أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

صٓ‌ ۚ وَالۡقُرۡاٰنِ ذِى الذِّكۡرِؕ ۞

ترجمہ:

ص ٓ اس نصیحت والے قرآن کی قسم

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

ص ٓ، اس نصیحت والے قرآن کی قسم ! بلکہ جن لوگوں نے کفر کیا وہ تکبر اور مخالفت میں پڑے ہوئے ہیں ہم ان سے پہلے بھی بہت سی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں، انہوں نے بہت فریاد کی مگر وہ وقت نجات کا نہ تھا (ص ٓ: ٣۔ ١)

ص ٓ کے معانی اور محامل

اس سورت کو بھی حرف تہجی ص ٓ کے ساتھ شروع کیا گیا ہے، جیسا کہ قرآن مجید کی اور بھی کئی سورتوں کو حرف تہجی کے ساتھ شروع کیا گیا ہے اور اس میں اس چیز پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے اور وحی الٰہی ہے، کسی انسان کا کلام نہیں ہے، اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ کسی انسان کا کلام ہے تو جن حروف تہجی سے یہ کلام مرکب ہے تو ان ہی حروف سے کلام بناتے ہو، سو تم بھی ان حروف سے ایسا کلام بنا لائو اور اگر تم ایسا معجزہ کلام نہ بنا سکو اور اس سے عاجز ہوجائو تو پھر مان لو کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔

مفسرین نے کہا ہے کہ حرف صاد کو ابتداء لانے میں حسب ذیل امور کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے :

(١) ص ٓ سے مراد اللہ تعالیٰ کے وہ اسماء ہیں جو حرف صاد سے شروع ہوتے ہیں جیسے صادق الوعد، صانع المخلوقات اور صمد۔

(٢) اس سے مراد یہ ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر خبر پہنچانے میں صادق ہیں۔

(٣) سعید بن جبیر نے کہا : ص ٓسے مراد وہ بحر ہے جس سے اللہ تعالیٰ دو صوروں کے درمیانی وقفہ میں مردوں کو زندہ فرمائے گا، ضحاک نے کہا : ص ٓسے مراد اللہ تعالیٰ کا اسم ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے، قتادہ سے مروی ہے کہ یہ قرآن کا اسم ہے، ایک قول یہ ہے کہ اس کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٥ ص ١٣٠، دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر کیا فرمایا ؟

ہم نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس نصیحت والے قرآن کی قسم کھائی ہے، اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر کیا فرمایا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جواب قسم یہاں پر مذکور نہیں ہے لیکن مراد ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ کلام معجزہ ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ص ٓ اس نصیحت والے قرآن کی قسم ! (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ قرآن معجز ہے اور ان کا یہ دعویٰ برحق ہے یا (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبلیغ رسالت اور اللہ تعالیٰ کی توحید کا پیغام پہنچانے میں صادق ہیں اور کفار جو آپ کے رسول ہونے کا انکار کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی توحید کا، آپ کی رسالت کا اور قرآن مجید کے وحی الٰہی ہونے کا انکار اور کفر کررہے ہیں تو ان کا یہ انکار محض تکبر اور عناد کی وجہ سے ہے، ان کا گمان یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو اپنا رسول بناتا تو اس شخص کو بناتا جو بہت امیر و کبیر ہوتا۔ جس کے پاس دولت کی فراوانی ہوتی، اس کے بہت نوکر چاکر ہوتے اور اس کا بہت بڑا جتھا ہوتا اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس یہ ظاہری جاہ وحشم اور بہت سرمایہ نہیں تھا جب کہ وہ سرمایہ دار اور سردار تھے، اس لئے وہ اپنے زعم فاسد میں آپ کو کمتر اور حقیر سمجھتے تھے اور آپ پر ایمان لانا اور آپ کا کلمہ پڑھنا اور آپ کی اطاعت کرنا اپنی بڑائی اور اپنی امارت و ریاست کے خلاف سمجھتے تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بلکہ جن لوگوں نے کفر کیا وہ تکبر اور مخالفت میں پڑے ہوئے ہیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 1