أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَاِنَّكُمۡ وَمَا تَعۡبُدُوۡنَۙ‏ ۞

ترجمہ:

سو بیشک تم اور جن کی تم عبادت کرتے ہو

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سو بیشک تم اور جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ تم کسی کو گمراہ نہیں کرسکتے۔ سو اس کے جو دوزخی ہے۔ (الصفت : ١٦٣۔ ١٦١ )

کسی کو گم راہ کرنے کی قدرت شیطان میں ہے نہ کفار میں ‘ اس مسئلہ میں ———-

اہل سنت کے موقف پر دلائل اور تقدیر کا ثبوت

اس آیت میں اہل سنت کے اس موقف کی دلیل ہے کہ شیطان کسی کو گمراہ نہیں کرسکتا ‘ اور ہدایت اور گمراہی دونوں فعلوں کا خالق اللہ عزوجل ہے ‘ اللہ تعالیٰ کو ازل میں جس شخص کے متعلق یہ علم تھا کہ وہ ایمان اور تقویٰ کو اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ایمان اور تقویٰ کو پیدا کردیا ‘ اور جس کے متعلق اس کو علم تھا کہ وہ کفر اور گمراہی کو اختیار کرے گا اس کے لیے اس نے کفر اور گمراہی کو پیدا کردیا ‘ خلاصہ یہ ہے جسکے متعلق ازل میں دوزی لکھ دیا گیا وہی گمراہ ہوتا ہے شیطان کسی شر اور گمراہی کو پیدا نہیں کرسکتا ‘ ہر شخص کا سعید اور شقی ہونا ازل میں مقدر ہوچکا ہے۔

حسب ذیل احادیث میں اس پر دلالت ہے کہ انسان کا شقی یا سعید ہونا یا جنتی اور دوزخی ہونا ازل میں مقدر ہوچکا ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اور آپ صادق اور مصدوق ہیں ‘ تم میں سے کسی ایک کی تخلیق اس کے ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک جمع کی جاتی ہے ‘ پھر چالیس دن بعد وہ جما ہوا خون بن جاتا ہے ‘ پھر چالیس دن بعد وہ گوشت کا ٹکڑا بن جاتا ہے ‘ پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونک دیتا ہے ‘ اور اس کو چار کلمات لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے ‘ وہ اس کا رزق ‘ اس کی مدت حیات ‘ اس کے اعمال اور اس کا شقی یا سعید ہونا لکھ دیتا ہے ‘ پس اس ذات کی قسم ! جس کے سوا اور کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے ‘ تم میں سے ایک شخص اہل جنت کے عمل کرتا رہتا ہے ‘ حتی کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ذراع (ڈیڑھ فٹ) کا فاصلہ رہ جاتا ہے اور اس پر کتاب (تقدیر) غالب آجاتی ہے پس وہ اہل نار کا عمل کرتا ہے اور نار میں داخل ہوجاتا ہے ‘ اور تم میں سے کوئی شخص اہل نار کے عمل کرتا رہتا ہے حتی کہ اس کے اور نار کے درمیان ایک ذراع رہ جاتا ہے پھر اس پر کتاب (تقدیر) غالب آجاتی ہے پس وہ اہل جنت کے عمل کرتا ہے اور جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٤٣‘ صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٢٠٨‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٣٤٦‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٤٨ )

حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک جنازہ کے سلسلہ میں بقیع الغر قد میں بیٹھے ہوئے تھے ‘ ہمارے پاس آکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے ہم بھی آپ کے پاس بیٹھ گئے ‘ آپ کے پاس ایک تنکا تھا آپ نے سرجھکا لیا اور آپ اس تنکے س زمین کریدنے لگے ‘ پھر آپ نے فرمایا تم میں سے جو شخص بھی سانس لینے ولا ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جنت یا دوزخ میں ایک مقام لکھ دیا ہے اور اس کا شقی ہونا یا سعید ہونا بھی لکھ دیا گیا ہے ‘ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! ہم اس لکھے ہوئے پر ٹھہر نہ جائیں اور عمل کرنا چھوڑ نہ دیں ؟ آپ نے فرمایا جو شخص اہل سعادت میں سے ہے وہ اہل سعادت کے عمل کرتا رہے گا اور جو شخص اہل شقاوت میں سے ہے وہ اہل شقاوت کے عمل کرتا رہے گا ‘ آپ نے فرمایا تم عمل کرتے رہو تم میں سے شخص کے لیے عمل کرنا آسان کردیا گیا ہے ‘ جو اہل سعادت ہیں ان کے لیے اہل سعادل کے اعمال آسان کردیئے گئے ہیں اور جو اہل شقاوت ہیں ان کے لیے اہل شقاوت اعمال آسان کردیئے گئے ہیں پھر آپنے ان آیات کی تلاوت کی :

فاما من اعطی واتقی۔ وصدق بالحسنی۔ فسنیسرہ للیسری۔ واما من بخل واستغنی۔ وکذب بالحسنی۔ فسنیسرہ للعسری۔ (اللیل : ١٠۔ ٥)

رہا وہ شخص جس نے (اللہ کی راہ میں) دیا اور وہ (اللہ سے) ڈرا۔ اور اس نے نیک باتوں کی تصدیق کی۔ تو ہم اس کے لیے آسان راستے کو سہل بنادیں گے۔ اور رہا وہ شخص جس نے بخل کیا اور بےپرواہی کی۔ اور نیک باتوں کی تکذیب کی۔ تو ہم اس کے لیے تنگی اور مشکل کے راستے مہیا کردیں گے۔

(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٤٧‘ صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٣٦٢‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٦٩٤‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢١٣٦‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٧٨‘ السنن الکبری رقم الحدیث : ١١٦٧٨)

تقدیر پر وارد ہونے والے اشکالات کو دور کرنے کے لیے علامہ عینی اور دیگر علماء کی تقاریر

علامہ بدر الدین محمود بناحمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ جب ازل میں انسان کا سعید یا شقی ہونا مقدر ہوچکا ہے اور انسان اس لکھی ہوئی تقدیر کے موافق ہی عمل کرتا ہے تو پھ دنیا میں نیک عمل کی تحسین اور آخرت میں اس پر اجرو ثواب کیوں ہوتا ہے ‘ اسی طرح دنیا میں برے کاموں کی مذمت اور آخرت میں اس پر عذاب کیوں ہوتا ہے ‘ اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ اچھے اور برے کاموں پر انسان کی تحسین یا مذمت اور آخرت میں اس پر عذاب کیوں ہوتا ہے ‘ اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ اچھے اور برے کاموں پر انسان کی تحسین یا مذمت اور آخرت میں اس پر عذاب کیوں ہوتا ہے ‘ اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ اچھے اور برے کاموں پر انسان کی تحسین یا مذمت اس وجہ سی نہیں کی جاتی کہ وہ ان کاموں کا فاعل ہے بلکہ اس وجہ سے کی جاتی ہے کہ وہ ان کاموں کا محل ہے ‘ اور اساعرہ جو بندے کے کسب کے قائل ہیں ان کی بھی اس سے یہی مراد ہے کہ وہ ان کاموں کا محل ہے جیسے حسین آدمی کی تعریف کی جاتی ہے کیونکہ وہ حسن کا محل ہے اور بد شکل آدمی کی مذمت کی جاتی ہے کیونکہ وہ بد صورتی کا محل ہے ‘ اور رہا ثواب اور عذاب تو وہ باقی امور عادیہ کی طرح ہے ‘ جس طرح ہمارے نزدیک یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آگ سے مس کرنے کے بعد جلانا کیوں پیدا کیا ہے اسی طرح ہمارے نزدیک یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے برے کاموں پر عذاب کو کیوں مترتب فرمایا ہے۔

علامہ طیبی نے اس کے جواب میں یہ کہا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بڑی حکمت سے صحابہ کے سوال کا جواب دیا ہے کہ تم تقدیر پر تکیہ کر کے عمل کو ترک نہ کرو ‘ اور ان کو یہ حکم دیا ہے کہ عبودیت کے تقاضے سے ان پر جو کام واجب ہیں ان کو لازم رکھیں ‘ اور اس الجھن میں نہ پڑیں کہ اللہ تعالیٰ کیا کرتا ہے اور کیا نہیں کرتا ‘ اور عبادت کے کرنے اور عبادت کے ترک کرنے کو جنت اور دوزخ میں دخول کا مستقل سبب اور علت نہ قرار دیں بلکہ یہ قرار دیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت اور اس کی عبادت کرنا جنت میں دخول کی علامت ہے اور اس کی نافرمانی کرنا اور اس کی عبادت کو ترک کرنا دوزخ میں دخول کی علامت ہے۔

علامہ خطابی نے اس کے جواب میں یہ کہا ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کو یہ بتایا کہ اللہ کا لکھا ہوا بندے کے عمل اور اس کی سعادت پر سبقت کرتا ہے تو صحابہ نے یہ قصد کیا کہ اس چیز کو عمل ترک کرنے کی دلیل بنالیں تو آپ نے ان کو یہ بتایا کہ یہاں پر دو چیزیں ہیں اور ایک چیز سے دوسری چیز باطل نہیں ہوتی ‘ ایک چیز باطن ہے اور ایک چیز ظاہر ہے ‘ باطن وہ چیز ہے جو حکم الٰہی میں علت موجبہ ہے ‘ یعنی تقدیر اور دوسری چیز ظاہر ہے اور وہ حق عبودیت کا تتمہ لازمہ ہے اور یہ مطلق انجام کی علامت ہے اور یہ حقیقت کے لیے غیر مفید ہے ‘ اور یہ بتایا کہ انسان کو جس عمل کے لیے پیدا کیا گیا ہے اس عمل کا کرنا انسان کے لیے آسان کردیا گیا ہے اور دنیا میں اس کا عمل آخرت میں اس کے انجام کی علامت ہے ‘ اسی لیے آپ نے سورة اللیل کی پانچ آیتوں کی تلاوت فرمائی اور اس کی مثال یہ ہے کہ اسن کے لیے رزق کو مقدر کردیا گیا اسکے باوجود اس کو رزق کے حصول کے لیے کسب کرنیکا حکم دیا ہے ‘ اور انسان کی مدت حیات معین اور مقدر فرما دی ہے اس کے باوجود اس کو بیمار ہونے کی صورت میں طب سے علاج کرنے کا حکم دیا ہے ‘ تم ان دونوں چیزوں میں سے باطن کو صورت واقعیہ حقیقیہ پر پائو گے اور ظاہر کو سبب مخیل کی صورت پر پائو گے۔

علامہ ابن بطال نے کہا یہ حدیث اہل سنت کے اس عقیدہ کی دلیل ہے کہ سعادت اور شقاوت اللہ تعالیٰ کے پیدا کرنے سے ہے ‘ اس کے برخلاف قدر یہ یہ کہتے ہیں کہ شر (برے کام) اللہ کی مخلوق نہیں ہے ‘ اور علامہ نووی نے کہا ہے کہ اس حدیث میں تقدیر کا ثبوت ہے اور یہ کہ تمام واقعات اللہ تعالیٰ کی قضاء او قدر سے واقع ہوتے ہیں ‘ اور اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کرنا جائز نہیں ہے کہ وہ کیا کرتا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ جب تک لوگ جنت میں داخل نہیں ہوں گے ان پر تقدیر کا راز منکشف نہیں ہوگا ‘ اور اس حدیث میں اہل جبر کا رد ہے ‘ کیونکہ جو شخص مجبور ہوتاے وہ اس کام کو جبر اور ناگوار یاور اپنی خواہش کے خلاف کرتا ہے ‘ اور اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ ہر انسان کے لیے اس کے کاموں کو سہل اور آسان بنادیا گیا ہے ‘ کیا تم نہیں دیکھتے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے بیشک اللہ نے میری امت کے ان کاموں کو معاف فرما دیا جن پر ان کو مجبور کیا گیا (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٠٤٥‘ المسند الجامع رقم الحدیث : ١٥٠٨١) اور کسی کام کو آسان کرنے کا معنی یہ ہے کہ انسان اس کام کو کرے جو اس کو پسند ہو اور جس کے کرنے کو اس کا دل چاہتا ہو۔

اس میں اختلاف ہے کیا انسان کے شقی یا سعید ہونے کا دنیا میں علم ہوسکتا ہے ‘ بعض علماء نے کہا ہاں ! ہوسکتا ہے اور اس کی دلیل یہ آیت ہے جو شخص بغیر کسی دشواری کے آسانی سے نیک کام کرے گویا نیک کام کرنا اس کی طبیعت کا تقاضا اس کی سرشت اور اس کا مزاج ہو یہ اس کے سعید ہونے کی علامت ہے ‘ اور جس شخص پر نیک عمل کرنا تنگ اور دشوار ہو اور گناہ کرنا اس پر آسان ہو اور اس کی طبیعت کا تقاضا ہو ‘ یہ اس کے شقی ہونے کی علامت ہے ‘ اور ہر عمل اس کی جزاء کی علامت ہے ‘ اور بعض علماء نے کہا دنیا میں اس کا پتا نہیں چل سکتا ‘ اور تحقیق یہ ہے کہ اس کا علم درجہ ظن میں ہوسکتا ہے درجہ جزم اور یقین میں نہیں ہوسکتا ‘ اور شیخ تقی الدین ابن تیمیہ نے کہا ہے کہ اس امت کے جن صالحین کے متعلق لوگوں کی زبانوں پر ذکر خیر جاری ہے آیا ان کو قطعی طور پر جنتی کہا جائے گا یا نہیں اس میں دو قول ہیں ( میں کہتا ہوں کہ ان کو بھی ظنی طور پر جنتی کہا جائے گا قطعی طور پر ان کو جنتی کہنا جائز نہیں ہے) ۔

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ جب سعادت اور شقاوت ازل میں واجب ہوچکی ہے اور یہ تقدیر الہٰی ہے پھر بندوں کو مکلف کرنے کا کیا فائدہ ہے ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو عمل کرنے کا حکم دیا ہے ‘ پس ہم پر لازم ہے کہ ہم اس کے حکم پر عمل کریں اور تقدیر کو ہم سے مخفی رکھا ہے اور اعمال کو انسان کے انجام کی علامت قرارد یا ہے پس ہم کو اس میں توقف کرنا چاہیے۔ جس شخص نے اس طریقہ سے انحراف کیا وہ گم راہ ہوگیا ‘ کیونکہ تقدیر اللہ کے اسرار میں سے ایک سر (راز) ہے ‘ اللہ کے سوا اس راز پر کوئی مطلع نہیں ہے ‘ اور جب لوگ جنت میں داخل ہوں گے تو ان پر یہ راز کھل جائے گا۔(عمدۃ القاری ج ٨ ص ٢٧٤۔ ٢٧٢‘ ملخصا مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

تقدیر پر وارد ہونے والے اشکال کو دور کرنے کے متعلق مصنف کی تقریر

میں کہتا ہوں کہ علاہ عینی نے تقدیر پر بہت وضاحت اور تفصیل سے لکھا ہے اور تقدیر پر جو اشکال ہوتے تھے ان کے بہت شافی جوابات دیئے ہیں لیکن انہوں نے خلق اور کسب کے متعلق صحیح نہیں لکھا ‘ انہوں نے لکھا ہے کہ نیک کاموں کی اس لیے تحسین کی جاتی ہے کہ بندہ ان کاموں کا محل ہے جیسے کسی انسان کے وب صورت ہونے کی تعریف کی جاتی ہے کہ وہ حسن کا محل ہے اسی طرح بد صورت ہونے کی مذم تاس لیے کی جاتی ہے کہ و بد صورتی کا محل ہے ‘ اور یہی اشاعرہ کے نزدیک کسب کا معنی ہے۔ لیکن علامہ عینی کی یہ تقریر صحیح نہیں ہے ‘ کسی انسان کا حسن یا اس کی بد صورتی کا محل ہے ‘ اور یہی اشاعرہ کے نزدیک کسب کا معنی ہے۔ لیکن علامہ عینی کی یہ تقر یر صحیح نہیں ہے ‘ کسی انسانکاحسن یا اس کی بدصورتی اس کا اختیاری فعل نہیں ہے جب کہ نیک یا برے کام اس کے اختیاری افعال ہیں ‘ اس لیے ان کا ان پر قیاس صحیح نہیں ہے ‘ درحقیقت کسب کا معنی ہے بندہ کا ارادہ کرنا اور خلق کا معنی ہے اس کام کو پیدا کرنا اور وجود عطا کرنا ‘ بندہ جس کا ارادہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کام کو پیدا فرما دیتا ہے ‘ کسی کام کو اختیار بندہ کرتا ہے اور اس کو پیدا اللہ کرتا ہے ‘ بندہ کا سب ہے اور اللہ تعالیٰ خالق ہے اور بندہ کو جزاء اور سزا اس کے اختیار کی وجہ سے ملتی ہے اللہ تعالیٰ علام الغیوب ہے اس کو ازل میں علم تھا کہ وہ بندہ کو کسب اور اختیار کرے گا ‘ اور اس کے ارادہ کے مطابق اللہ تعالیٰ اس میں ایمان اور اعمال صالحہ پیدا کرے گا یا کفر اور اعمال خبیثہ پیدا کرے گا اور وہ ان اعمال کے اعتبار سے سعید اور جنتی ہوگا یا شقی اور دوزخی ہوگا ‘ مثلا اس کو ازل میں علم تھا کہ حضرت ابوبکر ایمان کو اختیار کرے گا ‘ اور اس کے ارادہ کے مطابق اللہ تعالیٰ اس میں ایمان اور اعمال صالحہ پیدا کرے گا یا کفر اور اعمال خبیثہ پیدا کرے گا اور وہ ان اعمال کے اعتبار سے سعید اور جنتی ہوگا یا شقی اور دوزخی ہوگا ‘ مثلا اس کو ازل میں علم تھا کہ حضرت ابوبکر ایمان کو اختیار کریں گے اور ابو جہل کفر کا اختیار کرے گا سو اس کو ازل میں حضرت ابوبکر کے مومن ہونے اور ابو جہل کے کافرہونے کا علم تھا اور اسی طرح اس کو ازل میں ہر شخص کے مومن یا کافر ہونے اور جنتی یا دوزخی ہونے کا علم تھا اور اسی علم کا نام تقدیر ہے ‘ اور اس کا یہ علم مخلوق کے اختیار کردہ اعمال کے مطابق ہے ‘ مخلوق کے اعمال اس کے علم کے مطابق نہیں ہیں کیونکہ علم معلوم کے تابع ہوتا ہے ‘ معلوم علم کے تابع نہیں ہوتا ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس علم کو لوح محفوظ میں لکھ دیا سو یہی تقدیر ہے قرآن مجید میں ہے :

وکل شیء فعلوہ فی الذبر۔ (القمر : ٥٢) ہر وہ کام جس کو لوگوں نے کیا ہے وہ لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔

یعنی جو لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے وہ لوگوں نے نہیں کیا بلکہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے وہ لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے ‘ سو لوح محفوظ میں لکھا ہوا ان کے عمل کے تابع نہیں ہوتا ‘ اور اس تفصیل کو جان لینے کے بعد یہ اشکال نہیں ہوگا کہ جب اللہ نے پہلے ہی ہمارا جنتی یا دوزخی ہونا لکھ دیا ہے تو ہم نیک عمل کیوں کریں ‘ یا پھر ہمیں اعمال کا مکلف کیوں کیا ہے ‘ یا جب پہلے ہی کسی کے متعلق لکھ دیا ہے کہ وہ کفر کرے گا تو پھر کفر کرنے میں اس کا کیا قصور ہے ‘ اس لیے اللہ نے ازل سے وہی لکھا ہے جسکو ہم نے اپنے اختیار اور ارادہ سے کرنا تھا اس کا علم ہمارے کاموں کے تابع ہے ہمارے کام اس کے علم کے تابع نہیں ہیں ‘ ہمیں کیا معلوم کہ اس کا علم کیا ہے اور کیا نہیں ہے ‘ اور اب امید ہے تقدیر پر اشکال بالکلیہ دور ہوجائے گا۔ والحمد للہ رب العلمین۔

حضرت آدم اور حضرت موسیٰ (علیہما السلام) کا مباحثہ

اس مسئلہ مزید وضاحت اس حدیث میں ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حضرت آدم اور حضرت موسیٰ میں ان کے رب کے سامنے مباحثہ ہوا ‘ پس حضرت آدم ‘ حضرت موسیٰ پر غالب آگئے ‘ حضرت موسیٰ نے کہا آپ وہ آدم ہیں کہ آپ کو آپ کے رب نے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور آپ میں اپنی پسندیدہ روح پھونکی ‘ اور آپ کے لیے فرشتوں سے سجدہ کرایا اور آپ کو اپنی جنت میں رکھا پھر آپ نے اپنی خطا کے سبب لوگوں کو جنت سے زمین کی طرف اتارا ‘ پھر حضرت آدم (علیہ السلام) نے کہا آپ وہ موسیٰ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنے کلام سے فضیلت دی اور آپ کو تورات کی وہ تختیاں دیں جن میں ہر چیز کا واضح بیان ہے اور آپکو قریب کر کے سرگوشی کی ‘ آپکو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے کتنا بڑھی ہے :

وعصی ادم ربہ فغوی۔ (طہ : ١٢١) اور آدم نے اپنے رب کی مصیت کی پس وہ (جنت کی رہائش سے) بےراہ ہوگئے۔

حضرت موسیٰ نے کہا ہاں ! حضرت آدم نے کہا کیا آپ مجھے اس عمل پر ملامت کررہے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے مجھ کو پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے لکھ دیا تھا ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پس حضرت آدم (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر غالب آگئے۔

(صحیح مسلم القدر : ١٥‘ رقم الحدیث : ٢٦٥٢‘ صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٥١٥۔ ٦٦١٤۔ ٤٧٣٦۔ ٣٤٠٩‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٧٠١‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢١٣٤‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٨٠‘ مسند الحمیدی رقم الحدیث : ١١١٥‘ مسند احمد ج ٢ ص ٢٤٨ )

آیا تقدیر میں لکھا ہوا ہونا ارتکاب معصیت پر ملامت کے سقوط کا سبب ہے یا نہیں !

حافظ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

علامہ خطابی نے کہا : حضرت آدم علیہالسلام ‘ حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی ملامت کو اٹھا نے اور انکے اعتراض کا مسکت جواب دینے میں ان پر غالب آگئے ‘ کیونکہ آدمیوں میں سے کسی کو دوسرے پر ملامت کرنے کا حق نہیں ہے ‘ اور نہ اس کے سبب کو باطل کرنے پر قادر رہے ورنہ وہ میانہ روی سے نکل کر قدریہ یا جبریہ کہ مذہب میں چالا جائے گا ‘ حضرت آدم (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے علم کی کمی کو ظاہر فرمایا اور کہا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی رسالت اور اپنے کلام سے سرفراز فرمایا تو آپ کے لیے یہ کیسے جائز ہے کہ آپ مجھے تقدیر کے لکھے ہئے پر ملامت کریں جس کو کوئی ٹال نہیں سکتا ‘ اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ کے اعتراض کو ان پر ہی لوٹا دیا ‘ کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ہی حضرت آدم پر اعتراض کرکے بحث کی ابتداء کی تھی۔

علامہ نووی نے کہا حضرت آدم (علیہ السلام) کے قول کا معنی یہ ہے کہ آپ معلوم ہے کہ میرا شجر ممنوع سے کھانا مقدر ہوچکا تھا ‘ سو آپ مجھ کو اس پر ملامت نہ کریں ‘ کیونکہ یہ ملامت شرعی ہے عقل نہیں ہے ‘ اور جب کوئی شخص اپنی خطاء پر اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرما دیتا ہے ‘ اور جب اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردے تو پھر کسی کو اس پر ملامت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ‘ اور جو ملامت کرے گا تو شرعاً اس کی ملامت جائز نہیں ہوگی ‘ پس اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اگر ہم میں سے کوئی شخص معصیت کر کے یہ کہے کہ اس کا یہ مصیت کرنا اللہ کی تقدیر میں تھا تو اس شخص سے تو ملامت ساقط نہیں ہوگی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ابھی دارالتکلیف میں باقی ہے اور اس پر مکلفین کے احکام جاری ہیں ‘ اور اس کو ملامت کرنا صحیح ہے کیونکہ اس ملامت سے مقصود اس کو اور دوسروں کو معصیت کے کاموں سے باز رکھنا ہے ‘ اور حضرت آدم (علیہ السلام) دارالتکلیف سے جا چکے تھے اور اب انکو ملامت کرنے سے سو ان کو شرمندہ کرنے کے اور کوئی حاصل نہیں تھا۔

علامہ توریشتی نے کہا حضرت آدم (علیہ السلام) نے جو فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس خطا کو میرے لیے مقدر کردیا تھا ‘ اسکا یہ معنی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو میرے لیے لازم اور واجب کردیا تھا اور میرے لیے اس درخت سے کھانے یا نہ کھانے کا اختیار باقی نہیں رہا تھا ‘ بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو پیدا کرنے سے پہلے ہی لوح محفوظ میں میرے اس فعل کو لکھ دیا تھا اور ثابت کردیا تھا ‘ اور چونکہ اللہ کے علم ازلی میں یہ ثابت تھا کہ میں نے یہ کام کرنا ہے اور اپنے اختیار اور کسب سے اس کام کو کرنا ہے تو اللہ کے علم کے خلاف کیسے ہوسکتا تھا ‘ آپ اللہ کے علم ازلی کی طرف توجہ نہیں کررہے اور صرف میرے کسب اور قصد کو دیکھ رہے ہیں اور اصل تقدیر کو فراموش کررہے ہیں حالانکہ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنکو اللہ تعالیٰ نیفضیلت عطا فرمائی ہے اور اپنے خاص بندوں میں منتخب فرمالیا ہے جو پردے کی اوٹ سی اللہ تعالیٰ کے اسرار کا مشاہد کرتے ہیں۔ (عمدۃ القاری ج ١٥ ص ٤٢٣‘ دارالکتب العمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 161