۲۰۰۔ عن أبی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم :اَتَانِی جِبْرَئِیْلُ قَالَ: اَتَیْتُکَ الْبَارِحَۃَ فَلَمْ یَمْنَعْنِی اَنْ اَکُونَ دَخَلْتُ اِلاّ اَنّہٗ کَانَ عَلیَ الْبَابِ تَمَاثِیْلُ وَکَانَ فِی الْبَیْتِ قِرَامٌ سِتْرٍفِیْہِ تَمَاثِیْلِ وَکَانَ فِی الْبَیْتِ کَلْبٌ فَمُرْ بِرأسِ التَّمَاثِیْلِ الَّذِی عَلیٰ بَابِ الْبَیْتِ فَیُقْطَعُ فَیَصِیْرُ کَھَیْأۃِ الشَّجَرِ وَمُرْ بِالسَّتْرِ فَلْیُقْطَعْ فَلْیُجْعَلْ وِسَادَتَیْنِ مَنْبُوْذَتَیْنِ تُوْطَئَانِ وَمُرْ بِالْکَلْبِ فَلْیُخْرَجْ فَفَعَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ فتاوی رضویہ حصہ دوم ۹/۵۰ 

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور عرض کیا : میں گذشتہ رات حاضر ہو ا تھا اور مجھے گھر میں داخل ہونے سے ان تصویروں ہی نے باز رکھا جو دروازہ پرتھیں ۔ اورگھر میںایک پردہ پر بھی تصویریں تھیں اور گھر میں ایک کتا بھی تھا ۔ لہٰذا آپ حکم فرمائیں کہ اس تصویر کا سرکاٹ دیا جائے جو دروازہ پر ہے تاکہ وہ درخت کی شکل پر ہو جائے ۔ اور پر دہ کے بارے میں حکم فرمائیں کہ اسکو کاٹکر دو مسند یں بنالی جائیں تاکہ انکو روندا جاتا رہے ۔ نیز کتے کو نکالنے کا حکم فرمادیں ۔ لہٰذا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسا کیا ۔

]۵[ امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں

دیگر اعضاء وجہ وراس کے معنی میں نہیں اگرچہ مدار حیات ہونے میں مماثل ہوں کہ چہرہ ہی تصویرجاندار میں اصل ہے ۔ ولہٰذا سید نا حضر ت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی کا نام تصویر رکھا۔ اور شک نہیں کہ فقط چہرہ کو تصویر کہتے اور بنانے والے بارہا اس پر اختصار کرتے ہیں ملوک نصار ی کہ سکہ میں اپنی تصویر چاہتے ہیں اکثر فقط چہرہ تک رکھتے ہیں اور بیشک عامہ مقاصد تصویر چہرہ سے حاصل ہوتے ہیں ۔

تصویرمیں حیات آپ تو کسی حالت میں نہیں ہوتی ۔ وہ کسی حال میں جملہ اعضا ئے مدار حیات کا استیعاب نہیں کرتی عکسی میں تو ٖظاہر ہے کہ اگر پور ے قد کی بھی ہو تو صرف ایک سطح بالا کا عکس لائیگی ۔ خول میں نصف جسم بھی ہوتا تو عادتا حیات ناممکن ہوتی نہ کہ صرف نصف سطح۔ اور بت میں بھی اندرونی اعضاء مثل دل وجگر وعروق نہیں ہوتے۔ اور ڈاکٹری کی ایک خاص تصویر لیجئے جس میں اندر باہر کے رگ وپٹھے تک دکھائے جاتے ہیں تو رگوں میں خون کہا ں سے آئیگا ۔ غرض تصویر کسی طرح استیعاب ما بہ الحیات نہیں ہو سکتی ۔ فقط فرق حکایت وفہم ناظرکا ہے اوراسکی حکایت محکی عنہ میں حیات کا پتہ دے۔ یعنی ناظر یہ سمجھے کہ گویا ذو التصویر زندہ کو دیکھ رہا ہو ں ۔ تو وہ تصویر ذی روح کی ہے۔ اور اگر حکایت حیات نہ کرے ناظر اسکے ملاحظہ سے جانے کہ یہ حی کی صورت نہیں۔میت وبے روح کی ہے تو وہ تصویر غیرذی روح کی ہے ۔

فتاوی رضویہ حصہ دوم ۹/۵۰

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۰۰۔ الجامع للترمذی ، الادب، ۲/ ۱۰۴ ٭ السنن لا بی داؤد اللباس ، ۲/ ۵۷۳

شرح معانی الاثار للطحاوی ، ۲/ ۳۶۵ ٭ السنن للنسائی ، الزینۃ ، التصاویر ۲/ ۲۵۵