کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 16 رکوع 14 سورہ طٰہٰ آیت نمبر 90 تا 104
وَ لَقَدْ قَالَ لَهُمْ هٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ یٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهٖۚ-وَ اِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَ اَطِیْعُوْۤا اَمْرِیْ(۹۰)
اور بےشک ان سے ہارون نے اس سے پہلے کہا تھا کہ اے میری قوم یونہی ہے کہ تم اس کے سبب فتنے میں پڑے (ف۱۳۵) اور بےشک تمہارا رب رحمٰن ہے تو میری پیروی کرو اور میرا حکم مانو
(ف135)
تو اسے نہ پُوجو ۔
قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَیْهِ عٰكِفِیْنَ حَتّٰى یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوْسٰى(۹۱)
بولے ہم تو اس پر آسن مارے جمے(پوجا کیلئے جم کر بیٹھے) رہیں گے (ف۱۳۶) جب تک ہمارے پاس موسیٰ لوٹ کے آئیں (ف۱۳۷)
(ف136)
گوسالہ پرستی پر قائم رہیں گے اور تمہاری بات نہ مانیں گے ۔
(ف137)
اس پر حضرت ہارون علیہ السلام ان سے علیٰحدہ ہو گئے اور ان کے ساتھ بارہ ہزار وہ لوگ جنہوں نے بچھڑے کی پرستش نہ کی تھی ، جب حضرت موسٰی علیہ السلام واپس تشریف لائے تو آپ نے ان کے شور مچانے اور باجے بجانے کی آوازیں سنیں جو بچھڑے کے گرد ناچتے تھے تب آپ نے اپنے ستّر ہمراہیوں سے فرمایا یہ فتنہ کی آواز ہے جب قریب پہنچے اور حضرت ہارون کو دیکھا تو غیرتِ دینی سے جو آپ کی سَرِشۡت تھی جوش میں آ کر ان کے سر کے بال داہنے ہاتھ اورداڑھی بائیں میں پکڑی اور ۔
قَالَ یٰهٰرُوْنُ مَا مَنَعَكَ اِذْ رَاَیْتَهُمْ ضَلُّوْۤاۙ(۹۲)
موسیٰ نے کہا اے ہارون تمہیں کس بات نے روکا تھا جب تم نے انہیں گمراہ ہوتے دیکھا تھا
اَلَّا تَتَّبِعَنِؕ-اَفَعَصَیْتَ اَمْرِیْ(۹۳)
کہ میرے پیچھے آتے (ف۱۳۸) تو کیا تم نے میرا حکم نہ مانا
(ف138)
اور مجھے خبر دے دیتے یعنی جب انہوں نے تمہاری بات نہ مانی تھی تو تم مجھ سے کیوں نہیں آ ملے کہ تمہارا ان سے جُدا ہونا بھی ان کے حق میں ایک زَجر ہوتا ۔
قَالَ یَبْنَؤُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَ لَا بِرَاْسِیْۚ-اِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ وَ لَمْ تَرْقُبْ قَوْلِیْ(۹۴)
کہا اے میرے ماں جائے نہ میری داڑھی پکڑو اور نہ میرے سر کے بال مجھے یہ ڈر ہوا کہ تم کہو گے تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور تم نے میری بات کا انتظار نہ کیا (ف۱۳۹)
(ف139)
یہ سن کر حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام سامری کی طرف متوجہ ہوئے چنانچہ ۔
قَالَ فَمَا خَطْبُكَ یٰسَامِرِیُّ(۹۵)
موسیٰ نے کہا اب تیرا کیا حال ہے اے سامری (ف۱۴۰)
(ف140)
تو نے ایسا کیوں کیا اس کی وجہ بتا ۔
قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ یَبْصُرُوْا بِهٖ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ فَنَبَذْتُهَا وَ كَذٰلِكَ سَوَّلَتْ لِیْ نَفْسِیْ(۹۶)
بولا میں نے وہ دیکھا جو لوگوں نے نہ دیکھا (ف۱۴۱) تو ایک مٹھی بھر لی فرشتے کے نشان سے پھر اُسے ڈال دیا (ف۱۴۲) اور میرے جی کو یہی بھلا لگا (ف۱۴۳)
(ف141)
یعنی میں نے حضرت جبریل علیہ السلام کو دیکھا اور ان کو پہنچان لیا وہ اسپِ حیات پر سوار تھے ، میرے دل میں یہ بات آئی کہ میں ان کے گھوڑے کے نشانِ قدم کی خاک لے لوں ۔
(ف142)
اس بچھڑے میں جس کو بنایا تھا ۔
(ف143)
اور یہ فعل میں نے اپنے ہی ہوائے نفس سے کیا کوئی دوسرا اس کا باعث و محرِّک نہ تھا اس پر حضرت موسٰی علیہ السلام نے ۔
قَالَ فَاذْهَبْ فَاِنَّ لَكَ فِی الْحَیٰوةِ اَنْ تَقُوْلَ لَا مِسَاسَ۪-وَ اِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّنْ تُخْلَفَهٗۚ-وَ انْظُرْ اِلٰۤى اِلٰهِكَ الَّذِیْ ظَلْتَ عَلَیْهِ عَاكِفًاؕ-لَنُحَرِّقَنَّهٗ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهٗ فِی الْیَمِّ نَسْفًا(۹۷)
کہا تو چلتا بن (ف۱۴۴) کہ دنیا کی زندگی میں تیری سزا یہ ہے کہ (ف۱۴۵) تو کہے چھو نہ جا (ف۱۴۶) اور بےشک تیرے لیے ایک وعدہ کا وقت ہے (ف۱۴۷) جو تجھ سے خلاف نہ ہوگا اور اپنے اس معبود کو دیکھ جس کے سامنے تو دن بھر آسن مارے(پوجا کے لیے بیٹھا)رہا (ف۱۴۸) قسم ہے ہم ضرور اسے جَلائیں گے پھر ریزہ ریزہ کرکے دریا میں بہائیں گے (ف۱۴۹)
(ف144)
دور ہو جا ۔
(ف145)
جب تجھ سے کوئی ملنا چاہے جو تیرے حال سے واقف نہ ہو تو اس سے ۔
(ف146)
یعنی سب سے علیٰحدہ رہنا نہ تجھ سے کوئی چھوئے نہ تو کسی سے چھوئے ، لوگوں سے ملنا اس کے لئے کلّی طورپر ممنوع قرار دیا گیا اور ملاقات ، مکالمت ، خرید و فروخت ہر ایک کے ساتھ حرام کر دی گئی اور اگر اتفاقاً کوئی اس سے چھو جاتا تو وہ اور چھونے والا دونوں شدید بخار میں مبتلا ہوتے ، وہ جنگل میں یہی شور مچاتا پھرتا تھا کہ کوئی چھو نہ جانا اور وحشیوں اور درندوں میں زندگی کے دن نہایت تلخی و وحشت میں گزارتا تھا ۔
(ف147)
یعنی عذاب کے وعدے کا آخرت میں بعد اس عذابِ دنیا کے تیرے شرک و فساد انگیزی پر ۔
(ف148)
اور اس کی عبادت پر قائم رہا ۔
(ف149)
چنانچہ حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ایسا کیا اور جب آپ سامری کے اس فساد کو مٹا چکے تو بنی اسرائیل سے مخاطبہ فرما کر دینِ حق کا بیان فرمایا اور ارشاد کیا ۔
اِنَّمَاۤ اِلٰهُكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-وَسِعَ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا(۹۸)
تمہارا معبود تو وہی اللہ ہے جس کے سوا کسی کی بندگی نہیں ہر چیز کو اس کا علم محیط ہے
كَذٰلِكَ نَقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ مَا قَدْ سَبَقَۚ-وَ قَدْ اٰتَیْنٰكَ مِنْ لَّدُنَّا ذِكْرًاۖۚ(۹۹)
ہم ایسا ہی تمہارے سامنے اگلی خبریں بیان فرماتے ہیں اور ہم نے تم کو اپنے پاس سے ایک ذکر عطا فرمایا (ف۱۵۰)
(ف150)
یعنی قرآنِ پاک کہ وہ ذکرِ عظیم ہے اور جو اس کی طرف متوجہ ہو اس کے لئے اس کتابِ کریم میں نجات اور برکتیں ہیں اور اس کتابِ مقدّس میں اُمَمِ ماضیہ کے ایسے حالات کا ذکر و بیان ہے جو فکر کرنے اور عبرت حاصل کرنے کے لائق ہیں ۔
مَنْ اَعْرَضَ عَنْهُ فَاِنَّهٗ یَحْمِلُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وِزْرًاۙ(۱۰۰)
جو اُس سے منہ پھیرے (ف۱۵۱) تو بےشک وہ قیامت کے دن ایک بوجھ اٹھائے گا (ف۱۵۲)
(ف151)
یعنی قرآن سے اور اس پر ایمان نہ لائے اور اس کی ہدایتوں سے فائدہ نہ اٹھائے ۔
(ف152)
گناہوں کا بارِ گراں ۔
خٰلِدِیْنَ فِیْهِؕ-وَ سَآءَ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ حِمْلًاۙ(۱۰۱)
وہ ہمیشہ اُس میں رہیں گے (ف۱۵۳) اور وہ قیامت کے دن اُن کے حق میں کیا ہی برا بوجھ ہوگا
(ف153)
یعنی اس گناہ کے عذاب میں ۔
یَّوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ وَ نَحْشُرُ الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَىٕذٍ زُرْقًاۚۖ(۱۰۲)
جس دن صور پھونکا جائے گا(ف۱۵۴)اور ہم اس دن مجرموں کو (ف۱۵۵) اٹھائیں گے نیلی آنکھیں (ف۱۵۶)
(ف154)
لوگوں کو مَحشر میں حاضر کرنے کے لئے ۔ مراد اس سے نفخۂ ثانیہ ہے ۔
(ف155)
یعنی کافِروں کوا س حال میں ۔
(ف156)
اور کالے منہ ۔
یَّتَخَافَتُوْنَ بَیْنَهُمْ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا عَشْرًا(۱۰۳)
آپس میں چپکے چپکے کہتے ہوں گے کہ تم دنیا میں نہ رہے مگر دس رات (ف۱۵۷)
(ف157)
آخرت کے اہوال اور وہاں کے خوفناک منازل دیکھ کر انہیں زندگانی ، دنیا کی مدّت بہت قلیل معلوم ہو گی ۔
نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَقُوْلُوْنَ اِذْ یَقُوْلُ اَمْثَلُهُمْ طَرِیْقَةً اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا یَوْمًا۠(۱۰۴)
ہم خوب جانتے ہیں جو وہ (ف۱۵۸) کہیں گے جب کہ ان میں سب سے بہتر رائے والا کہے گا کہ تم صرف ایک ہی دن رہے تھے (ف۱۵۹)
(ف158)
آپس میں ایک دوسرے سے ۔
(ف159)
بعض مفسِّرین نے کہا کہ وہ اس دن کے شدائد دیکھ کر اپنے دنیا میں رہنے کی مقدار بھول جائیں گے ۔