مؤمن کی حیات کس میں؟؟
sulemansubhani نے Wednesday، 24 March 2021 کو شائع کیا.
📣 مؤمن کی حیات کس میں؟؟ ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ .
( سورة الأنفال 24) ۔
چند توضیحات۔
*جن اہل ایمان کو اس وقت براہ راست خطاب ہوا وہ صحابہ ہیں جن کے ایمان ، بے مثل محبت ، تقوی ، اطاعت ، جان نثاری اور جان بازی سب اخلاق عالیہ روشن سورج کی طرح آشکار ہیں ۔
*بلانے پر فورا آ جایا کرو کی ہدایت دینے کے لیئے لفظ امر حسب دستور إجابة سے نہیں لیا بلکہ معنوی زیادتی پیدا کرنے کے لیے إستجابة سے لیا ہے ۔
اللہ تبارک و تعالی نے خود آواز دینے سے آغاز فرمایا حالانکہ وہ جل و علا عام اہل ایمان کو نہیں آواز دیتے لیکن اپنے رسول کے بلانے کو اپنا ہی بلانا قرار دینے کے لیئے اپنا اسم جلالت بھی ذکر فرما دیا ۔ اسی لیئے آگے ” دَعَاكُمْ” اور ” يُحْيِيكُمْ” دونوں صیغے واحد کے استعمال فرمائے ۔
لِمَا يُحْيِيكُمْ کے عموم سے یہ سبق واضح دے دیا کہ رسول کے بلانے پر لبیک کہنا باعث حیات ہے دل کی حیات ، بدن کی حیات، یقین کی حیات ، دنیا کی حیات آخرت کی حیات سب اسی دعوت پر آمنا و صدقنا کہنے میں ہے ۔
اور آیت کے آخر میں جلد سے جلد حاضری کی وارننگ مستور کر دی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دل میں کوئی اور خیال آ جائے ، کوئی حائل معرض وجود میں آ جائے تو سست پڑ جاؤ یا رک جاؤ.
بالکل آخر میں دھمکی کہ بعد مرنے کے حشر تو تمہارا اللہ کی طرف ہے ( اس ڈھلمل کی باز پرس ہو گی )
تفسیر و حدیث کی اکثر کتب میں دو واقعات موجود ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی بن کعب کو آواز دی ۔ حضرت نماز میں تھے ۔ نماز کو مختصر کیا اور حاضر ہو گئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبب تاخیر پوچھا تو حقیقت عرض کر دی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت تلاوت فرما کر تنبیہ کی کہ کیا آپ کو اس وحی کا نہیں پتا جس میں اللہ نے فورا حاضر ہونے کا حکم فرمایا ہے ۔ حضرت أبي نے کہا یا رسول اللہ یقینا ایسا ہی ہے ۔ آئندہ ایسا نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔ اور یہ بھی کہا کہ نماز میں ہوا تب بھی فورا آ جایا کروں گا ۔
ایسا ہی واقعہ أبو سعيد بن المعلي رضى الله عنه اپنا یوں بیان کیا ہے ۔
فقیر خالد محمود آپ کی توجہ کا طالب ہے ۔
اللہ کے رسول نے دونوں صحابیوں کو جب دوران نماز بلایا تو ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک کا تصور آیا ہو گا ۔
اللہ کے رسول نے دونوں کو کہا کہ میرے بلانے پر دوران عبادت الہی آنا لازم ہے گویا یہ سارا عمل منافی نماز ہرگز نہیں بلکہ اثناء نماز ہی ہے ۔
اللہ اکبر ۔
جلو میں اجابت خواصی میں رحمت
بڑھی کس تزک سے دعائے محمد
اجابت نے جھک کر گلے سے لگایا
بڑھی ناز سے جب دعائے محمد
اجابت کا سہرا عنایت کا جوڑا
دلہن بن کے نکلی دعائے محمد
رضا پل سے اب وجد کرتے گزریے
کہ ہے رب سلم صدائے محمد ۔
یہ بات آشکار ہو گئی کہ اہل ایمان کی حیات و بقاء کا راز اللہ تبارک و تعالی اور اس کے مقبول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آوازوں پر حاضر باش ہونا ہے ۔
نماز بھی تبھی نماز ہے اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیل میں آڑ نہیں بن رہی تو رسول کی آواز کو چھوڑ کر ادھر ادھر کے کچھ اور ملغوبہ کی کیا حیثیت و حقیقت ہو سکتی ہے ؟ ۔
🌲 فقیر آپ کی خدمت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک خدمت گار صحابی جناب سفينة رضى الله تبارك وتعالى عنه و ارضاه عنا کی زندگی کے 2 واقعات رکھتا ہے ۔ جو مستدرک حاکم ، البداية والنهاية، سير أعلام النبلاء اور کئی کتب سیرت میں موجود ہیں ۔
نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے حیات بخش ہے کا علم ہونے کے ساتھ کئی اور اسباق بھی معلوم ہوں گے ۔
آپ ام المؤمنين ام سلمة رضى الله عنها و وأرضاها عنا کے غلام تھے ۔ ام المؤمنين نے آپ کو آزاد کر دیا اس شرط پر کہ اللہ تبارک و تعالی کے رسول کی خدمت کر دیا کرو ۔
(1) خود آپ سے روایت ہے کہ میرا نام قيس تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفینہ نام رکھا ۔ سارا ماجرا پوچھا گیا تو آپ نے بتایا ،
رسول الله صلی اللہ علیہ روانہ ہوئے ۔ أصحاب بھی ساتھ تھے ۔ انھیں سامان وزنی لگنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔
: “ابسط كساءك”.
اپنی چادر بچھاؤ . میں نے بچھا دی ۔ سامان اس چادر مین ڈال کر مجھ پر لاد دیا گیا ۔
فرمایا
: “احمل ما أنت إلا سفينة”.
اٹھا لو ، تم سمندری جہاز ہو ۔
یہ بتاتے وقت آپ نے کہا کہ اگر اس دن 6 اونٹوں کے اٹھانے کا بوجھ مجھ پر لاد دیا جاتا تو مجھے ذرا بوجھ نہ لگتا ۔
🤚فقیر آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہے کہ یہ ساری بدنی طاقت ارشاد رسول کی تعمیل کی برکت سے نصیب ہوئی
(2) حضرت اسامہ بن زید نے ، آپ
کا سنایا ہوا واقعہ بیان کیا ہے ۔
میں کشتی کے ذریعے سمندری سفر کر رہا تھا ۔ کشتی ٹوٹ گئی تو اس کے ایک تختے پر میں سوار رہا جو ہوا کے رخ مجھے ایک گھنے جنگل کی طرف لے گیا ۔ اترا تو اچانک ایک شیر حملہ آور ہوا ۔ میں نے کہا
: يا أبا الحارث أنا مولى رسول الله ۔
اے شیر میں رسول اللہ کا آزاد کردہ غلام ہوں ۔ ( اور آپ ہی کی ڈیوٹی پر ہوں )۔
شیر نے سنتے ہی سر جھکا لیا اور اپنے کندھے میرے ساتھ لگا لیئے ۔ اپنے کندھوں کی اسی حرکت سے وہ مجھے راستہ بتاتا رہا ۔ جنگل کے اختتام پر درست راستہ آ گیا تو ایک آواز سی نکالی جس سے مجھے لگا کہ وہ مجھے الوداع کہہ رہا ہے ۔
☆ بھوکا اور حملہ آور شیر جنگل میں یقینی موت کا سندیسہ نہیں تو اور کیا ہے ۔ حواس بحال رکھے ۔ اللہ کے رسول کے ساتھ اپنے تعلق کا نعرہ لگایا اور شیر کو بلی جیسا بنا دیا ۔
☆ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام اور کام کا احترام شیر کو بھی ہے اور اس تعظیم و تسلیم کو شیخ ابن تيمية نے یوں بیان کیا ہے ۔ “وسفينة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم أخبر الأسد بأنه رسول رسولِ الله صلى الله عليه وسلم فمشى معه الأسد حتى أوصله مقصده”.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام سفینہ نے شیر کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں تو شیر ساتھ چلنے لگا تا آنکہ آپ کو مقصود تک پہنچا دیا ۔
📌 فقیر خالد محمود عرض گذار ہے کہ یہ تو شیر تھا ، حیات والا جاندار تھا ۔ درخت ، پتھر جمادات کو بھی آپ صلى الله تبارك وتعالى عليه وعلى آله وصحبه و بارك و سلم کے ارشاد کی تعمیل سے حیات نصیب ہوئی ۔
🔊 آئیے ۔ اپنی قدر کیجئے ۔ اپنا آپ سنبھالئیے ۔ اللہ تبارک و تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے تعلق کو یقینی بنائیے ۔ زندگی آپ کے قدموں میں ہے ۔
بلھا شاہ اساں مرنا ناہیں
گور پیا کوئی ہور ۔ ۔ ۔ ۔
✒ از قلم شیخ الحدیث و التفسیر مفتی خالد محمود صاحب مہتمم ادارہ معارف القران کشمیر کالونی کراچی خادم جامع مسجد حضرت سیدہ خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا مصطفی آباد پھالیہ منڈی روڈ منڈی بہاؤالدین
ٹیگز:-
شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی خالد محمود , شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی خالد محمود صاحب , خالد محمود , مفتی خالد محمود