کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 17 رکوع 2 سورہ الانبیاء آیت نمبر 11 تا 29
وَ كَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَّ اَنْشَاْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ(۱۱)
اور کتنی ہی بستیاں ہم نے تباہ کردیں کہ وہ ستم گار تھیں (ف۲۳) اور اُن کے بعد اور قوم پیدا کی
(ف23)
یعنی کافِر تھیں ۔
فَلَمَّاۤ اَحَسُّوْا بَاْسَنَاۤ اِذَا هُمْ مِّنْهَا یَرْكُضُوْنَؕ(۱۲)
تو جب اُنہوں نے (ف۲۴) ہمارا عذاب پایا جبھی وہ اس سے بھاگنے لگے (ف۲۵)
(ف24)
یعنی ان ظالموں نے ۔
(ف25)
شانِ نُزول : مفسِّرین نے ذکر کیا ہے کہ سرزمینِ یمن میں ایک بستی ہے جس کا نام حصور ہے وہاں کے رہنے والے عرب تھے انہوں نے اپنے نبی کی تکذیب کی اور ان کو قتل کیا تو اللہ تعالٰی نے ان پر بُخْتِ نَصَر کو مسلّط کیا ، اس نے انہیں قتل کیا اور گرفتار کیا اور اس کا یہ عمل جاری رہا تو یہ لوگ بستی چھوڑ کر بھاگے تو ملائکہ نے ان سے بطریقِ طنز کہا (جو اگلی آیت میں ہے) ۔
لَا تَرْكُضُوْا وَ ارْجِعُوْۤا اِلٰى مَاۤ اُتْرِفْتُمْ فِیْهِ وَ مَسٰكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْــٴَـلُوْنَ(۱۳)
نہ بھاگو اور لوٹ کے جاؤ ان آسائشوں کی طرف جو تم کو دی گئیں تھیں اور اپنے مکانوں کی طرف شاید تم سے پوچھنا ہو (ف۲۶)
(ف26)
کہ تم پر کیا گزری اور تمہارے اموال کیا ہوئے تو تم دریافت کرنے والے کو اپنے علم و مشاہدے سے جواب دے سکو ۔
قَالُوْا یٰوَیْلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ(۱۴)
بولے ہائے خرابی ہماری بےشک ہم ظالم تھے (ف۲۷)
(ف27)
عذاب دیکھنے کے بعد انہوں نے گناہ کا اقرار کیا اور نادِم ہوئے اس لئے یہ اعتراف انہیں کام نہ آیا ۔
فَمَا زَالَتْ تِّلْكَ دَعْوٰىهُمْ حَتّٰى جَعَلْنٰهُمْ حَصِیْدًا خٰمِدِیْنَ(۱۵)
تو وہ یہی پکارتے رہے یہاں تک کہ ہم نے انہیں کردیا کاٹے ہوئے (ف۲۸) بجھے ہوئے
(ف28)
کھیت کی طرح کہ تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے اور بجھی ہوئی آ گ کی طرح ہو گئے ۔
وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا لٰعِبِیْنَ(۱۶)
اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے عبث نہ بنائے (ف۲۹)
(ف29)
کہ ان سے کوئی فائدہ نہ ہو بلکہ اس میں ہماری حکمتیں ہیں مِنجُملہ ان کے یہ ہے کہ ہمارے بندے ان سے ہماری قدرت و حکمت پر استدلال کریں اور انہیں ہمارے اوصاف و کمال کی معرفت ہو ۔
لَوْ اَرَدْنَاۤ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّاۤ ﳓ اِنْ كُنَّا فٰعِلِیْنَ(۱۷)
اگر ہم کوئی بہلاوا اختیار کرنا چاہتے (ف۳۰) تو اپنے پاس سے اختیار کرتے اگر ہمیں کرنا ہوتا (ف۳۱)
(ف30)
مثل زَن و فرزند کے جیسا کہ نصارٰی کہتے ہیں اور ہمارے لئے بی بی اور بیٹیاں بتاتے ہیں اگر یہ ہمارے حق میں ممکن ہوتا ۔
(ف31)
کیونکہ زَن و فرزند والے زَن و فرزند اپنے پاس رکھتے ہیں مگر ہم اس سے پاک ہیں ہمارے لئے یہ ممکن ہی نہیں ۔
بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌؕ-وَ لَكُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ(۱۸)
بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینک مارتے ہیں تو وہ اس کا بھیجہ نکال دیتا ہے تو جبھی وہ مٹ کر رہ جاتا ہے (ف۳۲) اور تمہاری خرابی ہے (ف۳۳) ان باتوں سے جو بناتے ہو (ف۳۴)
(ف32)
معنٰی یہ ہیں کہ ہم اہلِ باطل کے کذب کو بیانِ حق سے مٹا دیتے ہیں ۔
(ف33)
اے کُفّارِ نابکار ۔
(ف34)
شانِ الٰہی میں کہ اس کے لئے بیوی و بچّہ ٹھہراتے ہو ۔
وَ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ مَنْ عِنْدَهٗ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ لَا یَسْتَحْسِرُوْنَۚ(۱۹)
اور اسی کے ہیں جتنے آسمانوں اور زمین میں ہیں (ف۳۵) اور اُس کے پاس والے (ف۳۶) اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور نہ تھکیں
(ف35)
وہ سب کا مالک ہے اور سب اس کے مملوک تو کوئی اس کی اولاد کیسے ہو سکتا ہے ، مملوک ہونے اور اولاد ہونے میں منافات ہے ۔
(ف36)
اس کے مقرّبین جنہیں اس کے کرم سے اس کے حضور قُرب و منزلت حاصل ہے ۔
یُسَبِّحُوْنَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ لَا یَفْتُرُوْنَ(۲۰)
رات دن اس کی پاکی بولتے ہیں اور سُستی نہیں کرتے (ف۳۷)
(ف37)
ہر وقت اس کی تسبیح میں رہتے ہیں ۔ حضرت کعب احبار نے فرمایا کہ ملائکہ کے لئے تسبیح ایسی ہے جیسی کہ بنی آدم کے لئے سانس لینا ۔
اَمِ اتَّخَذُوْۤا اٰلِهَةً مِّنَ الْاَرْضِ هُمْ یُنْشِرُوْنَ(۲۱)
کیا انہوں نے زمین میں سے کچھ ایسے خدا بنالیے ہیں (ف۳۸) کہ وہ کچھ پیدا کرتے ہیں (ف۳۹)
(ف38)
جواہرِ ارضیہ سے مثل سونے چاندی پتھر وغیرہ کے ۔
(ف39)
ایسا تو نہیں ہے اور نہ یہ ہو سکتا ہے کہ جو خو د بےجان ہو وہ کسی کو جان دے سکے تو پھر اس کو معبود ٹھہرانا اور اِلٰہ قرار دینا کتنا کھلا باطل ہے ، اِلٰہ وہی ہے جو ہر ممکن پر قادر ہو جو قادر نہیں وہ اِلٰہ کیسا ۔
لَوْ كَانَ فِیْهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَاۚ-فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ(۲۲)
اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا اور خدا ہوتےتو ضرور وہ(ف۴۰) تباہ ہوجاتے (ف۴۱) تو پاکی ہے اللہ عرش کے مالک کو ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں(ف۴۲)
(ف40)
آسمان و زمین ۔
(ف41)
کیونکہ اگر خدا سے وہ خدا مراد لئے جائیں جن کی خدائی کے بُت پرست معتقد ہیں تو فسادِ عالَم کا لزوم ظاہر ہے کیونکہ وہ جمادات ہیں ، تدبیرِ عالَم پر اصلاً قدرت نہیں رکھتے اور اگر تعمیم کی جائے تو بھی لزومِ فساد یقینی ہے کیونکہ اگر دو خدا فرض کئے جائیں تو دو حال سے خالی نہیں یا وہ دونوں متفق ہوں گے یا مختلف ، اگر شے واحد پر متفق ہوئے تو لازم آئے گا کہ ایک چیز دونوں کی مقدور ہو اور دونوں کی قدرت سے واقع ہو یہ محال ہے اور اگر مختلف ہوئے تو ایک شے کے متعلق دونوں کے ارادے یا معاً واقع ہوں گے اور ایک ہی وقت میں وہ موجود و معدوم دونوں ہو جائے گی یا دونوں کے ارادے واقع نہ ہوں اور شے نہ موجود ہو نہ معدوم یا ایک کا ارادہ واقع ہو دوسرے کا واقع نہ ہو یہ تمام صورتیں محال ہیں تو ثابت ہوا کہ فساد ہر تقدیر پر لازم ہے ۔ توحید کی یہ نہایت قوی بُرہان ہے اور اس کی تقریریں بہت بسط کے ساتھ ائمۂ کلام کی کتابوں میں مذکور ہیں ۔ یہاں اختصاراً اسی قدر پر اکتفا کیا گیا ۔ (تفسیرِ کبیر وغیرہ)
(ف42)
کہ اس کے لئے اولاد و شریک ٹھہراتے ہیں ۔
لَا یُسْــٴَـلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ هُمْ یُسْــٴَـلُوْنَ(۲۳)
اُس سے نہیں پوچھا جاتا جو وہ کرے(ف۴۳)اور اُن سب سے سوال ہوگا (ف۴۴)
(ف43)
کیونکہ وہ مالکِ حقیقی ہے جو چاہے کرے ، جسے چاہے عزّت دے جسے چاہے ذلّت دے ، جسے چاہے سعادت دے جسے چاہے شقی کرے ، وہ سب کا حاکم ہے کوئی اس کا حاکم نہیں جو اس سے پوچھ سکے ۔
(ف44)
کیونکہ سب اس کے بندے ہیں مملوک ہیں ، سب پر اس کی فرمانبرداری اور اطاعت لازم ہے ۔ اس سے توحید کی ایک اور دلیل مستفاد ہوتی ہے جب سب مملوک ہیں تو ان میں سے کوئی خدا کیسے ہو سکتا ہے اس کے بعد بطریقِ استفہام تو بیخاً فرمایا ۔
اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةًؕ-قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْۚ-هٰذَا ذِكْرُ مَنْ مَّعِیَ وَ ذِكْرُ مَنْ قَبْلِیْؕ-بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَۙ-الْحَقَّ فَهُمْ مُّعْرِضُوْنَ(۲۴)
کیا اللہ کے سوا اور خدا بنا رکھے ہیں تم فرماؤ (ف۴۵) اپنی دلیل لاؤ (ف۴۶) یہ قرآن میرے ساتھ والوں کا ذکر ہے (ف۴۷) اور مجھ سے اگلوں کا تذکرہ (ف۴۸)بلکہ اُن میں اکثر حق کو نہیں جانتے تو وہ رو گرداں ہیں (ف۴۹)
(ف45)
اے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان مشرکین سے کہ تم اپنے اس باطل دعوٰی پر ۔
(ف46)
اور حُجّت قائم کرو خواہ عقلی ہو یا نقلی مگر نہ کوئی دلیل عقلی لا سکتے ہو جیسا کہ براہینِ مذکورہ سے ظاہر ہو چکا اور نہ کوئی دلیل نقلی پیش کر سکتے ہو کیونکہ تمام کتبِ سماویہ میں اللہ تعالٰی کی توحید کا بیان ہے اور سب میں شرک کا ابطال کیا گیا ہے ۔
(ف47)
ساتھ والوں سے مراد آپ کی اُمّت ہے ، قرآنِ کریم میں اس کا ذکر ہے کہ اس کو طاعت پر کیا ثواب ملے گا اور معصیت پر کیا عذاب کیا جائے گا ۔
(ف48)
یعنی پہلے انبیاء کی اُمّتوں کا اور اس کا کہ دنیا میں ان کے ساتھ کیا کیا گیا اور آخرت میں کیا کیا جائے گا ۔
(ف49)
اور غور و تأمُّل نہیں کرتے اور نہیں سوچتے کہ توحید پر ایمان لانا ان کے لئے ضروری ہے ۔
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْۤ اِلَیْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ(۲۵)
اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول نہ بھیجا مگر یہ کہ ہم اس کی طرف وحی فرماتے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو مجھی کو پوجو
وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗؕ-بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَۙ(۲۶)
اور بولے رحمٰن نے بیٹا اختیار کیا (ف۵۰) پاک ہے وہ (ف۵۱) بلکہ بندے ہیں عزت والے (ف۵۲)
(ف50)
شانِ نُزول : یہ آیت خزاعہ کے حق میں نازِل ہوئی جنہوں نے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا تھا ۔
(ف51)
اس کی ذات اس سے منزّہ ہے کہ اس کے اولاد ہو ۔
(ف52)
یعنی فرشتے اس کے برگزیدہ اور مکرّم بندے ہیں ۔
لَا یَسْبِقُوْنَهٗ بِالْقَوْلِ وَ هُمْ بِاَمْرِهٖ یَعْمَلُوْنَ(۲۷)
بات میں اُس سے سبقت نہیں کرتے اور وہ اسی کے حکم پر کاربند ہوتے ہیں وہ جانتا ہے۔
یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ لَا یَشْفَعُوْنَۙ-اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَ هُمْ مِّنْ خَشْیَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ(۲۸)
جو اُن کے آگے ہے اور جو اُن کے پیچھے ہے (ف۵۳) اور شفاعت نہیں کرتے مگر اُس کے لیے جسے وہ پسند فرمائے (ف۵۴) اور وہ اس کے خوف سے ڈر رہے ہیں
(ف53)
یعنی جو کچھ انہوں نے کیا اور جو کچھ وہ آئندہ کریں گے ۔
(ف54)
حضرتِ ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا یعنی جو توحید کا قائل ہو ۔
وَ مَنْ یَّقُلْ مِنْهُمْ اِنِّیْۤ اِلٰهٌ مِّنْ دُوْنِهٖ فَذٰلِكَ نَجْزِیْهِ جَهَنَّمَؕ-كَذٰلِكَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ۠(۲۹)
اور ان میں جو کوئی کہے کہ میں اللہ کے سوا معبود ہوں (ف۵۵) تو اسے ہم جہنم کی جزا دیں گے ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں ستم گاروں کو
(ف55)
یہ کہنے والا ابلیس ہے جو اپنے عبادت کی دعوت دیتا ہے ، فرشتوں میں اور کوئی ایسا نہیں جو یہ کلمہ کہے ۔