فَاَقۡبَلَ بَعۡضُهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ يَّتَسَآءَلُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 50
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَاَقۡبَلَ بَعۡضُهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ يَّتَسَآءَلُوۡنَ ۞
ترجمہ:
پس وہ (جنتی) ایک دوسرے کی طرف مڑ کر سوال کریں گے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : پس وہ (جنتی) ایک دوسرے کی طرف مڑ کر سوال کریں گے ان میں سے ایک کہنے والا کہے گا بیشک دنیا میں میرا ایک ساتھی تھا جو کہتا تھا کیا تو ضرور (قیامت کی) تصدیق کرنے والوں میں سے ہے کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا اس وقت ضرور ہم کو بدلہ دیا جائے گا ؟ وہ کہے گا کیا تم اس کو جھانک کر دیکھنے والے ہو ؟ سو وہ اس کو جھانک کر دیکھے گا تو اس کو دوزخ کے درمیان میں دیکھے گا سو وہ (اس سے) کہے گا اللہ کی قسم قریب تھا کہ تو مجھے بھی ہلاک کردیتا اور اگر مجھ پر میرے رب کا احسان نہ ہوتا تو میں بھی دوزخ میں پڑا ہوتا (جنتی لوگ فرشتوں سے کہیں گے) کیا اب ہم مرنے والے نہیں ہیں ؟ سوا اس پہلی موت کے اور کیا ہم کو عذاب نہیں دیا جائے گا ؟ پھر تو بیشک بہت بڑی کامیابی ہے اسی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے (الصفت : ٦١۔ ٥٠ )
مومن کا اپنے واقف کافر کو دوزخ میں دیکھنا
اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کا ذکر فرمایا تھا جو تکبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو واحد نہیں مانتے تھے اور انکار نبوت پر اصرار کرتے تھے ‘ پھر ان مومنین کا ذکر فرمایا جو اللہ تعالیٰ کو واحد مانتے تھے اور اس کے احکام پر اخلاص کے ساتھ عمل کرتے تھے ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جو اللہ تعالیٰ ان کو آخرت میں عطا فرمائے گا ‘ اور جنت کی صفات اور اس کے خواص کا ذکر فرمایا اور اب اس کے بعد جنت میں اہل جنت کی ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو کا ذکر فرمارہا ہے۔
الصفت : ٥٠ میں ہے : پس وہ (جنتی) ایک دوسرے کی طرف مڑ کر سوال کریں گے اس کا عطف ان آیتوں پر ہے وہ ایک دوسرے کے سامنے تختوں پر مسند نشین ہوں گے ان پر چھلکتی ہوئی شراب کا جام گردش کررہا ہوگا اس وقت وہ شراب طہور پیتے ہوئے ایک دوسرے سے باتیں کریں گے ‘ اور پھر الصفت : ٥٧۔ ٥١ میں ان کی ایک دوسرے سے باتوں کا ذکر ہے ‘ ایک جنتی دوسرے سے کہے گا دنیا میں میرا ایک ساتھی تھا جو قیامت اور مرنے کے بعد دو بارہ زندہ کیے جانے پر میرے ایمان لانے کی مذمت کرتا تھا اور حیرت اور تعجب سے کہتا تھا : کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا اس وقت ہم کو ضرور بدلہ دیا جائے گا ؟ یعنی ہم نے زندگی میں جو اچھے یا برے کام کیے ہیں ان کا حساب لیا جائے گا اور اچھے کاموں کے عوض ثواب دیا جائے گا اور برے کاموں کے بدلہ میں عذاب دیا جائے گا ! ‘ پھر وہ جنتی شخص اس دوسرے کنتی شخص سے کہے گا : کیا تم اس قیامت کے منکر کو جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو ‘ بعض مفسرین نے کہا وہ جنت کے ایک کنارے میں جا کر وہاں سے دوزخ میں جھانک کر دیکھے گا تو وہ منکر قیامت دوزخ کے درمیان پڑا ہوگا ‘ پھر وہ جنتی شخص اس منکر قیامت کو زجر و توبیخ اور ملامت کرتے ہوئے کہے گا اللہ کی قسم ! قریب تھا کہ تو مجھے ہلاک کردیتا اور اگر مجھ پر میرے رب کا احسان نہ ہوتا تو میں بھی دوزخ میں پڑا ہوتا !
اس مومن اور کافر کا ماجرا ‘ امام ابن جریر کی روایت سے
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند سے فرات بن ثعلبہ البھرانی سے ان آیات کی تفسیر میں روات کرتے ہیں :
وہ آدمی ایک دوسرے کے شریک تھے ان کے پاس آٹھ ہزار دینار جمع ہوگئے ‘ انہوں نے آپس میں ان کو تقسیم کرلیا پھر وہ ایک دوسرے سے الگ ہوگئے ‘ پھر ان میں سے ایک نے ایک ہزار دینار کا ایک محل خرید لیا اور دوسرے کو بلا کر اپنا محل دکھایا ‘ دوسرے نے کہا واقعی یہ بہت خوبصورت محل ہے ‘ پھر اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی : اے اللہ ! میرے اس صاحب نے ایک ہزار دینار کا یہ محل خرید لیا ہے اور میں اپنے حصہ کے ایک ہزار دینار کے عوض تجھ سے جنت میں ایک محل خریدتا ہوں ‘ پھر اس نے ایک ہزار دینار صدقہ کردیئے۔ پھر کچھ عرصہ بعد پہلے شخص نے ایک ہزار دینار کے عوض ایک عورت سے شادی کرلی اور اس دوسرے شخص کو اپنی بیوی دکھائی اس نے کہا واقعی یہ بہت خوب صورت عورت ہے ! وہ وہاں سے چلا گیا پھر اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی : اے اللہ ! میرے اس صاحب نے ایک ہزار دینار میں ایک حسین عورت سے شادی کی ہے ‘ میں تجھ سے اپنے ایک ہزار کے بدلہ میں جنت کی بڑی آنکھوں والی حور کا سوال کرتا ہوں اور اس نے ایک ہزار دینار صدقہ کردیئے ‘ پھر کچھ دنوں بعد اس پہلے شخص نے دو ہزار میں دو باغ خرید لیے اور اس دوسرے شخص کو اپنے دونوں باغ دکھا کر کہا میں نے دو ہزار دینار میں یہ دو باغ خریدے ہیں ‘ اس نے کہا یہ واقعی بہت خوب صورت باغ ہیں ‘ اور اس نے للہ تعالیٰ سے دعا کی : اے اللہ میں تجھ سیجنت میں دو باغوں کا سوال کرتا ہوں ‘ پھر اس نیبقیہ دو ہزار دینار صدقہ کردئیے ‘ پھر موت کے فرشتہ نے ان دونوں کی روزح کو قبض کرلیا ‘ اور اس دوسرے شخص کو جنت کے محل میں لے جا کر ایک محل دیکھایا پھر ایک حسین و جمیل حور دکھائی اور اس کو جنت میں دو باغ دکھائے اور اس کو بتایا یہ محل ‘ یہ حور اور یہ دونوں باغ تمہارے ہیں ‘ پھر اس کو یاد آیا کہ دنیا میں اس کا ایکساتھی اور شریک تھا جس نے اپنے حصہ کے چار ہزار دنیار دنیا میں ہی خرچ کرلیے تھے اور آخرت کے لیے کوئی نیکی نہیں کی تھی اور وہ آخرت اور آخرت میں اعمال کی جزا اور سزا کا انکار کرتا تھا ‘ وہ فرشتہ سے اس کے متعلق پوچھے گا تو فرشتہ اس کو دکھائے گا وہ دوزخ میں جل رہا ہوگا پھر وہ جنتی اس دوزخی کو ملامت کرے گا اور کہے گا اللہ کی قسم قریب تھا کہ تو مجھے بھی ہلاک کردیتا ‘ اگر مجھ پر میرے رب کا احسان نہ ہوتا تو آج میں بھی دوزخی کو ملامت کرے گا اور کہے گا اللہ کی قسم قریب تھا کہ تو مجھے بھی ہلاک کردیتا ‘ اگر مجھ پر میرے رب کا احسان نہ ہوتا تو آج میں بھی دوزخ کو ملامت کرے گا اور کہے گا اللہ کی قسم قریب تھا کہ تو مجھے بھی ہلاک کردیتا ‘ اگر مجھ پر میرے رب کا احسان نہ ہوتا تو آج میں بھی دوزخ میں ہوتا۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٢٥٢٢‘ جز ٢٣ ص ٧١۔ ٠ ٧‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
(الجواہر الحسان ج ٥ ص ٣٠‘ بیروت ١٤١٨ ھ ‘ الدر المثور ج ٧ ص ٨١‘ بیروت ١٤٢١ ھ ‘ روح المعانی جز ٢٣ ص ٣٤‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)
اس مومن اور کافر کا ماجرا امام ابن ابی حاتم کی روایت سے
امام عبدالرحمن بن محمد ابن ابی حاتم الرازی المتوفی ٣٢٧ ھ اپنی سند کے ساتھ اسماعیل السدی سے روایت کرتے ہیں :
بنو اسرائیل میں دو شخص ایک دوسرے کے شریک تھے ‘ ان میں سے ایک مومن تھا اور دوسرا کافر تھا ‘ ان دونوں کو چھ ہزار دینار مل گئے ‘ ان میں سے ہر ایک اپنے حصہ کے تین ہزار دینار لے کر الگ ہوگیا ‘ کچھ عرصہ کے بعد دونوں کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایک دوسرے سے اس کے احوال پوچھے ‘ کافر نے بتایا کہ اس نے ایک ہزار دینار میں زمین ‘ باغات اور نہر کو خریدا ‘ مومن نے رات کو اٹھ کر نماز پڑھی اور ایک ہزار دینار سامنے رکھ کر دعا کی : اے اللہ ! میں تجھ سے ایک ہزار دینار کے عوض جنت میں زمین ‘ باغات اور نہر خریدتا ہوں ‘ پھر اس نے صبح کو اٹھ کر وہ ایک ہزار دینار مساکین میں تقسیم کردیئے ‘ کچھ عرصہ بعد ان کی دوبارہ ملاقات ہوئی کافر نے بتایا کہ اس نے ایک ہزار دینار کے غلام (نوکر چاکر) خرید لیے جو اس کے کاروبار کی دیکھ بھال کرتے ہیں ‘ مومن نے اس رات کو نماز کے بعد ایک ہزار دینار سامنیرکھ کر دعا کی کہ اے اللہ ! میں ایک ہزار دینار کے جنت میں غلام خریدتا ہوں اور اس نے صبح کو ایک ہزار دینار مساکین میں تقسیم کردئیے ‘ کچھ عرصہ بعد پھر ان کی ملاقات ہوئی کافر نے بتایا کہ اسنی ایک ہزار دینارخرچ کرکے ایک بیوہ عور ت سے شادی کرلی ‘ مومن نے اس رات نماز کے بعد ایک ہزار دینار اپنے سامنے رکھے اور دعا کی کہ اے اللہ ! میں ان ایک ہزار دینار کے عوض جنت میں بڑی آنکھوں والی حور سے نکاح کرنا چاہتا ہوں اور پھر صبح اٹھ کر اس نے وہ ایک ہزار دینار مسکینوں میں تقسیم کردیئے۔
دوسری صبح کو مومن اٹھا تو اس کے پاس کچھ نہ تھا اس نے ایک شخص کے مویشیوں کو چارا ڈالنے اور ان کی دیکھ بھال کرنے پر ملازمت کرلی ‘ ایک دن اس کے مالک نے ایک جانور کو پہلے سے دبلا پایا تو اس پر الزام لگا یا کہ تم اس کا چارا بیچ کر کھا جاتے ہو اور اس کو ملازمت سے نکال دیا ‘ اس نے سوچا کہ میں اپنے سابق شریک کے پاس جاتا ہوں اور اس سے ملازمت کی درخواست کرتا ہوں ‘ اس نے اس سے ملنا چاہا مگر اس کے ملازموں نے اس سے ملاقات نہیں کرائی اور اس کے اصرار پر کہا تم یہاں راستہ پر بیٹھ جائو وہ اس راستہ پر سواری سے گزرے گا تم ملاقات کرلینا ‘ وہ کافر شریک اپنی سواری پر نکلا تو اس مومن کو دیکھ کر پہچان لیا اور کہا کیا تمہارے پاس میری طرح مال نہیں تھا پھر تمہارا اس قدر گیا گزرا حال کیوں ہے ؟ مومن نے کہا اس کے متعلق سوال نہ کرو ‘ کافر نے پوچھا اب تم کیا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا تم مجھے دو وقت کی روٹی اور دو کپڑوں کے عوض محنت مزدوری پر ملازم رکھ لو ‘ کافر نے کا میں تمہاری اس وقت تک مدد نہیں کروں گا جب تک کہ مجھے یہ نہیں بتائو گے کہ تم نے ان تین ہزار دینار کا کیا کیا ؟ مومن نے کہا میں نے وہ کسی کو قرض دے دیئے ‘ کافر نے پوچھا کس کو ؟ مومن نے کہا ایک وعدہ وفا کرنے والے غنی کو ‘ کافر نے پوچھا وہ کون ہے ؟ مومن نے کہا اللہ ! اس وقت مصافحہ کی صورت میں مومن کا ہاتھ کافر کے ہاتھ میں تھا اس نے فوراً اپنا ہاتھ چھڑا کر کہا کیا تم قیامت اور آخرت کی تصدیق کرنے والے ہو ؟ کیا جس وقت ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے کیا اس وقت ہم کو ہمارے کاموں کی جزا دی جائے گی ؟ پھر کافر اس کو چھوڑ کر اپنی سواری پر بیٹھ کر چلا گیا ‘ وہ مومن بڑے عرصہ تک تنگی اور ترشی کے ساتھ وقت گزارتا رہا اور کافر عیش و طرب میں اپنی زندگی گزارتا رہا ‘ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے اس مومن کو جنت میں داخل کردیا اور اس کو زمین باغات ‘ پھل اور نہریں دکھائیں ‘ اس نے پوچھا یہ کس کی ہیں ؟ فرمایا تمہاری ہیں۔ اس نے کہا سبحان اللہ ! میرے تھوڑے سے عمل کی کیا اتنی عظیم جزا ہے ! پھر اس کو بیشمار غلام دکھائے اس نے پوچھا یہ کس کے ہیں ؟ فرمایا تمہارے ہیں ‘ اس نے کہا سبحان اللہ !ٖ میرے معمولی عمل کا اتنا بڑا ثواب ہے ! پھر اس کو بڑی آنکھوں والی حور دکھائی گئی اس نے پوچھا یہ کسی کی ہے ؟ فرمایا تمہاری ہے ‘ اس نے کہا سبحان اللہ ! میرے اس حقیر عمل کا ثواب یہاں تک پہنچا ہے ! پھر اس کو اپنا کافر شریک یاد آیا اس نے کہا دنیا میں میرا ایک صاحب تھا جو کہتا تھا کیا تم آخرت کی تصدیق کرنے والے ہو ؟ کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے اس وقت ہم کو ہمارے کاموں کا بدلہ دیا جائے گا ! پھر اللہ تعالیٰ اس کو اس کا ‘ کافر شریک دھکائے گا جو دوزخ کے درمیان میں پڑا ہوگا ‘ مومن اس کو دیکھ کر کہے گا : اللہ کی قسم ! قریب تھا کہ تو مجھے بھی ہلاک کردیتا اور اگر مجھ پر میرے رب کا احسان نہ ہوتا تو میں بھی دوزخ میں پڑا ہوتا۔
(تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٨١٩١‘ ج ١٠ ص ٣٢١٥۔ ٣٢١٣‘ ملخصا ‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ)
اس حدیث کا حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ اور حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ نے بھی ذکر کیا ہے۔
(تفسیر ابنکثیر ج ٤ ص ١١۔ ١٠‘ دارالفکر ١٤١٩ ھ ‘ الدر المثور ج ٧ ص ٨٣۔ ٨١‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
قتادہ نے بیان کیا کہ جنت میں ایک کھڑ کی ہے جب کوئی جنتی شخص دوزخ میں اپنے کسی واقف کو دیکھنا چاہے گا تو اس کو دیکھ لے گا اور پھر وہ اللہ تعالیٰ کا زیادہ شکر دا کرے گا۔ (تفسیر امام ابنابی حاتم رقم الحدیث : ١٨١٩٥‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 50
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]
[…] فَاَقۡبَلَ بَعۡضُهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ يَّتَسَآءَلُوۡنَ… […]
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]