کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 17 رکوع 5 سورہ الانبیاء آیت نمبر 51 تا 75
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا بِهٖ عٰلِمِیْنَۚ(۵۱)
اور بےشک ہم نے ابراہیم کو (ف۱۰۱)پہلے ہی سے اس کی نیک راہ عطا کردی اور ہم اُس سے خبردار تھے (ف۱۰۲)
(ف101)
ان کی ابتدائی عمر میں بالغ ہونے کے ۔
(ف102)
کہ وہ ہدایت و نبوّت کے اہل ہیں ۔
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ مَا هٰذِهِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْۤ اَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ(۵۲)
جب اس نے اپنے باپ اور قوم سے کہا یہ مورتیں کیا ہیں (ف۱۰۳) جن کے آگے تم آسن مارے(جم کر بیٹھے) ہو (ف۱۰۴)
(ف103)
یعنی بُت جو درندوں پرندوں اور انسانوں کی صورتوں کے بنے ہوئے ہیں ۔
(ف104)
اور ان کی عبادت میں مشغول ہو ۔
قَالُوْا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا لَهَا عٰبِدِیْنَ(۵۳)
بولے ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی پوجا کرتے پایا (ف۱۰۵)
(ف105)
تو ہم بھی ان کی اقتداء میں ویسا ہی کرنے لگے ۔
قَالَ لَقَدْ كُنْتُمْ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۵۴)
کہا بے شک تم اور تمہارے باپ دادا سب کھلی گمراہی میں ہو
قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ اَمْ اَنْتَ مِنَ اللّٰعِبِیْنَ(۵۵)
بولے کیا تم ہمارے پاس حق لائے ہو یا یونہی کھیلتے ہو (ف۱۰۶)
(ف106)
چونکہ انہیں اپنے طریقہ کا گمراہی ہونا بہت ہی بعید معلوم ہوتا تھا اور اس کا انکار کرنا وہ بہت بڑی بات جانتے تھے اس لئے انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ کہا کہ کیا آپ یہ بات واقعی طور پر ہمیں بتا رہے ہیں یا بطریق کھیل کے فرماتے ہیں ، اس کے جواب میں آپ نے حضرت مَلِکِ عَلّام کی ربوبیت کا اثبات فرما کر ظاہر فرما دیا کہ آپ کھیل کے طریقے پرکلام فرمانے والے نہیں ہیں بلکہ حق کا اظہار فرماتے ہیں چنانچہ آپ نے ۔
قَالَ بَلْ رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الَّذِیْ فَطَرَهُنَّ ﳲ وَ اَنَا عَلٰى ذٰلِكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ(۵۶)
کہا بلکہ تمہارا رب وہ ہے جو رب ہے آسمانوں اور زمین کا جس نے اُنہیں پیدا کیا اور میں اس پر گواہوں میں سے ہوں
وَ تَاللّٰهِ لَاَكِیْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ(۵۷)
اور مجھے اللہ کی قسم ہے میں تمہارے بتوں کا بُرا چاہوں گا بعد اس کے کہ تم پھر جاؤ پیٹھ دے کر (ف۱۰۷)
(ف107)
اپنے میلے کو ۔ واقعہ یہ ہے کہ اس قوم کا سالانہ ایک میلہ لگتا تھا جنگل میں جاتے تھے اور شام تک وہاں لہو و لعب میں مشغول رہتے تھے ، واپسی کے وقت بُت خانہ میں آتے تھے اور بُتوں کی پُوجا کرتے تھے اس کے بعد اپنے مکانوں کو واپس جاتے تھے ، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی ایک جماعت سے بُتوں کے متعلق مناظرہ کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ کل کو ہماری عید ہے آپ وہاں چلیں دیکھیں کہ ہمارے دین اور طریقے میں کیا بہار ہے اور کیسے لطف آتے ہیں ، جب وہ میلے کا دن آیا اور آپ سے میلے میں چلنے کو کہا گیا تو آپ عذر کر کے رہ گئے ، وہ لوگ روانہ ہو گئے جب ان کے باقی ماندہ اور کمزور لوگ جو آہستہ آہستہ جا رہے تھے گزرے تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہارے بُتوں کا بُرا چاہوں گا ، اس کو بعض لوگوں نے سُنا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام بُت خانہ کی طرف لوٹے ۔
فَجَعَلَهُمْ جُذٰذًا اِلَّا كَبِیْرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ اِلَیْهِ یَرْجِعُوْنَ(۵۸)
تو ان سب کو(ف۱۰۸)چورا کردیا مگر ایک کو جو ان سب کابڑا تھا(ف۱۰۹) کہ شاید وہ اس سے کچھ پوچھیں(ف۱۱۰)
(ف108)
یعنی بُتوں کو توڑ کر ۔
(ف109)
چھوڑ دیا اور بَسُولا اس کے کاندھے پر رکھ دیا ۔
(ف110)
یعنی بڑے بُت سے کہ ان چھوٹے بُتوں کا کیا حال ہے یہ کیوں ٹوٹے اور بَسُولا تیری گردن پر کیسا رکھا ہے اور انہیں اس کا عجز ظاہر ہو اور انہیں ہوش آئے کہ ایسے عاجز خدا نہیں ہو سکتے یا یہ معنٰی ہیں کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے دریافت کریں اورآپ کو حُجّت قائم کرنے کا موقع ملے چنانچہ جب قوم کے لو گ شام کو واپس ہوئے اور بُت خانے میں پہنچے اور انہوں نے دیکھا کہ بُت ٹوٹے پڑے ہیں تو ۔
قَالُوْا مَنْ فَعَلَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَاۤ اِنَّهٗ لَمِنَ الظّٰلِمِیْنَ(۵۹)
بولے کس نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام کیا بےشک وہ ظالم ہے
قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًى یَّذْكُرُهُمْ یُقَالُ لَهٗۤ اِبْرٰهِیْمُؕ(۶۰)
ان میں کے کچھ بولے ہم نے ایک جوان کو انہیں برا کہتے سنا جسے ابراہیم کہتے ہیں (ف۱۱۱)
(ف111)
یہ خبر نمرودِ جبّار اور اس کے اُمراء کو پہنچی تو ۔
قَالُوْا فَاْتُوْا بِهٖ عَلٰۤى اَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَشْهَدُوْنَ(۶۱)
بولے تو اسے لوگوں کے سامنے لاؤ شاید وہ گواہی دیں (ف۱۱۲)
(ف112)
کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کا فعل ہے یا ان سے بُتوں کی نسبت ایسا کلام سُنا گیا ہے ۔ مدعا یہ تھا کہ شہادت قائم ہو تو وہ آپ کے درپے ہوں چنانچہ حضرت بلائے گئے اور وہ لوگ ۔
قَالُوْۤا ءَاَنْتَ فَعَلْتَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَا یٰۤاِبْرٰهِیْمُؕ(۶۲)
بولے کیا تم نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام کیا اے ابراہیم (ف۱۱۳)
(ف113)
آپ نے اس کا تو کچھ جواب نہ دیا اور شانِ مناظرانہ سے تعریض کے طور پر ایک عجیب و غریب حُجّت قائم کی ۔
قَالَ بَلْ فَعَلَهٗ ﳓ كَبِیْرُهُمْ هٰذَا فَسْــٴَـلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ(۶۳)
فرمایا بلکہ ان کے اس بڑے نے کیا ہوگا (ف۱۱۴) تو ان سے پوچھو اگر بولتے ہوں (ف۱۱۵)
(ف114)
اس غصّہ سے کہ اس کے ہوتے تم اس کے چھوٹوں کو پوجتے ہو ، اس کے کندھے پر بَسُولا ہونے سے ایسا ہی قیاس کیا جا سکتا ہے ، مجھ سے کیا پوچھنا پوچھنا ہو ۔
(ف115)
وہ خود بتائیں کہ ان کے ساتھ یہ کس نے کیا ، مدعا یہ تھا کہ قوم غور کرے کہ جو بول نہیں سکتا جو کچھ کر نہیں سکتا وہ خدا نہیں ہو سکتا ، اس کی خدائی کا اعتقاد باطل ہے چنانچہ جب آپ نے یہ فرمایا ۔
فَرَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَنْفُسِهِمْ فَقَالُوْۤا اِنَّكُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَۙ(۶۴)
تو اپنے جی کی طرف پلٹے (ف۱۱۶)اور بولے بےشک تمہیں ستم گار ہو (ف۱۱۷)
(ف116)
اور سمجھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حق پر ہیں ۔
(ف117)
جو ایسے مجبوروں اور بے اختیاروں کو پوجتے ہو جو اپنے کاندھے سے بَسُولا نہ ہٹا سکے ، وہ اپنے پجاری کو مصیبت سے کیا بچا سکے اور اس کے کیا کام آ سکے ۔
ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰى رُءُوْسِهِمْۚ-لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰۤؤُلَآءِ یَنْطِقُوْنَ(۶۵)
پھر اپنے سروں کے بل اوندھائے گئے (ف۱۱۸) کہ تمہیں خوب معلوم ہے یہ بولتے نہیں(ف۱۱۹)
(ف118)
اور کلمۂ حق کہنے کے بعد پھر ان کی بدبختی ان کے سروں پر سوار ہوئی اور وہ کُفر کی طرف پلٹے اور باطل مجادلہ و مکابرہ شروع کیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہنے لگے ۔
(ف119)
تو ہم ان سے کیسے پوچھیں اور اے ابراہیم تم ہمیں ان سے پوچھنے کا کیسے حکم دیتے ہو ۔
قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُكُمْ شَیْــٴًـا وَّ لَا یَضُرُّكُمْؕ(۶۶)
کہا تو کیا اللہ کے سوا ایسے کو پوجتے ہو جو نہ تمہیں نفع دے (ف۱۲۰) اور نہ نقصان پہنچائے (ف۱۲۱)
(ف120)
اگر اسے پُوجو ۔
(ف121)
اگر اس کا پُوجنا موقوف کر دو ۔
اُفٍّ لَّكُمْ وَ لِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(۶۷)
تُف ہے تم پر اور اُن بتوں پر جن کو اللہ کے سوا پوجتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں (ف۱۲۲)
(ف122)
کہ اتنا بھی سمجھ سکو کہ یہ بُت پوجنے کے قابل نہیں ، جب حُجّت تمام ہو گئی اور وہ لوگ جواب سے عاجز آئے تو ۔
قَالُوْا حَرِّقُوْهُ وَ انْصُرُوْۤا اٰلِهَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ(۶۸)
بولے ان کو جلادو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تمہیں کرنا ہے (ف۱۲۳)
(ف123)
نمرود اور اس کی قوم حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلا ڈالنے پر متفق ہو گئی اور انہوں نے آپ کو ایک مکان میں قید کر دیا اور قریۂ کوثٰی میں ایک عمارت بنائی اور ایک مہینہ تک بکوششِ تمام قِسم قِسم کی لکڑیاں جمع کیں اور ایک عظیم آ گ جلائی جس کی تپش سے ہوا میں پرواز کرنے والے پرندے جل جاتے تھے اور ایک منجنیق (گوپھن) کھڑی کی اور آپ کو باندھ کر اس میں رکھ کر آ گ میں پھینکا ، اس وقت آپ کی زبانِ مبارک پر تھا حَسْبِیَ اﷲُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ ، جبریلِ امین نے آپ سے عرض کیا کہ کیا کچھ کام ہے ؟ آپ نے فرمایا تم سے نہیں ، جبرئیل نے عرض کیا تو اپنے ربّ سے سوال کیجئے ! فرمایا سوال کرنے سے اس کا میرے حال کو جاننا میرے لئے کفایت کرتا ہے ۔
قُلْنَا یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَۙ(۶۹)
ہم نے فرمایا اے آ گ ہو جا ٹھنڈی اور سلامتی ابراہیم پر (ف۱۲۴)
(ف124)
تو آ گ نے سوا آپ کی بندش کے اور کچھ نہ جَلایا اور آ گ کی گرمی زائل ہو گئی اور روشنی باقی رہی ۔
وَ اَرَادُوْا بِهٖ كَیْدًا فَجَعَلْنٰهُمُ الْاَخْسَرِیْنَۚ(۷۰)
اور انہوں نے اس کا بُرا چاہا تو ہم نے انہیں سب سے بڑھ کر زیاں کار کردیا (ف۱۲۵)
(ف125)
کہ ان کی مراد پوری نہ ہوئی اور سعی ناکام رہی اور اللہ تعالٰی نے اس قوم پر مچھّر بھیجے جو ان کے گوشت کھا گئے اور خون پی گئے اور ایک مچھر نمرود کے دماغ میں گھس گیا اور اس کی ہلاکت کا سبب ہوا ۔
وَ نَجَّیْنٰهُ وَ لُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا لِلْعٰلَمِیْنَ(۷۱)
اور ہم نے اُسے اور لوط کو (ف۱۲۶) نجات بخشی (ف۱۲۷) اس زمین کی طرف (ف۱۲۸) جس میں ہم نے جہاں والوں کے لیے برکت رکھی(ف۱۲۹)
(ف126)
جو ان کے بھیتجے ان کے بھائی ہاران کے فرزند تھے ، نمرود اور اس کی قوم سے ۔
(ف127)
اور عراق سے ۔
(ف128)
روانہ کیا ۔
(ف129)
اس زمین سے زمینِ شام مراد ہے ، اس کی برکت یہ ہے کہ یہاں کثرت سے انبیاء ہوئے اور تمام جہان میں ان کے دینی برکات پہنچے اور سرسبزی و شادابی کے اعتبار سے بھی یہ خطہ دوسرے خطوں پر فائق ہے ، یہاں کثرت سے نہریں ہیں ، پانی پاکیزہ اور خوش گوار ہے ، اشجار و ثمار کی کثرت ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مقامِ فلسطین میں نُزول فرمایا اور حضرت لُوط علیہ السلام نے مؤتفکہ میں ۔
وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَؕ-وَ یَعْقُوْبَ نَافِلَةًؕ-وَ كُلًّا جَعَلْنَا صٰلِحِیْنَ(۷۲)
اور ہم نے اسے اسحٰق عطا فرمایا(ف۱۳۰)اور یعقوب پوتااور ہم نے ان سب کو اپنے قرب خاص کا سزاوار(اہل) کیا
(ف130)
اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالٰی سے بیٹے کی دعا کی تھی ۔
وَ جَعَلْنٰهُمْ اَىٕمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ وَ اِقَامَ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءَ الزَّكٰوةِۚ-وَ كَانُوْا لَنَا عٰبِدِیْنَۚۙ(۷۳)
اور ہم نے انہیں امام کیا کہ (ف۱۳۱) ہمارے حکم سے بلاتے ہیں اور ہم نے انہیں وحی بھیجی اچھے کام کرنے اور نماز برپا(قائم) رکھنے اور زکوٰۃ دینے کی اور وہ ہماری بندگی کرتے تھے
(ف131)
لوگوں کو ہمارے دین کی طرف ۔
وَ لُوْطًا اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا وَّ نَجَّیْنٰهُ مِنَ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ تَّعْمَلُ الْخَبٰٓىٕثَؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمَ سَوْءٍ فٰسِقِیْنَۙ(۷۴)
اور لوط کو ہم نے حکومت اور علم دیا اور اسے اس بستی سے نجات بخشی جو گندے کام کرتی تھی (ف۱۳۲) بےشک وہ برے لوگ بے حکم (نافرمان)تھے
(ف132)
اس بستی کا نام سدوم تھا ۔
وَ اَدْخَلْنٰهُ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهٗ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ۠(۷۵)
اور ہم نے اسے (ف۱۳۳) اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہے
(ف133)
یعنی حضرت لوط علیہ السلام کو ۔