فَاسۡتَفۡتِهِمۡ اَلِرَبِّكَ الۡبَنَاتُ وَلَهُمُ الۡبَنُوۡنَۙ ۞- سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 149
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَاسۡتَفۡتِهِمۡ اَلِرَبِّكَ الۡبَنَاتُ وَلَهُمُ الۡبَنُوۡنَۙ ۞
ترجمہ:
پس اپ ان سے پوچھئے کہ آپ کے رب کے لیے بیٹیاں ہوں اور ان کے لیے بیٹے ہوں
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : پس آپ ان سے پوچھیے کہ آپ کے رب کے لیے تو بیٹیاں ہوں اور ان کے لیے بیٹے ہوں !۔ کیا جب ہم نے فرشتوں کو مؤنث بنایا تھا اس وقت یہ موجود تھے ؟۔ سنو ! وہ اپنی افتراء پر دازی سے ضرور کہتے ہیں کہ۔ اللہ کے ہاں اولاد ہوئی اور بیشک وہ ضرور جھوٹے ہیں۔ کیا اس نے بیٹوں کی بہ نسبت بیٹیوں کو اختیار کیا !۔ تم کو کیا ہوگیا ہے تم کیسی خبردے رہے ہو !۔ کیا تم سمجھتے نہیں ہو۔ یا تمہارے پاس اس کی کوئی واضح دلیل ہے ؟۔ تو تم اپنی کتاب لے آئو اگر تم سچے ہو۔ (الصفت : ١٥٧۔ ١٤٩ )
کفار کے اس قول کا رد کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں
اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے گزشتہ نبیوں اور رسولوں کے قصص اور واقعات کا ذکر فرمایا تاکہ مشرکین کو معلوم ہو کہ سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کا پیغام پہنچایا ہے۔ یہ کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں ہے ‘ اس سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ کے رسول آتے رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی توحید کو بیان کرتے رہے ہیں اور تم جو میری رسالت کی تکذیب کررہے ہو یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے ‘ ہمیشہ سے مشرکین رسولوں کی تکذیب کرتے رہے ہیں ‘ اور ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے پھر مشرکین مکہ کے باطل نظریات اور غلب اقوال کا رد فرمایا وہ اللہ سبحانہ کے لیے اولاد کو ثابت کرتے تھے اور اولاد بھی مؤنث ثابت کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔
جہینہ ‘ خزاعہ ‘ بنو ملیخ ‘ بنو سلمہ ‘ عبدالدار وغیر ھادیگر کفار مکہ کا یہ عقیدہ تھا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں ‘ اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا : پس آپ ان سے پوچھیے کہ آپ کے رب کے لیے تو بیٹیاں ہوں اور ان کے لیے بیٹے ہوں۔ (الصفت : ١٤٩ )
یہ کس قدر قابل افسوس اور قابل مذمت بات ہے کہ کفار اپنے لیے بیٹیوں کو ناپسند کرتے تھے ‘ بلکہ بیٹیوں کو باعث عار سمجھتے تھے اور بعض شقی القب تو بیٹی کے پیدا ہوتے ہی اس کو زندہ دفن کردیتے تھے ‘ اللہ تعالیٰ نے بیٹیوں سے ان کی نفرت کا حال بیان فرمایا ہے :
واذا بشرا احدھم بالانثی ظل وجھہ مسوداوھو کظیم۔ یتواری من القوم من سوء ما بشر بہ ایمس کہ علی ھون ام یدسہ فی التراب ط الا سآء مایحکمون۔ (النحل ٥٩۔ ٥٨)
اور جب ان میں سے کسی ایک کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوش خبری دی جاتی ہے تو سارادن اس کا منہ سیاہ اور غصہ سے بھرا رہتا ہے۔ وہ اس بشارت کو برا سمجھنے کی وجہ سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (وہ سوچتا ہے) کہ ذلت اٹھا کر اس بیٹی کو رکھ لے یا اس کو مٹی میں دبادے ‘ سنو وہ بہت برا فیصلہ کرتے ہیں۔
پھر یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ بیٹی کا وجود ان کے لیے اس قدر برا اور باعث عار اور نفرت انگیز ہے ‘ اس کے باوجود وہ بیٹیوں کے وجود کی اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرتے تھے ‘ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
الکم الذکر ولہ الانثی۔ تلک اذا قسمۃ ضیزی۔ (النجم : ٢٢۔ ٢١ )
کیا تمہارے لیے بیٹا ہونا چاہیے اور اللہ کے لیے بیٹی !۔ پھر تو یہ بہت ظالمان تقسیم ہے۔
کفار نے جو یہ کہا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں ان کی اس خبر کے صادق ہونے کی تین وجوہ ہوسکتی ہیں (١) انہوں نے فرشتوں کی تخلیق کے عمل کا مشاہدہ کیا تھا (٢) ان کو کسی مخبر صادق نے یہ خبر دی ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں (٣) ان کے پاس اس پر کوئی نقلی دلیل اور شہادت تھی۔ اور یہ تینوں وجوہ ثابت نہیں ہیں تو معلوم ہوا کہ کفار کا یہ قول غلط اور باطل ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ انہوں نے فرشتوں کی تخلیق کے عمل کا مشاہدہ نہیں کیا اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کیا جب فرشتوں کو مونث بنایا تھا اس وقت یہ موجود تھے !۔ (الصفت : ١٥٠) اسی طرح فرمایا :
وجعلوا المئکۃ الذین ھم عبدالرحمن اناثا ط اشھدوا خلقھم ط ستکتب شھادتہم ویسئلون۔ (الزخرف : ١٩)
فرشتے جو رحمن کی عبادت کرے والے ہیں ان کو انہوں نے عورتیں قرار دے دیا کیا انہوں نے ان کے عمل تخلیق کا مشاہدہ کیا تھا ‘ عنقریب ان کی یہ شہادت لکھ لی جائے گی اور ان سے اس کی باز پرس کی جائے گی۔
دوسری صورت یہ ہے کہ ان کو کسی مخبر صادق نے یہ خبر دی ہو کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے اور وہ بیٹیاں ہیں ‘ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فرمایا : سنو وہ اپنی افتراء پر دازی سے ضرور کہتے ہیں کہ۔ اللہ کے ہاں اولاد ہوئی اور بیشک وہ ضرور جھوٹے ہیں۔ کیا اس نے بیٹوں کی بہ نسبت بیٹیوں کو اختیار کیا !۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں فرمایا ہے :
افاصفکم ربکم بالبنین واتخذ من الملئکۃ اناثا ط انکم لتقولون قولا عظیما۔ (بنی اسرائیل : ٤٠) کیا تمہارے رب نے بیٹوں کے لیے تم کو منتخب کرلیا اور خود اپنے لیے فرشتوں کو بیٹیاں بنا لیا ‘ بیشک تم بہت سنگین بات کہہ رہے ہو۔
اسی لے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تم کو کیا ہوگیا ہے تم کیسی خبردے رہے ہو ! (الصفت : ١٥٤۔ ١٥١ )
تیسری صورت یہ تھی کہ ان کے پاس کوئی واضح دلیل ہوتی کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں اور وہ ہے نہیں ‘ سو معلوم ہوگیا کہ ان کا یہ قول بالکل غلط اور امر باطل ہے اس کے متعلق فرمایا : کیا تم سمجھتے نہیں ہو۔ یا تمہارے پاس اس کی کوئی واضح دلیل ہے ؟۔ تو تم اپنی کتاب لے آئو اگر تم سچے ہو۔ (الصفت : ١٥٧۔ ١٥٥ )
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 149
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]