وَ نُوْحًا اِذْ نَادٰى مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَنَجَّیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِیْمِۚ(۷۶)

اور نوح کو جب اس سے پہلے اس نے ہمیں پکارا تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اُسے اور اس کے گھر والوں کو بڑی سختی سے نجات دی(ف۱۳۴)

(ف134)

یعنی طوفان سے اور تکذیبِ اہلِ طُغیان سے ۔

وَ نَصَرْنٰهُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمَ سَوْءٍ فَاَغْرَقْنٰهُمْ اَجْمَعِیْنَ(۷۷)

اور ہم نے ان لوگوں پر اس کو مدد دی جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں بےشک وہ برے لوگ تھے تو ہم نے ان سب کو ڈبو دیا

وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْكُمٰنِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْهِ غَنَمُ الْقَوْمِۚ-وَ كُنَّا لِحُكْمِهِمْ شٰهِدِیْنَۗۙ(۷۸)

اور داود اور سلیمان کو یاد کرو جب کھیتی کا ایک جھگڑا چکاتے(فیصلہ کرتے) تھے جب رات کو اس میں کچھ لوگوں کی بکریاں چھوٹیں (ف۱۳۵) اور ہم اُن کے حکم کے وقت حاضر تھے

(ف135)

ان کے ساتھ کوئی چَرانے والا نہ تھا ، وہ کھیتی کھا گئیں ، یہ مقدمہ حضرت داؤد علیہ السلام کے سامنے پیش ہوا آپ نے تجویز کی کہ بکریاں کھیتی والے کو دے دی جائیں ، بکریوں کی قیمت کھیتی کے نقصان کے برابر تھی ۔

فَفَهَّمْنٰهَا سُلَیْمٰنَۚ-وَ كُلًّا اٰتَیْنَا حُكْمًا وَّ عِلْمًا٘-وَّ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَ الطَّیْرَؕ-وَ كُنَّا فٰعِلِیْنَ(۷۹)

ہم نے وہ معاملہ سلیمان کو سمجھادیا (ف۱۳۶) اور دونوں کو حکومت اور علم عطا کیا (ف۱۳۷) اور داود کے ساتھ پہاڑ مسخر فرمادئیے کہ تسبیح کرتے اور پرندے (ف۱۳۸) اور یہ ہمارے کام تھے

(ف136)

حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے جب یہ معاملہ پیش ہوا تو آپ نے فرمایا کہ فریقین کے لئے اس سے زیادہ آسانی کی شکل بھی ہو سکتی ہے ، اس وقت حضرت کی عمر شریف گیارہ سال کی تھی ، حضرت داؤد علیہ السلام نے آپ پر لازم کیا کہ وہ صورت بیا ن فرمائیں ، حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ تجویز پیش کی کہ بکری والا کاشت کرے اور جب تک کھیتی اس حالت کو پہنچے جس حالت میں بکریوں نے کھائی ہے اس وقت تک کھیتی والا بکریوں کے دودھ وغیرہ سے نفع اٹھائے اور کھیتی اس حالت پر پہنچ جانے کے بعد کھیتی والے کو کھیتی دے دی جائے ، بکری والے کو اس کی بکریاں واپس کر دی جاویں ۔ یہ تجویز حضرت داؤد علیہ السلام نے پسند فرمائی ، اس معاملہ میں یہ دونوں حکم اجتہادی تھے اور اس شریعت کے مطابق تھے ، ہماری شریعت میں حکم یہ ہے کہ اگر چَرانے والا ساتھ نہ ہو تو جانور جو نقصانات کرے اس کا ضمان لازم نہیں ۔ مجاہد کا قول ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے جو فیصلہ کیا تھا وہ اس مسئلہ کا حکم تھا اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو تجویز فرمائی یہ صورتِ صلح تھی ۔

(ف137)

وجوہِ اجتہاد و طریقِ احکام وغیرہ کا

مسئلہ : جن عُلَماء کو اجتہاد کی اہلیت حاصل ہو انہیں ان امور میں اجتہاد کا حق ہے جس میں وہ کتاب و سنّت کا حکم نہ پاویں اور اگر اجتہاد میں خطا بھی ہو جاوے تو بھی ان پر مواخذہ نہیں ۔ بخاری و مسلم کی حدیث ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب حکم کرنے والا اجتہاد کے ساتھ حکم کرے اور اس حکم میں مُصِیب ہو تو اس کے لئے دو ۲ اجر ہیں اور اگر اجتہاد میں خطا واقع ہو جائے تو ایک اجر ۔

(ف138)

پتّھر اور پرندے آپ کے ساتھ آپ کی موافقت میں تسبیح کرتے تھے ۔

وَ عَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ بَاْسِكُمْۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ شٰكِرُوْنَ(۸۰)

اور ہم نے اُسے تمہارا ایک پہناوا بنانا سکھایا کہ تمہیں تمہاری آنچ سے(زخمی ہونے سے) بچائے (ف۱۳۹) تو کیا تم شکر کروگے

(ف139)

یعنی جنگ میں دشمن کے مقابل کام آئے اور وہ زرہ ہے ، سب سے پہلے زرہ بنانے والے حضرت داؤد علیہ السلام ہیں ۔

وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَاصِفَةً تَجْرِیْ بِاَمْرِهٖۤ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَاؕ-وَ كُنَّا بِكُلِّ شَیْءٍ عٰلِمِیْنَ(۸۱)

اور سلیمان کے لیے تیز ہوا مسخر کردی کہ اس کے حکم سے چلتی اس زمین کی طرف جس میں ہم نے برکت رکھی(ف۱۴۰) اور ہم کو ہر چیز معلوم ہے

(ف140)

اس زمین سے مراد شام ہے جو آپ کا مسکن تھا ۔

وَ مِنَ الشَّیٰطِیْنِ مَنْ یَّغُوْصُوْنَ لَهٗ وَ یَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ ذٰلِكَۚ-وَ كُنَّا لَهُمْ حٰفِظِیْنَۙ(۸۲)

اور شیطانوں میں سے جو اس کے لیے غوطہ لگاتے (ف۱۴۱) اور اس کے سوا اور کام کرتے (ف۱۴۲) اور ہم انہیں روکے ہوئے تھے (ف۱۴۳)

(ف141)

دریا کی گہرائی میں داخل ہو کر سمندر کی تہ سے آپ کے لئے جواہر نکال کر لاتے ۔

(ف142)

عجیب عجیب صنعتیں ، عمارتیں ، محل ، برتن ، شیشے کی چیزیں ، صابون وغیرہ بنانا ۔

(ف143)

کہ آپ کے حکم سے باہر نہ ہوں ۔

وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ(۸۳)

اور ایوب کو (یاد کرو) جب اُس نے اپنے رب کو پکارا (ف۱۴۴) کہ مجھے تکلیف پہنچی اور تو سب مِہر والوں سے بڑھ کر مِہر والا ہے

(ف144)

یعنی اپنے ربّ سے دعا کی ۔ حضرت ایوب علیہ السلام حضرت اسحٰق علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ، اللہ تعالٰی نے آپ کو ہر طرح کی نعمتیں عطا فرمائی ہیں حسنِ صورت بھی ، کثرتِ اولاد بھی ، کثرتِ اموال بھی اللہ تعالٰی نے آپ کو اِبتلا میں ڈالا اور آ پ کے فرزند و اولاد مکان کے گرنے سے دب کر مر گئے ، تمام جانور جس میں ہزارہا اونٹ ، ہزارہا بکریاں تھیں سب مر گئے ، تمام کھیتیاں اور باغات برباد ہو گئے ، کچھ بھی باقی نہ رہا اور جب آپ کو ان چیزوں سے ہلاک ہونے اور ضائع ہونے کی خبر دی جاتی تھی تو آپ حمدِ الٰہی بجا لاتے تھے اور فرماتے تھے میرا کیا ہے جس کا تھا اس نے لیا جب تک مجھے دیا اور میرے پاس رکھا اس کا شکر ہی ادا نہیں ہو سکتا ، میں اس کی مرضی پر راضی ہوں پھر آپ بیمار ہوئے ، تمام جسم شریف میں آبلے پڑے ، بدن مبارک سب کا سب زخموں سے بھر گیا ، سب لوگوں نے چھوڑ دیا بَجُز آپ کی بی بی صاحبہ کے کہ وہ آپ کی خدمت کرتی رہیں اور یہ حالت سالہا سال رہی ، آخر کار کوئی ایسا سبب پیش آیا کہ آپ نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی ۔

فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِیْنَ(۸۴)

تو ہم نے اس کی دعا سُن لی تو ہم نے دور کردی جو تکلیف اُسے تھی (ف۱۴۵) اور ہم نے اُسے اس کے گھر والے اور اُن کے ساتھ اتنے ہی اور عطا کیے (ف۱۴۶)اپنے پاس سے رحمت فرما کر اور بندگی والوں کے لیے نصیحت (ف۱۴۷)

(ف145)

اس طرح کہ حضرت ایوب علیہ السلام سے فرمایا کہ آپ زمین میں پاؤں ماریئے انہوں نے پاؤں مارا ایک چشمہ ظاہر ہوا ، حکم دیا گیا اس سے غسل کیجئے غسل کیا تو ظاہر بدن کی تمام بیماریاں دور ہو گئیں پھر آپ چالیس قدم چلے پھر دوبارہ زمین میں پاؤں مارنے کا حکم ہوا پھر آپ نے پاؤ ں مارا اس سے بھی ایک چشمہ ظاہر ہوا جس کا پانی نہایت سرد تھا ، آپ نے بحکمِ الٰہی پیا اس سے باطن کی تمام بیماریاں دور ہو گئیں اور آپ کو اعلٰی درجہ کی صحت حاصل ہوئی ۔

(ف146)

حضرت ابنِ مسعود و ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم اور اکثر مفسِّرین نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے آپ کی تمام اولاد کو زندہ فرما دیا اور آپ کو اتنی ہی اولاد اور عنایت کی ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کی دوسری روایت میں ہے کہ اللہ تعالٰی نے آپ کی بی بی صاحبہ کو دوبارہ جوانی عنایت کی اور ان کے کثیر اولادیں ہوئیں ۔

(ف147)

کہ وہ اس واقعہ سے بلاؤں پر صبر کرنے اور اس کے ثوابِ عظیم سے باخبر ہوں اور صبر کریں اور ثواب پائیں ۔

وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)

اور اسمعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے (ف۱۴۸)

(ف148)

کہ انہوں نے محنتوں اور بلاؤں اور عبادتوں کی مشقتوں پر صبر کیا ۔

وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۸۶)

اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں

وَ ذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْهِ فَنَادٰى فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚۖ(۸۷)

اور ذوالنون کو (یاد کرو)(ف۱۴۹)جب چلا غصہ میں بھرا(ف۱۵۰) تو گمان کیا کہ ہم اس پر تنگی نہ کریں گے (ف۱۵۱) تو اندھیریوں میں پکارا (ف۱۵۲) کوئی معبود نہیں سوا تیرے پاکی ہے تجھ کو بےشک مجھ سے بے جا ہوا(ف۱۵۳)

(ف149)

یعنی حضرت یونس ابنِ متّٰی کو ۔

(ف150)

اپنی قوم سے جس نے ان کی دعوت نہ قبول کی تھی اور نصیحت نہ مانی تھی اور کُفر پر قائم رہی تھی ، آپ نے گمان کیا کہ یہ ہجرت آپ کے لئے جائز ہے کیونکہ اس کا سبب صرف کُفر اور اہلِ کُفر کے ساتھ بغض اور اللہ کے لئے غضب کرنا ہے لیکن آپ نے اس ہجرت میں حکمِ الٰہی کا انتظار نہ کیا ۔

(ف151)

تو اللہ تعالٰی نے انہیں مچھلی کے پیٹ میں ڈالا ۔

(ف152)

کئی قِسم کی اندھیریاں تھیں دریا کی اندھیری ، رات کی اندھیری ، مچھلی کے پیٹ کی اندھیری ، ان اندھیریوں میں حضرت یونس علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے اس طرح دعا کی کہ ۔

(ف153)

کہ میں اپنی قوم سے ، قبل تیرا اِذن پانے کے جُدا ہوا ۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو کوئی مصیبت زدہ بارگاہِ الٰہی میں ان کلمات سے دعا کرے تو اللہ تعالٰی اس کی دعا قبول فرماتا ہے ۔

فَاسْتَجَبْنَا لَهٗۙ-وَ نَجَّیْنٰهُ مِنَ الْغَمِّؕ-وَ كَذٰلِكَ نُـْۨجِی الْمُؤْمِنِیْنَ(۸۸)

تو ہم نے اس کی پکار سُن لی اور اُسے غم سے نجات بخشی (ف۱۵۴) اور ایسی ہی نجات دیں گے مسلمانوں کو (ف۱۵۵)

(ف154)

اور مچھلی کو حکم دیا تو اس نے حضرت یونس علیہ السلام کو دریا کے کنارے پر پہنچا دیا ۔

(ف155)

مصیبتوں اور تکلیفوں سے جب وہ ہم سے فریاد کریں اور دعا کریں ۔

وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَۚۖ(۸۹)

اور زکریا کو جب اس نے اپنے رب کو پکارا اے میرے رب مجھے اکیلا نہ چھوڑ (ف۱۵۶) اور تو سب سے بہتر وارث (ف۱۵۷)

(ف156)

یعنی بے اولاد بلکہ وارث عطا فرما ۔

(ف157)

خَلق کی فنا کے بعد باقی رہنے والا ۔ مدعا یہ ہے کہ اگر تو مجھے وارث نہ دے تو بھی کچھ غم نہیں کیونکہ تو بہتر وارث ہے ۔

فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ٘-وَ وَهَبْنَا لَهٗ یَحْیٰى وَ اَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰)

تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اُسے (ف۱۵۸)یحیی عطا فرمایا اور اس کے لیے اس کی بی بی سنواری (ف۱۵۹) بےشک وہ (ف۱۶۰) بھلے کاموں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں پکارتے تھے امید اور خوف سے اور ہمارے حضور گڑگڑاتے ہیں

(ف158)

فرزندِ سعید ۔

(ف159)

جو بانجھ تھی اس کو قابلِ ولادت کیا ۔

(ف160)

یعنی انبیاءِ مذکورین ۔

وَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَ جَعَلْنٰهَا وَ ابْنَهَاۤ اٰیَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۹۱)

اور اس عورت کو جس نے اپنی پارسائی(پر) نگاہ رکھی (ف۱۶۱) تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونکی (ف۱۶۲) اور اُسے اور اس کے بیٹے کو سارے جہاں کے لیے نشانی بنایا (ف۱۶۳)

(ف161)

پورے طور پر کہ کسی طرح کوئی بشر اس کی پارسائی کو چھو نہ سکا ، مراد اس سے حضرت مریم ہیں ۔

(ف162)

اور اس کے پیٹ میں حضرت عیسٰی کوپیدا کیا ۔

(ف163)

اپنے کمالِ قدرت کی کہ حضرت عیسٰی کو اس کے بطن سے بغیر باپ کے پیدا کیا ۔

اِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً ﳲ وَّ اَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ(۹۲)

بےشک تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے (ف۱۶۴) اور میں تمہارا رب ہوں(ف۱۶۵) تو میری عبادت کرو

(ف164)

دینِ اسلام ، یہی تمام انبیاء کا دین ہے اس کے سوا جتنے ادیان ہیں سب باطل ، سب کو اسی دین پر قائم رہنا لازم ہے ۔

(ف165)

نہ میرے سوا کوئی دوسرا ربّ ، نہ میرے دین کے سوا اور کوئی دین ۔

وَ تَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْؕ-كُلٌّ اِلَیْنَا رٰجِعُوْنَ۠(۹۳)

اور اوروں نے اپنے کام آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کرلیے (ف۱۶۶) سب کو ہماری طرف پھرنا ہے (ف۱۶۷)

(ف166)

یعنی دین میں اختلاف کیا اور فرقے فرقے ہو گئے ۔

(ف167)

ہم انہیں ان کے اعمال کی جزا دیں گے ۔