وَجَعَلُوۡا بَيۡنَهٗ وَبَيۡنَ الۡجِنَّةِ نَسَبًا ؕ وَلَقَدۡ عَلِمَتِ الۡجِنَّةُ اِنَّهُمۡ لَمُحۡضَرُوۡنَۙ ۞- سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 158
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَجَعَلُوۡا بَيۡنَهٗ وَبَيۡنَ الۡجِنَّةِ نَسَبًا ؕ وَلَقَدۡ عَلِمَتِ الۡجِنَّةُ اِنَّهُمۡ لَمُحۡضَرُوۡنَۙ ۞
ترجمہ:
اور ان لوگوں نے اللہ اور جناب کے درمیان نسبی قرابت قرار دی حالانکہ جنات کو علم ہے کہ وہ ضرور (عذاب پر) پیش کیے جائیں گے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ان لوگوں نے اللہ اور جنات کے درمیان نسبی قرابت قرار دی ‘ حالانکہ جنات کو علم ہے کہ وہ ضرور (عذاب پر) پیش کیے جائیں گے۔ اللہ ( ان تمام عیوب سے) پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں۔ ماسوا اللہ کے مخلص بندوں کے (ان کو عذاب نہیں ہوگا) ۔ (الصفت : ١٦٠۔ ١٥٨ )
اللہ اور جنات کے درمیان نسبی قرابت کے مدعیان کے محامل
کفار نے کہا تھا کہ اللہ اور جنات کے درمیان نسبی قرابت ہے ‘ وہ نسبی قرابت کیا ہے اس میں حسب ذیل اقوال ہیں :
(١) اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ مشرکین نے یہ کہا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور اس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کے درمیان نسبی رشتہ قائم کردیا ‘ اور فرشتے بھی جنات ہیں کیونکہ جن کا معنی ہے مستور اور مخفی ہونا اور اللہ اور فرشتوں کے درمیان نسبی رشتہ کہنا دراصل اللہ اور جنات کے درمیان نسبی رشتہ کہنا ہے (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٢٧٦٦) لیکن اس پر یہ اشکال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس قول کا پہلے پول پر عطف کیا ہے اور عطف تغائر کو چاہتا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ بعض مشرکین یہ کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں اور بعض مشرکین اللہ تعالیٰ اور جنات کے درمیان نسبی قرابت کی تہمت لگاتے تھے۔
(٢) مجاہد نے اس آیت کی تفسیر میں یہ کہا کہ کفار قریش نے کہا کہ کفار قریش نے یہ کہا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ان سے کہا پھر فرشتوں کی مائیں کون ہیں ؟ تو انہوں نے کہا بڑی بڑی جنات یعنی سردارنیاں ان کی مائیں ہیں ‘ گویا ان مونث جنات کو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بیویاں قرار دیا (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٨٣٠٣) لیکن اس پر بھی یہ اشکال ہے کہ بیویوں کو نسب نہیں کہا جاتا۔
(٣) قتادہ نے کہا کہ یہود یہ کہتے تھے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جنات سے نکاح کیا اور ان جنات سے فرشتے پیدا ہوئے (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٢٧٦٥) اس پر بھی یہی اعتراض ہے کہ بیویوں کو نسب نہیں کہا جاتا۔
(٤) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اللہ کے دشمن یہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اور ابلیس دونوں نسباً بھائی ہیں ‘ اللہ تعالیٰ خیر کریم ہے وہ صرف خیر کے کام کرتا ہے اور ابلیس شر خسیس ہے وہ صرف برے کام کرتا ہے جیسے مجوسی یزداں اور اہرمن کہتے ہیں (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٢٧٦٣‘ تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٨٣٠٢) اور اس قول پر کوئی اشکال نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ اور جنات کے درمیان نسب کے قول کا یہی صحیح محمل ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا حالانکہ جنات کو علم ہے کہ وہ ضرور (عذاب پر) پیش کیے جائیں گے ‘ اس میں کفار کے قول رد ہے کیونکہ اگر جنات اللہ تعالیٰ کے قرابت دار اور اس کے نسبی رشتہ دار ہوتے تو ان کو عذاب پر کیوں پیش کیا جاتا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 158