وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُهَا رَبِّیْ نَسْفًاۙ(۱۰۵)

اور تم سے پہاڑوں کو پوچھتے ہیں (ف۱۶۰) تم فرماؤ انہیں میرا رب ریزہ ریزہ کرکے اڑا دے گا

(ف160)

شانِ نُزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ قبیلۂ ثقیف کے ایک آدمی نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ قیامت کے دن پہاڑوں کا کیا حال ہوگا ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔

فَیَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًاۙ(۱۰۶)

تو زمین کو پٹ پر ہموار کر چھوڑے گا

لَّا تَرٰى فِیْهَا عِوَجًا وَّ لَاۤ اَمْتًاؕ(۱۰۷)

کہ تُو اس میں نیچا اونچا کچھ نہ دیکھے

یَوْمَىٕذٍ یَّتَّبِعُوْنَ الدَّاعِیَ لَا عِوَجَ لَهٗۚ-وَ خَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ فَلَا تَسْمَعُ اِلَّا هَمْسًا(۱۰۸)

اس دن پکارنے والے کے پیچھے دوڑیں گے(ف۱۶۱)اُس میں کجی نہ ہوگی(ف۱۶۲)اور سب آوازیں رحمٰن کے حضو ر (ف۱۶۳)پست ہوکر رہ جائیں گی تو تو نہ سنے گا مگر بہت آہستہ آواز (ف۱۶۴)

(ف161)

جو انہیں روزِ قیامت موقَف کی طرف بلا ئے گا اور ندا کرے گا چلو رحمٰن کے حضور پیش ہو نے کو اور یہ پُکارنے والے حضرت اسرافیل ہوں گے ۔

(ف162)

اور اس دعوت سے کوئی انحراف نہ کر سکے گا ۔

(ف163)

ہیبت و جلال سے ۔

(ف164)

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا ایسی کہ اس میں صرف لبوں کی جنبش ہوگی ۔

یَوْمَىٕذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَ رَضِیَ لَهٗ قَوْلًا(۱۰۹)

اُس دن کسی کی شفاعت کام نہ دے گی مگر اس کی جسے رحمٰن نے (ف۱۶۵) اذن دے دیا ہے اور اُس کی بات پسند فرمائی

(ف165)

شفاعت کرنے کا ۔

یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِهٖ عِلْمًا(۱۱۰)

وہ جانتا ہے جو کچھ اُن کے آگے ہے اور جو کچھ اُن کے پیچھے (ف۱۶۶) اور ان کا علم اسے نہیں گھیر سکتا (ف۱۶۷)

(ف166)

یعنی تمام ماضیات و مستقبلات اور جملہ امورِ دنیا و آخرت یعنی اللہ تعالٰی کا علم بندوں کے ذات و صفات اور جملہ حالات کو مُحیط ہے ۔

(ف167)

یعنی تمام کائنات کا علم ذاتِ الٰہی کا احاطہ نہیں کر سکتا ، اس کی ذات کا ادراک علومِ کائنات کی رسائی سے برتر ہے ، وہ اپنے اسماء و صفات اور آثارِ قدرت و شیونِ حکمت سے پہچانا جاتا ہے ۔

شعر :

کجا دریابد او را عقل چالاک

کہ اوبالا تر است ازحدِ ادراک

نظر کن اندر اسماء وصفاتش

کہ واقف نیست کس از کنہ ذاتش ۔

بعض مفسِّرین نے اس آیت کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ علومِ خَلق معلوماتِ الٰہیہ کا احاطہ نہیں کر سکتے ۔ بظاہر یہ عبارتیں دو ہیں مگر مآل پر نظر رکھنے والے بآسانی سمجھ لیتے ہیں کہ فرق صرف تعبیر کا ہے ۔

وَ عَنَتِ الْوُجُوْهُ لِلْحَیِّ الْقَیُّوْمِؕ-وَ قَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا(۱۱۱)

اور سب منہ جھک جائیں گے اس زندہ قائم رکھنے والے کے حضور (ف۱۶۸) اور بےشک نامراد رہا جس نے ظلم کا بوجھ لیا (ف۱۶۹)

(ف168)

اور ہر ایک شانِ عجز و نیاز کے ساتھ حاضر ہو گا ، کسی میں سرکشی نہ رہے گی ، اللہ تعالٰی کے قہر و حکومت کا ظہورِ تام ہو گا ۔

(ف169)

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے اس کی تفسیر میں فرمایا جس نے شرک کیا ٹوٹے میں رہا اور بے شک شرک شدید ترین ظلم ہے اور جو اس ظلم کا زیرِ بار ہو کر موقَفِ قیامت میں آئے اس سے بڑھ کر نامراد کون ۔

وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا یَخٰفُ ظُلْمًا وَّ لَا هَضْمًا(۱۱۲)

اور جو کچھ نیک کام کرے اور ہو مسلمان تو اسے نہ زیادتی کا خوف ہوگا اور نہ نقصان کا (ف۱۷۰)

(ف170)

مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ طاعت اور نیک اعمال سب کی قبولیت ایمان کے ساتھ مشروط ہے کہ ایمان ہو تو سب نیکیاں کار آمد ہیں اور ایمان نہ ہو تویہ سب عمل بے کار ۔

وَ كَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا وَّ صَرَّفْنَا فِیْهِ مِنَ الْوَعِیْدِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ اَوْ یُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا(۱۱۳)

اور یونہی ہم نے اُسے عربی قرآن اتارا اور اس میں طرح طرح سے عذاب کے وعدے دئیے (ف۱۷۱) کہ کہیں انہیں ڈر ہو یا ان کے دل میں کچھ سوچ پیدا کرے (ف۱۷۲)

(ف171)

فرائض کے چھوڑنے اور ممنوعات کا ارتکاب کرنے پر ۔

(ف172)

جس سے انہیں نیکیوں کی رغبت اور بدیوں سے نفرت ہو اور وہ پند و نصیحت حاصل کریں ۔

فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّۚ-وَ لَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّقْضٰۤى اِلَیْكَ وَحْیُهٗ٘-وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا(۱۱۴)

تو سب سے بلند ہے اللہ سچا بادشاہ (ف۱۷۳) اور قرآن میں جلدی نہ کرو جب تک اس کی وحی تمہیں پوری نہ ہولے (ف۱۷۴) اور عرض کرو کہ اے میرے رب مجھے علم زیادہ دے

(ف173)

جو اصل مالک ہے اور تمام بادشاہ اس کے محتاج ۔

(ف174)

شانِ نُزول : جب حضرت جبریل قرآنِ کریم لے کر نازل ہوتے تھے تو حضرت سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے اور جلدی کرتے تھے تاکہ خوب یاد ہو جائے ۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی فرمایا گیا کہ آپ مشقت نہ اٹھائیں اورسورۂ قیامہ میں اللہ تعالٰی نے خود ذمہ لے کر آپ کی اور زیادہ تسلّی فرما دی ۔

وَ لَقَدْ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا۠(۱۱۵)

اور بےشک ہم نے آدم کو اس سے پہلے ایک تاکیدی حکم دیا تھا (ف۱۷۵) تو وہ بھول گیا اور ہم نے اس کا قصد نہ پایا

(ف175)

کہ شجرِ ممنوعہ کے پاس نہ جائیں ۔