اِذۡ قَالَ لِاَبِيۡهِ وَقَوۡمِهٖ مَاذَا تَعۡبُدُوۡنَۚ ۞- سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 85
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِذۡ قَالَ لِاَبِيۡهِ وَقَوۡمِهٖ مَاذَا تَعۡبُدُوۡنَۚ ۞
ترجمہ:
جب انہوں نے اپنے (عرفی) باپ اور اپنی قوم سے کہا : تم کن چیزوں کی عبادت کررہے ہو ؟
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کی کواکب پرستی
الصفت : ٨٧۔ ٨٥ میں فرمایا : جب انہوں نے اپنے (عرفی) باپ اور اپنی قوم سے کہا تم کن چیزوں کی عبادت کررہے ہو ؟
حضرت ابراہیم کا اس قول سے ان کے طریقہ عبادت کی مذمت کرنا مقصود تھا ‘ پھر فرمایا : کیا تم اللہ کو چھوڑ کر خود ساختہ معبودوں کی عبادت کررہے ہو ؟ اس کلام سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مقصود یہ تھا کہ اپنی قوم کو اس پر متنبیہ کیا جائے کہ انہوں نے پتھر کے جن بتوں کو اپنا معبود قراردے لیا ہے وہ محض غلط ہے واقع کے خلاف ہے اور باطل ہے ‘ پھر فرمایا : تو اب رب العلمین کے متعلق تمہارا کیا گمان ہے ؟ یعنی اب تمہارے گمان میں عبادت کا مستحق کون ہے ؟ اور اب تم کس کو رب العلمین قرار دیتے ہوں ؟ کیا تمہیں اللہ سبحانہ کے رب العلمین ہونے کے متعلق کوئی شک ہے ؟ حتی کہ تم نے صرف ایک خدا کی عبادت کو ترک کردیا ہے ‘ یا تم کو کسی ذریعہ سے یہ معلوم ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور ذات عبادت کی مستحق ہے اس لیے تم نے اللہ کو چھوڑ کر اس کی عبادت شروع کردی ہے ‘ اور تم نے جو اللہ تعالیٰ پر یہ بہتان تراشے ہیں کہ اس کے کئی شرکاء ہیں اور وہ سب عبادت کے مستحق ہیں اور اس لیے تم ان کی عبادت کررہے ہو تو آخر اس کے جاننے کا کیا ذریعہ ہے ؟
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم چند معین سیاروں کی تعظیم اور ان کی پرستش کرتی تھی اور ان کا یہ اعتقاد تھا کہ اس جہان میں خیر اور شر اور سعادت اور نحوست کے جو واقعات رونما ہوتے ہیں وہ سب ان سیاروں ہی کی تاثیرات ہیں ‘ اور انہوں نے ان میں سے ہر سیارے کی ایک شکل بنا لی تھی اور اس کی صورت کے موافق ایک بت بنا لیا تھا پھر وہ ان بتوں کی تعظیم اور عبادت کو سیاروں کی تعظیم اور عبادت کا ذریعہ قرار دیتے تھے وہ سات سیارے ہیں : قمر ‘ عطارد ‘ زحل ‘ شمس ‘ مریخ ‘ مشتری ‘ اور زہرہ ‘ جو حرکت کرتے رہتے ہیں اور اپنے اپنے مدار میں گردش کرتے رہتے ہیں اور ہر سیارے کی گردش ایک مخصوص وضع اور ہیئت سے ہوتی ہے ‘ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اس جہان میں جس قدر حوادث رونما ہوتے ہیں وہ ان ہی سیاروں کی گردش کی مخصوص وضع کا ثمرہ اور نتیجہ ہوتے ہیں ‘ ان ہی سے موسمی تغیرات ہوتے ہیں ‘ باشوں کا آنا ‘ سمندروں میں طوفانوں کا اٹھنا ‘ زمین میں زلزلوں کا آنا ‘ لوگوں کا پیدا ہونا اور مرنا ‘ صحت مند اور بیمار ہونا ‘ فصلوں کا سرسبز ہونا یا ویران ہونا ‘ اسی طرح معین اشخاص پر جو راحت اور مصائب کے ‘ تنگی اور فراخ دستی کے اور خوشی اور نا خوشی کے ایام آتے ہیں وہ بھی ان سیار گان (متحرک ستاروں) کی تاثیرات ہیں اس لیے انہوں نے ان مخصوص سیاروں کی شکل کے بت بنا لیے تھے اور ان کی تعظیم اور عبادت کرتے تھے تاکہ ان پر راحت ‘ سعادت ‘ خوشی اور خوشحالی کے ایام سایا فگن رہیں اور وہ مصیبت ‘ نحوست ‘ رنج وغم اور تنگ دستی کے اثرات سے محفوظ رہیں۔
القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 85
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]