کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 16 رکوع 16 سورہ طٰہٰ آیت نمبر 116 تا 128
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى(۱۱۶)
اور جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب سجدے میں گرے مگر ابلیس اُس نے نہ مانا
فَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ لِزَوْجِكَ فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰى(۱۱۷)
تو ہم نے فرمایا اے آدم بےشک یہ تیرا اور تیری بی بی کا دشمن ہے (ف۱۷۶) تو ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو جنت سے نکال دے پھر تو مشقت میں پڑے (ف۱۷۷)
(ف176)
اس سے معلوم ہوا کہ صاحبِ فضل و شرف کی فضیلت کو تسلیم نہ کرنا اور اس کی تعظیم و احترام بجا لانے سے اعراض کرنا دلیلِ حسد و عداوت ہے ۔ اس آیت میں شیطان کا حضرت آدم کو سجدہ نہ کرنا آپ کے ساتھ اس کی دشمنی کی دلیل قرار دیا گیا ۔
(ف177)
اور اپنی غذا اور خوراک کے لئے زمین جوتنے ، کھیتی کرنے ، دانہ نکالنے ، پیسنے ، پکانے کی محنت میں مبتلا ہو اور چونکہ عورت کا نفقہ مرد کے ذمہ ہے اس لئے اس تمام محنت کی نسبت صرف حضرت آدم علیہ السلام کی طرف فرمائی گئی ۔
اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْ عَ فِیْهَا وَ لَا تَعْرٰىۙ(۱۱۸)
بیشک تیرے لیے جنت میں یہ ہے کہ نہ تو بھوکا ہو نہ ننگا ہو
وَ اَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِیْهَا وَ لَا تَضْحٰى(۱۱۹)
اور یہ کہ تجھے نہ اس میں پیاس لگے نہ دھوپ (ف۱۷۸)
(ف178)
ہر طرح کا عیش و راحت جنّت میں موجود ہے ، کسب و محنت سے بالکل امن ہے ۔
فَوَسْوَسَ اِلَیْهِ الشَّیْطٰنُ قَالَ یٰۤاٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَ مُلْكٍ لَّا یَبْلٰى(۱۲۰)
تو شیطان نے اسے وسوسہ دیا بولااے آدم کیا میں تمہیں بتادوں ہمیشہ جینے کا پیڑ(ف۱۷۹) اور وہ بادشاہی کہ پرانی نہ پڑے (ف۱۸۰)
(ف179)
جس کو کھا کر کھانے والے کو دائمی زندگی حاصل ہو جاتی ہے ۔
(ف180)
اور اس میں زوال نہ آئے ۔
فَاَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ٘-وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى۪ۖ(۱۲۱)
تو ان دونوں نے اس میں سے کھالیا اب ان پر ان کی شرم کی چیزیں ظاہر ہوئیں (ف۱۸۱) اور جنت کے پتے اپنے اوپر چپکانے لگے (ف۱۸۲) اور آدم سے اپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی تو جو مطلب چاہا تھا اس کی راہ نہ پائی (ف۱۸۳)
(ف181)
یعنی بہشتی لباس ان کے جسم سے اُتر گئے ۔
(ف182)
ستر چھپانے اور جسم ڈھکنے کے لئے ۔
(ف183)
اور اس درخت کے کھانے سے دائمی حیات نہ ملی پھر حضرت آدم علیہ السلام توبہ و اِستِغفار میں مشغول ہوئے اور بارگاہِ الٰہی میں سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کی ۔
ثُمَّ اجْتَبٰهُ رَبُّهٗ فَتَابَ عَلَیْهِ وَ هَدٰى(۱۲۲)
پھر اسے اس کے رب نے چن لیا تو اس پر اپنی رحمت سے رجوع فرمائی اور اپنے قرب خاص کی راہ دکھائی
قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِیْعًۢا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّۚ-فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى ﳔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَ لَا یَشْقٰى(۱۲۳)
فرمایا تم دونوں مل کر جنت سے اُترو تم میں ایک دوسرے کا دشمن ہے پھر اگر تم سب کو میری طرف سے ہدایت آئے (ف۱۸۴) تو جو میری ہدایت کا پیرو ہوا وہ نہ بہکے (ف۱۸۵) نہ بدبخت ہو (ف۱۸۶)
(ف184)
یعنی کتاب اور رسول ۔
(ف185)
یعنی دنیا میں ۔
(ف186)
آخرت میں کیونکہ آخرت کی بدبختی دنیا میں طریقِ حق سے بہکنے کا نتیجہ ہے تو جو کوئی کتابِ الٰہی اور رسولِ برحق کا اِتّباع کرے اور ان کے حکم کے مطابق چلے وہ دنیا میں بہکنے سے اور آخرت میں اس کے عذاب و وبال سے نجات پائے گا ۔
وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا وَّ نَحْشُرُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰى(۱۲۴)
اور جس نے میری یاد سے منہ پھیرا(ف۱۸۷) تو بےشک اس کے لیے تنگ زندگانی ہے (ف۱۸۸) اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے
(ف187)
اور میری ہدایت سے روگردانی کی ۔
(ف188)
دنیا میں یا قبر میں یا آخرت میں یا دین میں یا ان سب میں دنیا کی تنگ زندگانی یہ ہے کہ ہدایت کا اِتّباع نہ کرنے سے عملِ بد اور حرام میں مبتلا ہو یا قناعت سے محروم ہو کر گرفتارِ حرص ہو جائے اور کثرتِ مال و اسباب سے بھی اس کو فراخِ خاطر اور سکونِ قلب میسّر نہ ہو ، دل ہر چیز کی طلب میں آوارہ ہو اور حرص کے غموں سے کہ یہ نہیں وہ نہیں حال تاریک اور وقت خراب رہے اور مومن متوکِّل کی طرح اس کو سکون و فراغ حاصل ہی نہ ہو جس کو حیاتِ طیبہ کہتے ہیں ” قَالَ تَعَالیٰ فَلَنُحْیِیَنَّہ، حَیٰوۃً طَیِبَّۃً ” اور قبر کی تنگ زندگانی یہ ہے کہ حدیث شریف میں وارد ہوا کہ کافِر پر ننانوے اژدہے اس کی قبر میں مسلّط کئے جاتے ہیں ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا
شانِ نُزول : یہ آیت اسود بن عبد العزی مخزومی کے حق میں نازِل ہوئی اور قبر کی زندگانی سے مراد قبر کا اس سختی سے دبانا ہے جس سے ایک طرف کی پسلیاں دوسری طرف آ جاتی ہیں اور آخرت میں تنگ زندگانی جہنّم کے عذاب میں جہاں زقوم (تھوہڑ) اور کھولتا پانی اور جہنّمیوں کے خون اور ان کے پیپ کھانے پینے کو دی جائے گی اور دین میں تنگ زندگانی یہ ہے کہ نیکی کی راہیں تنگ ہو جائیں اور آدمی کسبِ حرام میں مبتلا ہو ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ بندے کو تھوڑا ملے یا بہت اگر خوفِ خدا نہیں تو اس میں کچھ بھلائی نہیں اور یہ تنگ زندگانی ہے ۔ (تفسیرِ کبیر و خازن و مدارک وغیرہ)
قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْۤ اَعْمٰى وَ قَدْ كُنْتُ بَصِیْرًا(۱۲۵)
کہے گا اے رب میرے مجھے تو نے کیوں اندھا اٹھایا میں تو انکھیارا(دیکھنے والا) تھا(ف۱۸۹)
(ف189)
دنیا میں ۔
قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَهَاۚ-وَ كَذٰلِكَ الْیَوْمَ تُنْسٰى(۱۲۶)
فرمائے گا یونہی تیرے پاس ہماری آیتیں آئی تھیں (ف۱۹۰) تو نے انہیں بھلادیا اور ایسے ہی آج تیری کوئی خبر نہ لے گا(ف۱۹۱)
(ف190)
تو ان پر ایمان نہ لایا اور ۔
(ف191)
جہنّم کی آ گ میں جلا کرے گا ۔
وَ كَذٰلِكَ نَجْزِیْ مَنْ اَسْرَفَ وَ لَمْ یُؤْمِنْۢ بِاٰیٰتِ رَبِّهٖؕ-وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَشَدُّ وَ اَبْقٰى(۱۲۷)
اور ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں جو حد سے بڑھے اور اپنے رب کی آیتوں پر ایمان نہ لائے اور بےشک آخرت کا عذاب سب سے سخت تر اور سب سے دیرپا ہے
اَفَلَمْ یَهْدِ لَهُمْ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ یَمْشُوْنَ فِیْ مَسٰكِنِهِمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّهٰى۠(۱۲۸)
تو کیا انہیں اس سے راہ نہ ملی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی سنگتیں (قومیں)ہلاک کردیں (ف۱۹۲) کہ یہ ان کے بسنے کی جگہ چلتے پھرتے ہیں (ف۱۹۳) بےشک اس میں نشانیاں ہیں عقل والوں کو (ف۱۹۴)
(ف192)
جو رسولوں کو نہیں مانتی تھیں ۔
(ف193)
یعنی قریش اپنے سفروں میں ان کے دیار پر گزرتے ہیں اور ان کی ہلاکت کے نشان دیکھتے ہیں ۔
(ف194)
جو عبرت حاصل کریں اور سمجھیں کہ انبیاء کی تکذیب اور ان کی مخالفت کا انجام بُرا ہے ۔