر رکھا ہے تو وہ عند اللہ کافر ہوگا۔ہمیں اس کے ظاہر کے اعتبار سے مومن ماننا ہوگا،جب تک کہ اس سے اسلام کے منافی کوئی قول یافعل صادر نہ ہو۔ابتدائی عہد میں منافقین کومومن سمجھا جاتا تھا،پھر حکم الٰہی کے بعد ان کوالگ کیا گیا۔

چوں کہ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے کافر سمجھ کرقتل کیا اور اس نے پہلے ایمان کا اظہار نہیں کیا،بلکہ جب اپنی موت دیکھا، تب کلمہ پڑھا۔اس سے یہی متبادر ہے کہ اس نے موت کے خوف سے کلمہ پڑھا،اسی لیے یہاں دیت کا حکم نہیں ہوا،بلکہ صرف یہ سخت حکم بتایا گیا کہ ایسے موقع پر بلاتحقیق کوئی کاروائی نہ ہو،تاکہ آئندہ ایسے موقع پر قتل سے پرہیز کیا جائے۔

قال الخطابی فی شرح الحدیث:(فیہ من الفقہ ان الکافر اذا تکلم بالشہادۃ-وان لم یصف الایمان وجب الکف عنہ والوقوف عن قتلہ- سواء کان بعد القدرۃ علیہ او قبلہا۔

وفی قولہ:ہلا شققت عن قلبہ دلیل علی ان الحکم انما یجری علی الظاہر-وان السرائر موکولۃ الی اللّٰہ سبحانہ۔

وفیہ انہ لم یلزمہ مع انکارہ علیہ الدیۃ-ویشبہ ان یکون المعنی فیہ ان اصل دماء الکفار الاباحۃ-وکان عند اسامۃ انہ انما تکلم بکلمۃ التوحید مستعیذا من القتل،لا مصدقا بہ-فقتلہ علی انہ کافر مباح الدم-فلم تلزمہ الدیۃ-اذ کان فی الاصل مامورًا بقتالہ-والخطاء عن المجتہد موضوع۔

ویحتمل ان یکون قد تأول فیہ قول اللّٰہ:(فلم یک ینفعہم ایمانہم لما رأوا)(غافر:85)وقولہ فی قصۃ فرعون:(الاٰن وقد عصیت قبل وکنت من المفسدین)(یونس:۱۹)فلم یخلصہم اظہار الایمان عند الضرورۃ والارہاق من نزول العقوبۃ بساحتہم ووقوع بأسہ بہم)

(معالم السنن:جلددوم:ص14-مکتبہ شاملہ)

ترجمہ:امام خطابی نے حدیث کی شرح میں رقم فرمایا:اس حدیث میں یہ فقہ ہے کہ کافر جب کلمہ شہادت بولے،اگر چہ وہ ایمان سے متصف نہ ہوتو بھی اس سے رک جاناہے، اور اس کے قتل سے توقف کرنا ہے، خواہ اس پر قدرت کے بعد کلمہ پڑھا ہو، یا قدرت سے قبل۔

حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فرمان:(ہلا شققت عن قلبہ) میں اس بات پر دلیل ہے کہ حکم شریعت ظاہر پر جاری ہوتا ہے اور پوشیدہ امور اللہ تعالیٰ کے سپردہوتے ہیں۔

اس حدیث میں یہ فقہ بھی ہے کہ اس آدمی کے انکار کفر کے باوجود(اس کے قتل پر) حضرت اسامہ بن زید پر دیت کا حکم لازم نہیں ہوا۔

ممکن ہے کہ اس کا سبب یہ ہوکہ (حربی) کفار کے خون کا حلال ہونا اصل ہے،اور حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے یہ بات تھی کہ اس نے قتل سے پناہ طلب کرنے کے واسطے کلمہ توحید بولا، نہ کہ کلمہ اسلام کی تصدیق کے طورپر،پس انہوں نے اس بنیاد پر قتل کیا کہ وہ کافر حربی مباح الدم تھا تو ان پر دیت لازم نہیں آئی،کیوں کہ وہ اصل میں اس سے قتال پر مامور تھے،اور مجتہد کی خطا معاف ہوتی ہے۔

اور یہ احتمال بھی ہے کہ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کافر کے بارے میں فرمان الٰہی (فلم یک ینفعہم ایمانہم لما رأوا)کی تاویل کی ہو، اور فرعون کے قصہ میں (الاٰن وقد عصیت قبل وکنت من المفسدین)کی تاویل کی ہو،پس ضرورت اور مصیبت کے وقت ایمان کا اظہار ان پر عذاب نازل ہونے اور ان پر اللہ کا عذاب طاری ہونے سے نہ بچاسکا۔(اسی طرح حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قتل کے وقت قبول ایمان کو غیر معتبر قراردیا ہو، اور اسے قتل کردیا ہو)

حدیث پنجم:

(5)(عن المقداد بن الاسود انہ اخبرہ انہ قال:یا رسول اللّٰہ! أ رأیت ان لقیت رجلا من الکفار فقاتلنی فضرب احدی یدی بالسیف ثم لاذ منی بشجرۃ فقال:اسلمت لِلّٰہ أ فاقتلہ یا رسول اللّٰہ بعد ان قالہا؟قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم-لا تقتلہ-فقلت:یا رسول اللّٰہ! انہ قطع یدی۔

قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:لا تقتلہ-فان قتلتہ فانہ بمنزلتک قبل ان تقتلہ-وانت بمنزلتہ قبل ان یقول کلمتہ التی قال)

(سنن ابی داؤد:باب علی ما یُقُاتُلُ المشرکون)

ترجمہ:حضرت مقدادبن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا:یا رسول اللہ!(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)آپ کیا ارشادفرماتے ہیں کہ اگر میں کفار میں سے کسی شخص سے ملوں،وہ مجھ سے جنگ کرے،پس وہ میرے ایک ہاتھ کو تلوار سے کاٹ دے،پھر وہ مجھ سے کسی درخت کی پناہ لے لے،پس کہے کہ میں نے للہ اسلام قبول کیا تو کیا میں ایسا کہنے کے باوجود اسے قتل کردوں، یا رسول اللہ؟(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)

حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم اسے قتل نہ کر و۔میں نے عرض کی۔یا رسول اللہ!(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)اس نے میرے ہاتھ کوکاٹ دیا۔

حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم اسے قتل نہ کر و،پس اگر تم نے اسے قتل کردیا تووہ تمہاری منزل میں ہے، تمہارا اس کو قتل کرنے سے قبل، اور تم اس کی منزل میں ہو،اس کے اس کلمہ کہنے سے قبل جسے اس نے کہا۔

توضیح:اگر مومن نے کلمہ پڑھنے والے کوقتل کردیا تو وہ کلمہ پڑھنے والااس مومن کی منزل میں ہوگا،یعنی اس کا خون محفوظ ہوگا،اوراس کے قتل پرقصاص یا دیت کا حکم ہوگا،جیسے اس کلمہ خواں کے قتل سے قبل اس مومن کی حالت تھی کہ اس کا خون محفوظ تھا۔

اور مومن قاتل اس کلمہ خواں کی منزل میں ہے،اس کی کلمہ خوانی سے قبل جو اس کی حالت تھی کہ اس کاخون محفوظ نہیں تھا،یعنی اب قتل کے بعد اس مومن کا خون محفوظ نہیں،بلکہ قصاص میں اسے قتل کیا جائے گا،یا شبہہ کے سبب اسے دیت دیناہوگا۔

قال ابو سلیمان الخطابی فی شرحہ:(وانما وجہہ انہ جعلہ بمنزلتہ فی اباحۃ الدم-لان الکافر قبل ان یسلم مباح الدم بحق الدین-فاذا اسلم، فقتلہ قاتل،فان قاتلہ مباح الدم بحق القصاص)

(معالم السنن:جلددوم:ص15-مکتبہ شاملہ)

تر جمہ:اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مومن کو اس کافر کی منزل میں کردیا خون کے مباح ہونے کے سلسلے میں، اس لیے کہ کافر اسلام قبول کرنے سے قبل دین کفر کے سبب اس کا خون مباح تھا، پس جب وہ اسلام قبول کرلے،پھر اسے کوئی قاتل قتل کردے تو اس کے قاتل کا خون حق قصاص کے سبب مباح ہے۔

حدیث ششم:

(6)(عن جریر بن عبد اللّٰہ قال:بعث رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سریۃ الٰی خثعم فاعتصم ناس منہم بالسجود فاسرع فیہم القتل- قال:فبلغ ذلک النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فامر لہم بنصف العقل-وقال: انا بری من کل مسلم یقیم بین اظہر المشرکین-قالوا: یا رسول اللّٰہ:لم؟ قال:لا ترأی ناراہما)(سنن ابی داؤد:باب علی ما یُقُاتُلُ المشرکون)

قال ابو سلیمان الخطابی فی شرحہ:(قلت:انما امرلہم بنصف العقل ولم یکمل لہم الدیۃ بعد علمہ باسلامہم،لانہم قد اعانوا علٰی انفسہم بمقامہم بین ظہرانی الکفار-فکانوا کمن ہلک بجنایۃ نفسہ وجنایۃ غیرہ-فسقط حصۃ جنایتہ من الدیۃ۔

واما اعتصامہم بالسجود فانہ لا یمحص الدلالۃ علٰی قبول الدین- لان ذلک قد یکون منہم فی تعظیم السادۃ والرؤساء فعذروا لوجود الشبہ

وفیہ دلیل علٰی انہ اذا کان اسیرًا فی ایدیہم فامکنہ الخلاص والانقلاب منہم،لم یحل لہ المقام معہم)

(معالم السنن:جلددوم:ص16-مکتبہ شاملہ)

قال الخطابی:(وقولہ:لا ترایا ناراہما:فیہ وجوہ-احدہا،معناہ لا یستوی حکماہما-قالہ بعض اہل العلم-وقال بعضہم:معناہ ان اللّٰہ قد فرق بین داری الاسلام والکفر فلا یجوز لمسلم ان یساکن الکفار فی بلادہم حتی اذا اوقدوا نارا کان منہم بحیث یراہا)

(معالم السنن:جلددوم:ص16-مکتبہ شاملہ)

دلیل ششم:خبر متواتر-افراد کا ثبوت خبرمتواتر کے ذریعہ:

حضورغوث اعظم،حضور خواجہ غریب نواز،حضور نظام الدین اولیا و حضرات اولیا ئے عظام علیہم الرحمۃ والرضوان کا ذکر نہ صریح طورپر قرآن مجید میں ہے،نہ ہی احادیث میں مبارکہ میں،نہ ہی اجماع متصل میں،کیوں کہ یہ نفوس قدسیہ وصال نبوی کے مدتوں بعد پیدا ہوئے اور وصال نبوی سے قبل قرآن مجید مکمل ہوگیا اور وصال مبارک کے سبب حدیث شریف کا سلسلہ بھی تمام ہو گیا،اسی طرح اجماع متصل کا سلسلہ بھی موقوف ہوگیا۔

ان اولیائے کرام علیہم الرحمۃوالرضوان کوامت مسلمہ، مومن کامل اور ولی تسلیم کرتی ہے تو یہ خبر متواتر کے سبب ہے۔ان نفوس قدسیہ کے مومن اورولی ہونے کی خبر متواتر ہے،جیسے سکندر کے بادشاہ اورفاتح عالم ہونے،رستم کے بہادر ہونے،حاتم طائی کے سخی ہونے،چنگیز خاں وتاتاری قوم کے ظالم وجابر ہونے کی خبریں متواتر ہیں۔

خبر متواتر کا لحاظ شریعت اسلامیہ میں اس قدر ہے کہ جو اموردینیہ تواتر کے ساتھ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے مروی ہیں،وہ ضروریات دین ہیں۔ ان کا انکار کفر ہے، جب کہ خبر واحد سے مروی ہونے والے امور کا انکارکفر نہیں۔

اس سے واضح طورپرثابت ہوتا ہے کہ شریعت میں خبر متواتر کارتبہ بہت بلند ہے۔ جب ضروریات دین کا ثبوت خبرمتواتر سے ہوتا ہے توکسی فرد کی فردیت کا ثبوت خبر متواتر سے کیوں کرنہیں ہوگا۔ دین کے اعلیٰ درجہ کے امور مثلاً قرآ ن مجید،احادیث متواترہ،اجماع متصل خبرمتواتر کے ذریعہ ہمیں موصول ہوئے۔خبر متواتر شریعت اسلامیہ میں معتبر ایک قوی دلیل ہے۔

الحاصل خبر متواتر اورحواس ظاہر ہ سے موضوع کلی کے افرادکی فردیت کا قطعی ویقینی علم حاصل ہوگا،پھر ان افراد پر قاعدہ کلیہ کے محمول کا حمل واطلاق ہوگا۔

خبرمتواتر اور حواس ظاہرہ

خبرمتواتر اور حواس ظاہر ہ سے کسی کے ایمان وکفر کا یقین عہد نبوی میں بھی حاصل ہوگا۔ ہاں،اس عہد میں مزید دو دلیل ہوگی،جوبعد وصال نبوی منقطع ہوگئی،یعنی قرآن وحدیث۔ منافقین مدینہ کے کفر کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا اورپھرحضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے بھی انہیں منافق قرار دے کر مسجد نبوی سے نماز جمعہ کے وقت مسجد سے باہر نکال دیا۔اس طرح ان کے منافق ہونے کا ذکر قرآن وحدیث دونوں میں ہوگیا۔

جب وصال نبوی سے قبل قرآن مجیدمکمل اور وصال نبوی کے سبب حدیث نبوی منقطع ہوگئی تو خبر متواتر اورحواس ظاہرہ سے کسی خاص شخص کے مومن وکافر ہونے کا تعین ہوگا۔اجماع متصل سے بھی مومن وکافر کا قطعی تعین ہوگا۔

اجماع متصل کا ماخذدراصل قول نبوی ہوتا ہے۔اب کسی جدید امر پراجماع متصل کا سوال نہیں۔

(1)قال ابو الشکور السالمی:(ان المؤمن اذا آمن مرۃً فانہ یحکم بایمانہ-ولو اقربعد ذلک الوفًا-فان الایمان ہو الاقرار الاول-وما سوی ذلک ہوتکرار عنہ-ولو لم یقل الا مرۃً واحدۃً وعاش سنین-فانہ لا یحکم بکفرہ ما لم یظہر منہ ضدہ-ولو مات علٰی ذلک فانہ یصلی علیہ ویکون مؤمنا اذا لم یظہر الخلاف منہ)(تمہید ابوشکور سالمی: ص115)

ترجمہ:مومن جب ایک بار ایمان لایا تو اس کے مومن ہونے کا حکم دیا جائے گا، اگرچہ اس کے بعد ہزار مرتبہ اقرار کرے کہ پہلا اقرار ہی ایمان ہے اوربعد کے اقرار اسی پہلے اقرار کی تکرار ہیں،اوراگر ایک مرتبہ اقرار کرنے کے بعد پھر کبھی اقرار نہ کیا تو اگرچہ برسوں زندہ رہا تو اس کے کفر کاحکم نہیں دیا جائے گا،جب تک ایمان کی ضد ظاہر نہ ہو،اور اگر اسی اقرار پر مرجائے تو اس کومومن قرار دیا جائے گا اوراس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، جب تک ایمان کے خلاف کوئی بات اس سے ظاہرنہ ہو۔

(2)قال ابو الشکور السالمی:(ثم الاعمال منہا ما یوجب حکم الایمان بہ کاصل الایمان-وہو ان الکافر اذا صلی بالجماعۃ او حضر العیدین او الجمعۃ وصلی مع الناس ا اذن او اقام او حج مع المسلمین فانہ یحکم باسلامہ-ولو رجع الی الکفر یحکم بردتہ۔

ولو صلی وحدہ لا یکون مسلما۔

وکذلک المسلم لو سجد لاصنام او تابع الکفار بفعل من افعالہم التی یکون دینًا عندہم فانہ یصیر کافرا-وکذلک لو ظہر من نفسہ علامۃ الکفار کلبس القلنسوۃ المجوسیۃ والعلی والزنار ونحوذلک فانہ یصیر کافرًا سواء فعل من غیر اعتقاد او سخریۃ او من اعتقاد-ولوفعل تقیۃ او مکرہًا فانہ لا یصیر کافرًا-و کذلک لولبس لباس الکفار مما لا یکون علامۃ الکفر-واقتدی بسیرتہم التی لا یکون دینا عندہم-وانما یکون لہوًا واختراعًا فانہ لا یحکم بکفرہ-وہذا کلہ بمعنی-وہو ان الاعتقاد علٰی شیء شرط لصحۃ ذلک علی الحقیقۃ-وکل عمل یدل علی الاعتقاد فانہ یعمل عمل الاعتقاد-وکل عمل یحتمل الشبہۃ فانہ لا یدل علی الاعتقاد)(تمہید ابی الشکور السالمی ص105)

ترجمہ:پھر اعمال بعض وہ ہیں جن کے کرنے سے ایمان کا حکم کیا جائے گا،اوروہ یہ ہیں کہ کافر جب جماعت سے نماز پڑھے اور جمعہ میں حاضر ہو،اورعیدین میں حاضر ہو،اور مسلمانوں کے ساتھ نماز ادا کرے اور اذان دے،اقامت کہے،مسلمانوں کے ساتھ حج کرے تو ان اعمال سے اس کے مسلمان ہونے کا حکم کیا جائے گا،اور اگر کفر کی طرف لوٹا تو ارتداد کا حکم کیا جائے گا،اور اگر تنہا پڑھے تو مسلمان نہیں سمجھا جائے گا۔

اورایسے ہی اگر مسلمان بت کوسجدہ کرے، یاافعال کفار میں سے کسی فعل میں کافروں کی پیروی کرے،اور وہ فعل کافروں کا دینی فعل ہو تو کافر ہوجائے گا،اورایسے ہی اگر اپنی طرف سے کفارکی علامت ظاہر کرے، جیسے مجوسیوں کی ٹوپی پہنے یا زنار،جنیو وغیرہ باندھے جو کفار کی علامت ہوتو کافر ہوجائے گا،پھریہ اعتقاد کے ساتھ پہنے یا بغیر اعتقاد کے،یاسخریہ اور مذاق کے طورپر تو کافر ہوجائے گا۔

اوراگرتقیہ کے طور پر یا مجبور کرنے کے سبب کفار کی علامت کو اختیار کیا تو کافر نہ ہوگا، اور اگر کفار کا ایسا لباس پہنا جوکفر کی علامت نہیں،اور ان کی عادت وخصلت کواختیار کیاجوان کا دین نہیں ہے،بلکہ وہ لہواور اختراع کے طورپر ہوتوکفر کا حکم نہیں دیا جائے گا۔

یہ تمام اس معنی کی بنیاد پر ہے کہ دراصل کسی امر کا اعتقاد اس امر کے صحیح ہونے کے لیے شرط ہے، اورہروہ امرجو اعتقاد پر دلالت کرے، وہ بھی اعتقاد کا کام کرتاہے، اورہر وہ عمل جوشبہہ کا احتمال رکھتا ہے،وہ اعتقاد پردلالت نہیں کرتا ہے۔

(3)قال ابو الشکور السالمی:(حکم الایمان العدالۃ وموجب الایمان الجنۃ باخباراللّٰہ تعالٰی،اذاکان مقرونًا بالتصدیق-ولو اقر باللسان ولم یعتقد بالجنان فانہ یحکم باسلامہ ویجری علیہ احکام المسلمین ما لم یظہر علیہ خلاف ذلک-لقولہ تعالی:ولا تقولوا لمن القی الیکم السلٰم لست مؤمنًا،یعنی اذا قال:السلام علیکم،انی مؤمن فانہ یقبل قولہ حکمًا- فاما اذا لم یعتقد فانہ لا یکون من اہل الجنۃ-ویکون حکمہ کاحکام المنافقین) (تمہید ابی الشکور السالمی: ص104)

قسط دوم میں بیان کیا گیا کہ قاعدہ کلیہ کے موضوع کے افراد کا تعین دلائل ستہ سے ہو گا۔قسط سوم میں بعض متعلقہ امور کی وضاحت مرقوم ہے۔

کلی کا حکم تمام افرادکے لیے

جو حکم کلی کے لیے ہوتا ہے،وہی حکم اس کلی کے تمام افرادکے لیے ہوتا ہے،مثلاً انسان حیوان ناطق ہے۔انسان ایک کلی ہے،اور انسان حیوان ناطق ہے توانسان کے تمام افراد یعنی زید،بکر،خالد،حامد وغیرہم سب کے سب حیوان ناطق ہوں گے۔

اسی طرح جب بت پر ست کافر ہوتا ہے،اوربت پرست ایک کلی ہے تو اس کلی کے تمام افرادکافر ہوں گے۔ایسا نہیں کہ بعض کافر ہوں،اوربعض کافر نہ ہوں۔

افرادوجزئیات اورامثال ونظائر میں فرق:

سوال:فقہائے کرام کسی حکم کی علت کا استنباط کرکے ایک شئ کا حکم دوسری اشیا کے لیے ثابت کر تے ہیں،لیکن یہ اجتہادی احکام ظنی ہوتے ہیں۔ قطعی نہیں ہوتے اور حکم اصلی کبھی قطعی ہوتا ہے اور کبھی ظنی ہوتا ہے،مثلاً شراب قطعی طورپر حرام ہے،اوراس کی حرمت ضروریات دین میں سے ہے۔ اس کی حرمت کا انکار کفر ہے۔

فقہائے کرام نے شراب کا مسکرہونایعنی نشہ آور ہونا حرام ہونے کی علت بتائی، پھر مثلاً اسی علت کی بنیاد پر بھنگ وچرس کو حرام قرار دیا جائے تو بھنگ وچرس کی حرمت قطعی نہیں ہوگی اورنہ ہی ضروریات دین میں سے ہوگی۔

اسی طرح ممکن ہے کہ کوئی قاعدہ کلیہ ضروریات دین میں سے ہو،لیکن اس کے موضوع کے افراد وجزئیات پر اس کے محمول کا اطلاق ضروریات دین میں سے نہ ہو، کیوں کہ ان افراد کی فردیت کا ثبوت ضروریات دین کے دلائل اربعہ سے نہیں ہواہے؟

جواب:فقہائے کرام قیاس واجتہاد کے ذریعہ ایک شئ کا حکم اس کے امثال ونظائر کے لیے ثابت کرتے ہیں۔امثال ونظائر اور افراد وجزئیات میں بہت فرق ہے۔ قاعدہ کلیہ میں جو حکم کلی کے لیے ہوتا ہے،وہ حکم اس کے افراد وجزئیات کے لیے ہوتا ہے۔وہ حکم حقیقت کلیہ کے لیے نہیں ہوتا ہے۔

قضیہ طبعیہ میں حقیقت کلیہ کے لے حکم ہوتا ہے، جیسے انسان نوع ہے،پس انسان کے افراد نوع نہیں ہیں،بلکہ انسان کی طبعیت کلیہ نوع ہے۔

قضیہ کلیہ میں افرادہی کے لیے حکم ہوتاہے،جیسے ہر بت پرست کا فر ہے۔اس کا مفہوم یہی ہے کہ جو بھی اس کے موضوع (بت پرست)کا فرد ہے،وہ کافر ہے۔

امثال ونظائر کا معاملہ یہ ہے کہ فقہائے کرام شرعی احکام کی علت از خود دریافت کرتے ہیں،پھر جہاں وہ علت پائی جاتی ہے،وہاں اس اصل کا حکم ثابت کرتے ہیں۔

اب یہاں یہ بات قابل غورہے کہ فقہائے مجتہدین نے جس امر کو حکم کی علت بتایا ہے،کیا وہی اس حکم کی قطعی علت ہے؟

فقہائے کرام نے اپنے اجتہاد سے ایک علت تسلیم کر لیا ہے، یہ علت ظنی ہے۔ممکن ہے کہ وہ علت نہ ہو۔اسی بنیاد پر قطعی نصوص میں مقیس علیہ کے لیے منصوص حکم قطعی ہوتا ہے، اور قیاس واجتہاد کے ذریعہ امثال ونظائر کامستنبط حکم ظنی ہوتا ہے۔

کیا حکم کی علت منصوص ہوتی ہے؟

ملااحمد جیون نے رقم فرمایا:(اما النص الدال علی کون الوصف علۃ صریحا فغیر وارد)(نورالانوار: جلد دوم: ص280 -دارالکتب العلمیہ بیروت)

ترجمہ:لیکن نص جو وصف کے علت ہونے پر صراحت کے ساتھ دلالت کرے،پس غیر وارد ہے۔(ایسی نص وارد نہیں ہے)

دوسری بات یہ کہ قیاس کی حجیت بھی ضروریات دین سے نہیں،پھر اس سے ثابت ہونے والا کوئی امر ضروری دینی کیسے ہو سکتا ہے۔

قال الملا احمد جیون الجونفوری فی بحث حکم العلۃ:

((والرابع من جملۃ ما یعلل لہ تعدیۃ حکم النص الٰی ما لا نص فیہ لیثبت فیہ)ای الحکم فیما لا نص فیہ بغالب الرأی،دون القطع والیقین)

(نورالانوار: جلد دوم: ص286 -دارالکتب العلمیہ بیروت)

ترجمہ:ان میں سے چوتھی بات جس کے لیے علت بیان کی جاتی ہے،وہ نص کے حکم کو متعدی کرنا ہے،اس تک جس بارے میں نص نہ ہو،تاکہ اس میں حکم کوثابت کیا حائے، یعنی جس کے بارے میں نص نہ ہو،ظن غالب کے طورپر،نہ کہ قطع ویقین کے طورپر۔

توضیح:قرآن مجیدکی قطعی الدلالت آیت میں مقیس علیہ کا حکم بیان کیا جائے تو مقیس علیہ کا حکم قطعی ہوگا،جیسے شراب کی حرمت قطعی ہے، کیوں کہ قرآن مجید کی قطعی الدلالت نص میں شراب کوحرام قرار دیا گیا تو شراب کی حرمت قطعی ہوگئی،اور قیاس کے ذریعہ علت سکر کے سبب دیگر نشہ آور چیزوں کوحرام قرار دیا جائے تو ان چیزوں کی حرمت ظنی ہو گی۔یہا ں شراب مقیس علیہ اور دیگر امور مقیس ہیں۔

جس طرح آیت قرآنیہ قطعی بالمعنی الاخص میں مقیس علیہ کاحکم بیان ہونے کے سبب وہ حکم قطعی اورضروریات دین میں سے ہوتاہے۔ اسی طرح ضروری دینی قاعدہ کلیہ میں بیان کردہ حکم،موضوع کے افراد وجزئیات کے لیے قطعی اور ضروری دینی ہوتا ہے۔

دراصل قضیہ کلیہ میں کلی کے لیے جوحکم بیان ہوتا ہے،وہ اس کے افراد کے لیے بیان کیا جاتا ہے، جیسے کہا جائے کہ ہر پتھر جسم ہے تو اس کا مفہوم یہی ہے کہ پتھرکے افرا دجسم ہیں، نہ ہی لفظ پتھر جسم ہے،اورنہ ہی لفظ پتھرکا مفہوم جسم ہے،بلکہ پتھر کے افراد جسم ہیں۔

اشخاص اربعہ کا کافر ہونا ضروری دینی کیسے؟

سوال: اشخاص اربعہ کوکافر ماننا ضروریات دین میں سے نہیں ہوگا،کیوں کہ ضروریات دین کے دلائل سے ان لوگوں کا کافرہونا ثابت نہیں؟نہ قرآن مجید کی قطعی الدلالت آیت سے،نہ قطعی الدلالت حدیث متواتر سے،نہ اجماع متصل سے؟

جواب:اشخاص اربعہ میں سے ہرایک کا کافر ہونا کسی قاعدۂ کلیہ کے سبب ہے،اور وہ قاعدہ کلیہ ضروریات دین میں سے ہے۔

اشخاص اربعہ کاخبرمتواتر اورحواس ظاہرہ کے ذریعہ کسی قاعدہ کلیہ کے موضوع کے افرادہونا ثابت ہے۔یہ قواعد کلیہ ضروریات دین میں سے ہیں اور ان کے موضوع کلی کے لیے کفر کلامی کاحکم ہے تو اشخاص اربعہ کے لیے بھی قطعی طورپر کفرکلامی کا حکم ثابت ہوگا، کیوں کہ جوحکم موضوع کلی کا ہوگا،وہی حکم اس موضوع کے تمام افراد کے لیے ہوگا۔

اس کی کچھ تفصیل محررہ ذیل ہے۔

ہر منکرختم نبوت کا فر ہے۔یہ قاعدہ کلیہ ضروریات دین میں سے ہے۔

اس قاعدہ کلیہ سے قاسم نانوتوی کا کفر ثابت ہوتا ہے۔

خبر متواتر اور حواس ظاہرہ کے ذریعہ نانوتوی کا منکر ختم نبوت ہونا ثابت ہوتا ہے،

اور ہر منکر ختم نبوت کافر ہے تو نانوتوی کافر ہے۔

تواتر وحواس ظاہرہ سے نانوتوی کے انکار ختم نبوت کا ثبوت:

قاسم نانوتوی کی کتاب تحذیر الناس میں ختم نبوت کی عبارتیں موجود ہیں۔کتاب کی نسبت نانوتوی کی طرف متواتر ہے، پس تواتر کے ساتھ نانوتوی کا انکار ختم نبوت ثابت ہوگیا۔

دہلی کے مناظرہ میں نانوتوی نے بھی اس نسبت کو تسلیم کیا اور کتاب کی عبارتوں پر وارد ہونے سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی۔

قاسم نانوتوی سے دہلی میں علامہ محمدشاہ پنجابی نے مناظرہ فرمایا تھا۔ مناظرہ میں اس نے ختم نبوت کا انکار کیا،جس کو حاضرین نے اپنے کانوں سے سنا اور نانوتوی کواپنی آنکھوں سے دیکھا اوراسے پہچانا، پس حاسہ سمع وبصر سے بھی نانوتوی کاختم نبوت کا انکار کرناثابت ہوگیا۔

اس طرح خبرمتواتر اور حاسہ سمع وبصر سے نانوتوی کا منکر ختم نبوت ہونا ثابت ہوگیا، اور ختم نبوت کامنکر کا فر ہے،لہٰذانانوتوی کافر ہے۔

تواتر وحواس ظاہرہ سے گنگوہی،انبیٹھوی وتھانوی کی تنقیص کا ثبوت:

ہر گستاخ رسول کافر ہے۔ یہ قاعدہ کلیہ ضروریات دین میں سے ہے۔ اسی قاعدہ کلیہ سے گنگوہی،انبیٹھوی اور تھا نوی کا کافرہونا ثابت ہوتا ہے۔فتویٰ کذب میں گنگوہی سے ضروری دینی کا انکار صریح بھی واقع ہواہے،اوراللہ تعالیٰ کی شان میں بے ادبی بھی۔

خبر متواتر کے ذریعہ ان تینوں کامذکورہ بالاقاعدہ کلیہ کے موضوع کا فرد ہوناثابت ہوا اور ان کا کافر ہونا ضروریات دین میں سے قرارپایا۔

ان تینوں میں سے انبیٹھوی نے بہاول پور میں علامہ غلام دستگیرقصوری سے مناظرہ بھی کیا تھا۔یہ تحریری مناظرہ تھا۔اگر تقریری مناظرہ ہوتا،جیسے نانوتوی کا مناظرہ دہلی میں تھا تو حواس ظاہرہ سے بھی بے ادبی کا ثبوت ہوجاتا تھا۔

خلیل احمدانبیٹھوی نے براہین قاطعہ میں حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی گستاخی کی۔ اس پر تائیدی تحریر رشیداحمد گنگوہی نے لکھی،پھر گنگوہی کے حکم پر خلیل احمد انبیٹھوی دیگر دیوبندیوں کے ساتھ مناظرہ کے واسطے بہاول پور پہنچا۔

انبیٹھوی نے اپنی کتاب اوراپنی عبارتوں کو تسلیم کیا،پھر اپنی عبارتوں کی باطل تاویل کی۔اس نے اپنی کتاب یااپنی عبارتوں کا انکار نہیں کیا۔ مناظرہ میں انبیٹھوی نے توہین وبے ادبی کی عبارت کواپنی عبارت تسلیم کرتے ہوئے اس کی تاویل کی۔

انبیٹھوی کی کتاب براہین قاطعہ میں بے ادبی کی عبارتیں موجود ہیں۔کتاب کی نسبت انبیٹھوی کی طرف متواتر ہے۔ بہاول پور کے مناظرہ میں انبیٹھوی نے بھی اس نسبت کو تسلیم کیا اور کتاب کی عبارتوں پر وارد ہونے سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی۔ اس طرح خبر متواتر اورانبیٹھوی کے اقرار کے ذریعہ انبیٹھوی کی بے ادبی ثابت ہوگئی۔

تھانوی کی طرف حفظ الایمان کی نسبت تواتر کے ساتھ ہے۔حفظ الایمان میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بے ادبی ہے۔تھا نوی نے اپنی کفریہ عبارت کی تاویل وتبدیل کے لیے بسط البنان اور تغییر العنوان لکھی۔ دیابنہ نے آج تک انکار نہیں کیا کہ یہ کتابیں ہمارے اکابر کی نہیں ہیں،بلکہ وہ آج تک ان کفریہ عبارتوں کی تاویل کرتے ہیں، اور ان عبارتوں پر اہل سنت وجماعت سے مناظرہ ومباحثہ کرتے ہیں۔

کیا جہات محتملہ کی تحقیق میں خطا نہیں ہوسکتی؟

سوال:کفر کلامی کا حکم اس وقت عائد ہوتا ہے،جب کلام،کفری معنی میں مفسر ومتعین ہو،یاقائل کے بیان قطعی سے مفسر ومتعین ہو جائے۔

نانوتوی کے کلام کو ختم نبوت کے انکارکے سلسلے میں مفسر تسلیم کیا گیا،اسی طرح گنگوہی،انبیٹھوی وتھا نوی کے کلام کوبے ادبی کے معنی میں مفسر تسلیم کیا گیا۔

مفسر تسلیم کرنے والے علما نے اپنی تحقیق کی روشنی میں ان عبارتوں کوانکارختم نبوت اور بے ادبی کے معنی میں مفسر تسلیم کیا۔ ہر تحقیق کی طرح اس تحقیق میں بھی خطا کا امکان ہے، ممکن ہے کہ وہ عبارتیں انکار ختم نبوت اور بے ادبی کے معنی میں مفسر نہ ہوں؟

جواب:ضروریات دین کا ثبوت عقل صحیح، قطعی الدلالت آیت قرآنیہ، قطعی الدلالت حدیث متواتر اور اجماع متصل سے ہوتا ہے۔ ضروریات دین کے باب میں قطعی الدلالت سے مراد مفسر ہے۔ آیات قرآنیہ واحادیث متواترہ کے مفسر ومحکم اور نص وظاہر ہونے کی صراحت قرآن مجید یا حدیث متواتر میں موجود نہیں۔مفسر ومحکم اورنص وظاہر ہونے کا تعین مجتہد ین ومحققین کی تحقیق سے ہوتا ہے۔

یہاں سوال ہوسکتا ہے کہ کسی آیت کو مفسر بتانے میں خطا ہوگئی ہو، پھر جب وہ آیت مفسر نہیں رہی تواس سے ثابت ہونے والا امر ضروریات دین میں سے نہیں ہوگا۔جواب یہ ہے کہ جن آیات واحادیث متواترہ کو مفسر تسلیم کیا گیا ہے۔ان سے ثابت ہونے والے امور کو ضروریات دین ہی میں تسلیم کیا جاتا ہے۔آج تک کسی نے اس کا انکار نہیں کیا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ مفسر کے تعین میں خطا ممکن ہے، لیکن یہ تعین محال نہیں ہے۔اس کے تعین کا خاص طریقہ موجود ہے،یعنی جس میں احتمال بلادلیل بھی نہ ہو،وہ مفسر ہے۔

تفہیم مسئلہ کے واسطے دومثالیں مندرجہ ذیل ہیں:

(1) گلاس میں پانی ہے یانہیں۔آنکھوں سے دیکھ کر کے ثبوت یانفی کا تعین کیا جاسکتا ہے اوریہ تعین یقینی ہوگا۔ اسی طرح مفسر وہ ہے کہ جس میں جانب مخالف کا احتمال بلادلیل بھی نہ ہو۔ جب وہاں احتمال بلا دلیل بھی موجود نہیں تووہ مفسر ہوگا۔

(2)دودھ ایک لیٹر ہے یا نہیں؟اس کے تعین میں خطا کا امکان موجود ہے،لیکن تعین مشکل نہیں۔جو پیمانہ دودھ کی پیمائش کے لیے ہے،اس سے ناپ لینے پر یہ بات بدیہی طور پر ثابت ہوجاتی ہے کہ دودھ ایک لیٹر ہے۔

اسی طرح مفسر کے تعین کا پیمانہ یہ ہے کہ وہاں تاویل قریب اور تاویل بعید کی گنجائش نہ ہو۔اب رہی تاویل متعذرکہ اس کا عبارت سے کسی طرح کوئی تعلق نہ ہو،اورجب بھی اس تاویل متعذر کوقبول کیا جائے تو کلام کا اصل مفہوم باطل ہوجائے تو ایسی تاویل درحقیقت تحریف وتبدیل ہے۔اس کا نام تاویل باطل اور تاویل متعذرہے۔یہ فقہا ومتکلمین کسی کے یہاں مقبول نہیں۔اشخاص اربعہ کی عبارتوں میں دیابنہ تاویل باطل کرتے ہیں،اسی لیے ہزار تاویل کے باوجود حکم کفر ختم نہیں ہوتا۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ وہ لوگ توبہ کرلیتے،لیکن ایسا نہ ہوسکا۔

اب مسلک دیوبند کے اشخاص اربعہ امت مسلمہ کے لیے ایک بڑی آزمائش بن چکے ہیں۔جن لوگوں کو ایمان پیارا ہو،اور آخرت کاخوف ہو، وہ حکم شرعی کوتسلیم کرلیں۔

طارق انور مصباحی

جاری کردہ:21:مارچ 2021

٭٭٭٭٭

٭٭٭٭٭