وَقَالَ اِنِّىۡ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّىۡ سَيَهۡدِيۡنِ ۞- سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 99
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَقَالَ اِنِّىۡ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّىۡ سَيَهۡدِيۡنِ ۞
ترجمہ:
اور ابراہیم نے کہا میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں وہ عنقریب میری رہ نمائی کرے گا
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ابراہیم نے کہا میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں وہ عنقریب میری رہ نمائی کرے گا اے میرے رب ! مجھے نیک بیٹا عطا فرما سو ہم نے ان کو ایک برد بار لڑکے کی بشارت دی پس جب وہ لڑکا ان کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچا (تو) ابراہیم نے کہا اے میرے بیٹے ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تم کو ذبح کررہا ہوں ‘ اب تم سوچ کر بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے ؟ اس بیٹے نے کہا اے ابا جان ! آپ وہی کیجئے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے ‘ آپ انشاء اللہ ! مجھے عنقریب صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے جب دونوں نے سر تسلیم خم کردیا اور ابراہیم نے بیٹے کو پیشانی کے بل گرادیا اور ہم نے ابراہیم کو ندا کی کہ اے ابراہیم ! بیشک آپ نے اپنا خواب سچا کر دکھایا اور بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں بیشک یہ ضرور کھلی ہوئی آزمائش ہے اور ہم نے اس کے بدلہ میں ایک بہت بڑا ذبیحہ دے دیا اور ہم نے بعد میں آنے والوں کے لیے ان کا ذکر باقی رکھا (الصفت : ١٠٨۔ ٩٩)
حضرت ابراہیم خلیل اللہ کا اولین مہاجر ہونا
الصفت : ٩٩ میں ہے : اور ابراہیم نے کہا میں اپنیرب کی طرف جانیوالا ہوں وہ عنقریب میری رہ نمائی کرے گا جان ‘ اس کی عزت اور اس کا مال خطرہ میں ہو ‘ اس پر وہاں سیہجرت کرنا واجب ہے ‘ کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے وطن کے لوگوں سیشدید عداویت اور خطرہ میں ہو ‘ اس پر وہاں سے ہجرت کرنا واجب ہے ‘ کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے وطن کے لوگوں سے شدید عداوت اور خطرہ محسوس کیا تو آپ نے عراق سے شام کی طرف ہجرت کرنے کا قصد فرمایا۔
قرآن مجید کی یہ آیت ہجرت اور ایام فتنہ کی عزلت نشینی کی اصل ہے ‘ اور جس شخص نے اس پر سب سے پہلے عمل کیا وہ حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ ہیں جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو نمرود کی جلائی ہوئی آگ سے نجات دی تو آپ نے کہا ” میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں “ یعنی اپنی قوم اور اپنے وسن سے ہجرت کر کے اس جگہ جانیوالا ہوں جہاں میں آسانی کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرسکوں ‘ عنقریب میرا رب میری اس چیز کی طرف رہ نمائی کرے گا جس کا میں نے نیک نیتی سے قصد کیا ہے ‘ مقاتل نے کہا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کی مخلوق میں سے وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے حضرت لوط اور حضرت سارہ کے ساتھ عراق سے ارض مقدسہ یعنی شام اور فلسطین کی طرف ہجرت کا قصد کیا ‘ ایک قول یہ ہے کہ انہوں نے حران کی طرف ہجرت کی تھی اور ایک مدت تک وہاں رہے تھے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٥ ص ٨٩)
عزلت نشینی کی فضیلت میں احادیث
حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا یارسول اللہ ! لوگوں میں سب سے اچھا شخص کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ شخص جو اپنی جان اور مال سے جہاد کرے اور وہ شخص جو پہاڑ کی گھاٹیوں میں سی کسی گھاٹی میں چلا جائے ‘ وہاں اپنے رب کی عبادت کرے اور لوگوں کے شر کی وجہ سے ان کو چھوڑ دے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٧٨٦‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٨٨‘ سننابو دائود رقم الحدیث : ٤٤٨٥‘ سننالترمذی رقم الحدیث : ١٦٦٠‘ سنن نسائی رقم الحدیث : ٣١٠٥‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٩٧٨‘ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٢٠٧٦١‘ مسند احمد ج ٣ ص ١٦‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٠٦‘ المستدرک ج ٢ ص ٧١‘ السنن الکبری للبیہقی ج ٩ ص ١٥٩‘ شرح السنہ رقم الحدیث : ٢٦٢٢ )
حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ مسلمان شخص کا سب سے بہترین مال ایک بکری ہوگی جس کے ساتھ وہ پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش نازل ہونے کی جگہوں پر جائے گا ‘ اپنے دین کو بچانے کے لیے فتنوں کے شر سے بھاگے گا۔صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٩‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٢٦٧‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٩٨٠‘ مسند احمد رقم الحدیث : ١١٠٤٦ )
حضرت ام مالک البھز یہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتنوں کا ذکر فرمایا اور ان کو بہت قریب بتایا ‘ میں نے پوچھا یا رسول اللہ ایام فتنہ میں سب سے بہتر شخص کون ہوگا ؟ آپ نے فرمایا جو شخص اپنے گھوڑے کی لگام پکڑ کر اللہ کے دشمنوں کا پیچھا کرے وہ انکو بھگائے اور وہ اس کو بھگائیں (یعنی ان سے مقابلہ کرے) اور وہ شخص جو جنگل میں عزت نشینی کرے اور اس پر جو حق ہے وہ ادا کرے) ۔ (مصنف عبدالرزاق ج ١١ ص ٣٦٧ طبع قدیم ‘ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٢٠٩٢٦‘ المستدرک ج ٤ ص ٤٩٣‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢١٧٧‘ مسند احمد ج ٦ ص ٤١٩)
حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا اے لوگو ! تم کو فتنے اس طرح ڈھانپ لیں گے جس طرح اندھیری رات میں اوپر تلے اندھیرے آتے ہیں اس زمانہ میں سب سے زیادہ نجات یافتہ شخص وہ ہوگا جو (جنگل میں) اپنی بکریوں کے دودھ پر گزارہ کرے یا وہ شخص دروازہ سے باہر اپے گھوڑے کی لگا پکڑ کر جائے اور اپنی تلوار سے کھائے۔(مصنف عبدالرزاق ج ١١ ص ٣٦٨ قدیم ‘ مصنفی عبدالرزاق رقم الحدیث : ٢٠٩٢٨‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
حضرت کرزبن علقمہ الخز اعی (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا اسلام ( کے درجات) کی کوئی انتہا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں عرب یا عجم کے جس گھر والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ خیر کا ارادہ فرماتا ہے ان کے اوپر اسلام کو داخل فرما دیتا ہے ‘ پھر اس طرح فتنے برپا ہوں گے گویا کہ وہ سائبان ہیں اور فرمایا کیوں نہیں ! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ! تم ان فتنوں میں لوٹ جائو گے گویا کہ سانپ ڈسنے کے لیے پھن اٹھائے کھڑاہو ! تم میں سے بعض ‘ بعض کی گردنوں پر وار کریں گے ‘ اور ایک روایت میں ہے تم میں سے سب سے افضل وہ ممنہو گا جو پہاڑوں کی گھاٹیوں میں سے کسی گھاٹی میں عزلت نشین ہوگا وہ اپنے رب تبارک وتعالیٰ سے ڈرتا ہوگا اور لوگوں کو ان کے شر کی وجہ سے چھوڑ دے گا۔ (مسنداحمد ج ٣ ص ٣٧٧‘ المعجم الکبیر ج ١٩ ص ١٩٩۔ ١٩٧‘ مسند البز اررقم الحدیث : ٣٣٥٥۔ ٣٣٥٤۔ ٣٣٥٣ )
عزلت نشینی کی فضیلت اور استحباب کے متعلق فقہاء اسلام کے مختلف اقوال
قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی ٥٤٤ ھ لکھتے ہیں :
ان احادیث میں لوگوں سے الگ اور علیحدہ ہو کر گوشتہ نشینی کی فضیلت ہے ‘ اور ان احادیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ آپ کے بعد فتنے رونما ہوں گے تو اس وقت لوگوں سے میل جول رکھنے کی بہ نسبت ان سے علیحدہ ہو کر گوشہ نشینی میں فضیلت ہے ‘ خصوصاً جو لوگ جہاد کرنے پر قدرت نہ رکھتے ہوں ‘ یا وہ زمانہ جہاد کا نہ ہو ‘ یا مسلمانوں کو ان کے علوم سے استفادہ کرنے کی ضرورت نہ ہو ‘ ان احادیث میں پہاڑوں کی گھاٹیوں کا ذکر کیا ہے اور خصوصاً ان جگہوں پر جانا مراد نہیں ہے ان کا ذکر اس لیے فرمایا ہے کہ عام طور پر عزلت نشینی کے لیے لوگ ایسی جگہوں پر جاتے ہیں کیونکہ عموماً ایسے مقامات پر لوگوں کا اجتماع نہیں ہوتا ‘ ایک اور حدیث میں گھر میں گوشہ نشین رہنے کی ہدایت فرمائی ہے۔(اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٦ ص ٣١٠‘ دارالوفاء بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)
حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! نجات کس طرح حاصل ہوگی ؟ آپ نے فرمایا اپنی زبان پر قابو رکھو اور اپنے گھر میں رہو اور اپنی خطائوں پر رئوو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٤٠٦‘ مسند احمد ج ٤ ص ١٤٨‘ الکامل لابن عدی ج ٤ ص ١٦٣٢‘ حلیۃ الاولیاء ج ٢ ص ٩)
علامہ یحییٰ بن شرف نووی متوفی ٦٧٦ ھ لکھتے ہیں :
ان احادیث میں ان علماء کی دلیل ہے جو لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے پر عزلت نشینی کو ترجیح دیتے ہیں اور اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف مشہور ہے ‘ امام شافعی اور جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ اگر فتنہ سے سلامتی کی توقع ہو تو گزشہ نشین رہنے کی بہ نسبت لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنا افضل ہے ‘ اور بعض علماء کا نظر یہ یہ ہے کہ عزلت نشینی افضل ہے ‘ اور جمہور علماء نے ان احادیث کا یہ جواب دیا ہے کہ فتنہ کے زمانہ میں عزلت نشینی افضل ہے ‘ اور ان احادیث کا یہی محمل ہے ‘ یا یہ احادیث ان لوگوں کے لیے ہیں جو لوگوں کے ضرر سے محفوظ نہ رہ سکیں ‘ یا جو لوگ فتنہ بازوں کے ضرر پر صبر نہ کرسکیں ‘ انبیاء (علیہم السلام) ‘ جمہور صحابہ ‘ تابعین ‘ علماء اور زھاد وغیر ھم لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے ‘ وعظ و نصیحت کرتے اور ذکر کی مجالس میں شریک ہوتے تھے۔(صحیح مسلم بشرح النواوی ج ٨ ص ٥٢٨٠‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ)
حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں :
علامہ خطابی نے کہا ہے کہ اگر عزلت نشینی کا صرف یہی فائد ہوتا ہے کہ اس سے انسان غیبت کرنے سے محفوظ رہتا ہے اور اس برائی کے دیکھنے سے بچا رہتا ہے جس کے ازالہ پر وہ قادر نہیں ہے تو یہ بھی عزلت نشینی کی فضیلت کے لیے بہت کافی ہے۔ (فتح الباری ج ١٣ ص ١٣٠‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤٢٠ ھ)
علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ لکھتے ہیں :
ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ فتنوں کے ایام میں گوشہ نشین ہونا افضل ہے ‘ سوا اس صورت کے کہ انسان ان فتنوں کو زائل کرنے پر قادر ہو اس وقت اس پر واجب ہے کہ وہ ان فتنوں کے ازالہ کے لیے سعی اور جدوجہد کرے ‘ اور یہ ازالہ اس کے حال اور اس کی قدرت کے اعتبار سے فرض عین ہوگا یا فرض کفایہ ہوگا ‘ اور جب فتنوں کے ایام نہ ہوں تو اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ اب عزلت نشینی افضل ہے پالوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنا افضل ہے ‘ علامہ نووی نے کہا کہ امام شافعی اور جمہور علماء کے نزدیک مل جل کر رہنا افضل ہے کیونکہ اس میں بہت سے فوائد کا حصول ہے ‘ اور شعائر اسلام میں حاضر ہونے کا موقع ہے اور مسمانوں کی جماعت میں کثرت کا اظہار ہے اور ان کو خیر پہنچان کا فائدہ ہے ‘ بیماروں کی عیادت ‘ جنازوں کا پڑھنا ‘ ایک دوسرے کو سلام کرنا ‘ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ‘ نیکی اور پزہیز گاری کے کاموں میں تعاون کرنا ‘ ضرورت مندوں کی مدد کرنا اور اس طرح کے اور بہت سے ایسے کام ہیں جن پر ہر مسلمان قادر ہوتا ہے ‘ اور اگر وہ شخص عالم دین اور صاحب طریقت ہو تو اجتماعی معاشرہ میں رہنے کی فضیلت اور بھی موکد ہوجاتی ہے۔
دوسرے علماء نے کہا ہے کہ ان ایام میں بھی عزلت نشینی افضل ہے بشرطیکہ اس کو ان عبادات کرنے کے طریقوں کا علم ہو جو اس پر لازم ہیں اور جن کو ادا کرنے کا وہ مکلف ہے ‘ اور مختار یہ ہے کہ اجتماعی معاشرہ میں رہنا افضل ہے جب کہ اس کا ظن غالب یہ ہو کہ وہ لوگوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے گناہوں میں مبتلا نہیں ہوگا۔
علامہ کرمانی متوفی ٧٨٦ ھ نے کہا ہمارے زمانہ میں مختار یہ ہے کہ انسان گوشہ تنہائی میں رہے کیونکہ بہت کم مجلسیں گناہوں سے خالی ہوتی ہیں (علامہ عینی فرماتے ہیں) میں بھی اس قول کے موافق ہوں ‘ کیونکہ اس زمانہ میں لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنا صرف برائیوں میں مبتلا ہونے کا سبب ہے ‘ ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فتنوں سے احتراز کرنا چاہیے ‘ اور متقد میں کی ایک جماعت فتنوں کے خوف سے اپنے وطن سے نکل گئی ‘ حضرت سلمہ بن اکوع (رض) ‘ حضرت عثمان (رض) کے فتنہ کے زمانہ میں مدینہ سے نکل کر ربذہ میں چلے گئے تھے ‘ اور ان احادیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ ہے کہ آپ نے یہ خبردی کہ آخر زمانہ میں لوگوں میں فتنہ اور فساد ہوگا اور ایسا ہی ہوا۔ (عمدۃ القاری ج ١ ص ٢٦٤۔ ٢٦٣‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
غور فرمایئے علامہ کرمانی متوفی ٧٨٦ ھ اور علامہ عینی متوفی ٨٥٥ ھ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے میں فسق و فجور اور انواع و اقسام کے گناہوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے اس لیے اب گوشہ نشینی میں عافیت ہے اور خلوت گزینی افضل ہے ‘ تو سو چنے کہ اب ١٤٤٢٤ ھ میں میں حالات کس قدر دگر گوں ہوچکے ہیں اور اب عزلت نشینی کس قدر اہم اور ضروری ہوگئی ہے ‘ اس لیے اس ناکارہ نے بھی اب گوشہ نشینی کو اختیار کرلیا ہے ‘ دارالعلوم نے گوشہ عافیت میں بیٹھ کر درس بخاری اور تصنیف و تالیف کو لازم کرلیا ہے اور اجتماعی مجالس اور محافل میں جانے کو بالکل ترک کردیا ہے۔
میری زندگی اب فاضل بریلوی کی اس رباعی کے مصداق ہے :
نہ مرانوش زتحسیں نہ مرانیش زطعن نہ مراگوش بمد حے نہ مرا ہوش ذمے
نہ مجھے کسی کی تعریف و تحسین سے خوشی ہوتی نہ میں کسی کی تعریف سنتا ہوں نہ مجھے کسی کی
ہے نہ کسی کے طعنوں سے رنج ہوتا ہے مذمت کرنے کا ہوش ہے
منم و کنج خمولی کہ نگنجند دروے جزمن و چند کتابے و دوات و قلمے
میں ایک گوشہ گمنامی میں ہوں کہ اس میں چند کتابوں اور قلم دوات کے سوا اور کسی چیز کی گنجائش نہیں ہے
بعض محبین مجھے اپنی محافل اور مجالس میں بہ اصرار بلاتے ہیں ان سے گذارش ہے کہ مجھے اپنے حال میں رہنے دیں۔
الصفت : ٩٩ کے بعد الصفت : ١١١۔ ١٠٠ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے بیٹے کی قربانی کا ذکر ہے اس کی تفسیر میں ہم انشاء اللہ دلائل سے واضح کریں گے کہ آپ کے یہ بیٹے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) تھے ‘ اور اس کے بعد قربانی سے متعلق تمام امور کو احادیث اور مذاہب اربعہ کی کتب سے بیان کریں گے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 99