وَاِنَّ اِلۡيَاسَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَؕ ۞- سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 123
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاِنَّ اِلۡيَاسَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَؕ ۞
ترجمہ:
اور بیشک الیاس ضرور رسولوں میں سے ہیں
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور بیشک الیاس ضرور رسولوں میں سے ہیں۔ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو !۔ کیا تم بعل کی عبادت کرتے ہو ‘ اور سب سے بہتر خالق کو چھوڑ دیتے ہو !۔ اللہ کو جو تمہارا اور تمہارے پہلے باپ دادا کا رب ہے۔ تو انہوں نے ان کی تکذیب کی پس بیشک وہ ضرور (عذاب پر) پیش کیے جائیں گے۔ ماسوا اللہ کے برگزیدہ بندوں کے۔ اور بعد میں آنے والوں میں ہم نے ان کا ذرک خیر چھوڑا۔ اٰل یاسین پر سلام ہو۔ ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح اچھی جزادیتے ہیں۔ بیشک وہ ہمارے کامل بندوں سے ہیں۔ (الصفت : ١٣٢۔ ١٢٣ )
حضرت الیاس (علیہ السلام) کا قصہ اور ان کی مفصل سوانح
امام ابو القاسم علی بن الحسن ابن عسا کر المتوفی ٥٧١ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت الیاس (علیہ السلام) کا نام و نسب اس طرح ہے : الیاس بن یا سین بن فنحاس بن العیز اور بن ہارون ‘ اور ایک قول اس طرح ہے : الیاس بن العازر بن العیز اور بن ہارون بن عمر ان بن قاھث بن لاوی بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم۔
اللہ تعالیٰ نے ان کو دمشق میں اہل بعلبک کی طرف بھیجا ‘ ایک قول یہ ہے کہ آپ دمشق کے ایک پہاڑ قاسیون میں دس سال کفار سے چھپے رہے۔
کعب بیان کرتے ہیں کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) دمشق میں اپنی قوم کے ایک بادشاہ سے دس سال چھپے رہے ‘ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اس بادشاہ کو ہلاک کردیا ‘ اور دوسرا شخص اس کا جانشین ہوا ‘ پھر حضرت الیاس (علیہ السلام) اس کے پاس گئے اور اس پر اسلام پیش کیا ‘ سو وہ مسلمان ہوگیا اور اس کی قوم میں سے بہت سے لوگ بھی مسلمان ہوگئے ‘ ماسوا دس ہزار آدمیوں کے پھر بادشاہ کے حکم سے ان سب کو چن چن کر قتل کردیا گیا۔
محمد بن السائب الکلبی بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے جو نبی مبعوث کیے گئے وہ حضر تداریس ہیں ‘ پھر حضرت نوح ‘ پھر حضرت ھود ‘ پھر حضرت صالح ‘ پھر حضرت ابراہیم ‘ پھر حضرت لوط ‘ پھر حضرت اسماعیل ‘ پھر حضرت اسحاق ‘ پھر حضرت یعقوب ‘ پھر حضرت یوسف ‘ پھر حضرت شعیب ‘ پھر حضرت موسیٰ ‘ پھر حضرت ہارون ‘ پھر حضرت الیاس بن نمیس بن العاذ بن ہارون بن عمر ان بن قاھث بن لاوی بن یعقوب۔ (تاریخ دمشق ج ٩ ص ١٥٤‘ البدایہ والنہایہ ج ١ ص ٤٤٣‘ تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٢١‘ جام البیان جز ٢٣ ص ١٠٩‘ الدر المثور ج ٧ ص ١٠٢‘ روح المعانی جز ٢٣ ص ٢٠٣)
کعب بیان کرتے ہیں کہ آج بھی چار نبی (دنیاوی حیات کے ساتھ) زندہ ہیں دو زمین پر ہیں اور دو آسمان میں ‘ جو دو زمین پر ہیں وہ حضرت الیاس اور حضرت خضر ہیں اور جو دو آسمان پر ہیں وہ حضرت ادریس اور حضرت عیسیٰ ٰ ہیں علہیم السلام۔(تاریخ دمشق ج ٩ ص ١٥٥‘ الدرالمثور ج ٧ ص ١٠٣‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
حضرت الیاس (علیہ السلام) کی ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملاقات کی روایات
امام ابن عسا کر اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سفر میں تھے ‘ ہم ایک جگہ ٹھہرے تو وہاں وادی میں ایک شخص یہ دعا کررہا تھا : اے اللہ مجھے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں سے بنا دے جو مرحومہ اور مغفورہ ہے اور ثواب پانے والی ہے ‘ پس میں نے وادی میں جھانک کر دیکھا تو ایک آدمی کھڑا تھا جس کا قد تین سو ذراع (ساڑھے چار سوفٹ) تھا ‘ اس نے مجھ سے پوچھا تم کون ہو ؟ میں نے کہا میں انس بن مالک ہوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خادم ہوں ‘ اس نے پوچھا وہ کہاں ہیں ‘ میں نے کہا وہ یہیں ہیں اور تمہاری باتیں سن رہے ہیں ‘ اس نے کہا تم ان کے پاس جائو اور ان کو میرا سلم پہنچائو اور ان سے کہو کہ آپ کا بھائی آپ کو سلام کہہ رہا ہے ‘ پس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا اور آپ کو اس واقعہ کی خبر دی ‘ آپ آئے اور آپ نے ان سے ملاقات کی اور ان سے معانقہ کیا اور سلام کیا اور سلام کیا پھر دونوں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے ‘ انہوں نے کا یا رسول اللہ ! میں سال میں صرف ایک دن کھانا کھاتا ہوں اور آج میرے کھان کا دن ہے ‘ پس آپ اور میں دونوں کھاتے ہیں ‘ پھر آسمان سیایک دستر خوان نازل ہوا اس میں روٹیذ مچھلی اور اجوائن تھی ‘ ان دونوں نے وہ کھانا کھایا اور مجھے بھی کھلایا اور ہم نے عصر کی نماز پڑھی ‘ پھر آپ نے ان کو الوداع کیا وہ بادل میں بیٹھ کر آسمان کی طرف چلے گئے ‘ امام عسا کر کہتے ہیں کہ حافظ بیہقی نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔
(تاریخ دمشق ج ٩ ص ١٥٩‘ المستدرک ج ٢ ص ٦١٧ طبع قدیم ‘ المستدرک رقم الحدیث : ٤٢٢١ طبع جدید)
امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨ ھ لکھتے ہیں :
میں کہتا ہوں کہ اس حدیث میں جو قصہ ذکر کیا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے لحاظ سے ممکن ہے ‘ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو معجزات عطا فرمائے ہیں یہ ان کے مشابہ ہے لیکن اس حدیث کی سند ضعیف ہے اور آپ کے جو معجزات عطا فرمائے ہیں یہ ان کے مشابہ ہے لیکن اس حدیث کی سند ضعیف ہے اور آپ کے جو معجزات احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں وہ کافی ہیں۔ (دلائل النبوۃ ج ٥ ص ٤٢٢‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢٣ ھ)
حافظ ابن عساکر لکھتے ہیں یہ قصہ حترت واثلہ بن الاسقع (رض) سے بھی مروی ہے وہ کہتے ہیں ہم غزوہ تبوک میں ایک جگہ پہنچے جس کا نام الحوزۃ تھا ‘ تہائی رات کے بعد ہمیں ایک غم ناک آواز سنائی دی : اے اللہ ! مجھے امت محمد سے بنادے جو مرحوم اور مغفور ہے اور جس کی دعا قبول ہوتی ہے تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے حذیفہ ! اور اے انس ! تم اس گھاٹی میں جائو اور دیکھو یہ کیسی آواز ہے ‘ اس کے بعد حضرت الیاس (علیہ السلام) کے قصہ کو حافظ ابن عسا کرنے زیادہ تفصیل سے لکھا ہے ‘ اور اس کے آخر میں لکھا ہے یہ حدیث منکر ہے اور اس کی سند قوی نہیں ہے۔ (تاریخ دمشق ج ٩ ص ١٦٠۔ ١٥٩‘ رقم الحدیث : ٢٢٧٥‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
ان روایات کو صحیح قرار دینے پر حافظ ذہبی اور حافظ ابن کثیر کے تبصرے
حاکم نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد جو لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ( المستدرک ج ٢ ص ١١٦) اس پر شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد الذھبی متوفی ٨٤٨ ھ نے تلخیص المستدرک میں یہ تبصرہ کیا ہے :
بلکہ یہ حدیث موضوع ہے ‘ اللہ تعالیٰ اس کو خراب کرے جس نے اس حدیث کو وضع کیا ہے ‘ مجھے یہ گمان نہ تھا کہ حاکم کا جہل اس حد تک پہنچے گا کہ وہ ایسی حدیث کو صحیح الاسناد کہیں گے۔
(تلخیص المستدرک ج ٢ ص ٦١٧‘ دارالباز للنشر والتویع مکہ مکرمہ)
اور میران الاعتدال میں یہ تبصرہ کیا ہے :
پس حاکم کو اس سے حیاء نہیں آئی کہ اس نے اس کو صحیح کہا۔ (میزان الاعتدال ج ٧ ص ٢٦٤‘ دارالباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٦ ھ)
حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی المتوفی ٧٧٤ ھ نے اس روایت پر یہ تبصرہ کیا ہے :
حاکم نیشاپوری پر تعجب ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو اپنی مستدرک میں درج کیا ہے ‘ حالانکہ یہ حدیث موضوع ہے اور احادیث صحیحہ کے حسب ذیل وجوہ سے مخالف ہے :
(١) حدیث صحیح میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ‘ بیشک اللہ نے آدم کو پیدا کیا آسمان میں ان کے جسم کا طول ساٹھ ذراع (نوے فٹ) تھا ‘ (الی قولہ) پھر مخلوق کا قدکم ہوتے ہوتے اتنا رہ گیا جتنا اب ہے (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٣٢٦‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٤١‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦١٦٢‘ الاسماء والصفات ص ٢٩٠۔ ٢٨٩‘ شرح السنہ رقم الحدیث : ٣٢٩٨‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٣٦٨‘ المستدرک ج ١ ص ٦٤‘ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٩٤٣٥‘ مسند احمد ج ٢ ص ٣١٥‘ رقم الحدیث : ٨١٧١‘ دارالفکر ‘ مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ٦٥٨٠) اور اس روایت میں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت الیاس کا قد تین سو ذراع (ساڑھے چار سو فٹ) تھا۔
(٢) اس روایت میں یہ ذکر ہے کہ حضرت الیاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نہیں گئے حتی کہ آپ خود ان کے پاس گئے اور یہ صحیح نہیں کیونکہ ان پر یہ حق تھا کہ وہ خود خاتم الانبیاء کی خدمت میں حاضر ہوتے۔
(٣) اور اس روایت میں یہ مذکور ہے کہ حضرت الیاس سال میں صرف ایک مرتبہ کھاتے تھے ‘ اور وہب بن منبہ سے یہ روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے کھانے اور پینے کی لذت سلب کرلی تھی اور بعض نے یہ کہا ہے کہ وہ سال میں صرف ایک بار زمزم کا پانی پیتے تھے اور یہ تمام اشیاء متعارض اور باطل ہیں ان میں سے کوئی چیز صحیح نہیں ہے۔
(٤) حافظ ابن عسا کرنے اس حدیث کو واثلہ بن الاسقع سے بھی روایت کیا ہے اس میں یہ ذکر ہے کہ یہ غزوہ تبوک کا واقعہ ہے اور اس میں یہ ذکر ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے پاس حضرت انس بن مالک اور حضرت حذیفہ بن یمان کو بھیجا تھا اور اس میں یہ ذکر ہے کہ ان کا قدان سے دو یا تین ذراع زیادہ تھا ‘ اور اس میں یہ ذکر ہے کہ جب وہ دونوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جمع ہوئے تو انہوں نے جنت کا کھانا کھایا ‘ اور اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت الیاس نے کہا میں ہر چالیس دن کے بعد کھانا کھاتا ہوں ‘ اور اس میں یہ ہے کہ آسمان سے نازل ہونے والے دستر خوان میں روٹی ‘ انار ‘ انگور ‘ بادام ‘ تازہ کھجوریں اور سبزیاں تھیں ‘ اور اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے خضر کے متعلق سوال کیا تو حضرت الیاس نے کہا میں سال کی ابتداء میں ان سے ملاقات کروں گا اور آپ نے فرمایا کہ جب آپ کی ان سے ملاقات ہو تو آپ ان سے میرا سلام کہیں ‘ اگر اس روایت کو صحیح مان لیا جائے کہ حضرت خضر اور حضرت الیاس موجود ہیں تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ نو ہجری تک خضر اور حضرت الیاس کی ملاقات نہیں ہوئی تھی اور یہ وہ چیز ہے جو شرعاً جائز نہیں اور یہ بھی موضوع ہے۔ (البدایہ والنہایہ ج ١ ص ٤٤٥۔ ٤٤٤‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)
حضرت الیاس (علیہ السلام) سمیت چار نبیوں کے ابھی تک زندہ ——-
ہونے پر حافظ ابن کثیر کا تبصرہ اور مصنف کی توجیہ
کعب نے روایت کیا ہے کہ آج بھی چار نبی رندہ ہیں دوزمین پر ہیں اور دو آسمان میں ہیں ‘ جو دو زمین پر ہیں وہ حضرت الیاس اور حضرت خضر ہیں اور جو دو آسمان پر ہیں وہ حضرت ادریس اور حضرت عیسیٰ ہیں۔ (تاریخ دمشق ج ٩ ص ١٥٥ )
اس روایت کے متعلق حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں :
ہم اس سے پہلے بعض لوگوں کا یہ قول ذکر کرچکے ہیں کہ حضرت الیاس اور حضرت خضر ہر سال ماہ رمضان میں بیت المقدس میں ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں اور وہ ہر سال حج کرتے ہیں اور ززم سے پانی پیتے ہیں جو ان کو اگلے سال تک کے لیے کافی ہوتا ہے ‘ اور ہم وہ دیث بیان کرچکے ہیں کہ وہ دونوں ہر سال میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں اور ہم یہ بھی بیان کرچکے ہیں کہ ان میں سے کوئی چیز بھی صحیح نہیں ہے ‘ اور جو چیز دلیل سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) وفات پاچکے ہیں اور اسی طرح حضرت الیاس بھی ‘ اور وہب بن منبہ نے جو یہ روایت کیا ہے کہ جب حضرت الیاس (علیہ السلام) کی قوم نے ان کی تکذیب کی اور ان کو ایذاء پہنچائی تو حضرت الیاس نے اپنے رب سے دعا کی ‘ پھر آگ کے رنگ کا ایک جانور آیا ‘ حضرت الیاس اس پر سوار ہوگئے ‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو نور کا لباس پہنا دیا اور ان سے کھانے اور پینے کی لذت کو منقطع کردیا اور وہ فرشہ اور بشر کی صورت میں زمین آسمان پر گئے ‘ اور انہوں نے الیسع بن اخوطب کو وصیت کی ‘ سو اس روایت پر اعتراضات ہیں اور یہ اسرائیلیات میں سے ہے جس کی تصدیق واجب ہے نہ تکذیب ‘ بلکہ ظاہر یہ ہے کہ یہ روایت بہت بعید ہے۔ (البدایہ النہایہ ج ٠ ص ٤٤٤۔ ٤٤٣‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)
اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت الیاس اور خضر (علیہما السلام) پر ابھی تک طبعی موت نہیں آئی ‘ لیکن بہر حال قیامت سے پہلے ان پر موت آئے گی اور واضح رہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کو موت کے بعد پھر حیات عطا کردی جاتی ہے اور انبیاء (علیہم السلام) پر صرف ایک آن کے لیے موت آتی ہے ‘ اسی طرح حضرت ادریس اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ابھی تک موت نہیں آئی لیکن قیامت سے پہلے ان پر بہر حال موت آئے گی۔
حضرت الیاس کے لوگوں سے ملاقات کرنے کی روایت
حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں :
حافظ ابن عسا کرنے کئی سندوں سے یہ روایت ذکر کی ہیں کہ حضرت الیاس کی اللہ کے بندوں سے ملاقات ہوئی ‘ یہ تمام روایات ضعیف یا مجہول ہیں اور بہترین حدیث وہ ہے جس کو امام ابن ابی الدنیا نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے :
ثابت بیان کرتے ہیں کہ ہم مصعب بن الزبیر کے ساتھ کوفہ کے مضافات میں تھے ‘ میں ایک باغ میں داخل ہوا اور دو رکعت نماز پڑھی سو میں نے سورة المومن کی یہ تین آیتیں تلاوت کیں۔ حم۔ تنزیل الکتب من اللہ العزیز العلیم۔ غافرالذنب و قابل التوب شدید العقاب ذی الطول اس وقت میرے پیچھے ایک شخص سرخ خچر پر سوار کھڑا تھا اور اس نے یمن کا لباس پہنا ہوا تھا ‘ اس نے کہا جب تم غافر الذنب پڑھو تو یہ دعا کر ویا غافر الذنب اغفرلی ذنبی ( اے گناہ بخشنے والے میرے گناہ بخش دے) اور جب تم پڑھو قابل التوب تو یہ دعا کرو یا قابل التوب تقبل توبتی (اے توبہ قبول کرنے والے میری توبہ قبول فرما) اور جب تم پڑھو شدید العقاب تو یہ دعا کرو یا شدید العقاب لا تعاقبنی (اے سخت سزا دینے والے مجھے سزانہ دینا) اور جب تم پڑھو ذی الطول تو یہ دعا کرنا یا ذالطول تطول علی برحمتی ( اے قدرت والے ! اپنی قدرت سے مجھ پر رحمت نازل فرما) میں نے مڑ کر دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا ‘ میں باغ سے باہر نکل آیا اور لوگوں سے پوچھا کیا تم نے ایک شخص کو دیکھا ہے جو سرخ خچر پر سوار تھا اور اس نے یمنی لباس پہنا ہا تھا ‘ لوگوں نے کہا یہاں پر ایسا کوئی شخص نہیں تھا ‘ اور ان کا یہ گمان تھا کہ وہ شخص حضرت الیاس کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ (البدایہ النہایہ ج ١ ص ٤٤٥‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)
حافظ ابن کثیر نے اس روایت کو حسن کے بجائے احسن لکھا ہے اور اس سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ حضرت الیاس ابھی تک زندہ ہیں۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 123
[…] تفسیر […]