ءَاُنۡزِلَ عَلَيۡهِ الذِّكۡرُ مِنۡۢ بَيۡنِنَاؕ بَلۡ هُمۡ فِىۡ شَكٍّ مِّنۡ ذِكۡرِىۡۚ بَلْ لَّمَّا يَذُوۡقُوۡا عَذَابِؕ ۞- سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 8
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
ءَاُنۡزِلَ عَلَيۡهِ الذِّكۡرُ مِنۡۢ بَيۡنِنَاؕ بَلۡ هُمۡ فِىۡ شَكٍّ مِّنۡ ذِكۡرِىۡۚ بَلْ لَّمَّا يَذُوۡقُوۡا عَذَابِؕ ۞
ترجمہ:
کیا ہم میں سے صرف ان پر ہی نصیحت نازل کی گئی ہے، بلکہ یہ کفار میری نازل کی ہوئی وحی کے متعلق شک میں مبتلا ہیں، بلکہ ابھی تک انہوں نے میرا عذاب چکھا ہی نہیں ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(کافروں نے کہا :) کیا ہم میں سے صرف ان پر ہی نصیحت نازل کی گئی ہے، بلکہ یہ کفار میری نازل کی ہوئی وحی کے متعلق شک میں مبتلا ہیں بلکہ ابھی تک انہوں نے میرا عذاب چکھا ہی نہیں ہے یا ان کے پاس آپ کے غالب اور فیاض رب کی رحمت کے خزانے ہیں یا آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز ان کی ملکیت میں ہے تو ان کو چاہیے کہ رسیاں باندھ کر آسمان پر چڑھ جائیں (ص ٓ: ١٠۔ ٨)
کفار کے اس اعتراض کا جواب کہ محمد تو ذات اور صفات میں ہماری مثل ہیں پھر ان کو وحی رسالت کے لئے کیوں منتخب کیا گیا ؟
سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت کے اوپر یہ کفار کا تیسرا شبہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ محمد ذات اور صفات اور جسمانی بناوٹ میں دوسرے لوگوں کے برابر ہیں، اسی طرح آپ کی باطنی قوتیں بھی دوسروں کے برابر ہیں، پھر یہ کیسے معقول ہوسکتا ہے کہ آپ کو نبوت اور رسالت کا وہ درجہ عالیہ اور عظیم مرتبہ دیا جائے جو آپ جیسی ذات اور صفات رکھنے والے دوسرے لوگوں کو نہیں دیا گیا۔
قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) کے متعلق اسی طرح کا اعتراض کیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ :
فَقَالُوْآاَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعْہٗٓ لا اِنَّاَاِذًا لَّفِیْ ضَلٰلٍ وَّسُعْرٍ ئَاُلْقِیَ الذِّکْرُعَلَیْہِ مِنْ بَیْنِنَا بَلْ ھُوَ کَذَّابٌ اَشِرٌ (القمر : ٢٥۔ ٢٤ )
اور (کافروں نے) کہا : کیا ہم اپنوں میں سے ہی ایک شخص کی پیروی کریں، بیشک پھر تو ہم ضرور گمراہی اور دیوانگی میں ہوں گے کیا ہم سب میں سے صرف اسی شخص پر وحی نازل کی گئی ہے۔ (نہیں) بلکہ وہ بہت جھوٹا اور شیخی بگھارنے والا ہے اور کفار مکہ نے بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق اسی طرح کا اعتراض کیا تھا :
وَقَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجْلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَبیْنِ عَظِیْمٍ (الزخرف : ٣١) اور انہوں نے کہا : یہ قرآن ان دونوں بستیوں میں سے کسی عظیم آدمی پر کیوں نہیں نازل کیا گیا ؟
ان کے اس اعتراض کی مکمل تقریر اس طرح ہے کہ نبوت اور رسالت سب سے عظیم مرتبہ ہے، اس لئے یہ مرتبہ سب سے عظیم اور مشرک انسان کو ملنا چاہیے اور (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے عظیم اور مشرف انسان نہیں ہیں، کیونکہ ان کے پاس مال و دولت کی کثرت ہے نہ جاہ وحشم ہے، نہ ان کے ماتحت کوئی جتھا ہے، نہ یہ کسی قبیلہ کے سردار ہیں، اس لئے نبوت اور رسالت کا منصب ان کو نہیں ملنا چاہیے اور نہ یہ اس کے لائق ہیں۔ کفار کا یہ کہنا تو صحیح تھا کہ نبوت بلند تر اور بالا تر مرتبہ ہے اور یہ مرتبہ اس شخص کو ملنا چاہیے جو مرتبہ میں سب سے بلند اور بالا ہیں۔ کفار کا یہ کہنا تو صحیح تھا کہ نبوت بلند تر اور بالا تر مرتبہ ہے اور یہ مرتبہ اس شخص کو ملنا چاہیے جو مرتبہ میں سب سے بلند اور بالا ہو، لیکن کا یہ کہنا صحیح نہیں تھا کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے بلند اور بالا نہیں ہیں۔ کیونکہ سعادت، شرافت اور سیادت کی تین قسمیں ہیں، اعلیٰ درجہ کی سیادت، سعادت نفسانیہ ہے یعنی اس شخص کا نفس اور قلب سب سے پاکیزہ ہو اور نفس کی طہارت اور پاکیزگی اللہ پر ایمان اور تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے، آپ ایمان باللہ پر پیدا ہوئے اور کفار آپ کی چالیس سالہ گزاری ہوئی حیات میں دیکھ چکے تھے، آپ سب سے زیادہ عفت مآب، عبادات گزار، عھدہ اخلاق کے مالک اور تمام لوگوں میں صادق اور امین مشہور تھے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :
فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمْرًا مِّنْ قَبْلِہٖ ط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (یونس : ١٦) میں اس سے پہلے عمر کا ایک بہت بڑا حصہ تم میں گزار چکا ہوں، کیا پس تم عقل نہیں رکھتے سیادت اور سعادت کا دوسرا مرتبہ جسمانی اور بدنی ہے اور آپ قبائل عرب میں سب سے افضل قبیلہ قریش اور اس کی سب سے افضل شاخ بنو ہاشم میں پیدا ہوئے اور آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب تمام اہل مکہ میں بزرگ اور برتر مانے جاتے تھے اور آپ کا جسمانی حسن و جمال اور آپ کی وجاہت سب پر بائق تھی، سو نفسانی اور جسمانی شرف کے لحاظ سے آپ ہی سب سے افضل اور برتر تھے، اور رہا سیادت کا تیسرا مرتبہ وہ خارجی اور اضافی وجوہ سے ہے یعنی مال و دولت اور دنیاوی شان و شوکت کے اعتبار سے کسی کا زائد ہونا اور یہ اضافی فضیلت ہے، حقیقی فضیلت نہیں ہے، ایک وقت تھا کہ آپ کے پاس زیادہ مال و دولت نہیں تھا، پھر اسلامی فتوحات کی کثرت ہوئی اور بہ کثرت مال غنیمت اور مال فے آپ کے پاس آگیا، حتیٰ کہ آپ ازواج مطہرات کو ایک سال کا غلہ فراہم کردیا کرتے تھے۔ سو مشرکین مکہ کا آپ پر یہ اعتراض بالکل بےجا، غلط اور جھوٹا تھا کہ آپ عرب کے افضل اور برتر انسان نہیں ہیں تو آپ کو نبوت اور رسالت کے لئے چن لینا کس طرح صحیح ہوگا۔ مشرکین مکہ نے جو یہ کہا تھا کہ آپ شکل و صورت میں ہماری طرح ہیں اور انہوں نے آپ کو اپنے اوپر قیاس کیا تھا، تو ان کا یہ قیاس بالکل فاسد تھا، کہاں آپ اور کہاں وہ، آپ اوّل خلائق، اصل موجودات اور روح الارواح ہیں، ہر کمال کی آپ اصل ہیں بلکہ حسن اور کمال وہی ہے جس کو آپ کے ساتھ نسبت ہو اور جس چیز کی آپ کے ساتھ کوئی نسبت نہیں وہ کمال سے محروم ہے اور رہا یہ کہ آپ کی اور ان کی صورت ایک نوع اور ایک طرح کی ہے تو یہ نوع میں مماثلت حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہونے کی وجہ سے ہے، ورنہ آپ کے شخص کریم اور ان کے اشخاص میں کوئی مماثلت نہیں ہے، اگر کوئی کہے کہ ان کی بھی دو آنکھیں اور آپ کی بھی دو آنکھیں تھیں تو ہم کہیں گے کہ تمہیں ان آنکھوں سے کیا نظر آتا ہے ؟ آپ تو اپنی آنکھوں سے سامنے، پس پشت، دائیں، بائیں، اوپر، نیچے یکساں دیکھتے تھے۔ زمین پر کھڑے ہوتے تو زمین کے نیچے قبر والوں کو اور ان کے احوال کو دیکھتے تھے، آسمانوں کے پار جنت کو دیکھتے تھے، شاہد اور غائب کو دیکھتے تھے، جنات اور فرشتوں کو دیکھتے تھے حتیٰ کہ آپ نے اپنی کھلی آنکھوں سے بیداری میں اپنے رب عزوجل کو دیکھا اور اس طرح دیکھا کہ دکھائی دینے والے نے بھی داد دی اور کہا مازاغ البصروما طغی (النجم : ١٧) نہ (آپ کی) نگاہ بہکی نہ حد سے بڑھی۔
موسیٰ زہوش رفت بیک جلوہ صفات توعین ذات مے نگری دور تبسمی اسی طرح تمہارے بھی کان ہیں اور آپ کے بھی کان ہیں، لیکن تم دور کی بات نہیں سن سکتے، آپ دور و نزدیک کی باتیں یکساں سنتے تھے۔ تم بہ مشکل انسانوں کی باتیں سنتے ہو، آپ انسانوں کی، حیوانوں کی، شجروحجر کی، جنات کی، فرشتوں کی حتیٰ کہ رب کائنات کی باتیں سنتے تھے، تمہاری بھی زبان ہے مگر تم صرف انسانوں سے بات کرسکتے ہو، آپ انسانوں سے، حیوانوں سے، شجر وحجر سے، جنات سے، فرشتوں سے حتیٰ کہ خدائے لم یزل سے کلام فرماتے تھے۔ ہاتھ تمہارے بھی ہیں لیکن تمہارے ہاتھوں کی پہنچ کہاں تک ہے ؟ تم کہاں تک تصرف کرسکتے ہو ؟ آپ کے تصرفات کی زد میں پوری کائنات تھی، چاند کو دونیم کیا، سورج کو لوٹایا، درختوں کو بلایا، انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کردیئے، بتائو کس چیز میں ہمارے آقا سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری مثل ہیں، تم کیا چیز ہو ؟ تمہاری ہستی کیا ہے ؟ تم کس شمار وقطار میں ہو ؟ ان کی مثال تو نبیوں اور رسولوں میں بھی نہیں ہے، حضرت جبریل نے کہا : قلبت الارض مشارقھا ومغاربھا فلم اجد رجلا افضل من محمد میں نے زمین کے تمام مشارق اور مغارب کھنگال ڈالے اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے افضل کوئی شخص نہیں پایا۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث؍ ٦٢٨١، دلائل النبوۃ للبیہقی ج ١ ص ١٧٦، مجمع الزوائد ج ٨ ص ٢١٧، الخصائص الکبریٰ ج ١ ص ٦٦ )
جبریل سے کہنے لگے ایک روز یہ شاہ امم تم نے تو دیکھے ہیں جہاں بتلائو تو کیسے ہیں ہم
روح الامین کہنے لگے اے مہ جبیں تیری قسم آفاق ہ اگر دیدہ ام مہر بتاں ورزیدہ ام
بسیار خوباں دیدہ ام لیکن تو چیزے دیگری پس دریں صورت کفار کے اس قول کی کیا حیثیت ہے کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذات اور صفات میں ہماری ہی مثل ہیں تو پھر ان کو وحی رسالت کے لئے کیوں منتخب کیا گیا۔ اس آیت میں ہمارے زمانہ کے اکثر علماء کے حال کی طرف اشارہ ہے، جب وہ کسی عالم کے قول کے دلائل سے آنکھیں چرا لیتے ہیں یا اس کے کلام کی گہرائی تک نہیں پہنچ پاتے تو اس کے قول اور اس کے دلائل کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں : یہ کوئی ہم سے بڑا عالم تو نہیں ہے کہ اس پر یہ حقیقت منکشف ہوگئی ہے اور ہماری نظروں سے یہ بات اوجھل رہی، اس ناکارہ کے ساتھ اس کے معاصرین اور معترضین کا یہی معاملہ ہے۔ الحمدللہ رب العلمین وہ اس فقیر کی کسی دلیل کا آج تک جواب نہیں دے سکے، غیظ وغضب میں آکر غراتے تو بہت ہیں لیکن فقیر کے دلائل کی ہڈی ان کے گلے میں اسی طرح پھنسی ہوئی ہے کہ ان کی لاکھ کوشش کے باوجود نکلتی نہیں ہے۔ اچھلتے ہیں، تلملاتے ہیں، بلبلاتے ہیں، لیکن اپنے حلقوم سے اس ہڈی کو نکال نہیں پاتے۔
سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نزول وحی کے متعلق کفار کے شکوک و شبہات کا ازالہ
اس کے بعداللہ تعالیٰ نے فرمایا :” بلکہ یہ کفار میری نازل کی ہوئی وحی کے متعلق شک میں مبتلا ہیں بلکہ ابھی تک انہوں نے میرا عذاب چکھا ہی نہیں ہے “ (صٓ: ٨) اس آیت میں “ ذکری “ یعنی میرا ذکر فرمایا ہے اور اس سے مراد قرآن مجید ہے یا وہ وحی ہے جو اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے آبائو اجداد کی اندھی تقلید میں مبتلا ہیں اور ان دلائل سے صرف نظر کرتے ہیں جو ان کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے حق ہونے تک پہنچاتے ہیں اور خود ان کو اس پر اعتماد نہیں ہے کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیا کہیں، کبھی کہتے ہیں کہ یہ جھوٹے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ یہ جادوگر ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ یہ دیوانے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے برحق ہونے پر جو دلائل قائم کیے اگر یہ کشادہ آنکھوں اور کھلے ذہنوں کے ساتھ ان دلائل کو دیکھ لیتے تو آپ کی نبوت اور رسالت پر ایمان لے آتے اور آپ کی رسالت کے متعلق ان کے جتنے شبہات تھے وہ سب زائل ہوجاتے۔
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” بلکہ ابھی تک انہوں نے میرا عذاب چکھا ہی نہیں ہے۔ “ یعنی کفار مکہ اس خطرہ میں ہیں ہیں کہ ان پر میرا عذاب آجائے اور اگر انہوں نے وہ عذاب چکھ لیا تو پھر ان کو حقیقت حال معلوم ہوجائے گی اور اس میں یہ تہدید اور وعید ہے کہ عنقریب آخرت میں ان پر میرا عذاب آئے گا اور پھر وہ مجبور ہو کر مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لے آئیں گے لیکن اس وقت ان کا ایمان لانا ان کے لئے مفید نہیں ہوگا اور اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر وہ میرا عذاب چکھ لیتے اور اس کے درد کا ادراک کرلیتے تو میری وحی کے انکار کی جرأت نہ کرتے۔ علامہ العجلونی المتوفی ١١٦٢ ھ نے لکھا ہے کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا : تمام لوگ خواب میں ہیں، جب وہ مرجائیں گے تو بیدار ہوں گے۔ (کشف الخفاء ج ٢ ص ٣١٢، رقم الحدیث : ٢٧٩٥، مطبوعہ مکتبۃ الغزالی، دمشق)
اس آیت کی دوسری تقریر یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو جس قدر اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے تھے وہ اسی قدر اپنے کفر اور تکبر پر اصرار کرتے تھے، پھر اپنے کفر پر مسلسل اصرار کرتے رہے اور ان پر عذاب نہیں آیا اور یہ چیز آپ کی نبوت کی تصدیق کرنے میں ان کے زیادہ شک کا باعث بن گئی اور انہوں نے کہا :
واذ قالو اللھم ان کان ھذا ھو الحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السمآء اوائتنا بعذاب الیم (الانفال : ٣٢) اور ان کافروں نے کہا : اے اللہ ! اگر یہ قرآن تیری طرف سے برحق ہے تو، تو (ہمارے انکار کی وجہ سے) ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر کوئی اور درد ناک عذاب نازل کردے اور ان کے شبہ کو زائل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مزید یہ فرمایا :” یا ان کے پاس آپ کے غالب اور فیاض رب کی رحمت کے خزانے ہیں “ (ص ٓ : ٩) اس جواب کی تقریر یہ ہے کہ نبوت کا منصب بہت عظیم منصب ہے اور بہت بلند درجہ ہے اور اس منصب کو عطا کرنے پر وہی قادر ہوگا جو بہت غالب ہو اور بہت فیاض اور جواد ہو اور وہ جب کسی کو عطا فرماتا ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتا کہ جس کو وہعطا کررہا ہے وہ غنی ہے یا فقیر ہے اور نہ یہ دیکھتا ہے کہ اس کو عطا کرنا اس کے دشمنوں کو پسند ہوگا یا ناپسند ہوگا۔ اس جواب کی دوسری تقریر یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانے ان کافروں کے پاس ہیں ؟ وہ جس طرح چاہیں اس کے خزانوں میں تصرف کرتے ہیں، جس کو وہ چاہتے ہیں اس کو دیتے ہیں اور جس کو نہیں چاہتے اس کو نہیں دیتے اور اپنی رائے کے مطابق اس کے خزانوں میں حکم نافذ کرتے ہیں اور اپنے صنادید اور سرداروں کو نبوت عطا کرتے ہیں، اس آیت کا معنی یہ ہے کہ نبوت تو محض اللہ تعالیٰ کا عطیہ اور اس کا انعام ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے یہ انعام کرتا ہے، اس کو دینے اور نواز نے سے کوئی روکنے والا اور منع کرنے والا نہیں ہے۔ اس کے بعد فرمایا : ” یا آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز ان کی ملکیت میں ہے تو ان کو چاہیے کہ رسیاں باندھ کر آسمان پر چڑھ جائیں “ (ص ٓ : ١٠)
پہلی آیت میں مطلقاً خزانوں کا ذکر فرمایا تھا اور اس آیت میں بالخصوص زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا ذکر فرمایا ہے۔ مراد یہ ہے کہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کا کوئی خزانہ نہیں ہے، عام نہ خاص، تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہر خزانے کی تقسیم سے عاجز ہیں اور اس کے کسی خزانے پر ان کا کوئی اختیار نہیں ہے، پھر ان کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دینے اور اس کے عطا فرمانے پر اعتراض کریں، وہ مالک اور مختار ہے، وہ جس کو چاہے اپنی نبوت اور رسالت عطا فرمائے۔ اس کے بعد فرمایا : اگر بالفرض آسمان اور زمین کی چیزیں ان کی ملکیت ہیں تو ان کو چاہیے کہ وہ رسیاں باندھ کر آسمان پر چڑھ جائیں۔ یعنی وہ آسمان پر چڑھ کر پھر عرش پر پہنچ جائیں اور عرش پر پہنچ کر نظام عالم کی تدبیر کریں اور اللہ کی سلطنت میں تصرف کریں، پھر جس کو وہ چاہیں اس پر وحی نازل کریں۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 8
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]