أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

طَلۡعُهَا كَاَنَّهٗ رُءُوۡسُ الشَّيٰطِيۡنِ ۞

ترجمہ:

اس کے شگوفے شیطانوں کے سروں کی طرح ہیں

الصفت : ٦٥ میں ہے : اس کے شگوفے شیطانوں کے سروں کی طرح ہیں

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ کفار نے شیطانوں کے سروں کو تو نہیں دیکھا تھا پھر شجرۃ الزقوم کے شگوفوں کو شیطانوں کے سروں سے تشبیہ دینے کا کیا فائدہ ہے ! اس کے حسب ذیل جوابات ہیں :

(١) شیطانوں کے سروں کی بدہئیتی اور بد صورتی ان کے دلوں اور دماغوں میں جا گزین تھی ہرچند کہ انہوں نے شیطانوں کے سروں کو نہیں دیکھا تھا پھر بھی ان کے خیالوں میں وہ بہت بھیانک اور ڈرائونے تھے جیسے لوگ ان دیکھے غول بیابان سے ڈرتے ہیں اور بچے بھوتوں ‘ چڑیلوں اور ڈائنوں سے ڈرتے ہیں ‘ اور جس طرح لوگوں کے دماغوں میں یہ مرکوز ہے کہ پری بہت حسین ہوتی ہے اس لیے وہ کسی حسین لڑکی کو پری کہتے ہیں اگرچہ انہوں نے پری کو نہیں دیکھا یا جس طرح وہ کسی نیک آدمی کو فرشتہ کہتے ہیں اگرچہ انہوں نے فرشتہ کو نہیں دیکھا۔

(٢) اس سے مراد سانپ کے سر ہیں اور عرب کے لوگ سانپ کے سر کو بہت دہشت ناک خیال کرتے تھے۔

(٣) مقاتل نے کہا کہ مکہ اور یمن کے راستہ میں ڈرائو نے درخت ہیں جن کو عرب کے لوگ شیطان کے سر کہتے تھے۔

القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 65