{قربانی کا بیان}

قربانی کی تعریف }

قربانی ایک مالی عبادت ہے جو غنی پر واجب ہے خاص جانور کو خاص دن اللہ تعالیٰ کے لئے ثواب کی نیت سے ذبح کرنا قربانی ہے ۔مسلمان، مقیم ، مالکِ نصاب اورآزاد پر واجب ہے۔

قربانی کس پر واجب ہے }

مسئلہ : مسافر پر قربانی واجب نہیں لیکن اگر نفل کے طو ر پر کرے تو کرسکتاہے ثواب پائے گا۔ (درمختار)

مسئلہ : مالکِ نصاب ہونے سے مُراد اتنا مال ہونا کہ جتنا مال ہونے سے صدقہ فطر واجب ہوجاتاہے یعنی حاجتِ اصلیہ (رہنے کا مکان ، سامان خانہ داری ، پہننے کے کپڑے ، خادم سواری کا جانور ، ہتھیار پیشہ کے اسباب واوزار اوراہلِ علم کے لئے ضرورت کی کتابیں یہ چیزیں حاجتِ اصلیہ سے ہیں) کے علاوہ دوسو درہم(1/2 52 تولے چاندی)یاساڑھے سات تولے سونا کا مالک ہو۔(درمختار ، عالمگیری)

قربانی کا وقت}

دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق سے بارہویں کے غروبِ آفتاب تک قربانی کرسکتے ہیں یعنی تین دن اور دوراتیں لیکن دسویں سب سے افضل ہے پھر گیارہویں پھر بارہویں۔

مسئلہ : شہر میں قربانی کی جائے توشرط ہے کہ نمازِ عید کے بعدہواور دیہات میں چونکہ نمازِ عید نہیں اس لئے صبح صادق سے ہوسکتی ہے ۔

مسئلہ : قربانی کے وقت میں قربانی ہی کرنی لازم ہے اتنی قیمت یا اتنی قیمت کا جانور صدقہ کرنے سے واجب ادا نہ ہوگا۔(عالمگیری)

مسئلہ :ـ قربانی کے دن گزر جانے کے بعد قربانی فوت ہوگئی اب نہیں ہوسکتی لہٰذا اگر کوئی جانور قربانی کے لئے خرید رکھا ہے تواس کو صدقہ کرے ورنہ ایک بکری کی قیمت صدقہ کرے۔ (ردالمختار وعالمگیری )

قربانی کا طریقہ}

سب سے پہلے جس جگہ قربانی ہو وہاں کی زمین صاف کرلیں کوئی کنکر یا پتھر ہو تو صاف کرلیں تاکہ جانور کو تکلیف نہ ہو اس کے ساتھ ساتھ چُھری وغیرہ جانور کے سامنے نہ لے جائیں کیونکہ جانور اپنی قربانی کا آلہ جانتاہے جانور کو ذبح سے پہلے چارہ پانی دے دیں اورچُھری تیز کرلیں۔

جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لِٹائیں کہ قبلہ کی طرف اس کا منہ ہو اور ذبح کرنے والا اپنا داہنا پاؤں اس کے پہلو پر رکھ تیز چُھری سے جلد ذبح کردے اورذبح سے پہلے یہ دُعا پڑھ لے ۔

اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَ رْضِ حَنِیْفاً وَّمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ وَمْحَیَایَ وُمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ oلَاشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ أَکْبَرُ۔ دُعا ختم کرتے ہیں چُھری چلا دے قربانی اپنی طرف سے ہو تو ذبح کے بعد یہ پڑھے ۔اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامَ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ ﷺ۔

ذبح کے وقت چاروں رگیں کٹیں یاکم سے کم تین اس سے زیادہ نہ کاٹیں کہ چُھری مہری تک پہنچ جائے کہ یہ بے وجہ کی تکلیف ہے ۔ ٹھنڈا ہونے پر پاؤں کاٹیںکھال اُتاریں۔ اگر دوسرے کی طرف سے ذبح کیا ہے تومِنِّی کی جگہ من فلاں کہے (یعنی ا س کا نام لے ) اوراگر مُشترک جانور ہو جیسے گائے ، اُونٹ ، بھینس توفلاں کی جگہ سب شریکوں کے نام لے ۔

مسئلہ : اگر دوسرے سے ذبح کرائے تو بہتر ہے کہ خود بھی حاضر رہے ۔

{گوشت اورکھال کے مسائل}

مسئلہ: اگر جانور مشترک ہے تو گوشت تول کر تقسیم کیا جائے اَندازے سے نہ بانٹیں اگر کسی کو زیادہ پہنچ گیا تودوسرے کے معاف کرنے سے بھی جائزنہ ہو گا کہ حق شرع ہے ۔(ردالمختار ، وبہار شریعت)

مسئلہ : اگر میّت کی طرف سے ہے تو اس کا گوشت نہ خود کھاسکتاہے نہ غنی کو کھلا سکتاہے بلکہ اس کو صدقہ کردینا واجب ہے ۔ (بہار شریعت )

مسئلہ : قربانی کا گوشت کافر کو نہ دے ۔

مسئلہ : چمڑا ، جھول ، رسی ، ہار سب صدقہ کردے چمڑے کو خود اپنے کا م میں بھی لاسکتاہے مثلاً ڈول جاء نماز اوربچھونا وغیرہ بنا سکتاہے لیکن بیچ کر قیمت اپنے کام میںلانا جائز نہیں اگر بیچ دیا تو اس قیمت کو صدقہ کردینا واجب ہے ۔ (درمختار وردالمختار)

مسئلہ : قربانی کا گوشت یا چمڑا یا کھال کی قیمت مدرسے میں دے سکتے ہیں۔(عالمگیری)

مسئلہ : قربانی کا گوشت یا چمڑا قصاب یا ذبح کرنے والے کو مزدوری میں نہیں دے سکتا اگر ہدیۃ ً دے دیا تو اُسے اُجرت میں شمار نہ کرے۔(ہدایہ وغیرہ)

{کن جانوروں کی قربانی ہوسکتی ہے }

مسئلہ : قربانی کاجانور اُونٹ ، گائے ، بھینس ، بکری ، بھیڑ ، نرومادہ ، خصی یا غیر خصی سب کی قربانی ہوسکتی ہے۔(عالمگیری)

مسئلہ : وحشی جانور جیسے ہرن ، نیل گائے ، بارہ سنگھا وغیرہ کی قربانی نہیں ہوسکتی ۔(عالمگیری)

مسئلہ : اُونٹ پانچ سال ، گائے ، بھینس دوسال ، بھیڑ بکری ایک سال کی ہو یا زیادہ کی اس سے کم کی ناجائز ہے ہاں اگر دُنبہ یا بھیڑ کا چھ ماہ بچہ اتنا بڑا ہوکہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتاہوتواس کی قربانی جائز ہے ۔(درمختار)

{قربانی کا جانور کیسا ہونا چاہیے }

مسئلہ : قربانی کاجانور موٹا تازہ اوراچھا ہونا چاہیے عیب نہیں ہونا چاہیے اگرتھوڑا ساعیب ہوتوقربانی ہوجائے گی مگر مکروہ ہوگی اوراگر زیادہ عیب ہے توہوگی ہی نہیں۔ (درمختار وردالمختار ، عالمگیری)

مسئلہ : منڈا جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں جائز ہے البتہ اگر سینگ تھے اور ٹوٹ گئے اورمینگ (گودا) تک ٹوٹ گئے تو جائز نہیں اس سے کم ٹوٹا ہے توجائز ہے ۔(عالمگیری)

مسئلہ : اندھا، لنگڑا ، کانا ، بے حد دُبلا ، کان کٹا، دُم کٹا، بے دانت کا ، تھن کٹا، تھن سوکھا(چار میں سے ایک کا سوکھا ہونا مانع نہیں)ناک کٹا، پیدائشی بے کان کا بیمار، خنثیٰ (جس کے دونوں نشانیاں ہوں) جلالہ (جو صرف غلیظ کھاتاہو) ان سب کی قربانی جائز نہیں۔(درمختار)

خصی جانور کی قربانی کا حکم }

بلا شبہ قربانی کے جانور کا عیب سے پاک ہونا شرعاً ضروری ہے اور عیب دار جانور کی قربانی جائز نہیںہے مثلاً جس کے تھن کٹے ہوئے ہوں، سینگ جڑسے ٹوٹے ہوئے ہوں ، کان تہائی سے زیادہ کٹا ہوا ہو لنگڑا ہو ، کانا ہو وغیرہ ۔عیب سے مُراد وہ عیب ہے جو تاجروں کے نزدیک عیب شمار ہوتا ہو اور قیمت میں کمی کا باعث ہو۔ خصی ہونا ، تاجروں کے نزدیک عیب نہیںہے بلکہ خصی جانور کی قیمت زیادہ ہوتی ہے اورسنت سے بھی خصی جانور کی قربانی ثابت ہے ۔ سنن ابی داؤد میں حدیث ہے :حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قربانی کے دن سرکار ِ اعظمﷺنے دو خوبصورت سینگوں والے خصی مینڈھے ذبح فرمائے۔ الخ

البتہ جو شخص افزائش نسل کے لئے حلال نر جانور خریدنا چاہتا ہے تواس کے نزدیک اس کا خصی ہونا ضرور عیب ہوگا۔

مسئلہ : بیماری اگر خفیف ہے اور لنگڑا پن ہلکا ہے کہ چل پھر لیتا ہے قربان گاہ تک جاسکتاہے یاکان ، ناک ، دم تہائی سے زیادہ نہیں کٹے توجائز ہے ۔(درمختار)

مسئلہ: قربانی کی اورپیٹ میں زندہ بچہ ہے تواُسے بھی ذبح کردے اورکام میں لاسکتاہے اورمرا ہوا ہو تو پھینک دے ۔(بہار شریعت)

مسئلہ : خریدنے کے بعد قربانی سے پہلے جانور نے بچہ دے دیا تو اُسے بھی ذبح کرڈالے اوراگر بیچ دیا تو اس کی قیمت کو صدقہ کرے اور اگر اَیّامِ قربانی میں ذبح نہ کیا تو زندہ صدقہ کردے۔ (عالمگیری)

مسئلہ : ایصالِ ثواب کے لئے قربانی کرنا جائز ہے ہوسکے تو سرکارِ اعظم ﷺکی طرف سے قربانی کی جائے کیونکہ سرکارِ اعظم ﷺبھی اپنی اُمت کی طرف سے قربانی کیا کرتے تھے ۔

مسئلہ : نذرو نیاز بھی ایصالِ ثواب ہے اس میں بھی بزرگوں کے ایصالِ ثواب کے لئے قربانی کی جاتی ہے سرکارِ اعظم ﷺاپنی اُمت کا نا م لے کر اُن کے لئے قربانی کرتے تھے ۔