وَاِنَّ يُوۡنُسَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَؕ ۞- سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 139
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاِنَّ يُوۡنُسَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَؕ ۞
ترجمہ:
اور بیشک یونس ضرور رسولوں میں سے ہیں
تفسیر:
حضرت یونس (علیہ السلام) کا قصہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور بیشک یونس ضرور رسولوں میں سے ہیں۔ جب وہ بھاگ کر بھری ہوئی کشتی کی طرف گئے۔ پھر قرعہ اندازی ہوئی تو وہ مغلوبوں میں سے ہوگئے۔ پس ان کو مچھلی نے نگل لیا اس وقت وہ ود کو ملامت کرنے والے تھے۔ پس اگر وہ تسبیح کرے والوں میں سے نہ ہوتے۔ تو وہ ضرور روز حشر تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔ سو ہم نے ان کو چٹیل میدان میں ال دیا اور وہ اس وقت بہت کمزور ہوچکے تھے۔ اور ہم نے ان پر بیل دار (لوکی کا) درخت اگا دیا۔ اور ہم نے ان کو ایک لاکھ یا اس سے زائد آدمیوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ سو وہ ان پر ایمان لائے تو ہم نے ایک معین مدت تک ان کو فائدہ پہنچایا۔ (الصفت : ١٤٨۔ ١٣٩)
حضرت یونس (علیہ السلام) کا حسب و نسب اور ابتدائی حالات
حافظ ابو القاسم علی بن ابن عسا کر متوفی ٥٧١ ھ لکھتے ہیں :
حضرت یونس بن متی ‘ لاوی بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (علیہم السلام) کی اولاد سے ہیں ‘ یہ شام کے رہنے والے تھے اور بعلبک کے عمال سے تھے ‘ ایک قول یہ ہے کہ کم سنی میں فوت ہوگئے تھے ‘ پھر ان کی ماں نے اللہ کے نبی حضرت الیاس (علیہ السلام) سے سوا کیا ‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کی اور ان کو زندہ کردیا ‘ چالیس سال کی عمر میں حضرت یونس (علیہ السلام) کو نبوت دی گئی ‘ وہ نبی اسرائیل کے عابدوں میں سے تھے ‘ وہ اپنے دین کی حفاظت کے لیے شام سے چلے گئے اور دجلہ کے کنارے اتر گئے ‘ اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اہل نینویٰ کی طرف رسول بنا کر بھیج دیا (نینوی کوفہ کے مضافات میں کربلا وغیرہ پر مشتمل موصل کے مشرق میں ایک علاقہ ہے) ۔
اسحاق بن بشیر نے اپنی اسانید کے ساتھ روایت کیا ہے کہ حضرت یونس ایک نیک اور عبادت گزار بندے تھے ‘ انبیاء (علیہم السلام) میں ان سے زیادہ اور کوئی عبادت کرنے والا نہیں تھا ‘ وہ ہر روز کھانے سے پہلے تین سو رکعات نماز پڑھا کرتے تھے ‘ اور ہر رات سونے سے پہلے تین سو رکعات نماز پڑھا کرتے تھے او بہت کم زمین پر بستر بچھاتے تھے ‘ جب اہل نینویٰ میں گناہ بہت زیادہ ہونے لگے تو انہیں وہاں رسول بنا کر بھیج دیا گیا۔
حسن بیان کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے عجائب میں سے یہ تھا کہ جب بھی ان میں کوئی نبی فوت ہوتا تھا تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کسی دوسرے نبی کو بھیج دیتا تھا۔ (تاریخ دمشق ج ٦٩‘ ص ٢٤٧۔ ٢٤٦‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
حضرت یونس (علیہ السلام) کا ہل نینوی کی طرف مبعوث کیا جانا
حسن بیان کرتے ہیں کہ حضرت یونس (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے کسی نبی کے ساتھ تھے ‘ اللہ تعالیٰ نے اس نبی کی طرف یہ وحی کی کہ حضرت یونس کو اہل نینوی کی طرف بھیج دیں تاکہ وہ ان کو میرے عذاب سے ڈرائیں ‘ اور انبیاء (علیہم السلام) کو لوگوں کی طرف تورات کے احکام نافذ کرنے کے لیے بھیجا جاتا تھا ‘ حضرت یونس علیہ لسلام کو بہت جلدغصہ آجاتا تھا ‘ وہ اہل نینویٰ کے پاس گئے اور ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا ‘ ان لوگوں نے حضرت یونس (علیہ السلام) کی تکذیب کی اور ان کی نصیحت کو مسترد کردیا ‘ اور پتھر مار مار کر ان کو اپنے علاقہ سے نکال دیا ‘ حضرت یونس (علیہ السلام) وہاں سے چلے گئے ‘ بنی اسرائیل کے نبی نے کہا آپ دوبارہ ان کے پاس جائیں ‘ آپ دوبارہ گئے انہوں نے آپ کے ساتھ پھر پہلے جیسا سلوک کیا پھر آپ تیسری بار گئے اور ان کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا ‘ انہوں نے کہا تم جھوٹ کہتے ہو۔ (تاریخ دمشق ج ٦٩ ص ٢٤٩۔ ٢٤٨‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت یونس (علیہ السلام) اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے تو انہوں نے اپنی قوم کے خلاف اپنے رب سے دعا کی اور اپنی قوم سے یہ وعدہ کیا کہ تین دن بعد ان پر عذاب آجائے گا ‘ اور اپنی اہلیہ اور اپے دو چھوٹے بیٹوں کو لے اس علاقے سے نکل گئے اور ایک پہاڑ پر چڑھ کر اہل نینویٰ کی طرف دیکھنے لگے اور عذاب کا انتظار کرنے لگے ‘ اور حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم اس وقت کا انتظار کررہی تھی جو حضرت یونس (علیہ السلام) نے ان پر عذاب آنے کے لیے معین کیا تھا اور جب انہیں یقین ہوگیا کہ اب عذاب آنے والا ہے تو انہیں حضرت یونس (علیہ السلام) کے صدق کا یقین ہوگیا۔ پھر انہوں نے بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرف اپنے نمائندوں کو بھیجا اور ان سے پوچھا کہ اس آزمائش کے موقع پر وہ کیا کریں ‘ انہوں نے کہا تم حضرت یونس (علیہ السلام) کو ڈھونڈ ھو وہ تمہارے لیے دعا کریں گے کہ تم سے یہ عذاب ٹل جائے ‘ کیونکہ انہوں نے ہی تمہارے خلاف عذاب کی دعا کی تھی ‘ قوم نے حضرت یونس (علیہ السلام) کو تلاش کیا لیکن وہ ان کو نہ مل سکے ‘ پھر حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم نے کہا آئو اب ہم سب مل کر اللہ تعالیٰ سے تو بہ کرتے ہیں ‘ سو ان کے مرد ‘ عورتیں اور بچے سب باہر نکلے انہوں نے اپنے سروں پر راکھ ڈالی ‘ اور پیروں کے نیچے کانٹے رکھے ‘ ٹاٹ اور اور اون کے موٹے کپڑے پہنے اور بہ آواز بلند روئے اور گڑ گڑائے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے آہ زاری کی اور اللہ تعالیٰ کو ان کے صدق کا علم تھا سو اس نے انکی توبہ قبول فرمالی۔ قرآن مجید میں ہے :
فلو لا کا نت قریۃ امنت فنفعھآ ایما نھآ الا قوم یونس ط لمآ امنوا کشفنا عنھم عذاب الخزی فی الحیوۃ الدنیا ومتعنھم الی حین۔ (یونس : ٩٨)
سو کسی بستی کے لوگ کیوں نہ ایمان لائے تاکہ ان کو ایمان لانا مفید ہوتا ‘ ماسوا ایونس کی قوم کے ‘ جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے دنیا کی زندگی میں رسوائی کے عذاب کو ان سے دور کردیا اور ان کو ایک معین وقت تک فائدہ پہنچایا۔
حضرت یونس (علیہ السلام) کا غضب ناک ہو کر چلے جانا اور مچھلی کا آپ کو نگل لینا
ان کی قوم نے یکم ذوالحج کو عذاب کے آثار کا معائنہ کیا تھا اور دس محرم کو ان سے عذاب دور کردیا گیا ‘ جب حضرت یونس (علیہ السلام) نے یہ منظر دیکھا تو اللہ کا دشمن ابلیس ان کے پاس آیا اور کہنے لگا اے یونس ! جب تم اپنی قوم کے پاس واپس جائو گے تو وہ تم پر تہمت لگائیں گے اور تمہار تکذیب کریں گے وہ کہیں گے کہ تم نے وعدہ کیا تھا کہ عذاب آئے گا ‘ دیکھو عذاب نہیں آیا ‘ حضرت یونس اپنی قوم پر غضب ناکہو کر چلے گئے اور ان کا گمان تھا کہ اللہ سے اجازت لیے بغیر جانے پر اللہ تعالیٰ ان سے باز پرس نہیں کرے گا ‘ وہ جلہ کے کنارے پہنچ گئے ان کے ساتھ ان کی اہلیہ اور ان کے بیٹے بھی تھے ‘ وہاں ایک کشتی آئی ‘ حضرت یونس نے کہ ہم کو سوار کرلو ‘ کشتی والوں نے کہا ہمارے پاس گنجائش کم ہے آپ اگر چاہیں تو ہم آپ میں سے بعض کو سوار کریں اور باقی لوگ دوسری کشتی سے آجائیں ‘ آپ نے اپنی اہلیہ کو سوار کردیا ‘ اور حضرت یونس اور ان کے بیٹے رہ گئے ‘ حضرت یونس اس کشتی کی طرف بڑھے ‘ ان کے ایک بیٹے نے کشتی میں پیر رکھا اس کا پیر پھسل گیا اور وہ دریا میں گر کر ڈوب گیا ‘ اتنے میں ایک بھیڑیا آیا اور ان کے دوسرے بیٹے کو اٹھا کرلے گیا ‘ اس سے حضرت یونس کو یقین ہوگیا کہ یہ اللہ تعالیٰ سے اجازت لیے بغیر چلے آنے کی ان کو سزا ملی ہے ‘ پھر وہ کشتی میں سوار ہوئے تاکہ اپنی اہلیہ سے جا ملیں ‘ جب کشتی دریا کے وسط میں پہنچی تو وہ دائیں بائیں گردشت کرنے لگی ‘ لوگوں نے کشتی والوں سے پوچھا تمہاری کشتی کو کیا ہوا ؟ حضرت یونس (علیہ السلام) نے فرمایا ایک غلام اپنے مالک سے بھاگ کر آگیا ہے ‘ یہ کشتی اس وقت تک روانہ ہوگی جب تک تم اس غلام کو دریا میں پھینک نہیں دو گے ! انہوں نے پوچھا وہ غلام کون ہے ؟ حضرت یونس نے کہا وہ غلام میں ہوں ! انہوں نے کہا ہم آپ کو دریا میں نہیں پھینکیں گے ‘ اللہ کی قسم ! ہم کو صرف آپ کے وسیلہ سے نجات کی توقع ہے ‘ حضرت یونس (علیہ السلام) نے فرمایا اچھا قرعہ انداز کرلو ‘ جس کے نام کا قرعہ نکلے اس کو دریا میں پھینک دینا ‘ انہوں نے قرعہ اندازی کی تو حضرت یونس (علیہ السلام) کے نام کا قرعہ نکل آیا ‘ انہوں نے آپ کو پانی میں پھینکنے سے انکار کیا اور کہا قرعہ کبھی غلط ہوتا ہے اور کبھی صحیح ‘ پھر دوبارہ قرعہ اندازی کی تو پھر حضرت یونس (علیہ السلام) کا نام نکلا ‘ حضرت یونس نے فرمایا اب مجھے دریا میں پھینک دو ‘ اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کے دل میں ڈالا ابھی میرے ایک بندے کو دریا میں ڈالا جائے گا تو اس کو نگل لینا ‘ تم اس کے گوشت میں کوئی خراش ڈالنا نہ اس کی ہڈی کو توڑنا ‘ وہ میرا نبی اور پسندیدہ بندہ ہے ‘ مچھلی نے کہا اے میرے رب ! میں اپنے پیٹ کو اس کا مسکن بنا دوں گی اور اس کی اسر طرح حفاظت کروں گی جس طرح ماں اپنے بچے کی حفاظت کرتی ہے ‘ حضرت یونس کو دریا میں پھینکنے کے لیے کشتی کے ایک کنارے پر لے جایا گیا ‘ مچھلی بھی اسی سمت آگئی ‘ لوگوں نے کہا اس طرف بہت بڑی مچھلی ہے ان کو کشتی کے دوسرے کنارے پر لے چلو ‘ وہ دوسرے کنارے لے کر گئے تو مچھلی اس طرف بھی پہنچ گئی ‘ الغرض وہ حضرت یونس کو کشتی کی جس جانب لے جاتے مچھلی بھی اس جانب پہنچ جاتی ‘ حضرت یونس (علیہ السلام) نے فرمایا اب مجھے پھینک دو ‘ سو انہوں نے آپ کو دریا میں پھینک دیا ‘ مچھلی نے آپ کو پکڑ کر نگل لیا اور دریا کی گہرائی میں اپنے مسکن کی طرف لے گئی ‘ وہ حضرت یونس کو اپنے پیٹ میں رکھ کر چالیس دن تک گھومتی رہی ‘ حضرت یونس اس کے پیٹ میں جنات اور مچھلیوں کی تسبیح پڑھنے کی آوازیں سنتے تھے ‘ پھر حضرت یونس بھی تسبیح اور تہلیل پڑھنے لگے اور جب چالیس دن پورے ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس غم سے نجات دی اور یہ اتنی ہی مدت تھی جتنی مدت آپ کی قوم آثار عذاب میں مبتلا رہی تھی ‘ قرآن مجید میں ہے :
وذالنون اذذھب مغاضبا فظن ان لن نقدر علیہ فنادی فی الظلمت ان لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین۔ فاستجبنا لہ لا ونجینہ من الغم ط وکذلک ننجی المؤمنین۔ (الانبیائ : ٨٨۔ ٨٧)
اور مچھلی والے (حضرت یونس) کو یاد کیجئے جب وہ (اپنی قوم پر) غضب ناک ہو کر چلا گیا ‘ اور اس نے یہ گمان کیا کہ ہم اس پر تنگی نہیں کریں گے ‘ سو اس نے تاریکیوں میں پکارا کہ تیرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے تو (ہر نقص سے) پاک ہے ‘ بیشک میں زیادتی کرے والوں میں سے تھا۔ پس ہم نے اس کی پکار سن لی اور اس کو غم سے نجات دی اور ہم مومنوں کو اسی طرح نجات دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل کو مچھلی کی طرف یہ حکم دے کر بھیجا کہ وہ حضرت یونس کو وہیں اگل دے جہاں سے اس نے ان کو نگلا تھا ‘ حضرت جبریل مچھلی کے منہ کے قریب پہنچے اور کہا اے یونس ! السلام علیک ! آپ کو رب العزت سلام کہتا ہے ‘ حضرت یونس نے کہا مرحبا ! یہ وہ آواز ہے کہ مجھ کو خوف تھا کہ اس آواز کو میں پھر کبھی نہیں سن سکوں گا۔ (تاریخ دمشق ج ٦٩ ص ٢٤٩۔ ٢٤٨ )
حضرت یونس (علیہ السلام) کا مچھلی کے پیٹ سیب باہر آنا
حضرت یونس جو مچھلی کے پیٹ میں رہے تھے اس کی مدت میں اختلاف ہے ایک قول یہ ہے کہ آپ تین دن مچھلی کے پیٹ میں رہے تھے ‘ اور ایک روایت میں سات دن کا ذکر ہے ‘ قرآن مجید میں ہے :
فلولا انہ کان منالمسبحین۔ للبث فی بطنہ الی یوم یبعثون۔ فنبذنہ بالعرآء وھو سقیم۔ وانبتنا علیہ شجرمن یقطین۔ وارسلنہ الی ما ئۃ الف او یزیدون۔ (الصفت : ١٤٧۔ ١٤٣ )
پس اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے۔ تو وہ ضرور روز حشر تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔ سو ہم نے ان کو چٹیل میدان میں ڈال دیا اور وہ اس وقت بہت کمزور ہوچکے تھے۔ اور ہم نے ان پر بیل دار (لوکی کا) درخت اگادیا۔ اور ہم نے ان کو ایک لاکھ یا اس سے زائد آدمیوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔
حسن بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت جبریل ‘ حضرت یونس (علیہ السلام) کو مچھلی کے منہ سے نکال کر چٹیل میدان میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس ایک پہاڑی بکری بھیجی جو اپنا تھن حضرت یونس (علیہ السلام) کے منہ سے لگا دیتی تھی اور حضرت یونس اس کو چوس کر دودھ پیتے تھے اس وقت ان کا جسم نحیف اور لاغر ہو کر بالکل دبلا ہوگیا تھا اور رفتہ رفتہ ان کی طاقت اور توانائی بحال ہوتی گئی۔
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فجر کی نماز کے وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی توبہ قبول فرمائی تھی ‘ اور ظہر کی نماز کے وقت حضرت دائود (علیہ السلام) کی توبہ قبول فرمائی تھی ‘ اور عصر کی نماز کے وقت حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی توبہ قبول فرمائی تھی ‘ اور مغرب کی نماز کے وقت حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کی بشارت دی تھی ‘ اور عشاء کی نماز کے وقت حضرت یونس (علیہ السلام) کو مچھلی کے پیٹ سے نکالا تھا ‘ اس وقت شفق غائب ہوچکی تھی اور آسمان پر ستاروں کا جال بن چکا تھا ‘ تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے چار رکعت نماز پڑھی تو اللہ تعالیٰ نے ان نمازوں کو میرے اور میری امت کے لیے خالص کردیا تاکہ یہ نمازیں میری امت کے گناہوں کا کفارہ ہوں اور ان کے درجات کی بلندی کا ذریعہ ہوں۔
شہر بن حوشب نے بیان کیا ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی رسالت اس وقت سے ہوئی تھی جب مچھلی نے ان کو اگل دیا تھا اور مچھلی کے پیٹ سے نکلنے کے بعد وہ اپنی قوم کی طرف گئے تھے۔ (تاریخ دمشق ج ٦٩ ص ٢٥٢۔ ٢٤٩ )
اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ آیا حضرت یونس (علیہ السلام) کو مچھلی کے پیٹ سے نکلنے کے بعد رسول بنایا گیا تھا یا اس سے پہلے رسول بنایا گیا تھا شہر بن حوشب کی روایت ہے کہ اس کے بعد رسول بنایا گیا تھا اور جمہور کا مختار یہ ہے کہ مچھلی کے واقعہ سے پہلے آپ کو رسول بنایا گیا تھا اور حسب ذیل روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
حضرت یونس (علیہ السلام) کا واپس اپنی قوم کی طرف جانا
حافظ ابو القاسم علی بن الحسن ابن عسا کر المتوفی ٥٧١ ھ روایت کرتے ہیں :
الحسن بیان کرتے ہیں کہ صحت مند ہونے کے بعد حضرت یونس کا گزر ایک چرواہے کے پاس سے ہوا ‘ آپ نے اس سے پوچھا یونس کا کیا حال ہے ‘ اس نے کہا مجھے ان کا حال معلوم نہیں البتہ وہ سب سے نیک اور سب سے زیادہ سچے آدمی تھے ‘ انہوں نے ہمیں عذاب آنے کی خبر دی تھی ‘ پھر ان کے کہنے کے کے مطابق عذاب کے آثار نمودار ہوگئے ‘ پھر ہم سب نے اللہ تعالیٰ سے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ہم پر رحم فرمایا اور اب ہم یونس کو ڈھونڈھ رہے ہیں کہ وہ کہاں ہیں ‘ ہم نے ان کی کوئی خبر نہیں سنی ‘ حضرت یونس (علیہ السلام) نے اس سے پوچھا تمہارے پاس دودھ ہے ؟ اس نے کہا اس ذات کی قسم جس نے حضرت یونس کو عزت دی ہے ‘ جب سے حضرت یونس ہمارے پاس سے گئے ہیں بارش ہوئی ہے نہ سبزہ اگا ہے ‘ حضرت یونس نے فرمایا تم میرے پاس کوئی دنبی لائو ‘ پھر حضرت یونس نے اس کے پیٹ پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا اب اللہ کا نام لے کر اس کا دودھ دوہو ‘ اس نے دودھ دوہا اور حضرت یونس نے وہ دودھ پیا ‘ اس چراوا ہے نے کہا اگر حضرت یونس زندہ ہیں تو پھر آپ ہی حضرت یونس ہیں ‘ آپ نے فرمایا میں ہی یونس ہوں تم اپنی قوم کے پاس جائو اور ان کو میرا سلام کہو ‘ چرواہے نے کہا بادشاہ نے یہ اعلان کیا ہے کہ جو شخص میرے پاس یہ خبر لے آیا کہ ا سے یونس کو دیکا ہے اور اس پر دلیل پیش کی تو میں اس کو اپنا ملک دے دوں گا ‘ اور میں بغیر کسی دلیل کے یہ بات نہیں کہہ سکتا ‘ حضرت یونس نے کہا تم یہ بکری لے جائو یہ شہادت دے گی کہ میں نے اس کا دودھ پیا ہے ‘ وہ چرواہا اس بکری کو لے گیا اور اس بکری نے شہادت دی ‘ پھر وہ چرواہا قوم کو لے کر اس چٹان پر پہنچا جہاں اس نے حضرت یونس کو دیکھا تھا ‘ ان لوگوں نے حضرت یونس کو تلاش کیا تو آپ اس جگہ نماز پڑھ رہے تھے ‘ وہ لوگ مارے خوشی کے روپڑے اور بڑی عزت اور بہت اہتمام سے حضرت یونس کو اپنے شہر میں لے کرآئے ‘ ان لوگوں نے اس چرواہے سے کہا تم ہمارے سردار ہو تم سے بڑے مرتبہ کا ہم میں سے کوئی نہیں ہے ‘ ہم کبھی تمہاری حکم عدولی نہیں کریں گے اور وہ چرواہا چالیس سال تک ان پر حکومت کرتا رہا۔
فضیل بن عیاض نے کہا جب حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم نے عذاب کے آثار دیکھے تو ان میں سے ایک شخص نے کہا : اے اللہ ! ہمارے گناہ بہت زیادہ اور بہت بڑے ہیں اور تو سب سے عظیم اور سب سے بلند ہے تو وہ کر جس کا تو اہل ہے اور وہ نہ کر جس کے ہم اہل ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب کو دور کردیا۔
کعب نے بیان کیا اس کے بعد حضرت یونس (علیہ السلام) زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہے اور شعیا حضرت یونس (علیہ السلام) کے شاگرد تھے وہ اللہ کے نیک بندے تھے اللہ نے ان کو چن لیا اور پاکیزہ بنادیا اور حضرت یونس (علیہ السلام) کے فوت ہونے کے بعد ان کو بنی اسرائیل کی دینی رہنمائی کرنے کا حکم دیا گیا ‘ اور بنی اسرائیل میں جو بادشاہ ہوتا تھا اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ایک نبی کو مبعوث کرتا تھا جو اس کو نیکی کا حکم دیتا تھا اور وہ اس کے اور اللہ کے درمیان سفیر ہوتا تھا ‘ اور حضرت شعیا (علیہ السلام) ہی وہ نبی تھے جنہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آنے کی بشارت دی تھی اور بنی اسرائیل کو بتایا تھا کہ ایک مقدس کنواری سے بغیر مرد کے ایک نبی پیدا ہوں گے ان کے ہاتھ سے بہت عجائب کا ظہور ہوگا اور وہ اس رسول کی بشارت دیں گے جو ان کے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا ‘ وہ حضرت اسماعیل کی اولاد سے ہوں گے ان کی میلاد کی جگہ مکہ ہے اور ان کی ہجرت کی جگہ طیبہ ہے ‘ ان کی امت تمام امتوں سے افضل ہوگی آخر زمانہ میں اللہ تعالیٰ ان کو عزت اور سلطنت سے سرفراز کرے گا اور ان کے دین کو تمام ادیان پر غالب کردے گا خواہ مشرکین کو یہ بات ناگوار خاطر ہو۔
(تاریخ دمشق ج ٦٩ ص ٢٥٤۔ ٢٥٢‘ ملخصا دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)
حضرت یونس (علیہ السلام) کے فضائل میں احادیث
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسی بندہ کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ میں یونس بن متی سے افضل ہوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤١٣‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٧٧‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٦٧٧‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١١ ص ٥٤١‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٢٢٩٨‘ دارالفکر ‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٢٧٥٣‘ جامع المسانید والسنن ج ٢٠ ص ٢٣٦۔ ١٣٥‘ رقم الحدیث : ٢٥٤۔ ٢٥٣۔ ٢٥٢۔ ٢٥٠‘ دارالفکر ١٤٢٠ ھ ‘ تاریخ دمشق رقم الحدیث : ١٤٦٨٦)
عباد بن کثیر اور الحسن دونوں بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے اور میرے بھائی نبیوں کے درمیان فضیلت مت دو اور کسی شخص کو یہ نہیں چاہیے کہ وہ یونس بن متی سے کسی کو افضل کہے۔(تاریخ دمشق ج ٦٩ ص ٢٥٣‘ رقم الحدیث : ٤٦٨٨‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وادی ازرق پر گئے ‘ آپ نے فرمایا گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں حضرت موسیٰ وادی سے اترتے ہوئے بہ آوازبلند اللھم لبیک اللھم لبیک کہہ رہے ہیں پھر آپ ثنیہ پر اللھم لبیک اللھم لبیک کہہ رہے ہیں اور پہاڑ بھی ان کے جواب میں تلبیہ پڑھ رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی جواب میں فرمارہا ہے لبیک اے یونس ! میں تمہارے ساتھ ہوں۔ (تاریخ دمشق ج ٦٩ ص ٢٥٣ )
عثمان بن اسود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فم الروحاء کے مقام سے ستر نبی سرخ اونٹوں پر تلبیہ پڑھ رہے تھے اے مصائب کے نجات دینے والے اور مشکلات کو حل کرنے والے لبیک لبیک۔ (تاریخ دمشق ج ٦٩ ص ٢٥٣‘ رقم الحدیث : ١٤٦٩٠)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 139
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]