وصیت ومیراث کا بیان
{وصیت ومیراث کا بیان}
حدیث شریف: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ اعظم ﷺنے فرمایا کہ کسی مسلمان کے لئے یہ مناسب نہیں کہ اس کے پاس وصیت کے قابل کوئی چیز ہو اوروہ بلا تاخیر اس میں اپنی وصیت تحریر نہ کردے۔ (مشکوٰۃ باب الوصایا)
حدیث شریف: ابنِ ماجہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ سرکارِ اعظم ﷺنے ارشاد فرمایا جس کی موت پر وصیت ہو (جو وصیت کرنے کے بعد انتقال کرے) وہ عظیم سنت پر مرا اوراس کی موت تقویٰ اورشہاد ت پر ہوئی اوراس حالت میں مرا کہ اس کی مغفرت ہوگئی ۔(مشکوٰۃ باب الوصایا)
مسئلہ : وصیت کرنا جائز ہے قرآن وحدیث سے اور اجماعِ اُمتَّ سے اس کی مشروعیت ثابت ہے حدیث شریف میں وصیت کی ترغیب دی گئی ہے ۔(جوہر ہ نیرہ)
جب کوئی مسلمان دارِفانی سے کوچ کرجائے (یعنی انتقال ہوجائے ) توشرعاً اس کے ترکہ سے کچھ احکام متعلق ہوتے ہیں یہ احکام چار ہیں۔
(1) اس کے چھوٹے ہوئے مال سے اس کی تجہیز وتکفین مناسب انداز میں کی جائے ۔(محیط بحوالہ عالمگیری)
(2) جو مال بچاہو اس سے میّت کے قرضے چکائے جائیں ۔ قرض سے مُراد وہ قرض ہے جو بندوں کا ہو۔
(3) اس نے وصیّت کی ہے تو اس کے تہائی مال سے اس کی وصیّت پوری کی جائے گی ۔
(4) وصیّت کے بعد باقی مال اس کے ورثاء میں تقسیم ہوگا۔
مسئلہ : ’’عاق‘‘ کے معنیٰ نافرمان کے ہیں ’’عقوق‘‘ کے معنیٰ ہیں ’’نافرمانی‘‘ والدین کی نافرمانی اوراُنہیں ستانا کبیرہ گناہ ہیں لیکن کسی نافرمان صلبی ونسبی اولاد کو وراثت سے محروم کرنے کا کسی کو حق نہیںلہٰذا عاق کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔ اولاد کو عاق کرنے سے اولاد عاق نہیں ہوتی۔
میراث}
وصیت کے بعد جو مال بچا ہو اسکی تقسیم درج ذیل ترتیب کے ساتھ عمل میں آئے گی ۔
اُن وارثوں میں تقسیم ہوگا جو قرآن ، حدیث یا اجماعِ اُمت کی رو سے اصحابِ فرائض (مقررہ حصّوں والے ہیں)
{ان حقوق کا بیان جن کا تعلق میت کے ترکہ سے ہے }
مسئلہ : جب کوئی مسلمان اس دارِفانی سے کوچ کرجائے توشرعاً اس کے ترکہ سے کچھ احکام متعلق ہوتے ہیں ۔یہ احکام چار ہیں۔
(۱) اس کے چھوڑے ہوئے مال سے اس کی تجہیز وتکفین مناسب انداز میں کی جائے (محیط بحوالہ عالمگیری ص447)ا س کا تفصیلی بیان اس کتاب کے حصّہ چہارم میں موجود ہے ۔
(۲) پھر جو مال بچا ہوا س سے میت کے قرضے چکائے جائیں ۔ قرض کی ادائیگی وصیت پر مقدم ہے کیونکہ فرض فرض ہے ۔ جب کہ وصیت کرنا ایک نفلی کام ہے ۔پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو دیکھا آپ نے قرض وصیّت سے پہلے ادا کرایا۔(ابن ماجہ ،دارقطنی وبیہقی)
مسئلہ: قرض سے مراد وہ قرض ہے جو بندوں کا ہو اس کی ادائیگی وصیت پر مقدم ہے ۔
مسئلہ: اگر میّت نے کچھ نمازوں کے فدیہ کی وصیت کی یا روزوں کے فدیہ کی ، یا کفارہ کی ، یا حج بدل کی توتمام چیزیں ادائیگی قرض کے بعد ایک تہائی مال سے ادا کی جائیں گی ۔ اوراگر بالغ ورثاء اجازت دیں تو تہائی سے زیادہ مال سے بھی ادا کی جاسکتی ہیں۔
وصیت: ادائیگی قرض کے بعد وصیت کا نمبرآتاہے ۔قرض کے بعد جو مال بچا ہو اس کے تہائی سے وصیتیں پوری کی جائیں گی ۔ ہاں اگر سب وُرَثاء بالغ ہوں اورسب کے سب تہائی مال سے زائد سے وصیّت پوری کرنے کی اجازت دے دیں توجائز ہے ۔ (خانیہ بحوالہ عالمگیری ،ص 447)
میراث: وصیّت کے بعد جو مال بچا ہو اس کی تقسیم درج ذیل ترتیب کے ساتھ عمل میں آئے گی ۔
(۱) ان وارثوں میں تقسیم ہوگاجو قرآن حدیث یا اجماعِ اُمتَّ کی روسے اصحاب فرائض (مقررّہ حصّوں والے ہیں)
{میراث سے محروم کرنے والے اسباب}
بعض اسباب ایسے ہیں جو وارث کو میراث سے شرعاً محروم کردیتے ہیں اوروہ چار ہیں ۔
۱)…غلام ہونا: یعنی اگر وارث غلام ہے ، خواہ کلیتہً غلام ہو، یا مدبر ہویا ام ولد ہو یا مکاتب ہوتووہ وارث نہ ہوگا۔(شریفیہ ص 10وعالمگیری ص452وتلبیین الحقائق ص231)
۲)…مورث کا قاتل ہونا: اس سے مراد ایسا قتل ہے جس کی وجہ سے قاتل پر قصاص یا کفارہ واجب ہوتاہوان امور کی تفصیلات اس کتاب کے اٹھارہویں حصے میںمذکورہیں۔
۳)…دین کااختلاف: یعنی مسلمان کافر اورکافر مسلمان کا وارث نہ ہوگا۔ عام صحابہ رضی اللہ عنہم اورعلی وزید رضی اللہ عنہما کا یہی فیصلہ ہے نیز یہ حدیث بھی ہے لانوارث اھل ملتین شتٰی یعنی دومختلف ملتوں کے افراد ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے ۔(سنن دارمی ،ابو داؤد وغیرہ)
مسئلہ : اگر کوئی مسلمان مرتد ہوگیا (معاذ اللہ) تومرتد ہونے کی وجہ سے اس کے اموال اس کی ملکیت سے خارج ہوجاتے ہیں پھر اگر وہ دوبارہ اسلام لے آئے اورکفر سے توبہ کرلے تو مالک ہوجائے گااوراگر کفر ہی پر مرگیا توزمانہ اسلام کے جو اموال ہیں ان سے زمانہ اسلام کے قرضے ادا کئے جائیں گے ۔اورباقی اموال مسلمان ورثاء لے لیں گے اورارتداد کے زمانے میںجو کمایا ہے اس سے ارتداد کے زمانے کے قرضے ادا کئے جائیں گے اوراگر کچھ بچ جائے گا تو وہ غرباء پر صدقہ کردیا جائے گا۔(ہدایہ ۔ج2ص601،عالمگیری ج6 ص455)
مسئلہ : قادیانی بھی مرتد ہیں ان کا بھی یہی حکم ہے ۔
مسئلہ : مرتد عورت جب اپنے ارتدا د پر مرجائے تواس کے زمانہ اسلام اورزمانہ ارتداد کے تمام اموال اس کے وارثوں پر تقسیم کردئیے جائیں گے ۔(عالمگیری،ج6ص455)
مسئلہ : وہ لوگ جو انبیاء علیہم السلام کی صریح توہین کے مرتکب ہوں ۔ یا شیخین رضی اللہ عنہما کو گالیاں دیں وہ بھی وارث نہ ہوں گے ۔
ملکوں کا اختلاف}
یعنی یہ کہ وارث اورمورِث (یعنی مرنے والا شخص کہ جس کی میراث تقسیم ہوگی) دومختلف ملکوں کے باشندے ہوں ، تواب یہ ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے ۔
مسئلہ 1: ملکوں کے اختلاف سے شرعاً مراد یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی اپنی الگ افواج ہوں ، اور وہ ایک دوسرے کا خون حلال سمجھتے ہوں ۔(شریفیہ ص 520و عالمگیری ج6ص404)
مسئلہ 2: ملکوں کا اختلاف غیر مسلموں کے حق میں ہے ۔یعنی یہ کہ اگر ایک عیسائی مسلمانوں کے ملک میں ہے اوراس کا رشتہ دار دوسرے ملک میں ہے جو دارالحرب ہے تو اب یہ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے ۔(عالمگیری ج6ص404)
مسئلہ3: اگر مسلمان تجارت کی غرض سے یاکسی اورغرض سے دارالحرب میں چلا گیا اوروہیں مرگیا یا مسلمان کو حربیوں نے قیدی بناکر رکھ لیا اوروہ دارالحرب میںمرگیا تواس کے رشتہ دار جو دارالسلام میں ہیں اس کے وارث ہوں گے ۔(شریفیہ ص21،عالمگیری ج6ص454)
مسئلہ 4: پاکستان کے مسلمان اوروہ مسلمان جو ہندوستان ،امریکہ ، یورپ یاکہیں اوررہتے ہوں ، ایک دوسرے کے وارث ہوں گے ۔(م)
مسئلہ 5: اگروارث اورمورث مسلمانوں کے دوگروہوں سے تعلق رکھتے ہیں جو آپس میں نبرد آزما ہیں اوردونوں کی الگ فوجیں ہیں تب بھی وہ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔(شریفیہ ص 21)
مسئلہ 6: مستأمن اگر ہمارے ملک میںمر جائے اوراس کا مال ہو تو ہم پرلازم ہے کہ اس کا مال اس کے وارثوں کوبھیجیں ، اوراگر ذمی مرجائے اوراس کا کوئی وارث نہ ہو تو اس کا مال بیت المال میں جائے گا۔(عالمگیری ج6ص454)
مسئلہ 7: کفار کے مختلف گروہ مثلاً نصرانی ، یہودی ، مجوسی، بت پرست سب ایک دوسرے کے وارث ہوں گے ۔(عالمگیری ج6ص454)
{باپ کے حصوں کا بیان}
مسئلہ : جب باپ کے ساتھ میت کا کوئی بیٹایا پوتا (نیچے تک) ہوتوباپ کو کل مال میں سے صرف چھٹا حصّہ ملے گا، یعنی 1/6(عالمگیری ج6ص 448)
مثلاً۔1۔6 مسئلہ—————– یا 2 ۔ 6مسئلہ ————–
باپ 1 بیٹا5 باپ1 پوتا5
باپ کو چھٹا حصّہ ملے گا۔
{ماں شریک بھائیوں اور بہنوں کے حصّوں کا بیان}
مسئلہ 1: اگر ماں شریک بھائی یا بہن صرف ایک ہے تواسے چھٹا حصّہ ملے گا۔ 1/6
(عالمگیری ج6ص448)
مثال ۔ 6مسئلہ ————————————————–
شوہر3 ماں شریک بھائی 1 چچا 2
{شوہر کے حصّوں کا بیان}
مسئلہ1 : شوہر کو کل مال کا آدھا 1/2اس صورت میں ملے گا جب کہ اس کے ساتھ میت کا کوئی بیٹا بیٹی یا پوتا پوتی (نیچے تک) نہ ہو۔ (عالمگیری ج6ص450۔درمختار ج5ص676)
مثال ۔ 2مسئلہ———————-
شوہر 1 باپ1
مسئلہ 2: اگر شوہر کے ساتھ میت کا کوئی بیٹا بیٹی یا پوتا یا پوتی (نیچے تک ) ہو تو اس صورت میں شوہر کو چوتھائی حصّہ ملے گا۔1/4، (عالمگیری ،ج6ص450،درمختار، ج5ص676)
مثال ۔۱۔ 4مسئلہ ————————-
بیٹا3 شوہر 1
مثال ۔۲۔ 4مسئلہ————————-
بیٹی 2 چچا1 شوہر1
مثال ۔۳۔ 4مسئلہ ————————-
شوہر 1 پوتا3
{بیویوں کے حصّوں کا بیان}
مسئلہ : اگر میت کی بیوی کے ساتھ میت کا بیٹا بیٹی یا پوتا پوتی نہ ہو تو اس کو کل مال کا چوتھائی 1/4ملے گا۔
(عالمگیری ،ج6ص450،درمختار، ج5ص674)
مثال۔ 4مسئلہ —————————-
بیوی1 بھائی 3
مسئلہ : اگر میت کی بیوی کے ساتھ میت کا بیٹا یا بیٹی یا پوتا پوتی ہوتواس کو آٹھواں حصّہ ملے گا۔ 1/8
(عالمگیری ،ج6ص450،درمختار، ج5ص674)
مثال۔ 8مسئلہ ———————مثال۔ 8مسئلہ —————————
بیٹا7 بیوی1 پوتا7 بیوی1
{حقیقی بیٹیوں کے حصّوں کا بیان}
مسئلہ : اگر صرف ایک بیٹی ہو تواس کو آدھا 1/2ملے گا، (عالمگیری ،ج6ص448،درمختار، ج5ص676)
مثال۔ 6مسئلہ —————————-
باپ 1+2=3 بیٹی 3
مسئلہ : اگر بیٹیاں دویا دو سے زائد ہوں تو ان سب کو دوتہائی 2/3 ملے گا ۔اوران میں برابر برابر تقسیم ہوگا۔ (عالمگیری ،ج6ص448،درمختار، ج5ص676)
مثال۔ 3مسئلہ ——————————–
بیٹی 1 بیٹی 1 بھائی1
{ماں کے حصوں کا بیان}
مسئلہ : اگر میت کی ماں کے ساتھ کا کوئی بیٹا یا بیٹی یا پوتا پوتی ہوتو ماں کوچھٹا حصہ 1/6ملے گا۔
(عالمگیری ،ج6ص449،درمختار، ج5ص539)
مثال۔ 6مسئلہ————————————- 18/
ماں 1/3 بیٹا10 5/15 بیٹی5
مسئلہ : اگر میت کی ماں کے ساتھ میت کے دوبھائی بہن ہوں خواہ وہ حقیقی ہوں،باپ شریک ہوں یا ماں شریک ہوں، توماں کواس صورت میں بھی چھٹا حصہ 1/6ملے گا۔
(عالمگیری ،ج6ص449،درمختار، ج5ص675)
مثال۔ 6مسئلہ————————————— 18/
ماں 1/3 بھائی10 5/15 بہن5
{دادی کے حصوں کا بیان}
مسئلہ : اگر دادی ونانی کے ساتھ میت کی ماں بھی ہوتو دادی ونانی دونوں محروم ہوجائیں گی۔
(عالمگیری ،ج6ص450،درمختار، ج5ص676)
مثال ۔۱۔ 12مسئلہ ———————————————
بیوی 3 ماں 2 نانی م نانی م چچا 7
مثال ۔۲۔ 12مسئلہ ———————————————
بیوی3 ماں 2 دادی م چچا 7