أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَالَ اَتَعۡبُدُوۡنَ مَا تَنۡحِتُوۡنَۙ ۞

ترجمہ:

ابراہیم نے کہا تم اپنے ہی تراش کیے ہوئے بتوں کی عبادت کرتے ہو

اس پر عقلی اور نقلی دلائل کہ بندہ اپنے افعال کا خالق نہیں ہے۔

الصفت : ٩٦۔ ٩٥ میں ہے : ابراہیم نے کہا تم اپنے ہی تراش کیے ہوئے بتوں کی عبادت کرتے ہو حالانکہ تم کو اور تمہارے کاموں کو اللہ نے ہی پیدا کیا ہے

ان کی قوم نے جب اپنے خود ساختہ خدائوں کے ٹکڑوں کو ٹوٹنے کے بعد بکھرے ہوئے دیکھا تو انہوں نے کہا ہمارے ان معبودوں کے ساتھ یہ کام کس نے کیا ہے ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : تم اپنے ہی تراش کیے ہوئے بتوں کی عبادت کرتے ہو حالانکہ تم کو اور تمہارے کاموں کو اللہ نے ہی پیدا کیا ہے یعنی تم جن بتوں کی پرستش کررہے ہو ان کو جن لکڑیوں ‘ پتھروں اور مٹی سے تم نے بنایا ہے ان چیزوں کو اللہ نے ہی پیدا کیا ہے اور تمہارے کاموں کو بھی اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے تو یہ بت بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہوئے۔

اہل سنت کا یہی مذہب ہے کہ بندہ اپنے افعال کا ‘ کا سبب ہے اور ان کا خالق اللہ تعالیٰ ہے ‘ اور قدر یہ کا مذہب یہ ہے کہ بندہ اپنے افعال کا خالق ہے اور جبر یہ کا مذہب یہ ہے کہ بندہ مجبور محض ہے ‘ اس کے افعال میں اس کا کوئی کسب اور اختیار نہیں ہے۔

حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ ہر صانع اور اس کی صفت کا خالق ہے۔ یہ حدیث امام مسلم کی شرط کے موافق ہے۔

(المستدرک ج ١ ص ١٣١ قدیم ‘ المستدرک رقم الحدیث : ٨٥ جدید ‘ الا حسان ج ٢ ص ٥٠‘ کنزالعمال ج ١ ص ٢٦٣ )

علامہ سعدالدین مسعود بن عمر تفتازانی متوفی ٧٩١ ھ لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ بندوں کے افعال کا خالق ہے ‘ خواہ بندہ کا فعل کفر ہو یا ایمان ‘ اطاعت ہو یا معصیت ‘ اس کے برعکس معتزلہ کا یہ فاسد گمان ہے کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے ‘ ان میں سے متقد مینتو بندہ کو خالق کہنے سے اجتناب کرتے تھے اور بندہ کو موجد اور مخترع کہتے تھے ‘ لیکن جبائی اور اس کے متبیعن نے یہ دیکھا کہ ان تمام الفاظ کا معین ایک ہی ہے اور وہ ہے کسی چیز کو عدم سے وجود کی طرف نکالنا تو انہوں نے دلیری سے بندہ پر خالق کا اطلاق کردیا ‘ اور اہل حق جو کہتے ہیں کہ بندہ اپنے افعال کا خالق نہیں ہے اس کے حسب ذیل دلائل ہیں :

(١) اگر بندہ اپنے افعال کا خالق ہو تو وہ اپنے افعال کی تفاصیل کا ضرور عالم ہوگا ‘ کیونکہ جب تک کسی چیز کی تفاصیل کا علم نہ ہو انسان اس کو وجود میں نہیں لاسکتا ‘ اور انسان کو اپنے اعفال کی تفاصیل کا علم نہیں ہوتا ‘ کیونکہ جب انسان ایک جگہ سے چل کر دوسری جگہ جاتا ہے تو اس کے چلنے میں معین تعداد میں قدم اٹھتے ہیں کبھی تیز اور کبھی آہستہ اور اس کو بالکل شعور نہیں ہوتا کہ اس کے چلنے میں کتنے قدم اٹھے اور اس میں کتنا وقت صرف ہوا ‘ کتنے قدم تیز تھے اور کتنے آہستہ ‘ اور اس سے اس کے متعلق اگر سوال بھی کیا جائے تو وہ جواب نہیں دے سکتا یہ تو ان افعال کا حال ہے جو بالکل ظاہر ہیں ‘ اور اگر وہ اس پر غور کرے کہ کسی چیز کو پکڑنے اور چھوڑنے میں اس کے کتنے اعضاء نے حرکت کی اس کے اعصاب سکڑنے اور پھیلنے کا عمل کتنی بار ہوا تو اس کے بےشعوری اور لاعلمی اور بھی زیادہ ہوگی۔

(٢) اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قول ذکر فرماتا ہے :

واللہ خالقکم وما تعملون (الصفت : ٩٦) اللہ نے تم کو پیدا کیا ہے اور تمہارے کاموں کو۔

نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

ذلکم اللہ ربکم خالق کل شیئ۔ (المومن : ٦٢) یہی ہے اللہ ! جو تمہارا رب ہے ‘ جو ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے۔

اور ہر چیز میں بندے کے اعمال بھی داخل ہیں ‘ سو وہ انکو بھی پید کرنے والا ہے۔

افمن یخلقو کمن لا یخلق۔ (النحل : ١٧) کیا جو پیدا کرتا ہے وہ اس کی مثل ہے جو کچھ پیدا نہ کرسکے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے خالق ہونے کو اپنی مدح میں اور اپنی عبادت کے استحقاق میں بیان فرمایا ہے یعنی عبادت کا مستحق وہی ہے جو خالق ہو۔

معتزلہ نییہ کہ کہ ہم خود سے چلنے والے اور معشہ والے کی حرکت میں فرق کو دیکھتے ہیں ‘ خود سے چلنے والا اپنے اختیار سے حرکت کرتا ہے اور رعشہ والا بغیر اختیار کے حرکت کرتا ہے ‘ نیز اگر بندوں کے افعال کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہو تو نیک افعال پر مدح اور برے افعال پر مذمت ‘ اور نیک افعال پر ثواب اور برے افعال پر عذاب کی کوئی وجہ نہیں ہوگی کیونکہ نیک اور برے افعال سب اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے ہیں ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض جبر یہ پروارد ہوتا ہے جو کسب اور اختیار کی بالکل نفی کرتے ہیں ‘ رہے ہم تو ہم یہ کہتے ہیں کہ بندہ جس فعل کا کسب کرتا ہے اور اس کو اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس میں وہ فعل پیدا کردیتا ہے۔ (شرح العقائد صر ٦٢۔ ٦٠‘ ملخصا مطبوعہ کراچی)

القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 95