قَالُوا ابۡنُوۡا لَهٗ بُنۡيَانًا فَاَلۡقُوۡهُ فِى الۡجَحِيۡمِ ۞- سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 97
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قَالُوا ابۡنُوۡا لَهٗ بُنۡيَانًا فَاَلۡقُوۡهُ فِى الۡجَحِيۡمِ ۞
ترجمہ:
انہوں نے کہا ان کے لیے عمارت بنائو اور انکو بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دو
حضرت ابراہیم پر آگ کے ٹھنڈی ہونے کی تفصیل
الصفت : ٩٨۔ ٩٧ میں ہے : انہوں نے کہا ان کے لیے عمارت بنائو اور ان کو بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال ڈو انہوں نے ابراہیم کے خلاف سازش کا ارادہ کیا تو ہم نے ان ہی کو نیچا کردیا
جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انکے سامنے بتوں کی الوہیت کے باطل ہونے پر قوی دلیل پیش کی اور وہ اس دلیل کا جواب دینے پر قادر نہ ہوئے تو انہوں نے آپ کو ضرر پہنچانے کا طریقہ اختیار کیا اور کہا انکے لیے ایک عمارت بنائو ‘ قرآن مجید میں اس عمارت کی ساخت اور اس کی کیفیت کا ذکر نہیں ہے البتہ امام ابو اسحاق احمد بن ابر اہیم التعلبی المتوفی ٤٢٧ ھ اور امام الحسین بن مسعود البغوی المتوفی ٥١٦ ھ نے اس سلسلہ میں یہ روایت ذکر کی ہے :
مقاتل نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کا انکے لیے ایک پتھر کی عمارت بنائو جس کا طول تیس ہاتھ ہو اور اس کا عرض تیس ہاتھ ہو اور اس کو لکڑیوں سے بھر دو پھر اس میں آگ لگا دو ‘ پھر ابراہیم کو اس آگ میں پھینک دو ۔الکشف والبیان ج ٨ ص ١٤٩‘ معالم التنزیل ج ٤ ص ٣٥)
اس آگ کے لیے قرآن مجید میں حجیم کا لفظ ہے اور حجیم اس آگ کو کہتے ہیں جو بہت عظیم آگ ہو ‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو غالب اور ان کو مغلوب کردیا اور جب انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے آگ کا ضرر دو کردیا اور ان کی سازش کو ناکام بنادیا۔
حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ امام ابن جریر کے حوالے سے لکھتے ہیں اور اس حدیث کو حافظ ابو القاسم علی بن الحسن ابن العسا کر المتوفی ٥٧١ ھ نے بھی روایت کیا ہے :
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے ان کو ایک کمرے میں بند کردیا اور ان کے لیے لکڑیوں کو جمع کیا ‘ حتی کہ اگر کوئی عورت بیمار ہوتی تو وہ نذر مانتی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت دی تو میں ابراہیم کو جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کروں گی ‘ پھر انہوں نے اتنی زیادہ لکڑیاں جمع کرکے آگ جلائی کہ اگر اسکی سمت سے پرندے گزرتے تو آگ کی تپیش سے جل جاتے ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھاتو ” آسمانوں ‘ زمینوں ‘ پہاڑروں اور فرشتوں نے فریاد کی کہ اے خدا ! تیرے نام کی سر بلندی کی پاداش میں ابراہیم کو جلایا جارہا ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے اس کا علم ہے اگر وہ تم کو پکارے تو تم اس کی فریاد رسی کرنا ‘ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہا : اے خدا ! تو آسمان میں واحد ہے اور میں زمین میں واحد ہوں ‘ اور میرے سوا زمین پر کوئی اور بندہ نہیں ہے جو تیری عبادت کرے ‘ مجھے اللہ کافی ہے اور وہ سب سے اچھا کار ساز ہے ‘ تب اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا :
ینارکونی برداوسلما علی ابرھیم۔ (الانبیائ : ٦٩) اے آگ تو ٹھنڈی ہوجا اور ابراہیم پر سلامتی بن جا۔
(الدر المثور ج ٧ ص ٩٠‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ ‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٦ ص ١٩٥۔ ١٩٤‘ رقم الحدیث : ١٦٥٠۔ ١٦٤٩ )
فاکہہ بن مغیرہ کی باندی بیان کرتی ہیں کہ میں حضرت عائشہ (رض) کے پاس گئی تو میں نے ان کے گھر میں ایک نیزہ رکھا ہوا دیکھا ‘ میں نے پوچھا اے ام المومنی ! آپ اس نیزہ سے کیا کرتی ہیں ؟ انہوں نے کہا ہم اس سے چھپکلیوں کو مارتی ہیں کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں یہ حدیث بیان کی کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا گیا تو چھپکلی کے سوازمین کا ہر جانور ان کی آگ کو بجھانے کی کوشش کررہا تھا اور چھپکلی پھونک مار کر اس آگ کو بھڑکار ہی تھی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو اس کے قتل کا حکم دیا۔ (سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٨٨٥‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٢٣١‘ مسند احمد ج ص ٨٣‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٦ ص ١٩٣۔ ١٩٢‘ رقم الحدیث : ١٦٤٦۔ ١٦٤٥۔ ١٦٤١‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے چھپکلی کو مار دیا اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کے دس گناہ مٹا دیئے جائیں گے اور اس کے دس درجات بلند کیے جائیں گے ‘ عرض کیا گیا یا رسول اللہ اس کی کیا وجہ ہے ؟ آپ نے فرمایا کیونکہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے آگ جلائی گئی تو اس نے آگ جلانے میں مدد کی تھی۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٦ (١٩٢‘ رقم الحدیث : ١٦٤٤‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ کو میں ڈالنے کی آزمائش میں مبتلا کرنے کی حکمتیں
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا گیا اور پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس آگ کو ٹھنڈی اور سلامتی والی بنادیا گیا ‘ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو وہ ابتداء آپ کے مخالف کفار کو اس پر قدرت نہ دیتا کہ وہ آپ کو آگ میں ڈلتے ‘ یا آگ میں ڈالے جانے سے پہلے کوئی ایسی تدبیر فرما دیتا کہ آپ اس شہر سے نکل جاتے اور آپ کے مخالف بت پرستوں کو آپ پر غلبہ حاصل نہ ہوتا اور وہ آپ کو گرفتار کرکے اس مکان میں بند نہ کر پاتے اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا اور بت پرستوں کے لیے یہ موقع مہیا کیا کہ وہ آپ کو اس بہت بڑی آگ میں ڈال دیں ‘ اس کی حسب ذیل وجوہ ہیں :
(١) لوگوں کے سامنے یہ مثال اور یہ نمونہ میہا کرنا تھا کہ اللہ تعالیٰ کیمخلص اور مقرب بندے اللہ کی راہ میں جان دینے سے نہیں گھبراتے اور توحید کی سربلندی کے لیے ہر امتحان سے سرخرو ہو کر نکلتے ہیں۔
(٢) ان کی قوم سورج ‘ چاند ‘ ستاروں کی پرستش کرتی تھی اور بعض لوگ آگ کی پرستش کرتے تھے ‘ اللہ تعالیٰ نے یہ دکھا دیا کہ آگ اپنی ذات میں کوئی طاقت نہیں رکھتی نہ اس میں فی نفسہ کوئی تاثیر ہے اس کا جلانا اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے ‘ وہ چاہے تو اس میں جلانے کی تاثیر ہوگی اور وہ نہ چاہے تو اس میں یہ تاثیر نہیں ہوگی ‘ وہ اپنی ذات میں ٹھنڈی ہے نہ گرم ہے ‘ وہ جب چاہے اس میں گرمی پیدا کردے اور جب چاہے اس میں ٹھنڈک پیدا کردے۔
(٣) جس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا گیا تو ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پشت میں موجود تھے اور جب آپ ان کی پشت میں موجود تھے تو آگ ان کو کیسے جلا سکتی تھی ‘ حضرت عباس (رض) نے غزوہ تبوک سے واپسی پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت میں چند اشعار پڑھے ان میں یہ شعر بھی تھا :
وردت نارالخلیل مستترا فی صلبہ انت کیف یحترق
حضرت خلیل اللہ کی آگ میں آپ بھی پوشیدہ طور پر وارد تھے اور جس کی پشت میں آپ موجود ہوں اس کو آگ کیسے جلا سکتی ہے۔
حافظ جلال الدین سیوطی نے ان اشعار کو المستدرک اور دلائل النبوت کے حوالے سے ذکر کیا ہے ‘ المستدرک ج ٣ ص ٣٤٧‘ اور دلائل النبوت ج ٥ ص ٢٦٨ میں ان اشعار کا ذکر ہے ‘ لیکن ان میں مذکور الصدر شعر ذکر نہیں ہے ‘ یقیناً حافظ سیوطی کے سامنے ان کتابوں کا جو نسخہ ہوگا ان میں یہ شعر بھی مذکور ہوگا اور ان کتابوں کے ناشر کو جو مخطوطہ ملا ہوگا ان میں یہ شعر مذکور نہیں ہوگا یا کسی وجہ سے طباعت سے رہ گیا ہوگا بہر حال حافظ سیوطی کے کے درج ذیل اشعار میں اس شعر کا بھی ذکر ہے۔(الخصائص الکبریٰ ج ١ ص ٦٧‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٠٥ ھ)
(٤) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) آگ میں ڈالے گئے تو یہ بھی ظاہر ہوا کہ آگ بھی ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچانتی ہے اور جب آپ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی پشت میں موجود تھے تو آگ آپ کو کیسے جلا سکتی تھی ‘ ہر چیز آپ کو پہچانتی ہے اس پر دلیل یہ حدیث ہے :
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
مامن شیء الا یعلم انی رسول اللہ الا کفرۃ اوفقۃ الجن والا نس۔ ہر چیز کو علم ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں سوا فاسق جنات اور انسانوں کے۔ (المعجم الکبیر ٢٢ ص ٢٦٢‘ رقم الحدیث : ٦٧٢)
(٥) حضرت ابراہیم خلیل اللہ کو آگ میں ڈالنے اور آگ کے آپ کو ضرر نہ پہنچانے سے یہ ظاہر ہوگیا کہ جس شخص کا اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان ہو وہ صرف اللہ سے ڈرتا ہے اور کائنات کی کسی چیز سے نہیں ڈرتا ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اس پر ایمان تھا کہ اللہ کے حکم کے بغیر ان کو کوئی چیز ضرر نہیں پہنچا سکتی اور موت اپنے مقرر وقت سے پہلے نہیں آسکتی اس لیے جب ان کی قم کے کافر سرداروں نے کہا ان کو آگ میں ڈال دو ‘ تو حضرت ابراہیم ذرا نہیں گھبرائے اور کسی قسم کے خوف اور پریشانی کا اظہار نہیں کیا ‘ اسی طرح حضرت خالد بن ولید (رض) نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر زہر کھالیا تھا اور آپ کو اس سے کوئی ضرر نہیں پہنچا تھا۔ (الیواقیت والجواہر ج ٢ ص ٤٨٨‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٨ ھ)
(٦) اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ یہ ہے کہ نبی اپنے وطن سے دوسرے علاقے کی طرف ہجرت اس وقت کرتا ہے جب اس کے وطن میں اس کے ممخالف کفار اس کی جان کے دشمن ہوگئے اور آپ کو قتل کرنے کی تدبیریں ہونے لگیں تو وہ مصر سے مدین کی طرف ہجرت کر گئے ‘ اور اسی طرح جب زمین پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جب قتل کرنے کی سازشیں کی جانے لگیں تو آپ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی ‘ اسی قاعدہ کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی کفار سے دشمنی جب ان کو جلانے کی سازش کی صورت میں ظاہر ہوئی تو آپ کو عراق سے شام کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا گیا ‘ سو آپ کو آگ میں ڈالے جانے کا واقعہ آپ کی ہجرت کا سبب بنا۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالنے کی زیادہ تفصیل الانبیاء : ٦٨‘ تبیان القرآن ج ٧ ص ٦١٢۔ ٦٠٨ میں ملاحظہ فرمائیں۔
القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 97
[…] تفیسر […]