وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَكَانَ لِزَامًا وَّ اَجَلٌ مُّسَمًّىؕ(۱۲۹)

اور اگر تمہارے رب کی ایک بات نہ گزر چکی ہوتی (ف۱۹۵) تو ضرور عذاب انہیں (ف۱۹۶) لپٹ جاتا اور اگر نہ ہوتا ایک وعدہ ٹھہرایا ہوا (ف۱۹۷)

(ف195)

یعنی کہ یہ اُمّتِ محمّدِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عذاب میں تاخیر کی جائے گی ۔

(ف196)

دنیا ہی میں ۔

(ف197)

یعنی روزِ قیامت ۔

فَاصْبِرْ عَلٰى مَا یَقُوْلُوْنَ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِهَاۚ-وَ مِنْ اٰنَآئِ الَّیْلِ فَسَبِّحْ وَ اَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضٰى(۱۳۰)

تو ان کی باتوں پر صبر کرو اور اپنے رب کو سراہتے(تعریف کرتے) ہوئے اس کی پاکی بولو سورج چمکنے سے پہلے (ف۱۹۸) اور اس کے ڈوبنے سے پہلے (ف۱۹۹) اور رات کی گھڑیوں میں اس کی پاکی بولو (ف۲۰۰) اور دن کے کناروں پر (ف۲۰۱) اس امید پر کہ تم راضی ہو (ف۲۰۲)

(ف198)

اس سے نمازِ فجر مراد ہے ۔

(ف199)

اس سے ظہر و عصر کی نمازیں مراد ہیں جو دن کے نصفِ آخر میں آفتاب کے زوال و غروب کے درمیان واقع ہیں ۔

(ف200)

یعنی مغرب و عشا کی نمازیں پڑھو ۔

(ف201)

فجر و مغرب کی نمازیں ان کی تاکیداً تکرار فرمائی گئی اور بعض مفسِّرین قبلِ غروب سے نمازِ عصر اور اطرافِ نہار سے ظہر مراد لیتے ہیں ، ان کی توجیہہ یہ ہے کہ نمازِ ظہر زوال کے بعد ہے اور اس وقت دن کے نصفِ اوّل اور نصفِ آخر کے اطراف ملتے ہیں نصف اول کی انتہا ہے اور نصف آخر کی ابتدا ۔ (مدارک و خازن)

(ف202)

اللہ کے فضل و عطا اور اس کے انعام و اکرام سے کہ تمہیں اُمّت کے حق میں شفیع بنا کر تمہاری شفاعت قبول فرمائے اور تمہیں راضی کرے جیسا کہ اس نے فرمایا ہے ۔ ” وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی ”۔

وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ﳔ لِنَفْتِنَهُمْ فِیْهِؕ-وَ رِزْقُ رَبِّكَ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰى(۱۳۱)

اور اے سننے والے اپنی آنکھیں نہ پھیلا اسکی طرف جو ہم نے کافروں کے جوڑوں کو برتنے کے لیے دی ہے جیتی دنیا کی تازگی (ف۲۰۳) کہ ہم انہیں اس کے سبب فتنہ میں ڈالیں(ف۲۰۴) اور تیرے رب کا رزق (ف۲۰۵) سب سے اچھا اور سب سے دیرپا ہے

(ف203)

یعنی اصناف و اقسامِ کُفّار یہود و نصارٰی وغیرہ کو جو دنیوی ساز و سامان دیا ہے مؤمن کو چاہیئے کہ اس کو استحسان و اعجاب کی نظر سے نہ دیکھے ۔ حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ نافرمانوں کے طمطراق نہ دیکھو لیکن یہ دیکھو کہ گناہ اور معصیت کی ذلّت کس طرح ان کی گردنوں سے نمودار ہے ۔

(ف204)

اس طرح کہ جتنی ان پر نعمت زیادہ ہو اتنی ہی ان کی سرکشی اور ان کا طُغیان بڑھے اور وہ سزائے آخرت کی سزاوار ہوں ۔

(ف205)

یعنی جنّت اور اس کی نعمتیں ۔

وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْهَاؕ-لَا نَسْــٴَـلُكَ رِزْقًاؕ-نَحْنُ نَرْزُقُكَؕ-وَ الْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوٰى(۱۳۲)

اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دے اور خود اس پر ثابت رہ کچھ ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے (ف۲۰۶) ہم تجھے روزی دیں گے (ف۲۰۷) اور انجام کا بھلا پرہیزگاری کے لیے

(ف206)

اور اس کا مکلَّف نہیں کرتے کہ ہماری خَلق کو روزی دے یا اپنے نفس اور اپنے اہل کی روزی کا ذمہ دار ہو بلکہ ۔

(ف207)

اور انہیں بھی ، تو روزی کے غم میں نہ پڑ ، اپنے دل کو امرِ آخرت کے لئے فارغ رکھ کہ جو اللہ کے کام میں ہوتا ہے اللہ اس کی کارسازی کرتا ہے ۔

وَ قَالُوْا لَوْ لَا یَاْتِیْنَا بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-اَوَ لَمْ تَاْتِهِمْ بَیِّنَةُ مَا فِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰى(۱۳۳)

اور کافر بولے یہ (ف۲۰۸) اپنے رب کے پاس سے کوئی نشانی کیوں نہیں لاتے (ف۲۰۹) اور کیا انہیں اس کا بیان نہ آیا جو اگلے صحیفوں میں ہے (ف۲۱۰)

(ف208)

یعنی سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔

(ف209)

جو ان کی صحتِ نبوّت پر دلالت کرے باوجودیکہ آیاتِ کثیرہ آ چکی تھیں اور معجزات کا متواتر ظہور ہو رہا تھا پھر کُفّار ان سب سے اندھے بنے اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت یہ کہہ دیا کہ آپ اپنے ربّ کے پاس سے کوئی نشانی کیوں نہیں لاتے ، اس کے جواب میں اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے ۔

(ف210)

یعنی قرآن اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت اور آپ کی نبوّت و بعثت کا ذکر ، یہ کیسے اعظم آیات ہیں ان کے ہوتے ہوئے اور کسی نشانی کی طلب کرنے کا کیا موقع ہے ۔

وَ لَوْ اَنَّاۤ اَهْلَكْنٰهُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِهٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْ لَاۤ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِـعَ اٰیٰتِكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَ نَخْزٰى(۱۳۴)

اور اگر ہم انہیں کسی عذاب سے ہلاک کردیتے رسول کے آنے سے پہلے تو (ف۲۱۱) ضرور کہتے اے ہمارے رب تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیتوں پر چلتے قبل اس کے کہ ذلیل و رسوا ہوتے

(ف211)

روزِ قیامت ۔

قُلْ كُلٌّ مُّتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوْاۚ-فَسَتَعْلَمُوْنَ مَنْ اَصْحٰبُ الصِّرَاطِ السَّوِیِّ وَ مَنِ اهْتَدٰى۠(۱۳۵)

تم فرماؤ سب راہ دیکھ رہے ہیں (ف۲۱۲) تو تم بھی راہ دیکھو تو اب جان جاؤ گے (ف۲۱۳) کہ کون ہیں سیدھی راہ والے اور کس نے ہدایت پائی

(ف212)

ہم بھی اور تم بھی ۔

شانِ نُزول : مشرکین نے کہا تھا کہ ہم زمانے کے حوادِث اور انقلاب کا انتظار کرتے ہیں کہ کب مسلمانوں پر آئیں اور ان کا قصہ تمام ہو ۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور بتایا گیا کہ تم مسلمانوں کی تباہی و بربادی کا انتظار کر رہے ہو اورمسلمان تمہارے عقوبت و عذاب کا انتظار کر رہے ہیں ۔

(ف213)

جب خدا کا حکم آئے گا اور قیامت قائم ہو گی ۔