أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِصۡبِرۡ عَلٰى مَا يَقُوۡلُوۡنَ وَاذۡكُرۡ عَبۡدَنَا دَاوٗدَ ذَا الۡاَيۡدِ‌ۚ اِنَّـهٗۤ اَوَّابٌ ۞

ترجمہ:

آپ ان کی باتوں پر صبر کیجئے اور ہمارے طاقت ور بندے دائود کو یاد کیجئے، بیشک وہ بہت رجوع کرنے والے تھے

تفسیر:

حضرت دائود (علیہ السلام) کا قصہ

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آپ ان کی باتوں پر صبر کیجئے اور ہمارے طاقت ور بندے دائود کو یاد کیجئے، بیشک وہ بہت رجوع کرنے والے تھے ہم نے پہاڑوں کو ان کے تابع کردیا تھا کہ وہ شام کو اور دن چڑھے ان کے ساتھ تسبیح پڑھیں اور جمع شدہ پرندے بھی سب ان کی طرف رجوع کرنے والے تھے اور ہم نے ان کی سطنت کو مضبوط کردیا اور ہم نے ان کو حکمت اور فضل خطاب عطا فرمایا (ص ٓ: ٢٠۔ ١٧)

حضرت دائود (علیہ السلام) کی فضیلت کی دس وجوہ

کفار مکہ کے انکار اور ان کی معاندانہ باتوں کے سننے سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو رنج پہنچا تھا اس کے ازالہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت دائودعلیہ السلام کا قصہ یاد دلایا اور گویا کو یوں فرمایا : اگر یہ کفار آپ کا انکار کر رہے ہیں تو آپ کو کیا کمی ہے، اکابر انبیاء (علیہم السلام) آپ کی موافقت کرتے ہیں، نیز آپ اس پر غور کریں کہ مخالفین آپ کو یتیم اور فقیر کہتے ہیں تو مال و دولت کی کثرت کسی کو غم سے نجات نہیں دیتی، حضرت دائود (علیہ السلام) عظیمالشان سلطنت کے مالک تھے اس کے باوجود وہ رنج اور غم سے محفوظ نہیں رہ سکے۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود (علیہ السلام) کی فضیلت کے حسب ذیل وجوہ ذکر فرمائی ہیں :

(١) ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم النبیین اور قائد المرسلین ہیں، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ حکم دیا کہ آپ حضرت دائود (علیہ السلام) کے مکارم اخلاق کو یاد کریں۔

(٢) اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ” ہمارے بندے دائود (علیہ السلام) کو یاد کیجئے “ یوں تو تمام لوگ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں لیکن قابل ذکر اور لائق تعریف وہ بندہ ہے جس کو مالک خود فرمادے یہ مارا بندہ ہے، سو حضرت دائود (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ہمارے بندے دائود کو یاد کیجئے اور یہ حضرت دائود کی بہت بڑی فضیلت ہے۔ اسی طرح ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنا بندہ فرمایا ہے : ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا۔ (البقرہ : ٢٣) اگر تمہیں اس کلام کے وحی ہونے میں شک ہو جس کو ہم نے اپنے بندہ پر نازل کیا ہے۔

تبرک الذی نزل الفرقان علی عبدہ لیکون للعلمین نذیرا (الفرقان : ١) برکت والی ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ پر فرقان کو نازل کیا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لئے اللہ کے عذاب سے ڈرانے والا ہو سبحن الذی اسری بعبدہ۔ (بنی اسرائیل : ١) سبحان ہے وہ جو رات کو ہی اپنے بندہ کو لے گیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : یہ ہمارے بندے ہیں، اور خود کو فرماتا ہے : میں ان کا رب ہوں۔

فل اور بک (النساء : ٦٥) آپ کے رب کی قسم !۔ اللہ تعالیٰ رب العٰلمین، رب عرش عظیم ہے، رب کعبہ ہے، مگر اس کو نہ العٰلمین کے رب ہونے پر ناز ہے، نہ عرش عظیم کے رب ہونے پر ناز ہے، نہ کعبہ کے رب ہونے پر ناز ہے، اگر اس کو ناز ہے تو اے محمد مصطفیٰ ! تمہارے رب ہونے پر ناز ہے۔ سو وہ آپ کے متعلق فرماتا ہے : میرا بندہ اور اپنے متعلق فرماتا ہے : تمہارا رب، اور یہ آپ کی وہ فضیلت ہے جس میں آپ کا کوئی شریک نہیں ہے۔

(٣) حضرت دائود (علیہ السلام) کے متعلق ” ذا الاید “ طاقت ور، فرمایا یعنی وہ عبادت کو انجام دینے سے اور گناہوں سے باز رہنے میں بہت طاقت ور تھے۔ قتادہ نے کہا : حضرت دائود (علیہ السلام) کو عبادت کی قوت اور دین کی فقہ عطا کی گئی تھی، ان کی عبادت کے متعلق حدیث میں ہے : حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ روزے حضرت دائود (علیہ السلام) کے روزے تھے، وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے اور سب سے زیادہ پسندیدہ نماز حضرت دائود (علیہ السلام) کی نماز تھی، وہ نصب شب تک سوتے، پھر تہائی شب قیام کرتے، پھر رات کے (بقیہ) چھٹے حصہ میں سوتے (فرض کیجئے کہ چھ گھنٹے کی رات ہے تو وہ پہلے تین گھنٹے سوتے، پھر دو گھنٹے نماز پڑھتے اور آخری ایک گھنٹہ میں پھر سوجاتے) ۔(صحفح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٢٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١١٥٩، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤١٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٤١٩، جامع المسانید والسنن مسند عبداللہ بن عمر ورقم الحدیث : ٦٥٣ )

(٤) حضرت دائود (علیہ السلام) کے متعلق اس آیت میں ” انہ اواب “ فرمایا، یعنی وہ اللہ کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے، وہ اپنی تمام حاجات میں، تمام مہمات میں اور تمام کاموں میں اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔

(٥) نیز حضرت دائود (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ہم نے پہاڑوں کو ان کے تابع کردیا تھا کہ وہ شام کو اور دن چڑھے ان کے ساتھ تسبیح کریں، پہاڑوں کے تسبیح کرنے کا یہ معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں میں حیات، عقل، قدرت اور نطق کو پیدا کردیا تھا اور اس وقت وہ پہاڑ اس طرح اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے تھے جس طرح زندہ اور عقل والی مخلوق اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے۔ پہاڑ میں حیات کی دلیل اس آیت میں ہے :

ولما جاء موسیٰ لمیقاتنا وکلمہ ربہ قال رب ارنی انظر الییک ط قال لن ترئنی ولکن انظر الی الجبل فان استقرمکانہ فسوف ترئنی۔ (الاعراف : ١٤٣ )

اور جب موسیٰ ہمارے مقرر کردہ وقت پر آئے اور ان کے رب نے ان سے کلام فرمایا تو انہوں نے کہا : اے میرے رب ! مجھے اپنی ذات دکھائیے، میں اس کو ایک نظر دیکھوں گا، فرمایا : تم مجھے نہیں دیکھ سکتے، لیکن تر پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو، اگر وہ اپنی جگہ برقرار رہا تو تم بھی مجھے دیکھ لو گے۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اس پہاڑ میں اللہ تعالیٰ نے یہ صفت پیدا کی ہوئی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ سکتا تھا، یہ اور بات ہے کہ وہ دیکھنے کی تاب نہ لاسکا اور دیکھتے ہی ریزہ ریزہ ہوگیا، نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وان منھا لما یھبط من خشیۃ اللہ۔ (البقرہ : ٧٤) اور بعض پتھر اللہ تعالیٰ کے خوف سے گرجاتے ہیں۔ سو پہاڑوں میں دیکھنے کی صفت اور صلاحیت بھی ہے اور ان میں اللہ تعالیٰ کا خوف بھی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بھی کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود (علیہ السلام) کو غیر معمولی جسامت اور حسن عطا فرمایا تھا اور بہت شیریں آواز عطا فرمائی تھی، ان کے حسن اور ان کی آواز سے متاثر ہو کر تمار پہاڑ اور تمام پرندے ان کے ساتھ مل کر اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی تسبیح کرتے تھے اور پہاڑوں میں اللہ تعالیٰ نے محبت کا اثر بھی رکھا ہے اور نطق اور تسبیح کرنے کی صلاحیت بھی رکھی ہے، پہاڑوں میں محبت کی کیفیت رکھی ہے، اس کی تصدیق اس حدیث سے ہوتی ہے، حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

احد جبل یجنا نحبہ۔ احد ایک پہاڑ ہے یہ ہم سے محبت کرتا ہے، ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤٧٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٣٩٢، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٠٧٩) اور پہاڑ کے تسبیح کرنے کی تصدیق اس حدیث سے ہوتی ہے : حضرت علی بن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکہ میں تھا، ہم مکہ کے کسی راستہ میں جارہے تھے، آپ کے سامنے جو بھی پہاڑ آتا یا درخت آتا وہ یہ کہتا تھا : السلام علیک یارسول اللہ۔(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٦٢٦، سننن دارمی رقم الحدیث : ٢١، دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٢ ص ١٥٤۔ ١٥٣، شرح السنہ رقم الحدیث : ٣٧١٠، جامع المسانید والسنن مسند علی بن ابی طالب رقم الحدیث : ٣٩٩)

امام فخر الدین رازی نے اس کی یہ توجیہ کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو حضرت دائود (علیہ السلام) کے لئے مسخر کردیا تھا، جہاں حضرت دائودعلیہ السلام جاتے تھے، پہاڑ بھی ان کے ساتھ جاتے تھے اور پہاڑوں کا حضرت دائود (علیہ السلام) کے ساتھ چلنا ان کی تسبیح قرار دیا گیا کیونکہ پہاڑوں کا حضرت دائود (علیہ السلام) کے ساتھ چلنا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت پر دلالت کرتا ہے۔ (٦) اس آیت میں حضرت دائود (علیہ السلام) کی چھٹی فضیلت یہ ہے کہ پہاڑ آپ کے ساتھ العشی یعنی شام کے وقت اور الاشراق یعنی صبح کے وقت تسبیح کرتے تھے۔

چاشت اور اشراق پڑھنے کی فضیلت میں احادیث

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی، پھر وہ طلوع آفتاب تک بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہا، پھر اس نے دو رکعت نماز پڑھی تو اس کو حج اور عمرہ کا پورا پورا اجر ہوگا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٥٨٦، جامع المسانید والسنن ج ٢٣ ص ٤٨٤، رقم الحدیث ٣٣٠٨، لابن کثیر، دار الفکر بیروت، ١٤٢٠ ھ، المسند الجامع ج ١ ص ٣٠٢، رقم الحدیث : ٤٠٧، جامع المسانید والسنن مسند انس رقم الحدیث : ٣٣٠٨)

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے چاشت کی نماز کی بارہ رکعات پڑھیں، اللہ اس کے لئے جنت میں سونے کا محل بنادے گا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٧٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٨٠، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٣٩٦٧، المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٤٠٦، شرح السنۃ رقم الحدیث : ١٠٠٦، جامع المسانید والسنن لابن کثیر ج ٢١ ص ٢٨٠، رقم الحدیث : ٦٠٩، دارالفکر بیروت، ١٤٢٠ ھ، المسند الجامع ج ١ ص ٣٨٨، رقم الحدیث : ٥٦٠)

حضرت ام ہانیء (رض) بیان کرتی ہیں کہ فتح مکہ کے دن وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر گئیں، اس وقت آپ غسل کررہے تھے اور حضرت فاطمہ (رض) نے آپ کو پردہ سے چھپایا ہوا تھا۔ حضرت ام ہانی نے کہا : میں نے آپ کو سلام کیا، آپ نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ میں نے کہا : میں ہوں، ام ہانیء بنت ابی طالب، آپ نے فرمایا : ام ہانیء کو خوش آمدید ہو، غسل سے فارغ ہو کر آپ نے آٹھ رکعات نماز پڑھیں۔ امام مسلم کی روایت میں ہے : یہ چاشت کی نماز تھی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٥٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٣٦، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٧٤، سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٢٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٦٥، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٢٢٩)

حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تبارک وتعالیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے ابن آدم ! میرے لیے دن کے شروع میں چار رکعات نماز پڑھو، میں دن کے آخر میں تمہارے لیے کافی ہوں گا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٧٥، مسنداحمد ج ٦ ص ٤٤٠، جامع المسانیدج ١٣ ص ٥٩٤، رقم الحدیث : ١١٠٧٣، المسند الجامع ج ١٤ ص ٣٤٢، رقم الحدیث : ١٠٩٩٥)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے چاشت کی دو رکعت نماز کی حفاظت کی اس کے گناہوں کو بخش دیا جائے گا، خواہ اس کے گناہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٧٦، مصنف ابن ابی شبیہ ج ٢ ص ٤٠٦، مسند احمد ج ٢ ص ٤٤٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٨٢، الکامل لا بن عدی ج ٧ ص ٢٥٢٣ طبع قدیم، المسند الجامع ج ١٦ ص ٨٠٩، رقم الحدیث ١٣٤٩١)

حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاشت کی نماز پڑھتے تھے، حتیٰ کہ ہم کہتے تھے کہ آپ اس نماز کو ترک نہیں کریں گے اور آپ اس نماز کو ترک کردیتے تھے، حتیٰ کہ ہم کہتے تھے کہ آپ اس نماز کو نہیں پڑھیں گے۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٧٧، مسند احمد ج ٣ ص ٢١، شرح السنۃ رقم الحدیث : ١٠٠٢، جامع المسانید والسنن ج ٣٣ ص ٣٤٣، رقم الحدیث : ٧٢٧۔ ٧٢٦، المسند الجامع ج ٦ ص ٢٤٧، رقم الحدیث : ٤٢٩٢)

القاسم الشیبانی بیان کرتے ہیں کہ حضرت زید بن ارقم (رض) نے کچھ لوگوں کو چاشت کی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے کہا : ان لوگوں کو خوب معلوم ہے کہ چاشت کی نماز کو اس وقت کے غیر میں پڑھنا افضل ہے۔ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : اوابین (رجوع کرنے والوں) کی نماز اس وقت ہوتی ہے جب اونٹ کے بچوں کے جسم کی کھال اور ان کے پیر گرم ریت کی شدت کی وجہ سے جلنے لگتے ہیں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٤٨، مسند احمد ج ٤ ص ٣٦٧، صحیح ابن حبان رقم الحدیث ٢٥٣٩، السنن الکبریٰ للبیہقی ج ٣ ص ٤٩، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ١٢٢٧، مسند ابوعوانہ ج ٢ ص ٢٧٠، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٢٣٠٠، المعجم الصغیر رقم الحدیث : ١٥٥، معرفتہ السنن والآثار رقم الحدیث : ٥٥٨٧، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٤٨٣٢)

اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ صلوٰۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز) اس وقت پڑھنی چاہیے جب ریت خوب گرم ہو کر تپنے لگتی ہے اور اونٹ کے پائوں ریت کی گرمی کی شدت سے جلنے لگتے ہیں، اونٹ کے بچوں کا ذکر اس لیے فرمایا کہ ان کے جسم اور ان کے پائوں کی کھال نازک ہوتی ہے اور گرمی تھوڑی سے بھی زیادہ ہو تو ان کے پائوں جلنے لگتے ہیں، ہمارے اعتبار سے یہ وقت دن کے دس اور گیارہ بجے کے درمیان ہوتا ہے، سو اس وقت چاشت کی نماز پڑھنی چاہیے۔ اس حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ جس وقت گرمی کی شدت ہوتی ہے تو اس وقت لوگوں کا دل آرازم اور استراحت کو چاہتا ہے اور جو لوگ اوابین یعنی اللہ کی طرف رجوع کرنے والے ہوتے ہیں وہ اس وقت آرام اور استراحت کی بجائے چاشت کی نماز پڑھتے ہیں اور ان کو صرف اس چیز میں اطمینان اور سکون ملتا ہے کہ ہر مطلوب اور مرغوب چیز سے منقطع ہو کر اللہ تعالیٰ کے ذکر میں اور اس کی عبادت میں مشغول ہوجائیں۔

اشراق کی نماز کا وقت

اشراق کا معنی ہے سورج کا طلوع ہونا اور اس کا چمکنا اور نماز اشراق کا اوّل وقت وہ ہے جب سورج ایک نیزہ کی مقدار بلند ہوجاتا ہے اور طلوع آفتاب کے بعد بیس منٹ گزر جاتے ہیں اور نماز اشراق کا آخر وقت وہ ہوتا ہے جب چاشت کی نماز کا وقت شروع ہوتا ہے، اس لئے چاشت کی نماز اس وقت پڑھنی چاہیے جب سورج گرم اور سفید ہوجاتا ہے اور اس کا نور خوب روشن ہوجاتا ہے۔ حضرت ام ہانیء ابی طالب (رض) بیان کرتی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے گھر آئے، آپ نے وضو کیا اور پھور صلوٰۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز) پڑھی، پھر فرمایا : اے ام ہانیء ! یہ اشراق کی نماز ہے۔ (المعجم الکبیر ج ٢٤ ص ٤٠٥، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٤٢٥٨) اس حدیث میں آپ نے چاشت کی نماز پر اشراق کا اطلاق فرمایا ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ یہ اشراق کا آخر وقت ہے اور اوّ ( علیہ السلام) وقت کے اعتبار سے یہ چاشت کی نماز ہے۔

نماز چاشت کی رکعات کی تعداد اور اس کا وقت

علامہ ابراہیم الحلبی الحفی المتوفی ٩٥٦ ھ لکھتے ہیں : چاشت کی نماز کی فضیلت میں بہت احادیث ہیں اور اس کی رکعات دو سے لے کر بارہ تک ہیں، ان کی تفصیل حسب ذیل احادیث میں ہے :

حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص صبح کو اٹھتا ہے تو اس کے ہر جوڑ پر صدقہ واجب ہوتا ہے، پس ہر تسبیح کو پڑھنا صدقہ ہے اور ہر لا الہ الا اللہ کو پڑھنا صدقہ ہے اور ہر اللہ اکبر کو پڑھنا صدقہ ہے اور ہر نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے اور ہر بُرائی سے روکنا صدقہ ہے اور چاشت کی دو رکعت نماز پڑھنے سے یہ صدقہ ادا ہوجاتا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٢٠، سنن ابودائو رقم الحدیث : ١٢٨٥، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث ٢٩۔ ٩٠، مسند احمد ج ٢ ص ٣١٦) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چاشت کی چار رکعات پڑھتے تھے اور اللہ جتنی چاہتا آپ اتنی رکعات زیادہ کردیتے تھے۔(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧١٩، مسند احمد ج ٦ ص ١٤٥، جامع المسانید والسنن مسند عائشہ رقم : ٣٢٩٢)

چاشت کی آٹھ رکعات پڑھنے کے متعلق حضر ام ہانیء کی حدیث گزر چکی ہے، صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٥٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٣٦، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٧٤ وغیرھا۔

چاشت کی بارہ رکعات کے متعلق حضرت انس بن مالک (رض) کی حدیث گزر چکی ہے، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٧٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٣٨٠، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٣٩٦٧ وغیرھا۔

امام اسحاق بن راہو یہ نے کتاب ” عددرکعات السنۃ “ میں کہا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن چاشت کی نماز دو رکعت پڑھی اور ایک دن چار رکعات پڑھیں اور ایک دن چھ رکعات پڑھیں اور ایک دن آٹھ رکعات پڑھیں تاکہ امت پر وسعت اور آسانی ہو۔

حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! مجھے وصیت کیجئے، آپ نے فرمایا : جب تم دو رکعت چاشت کی نماز پڑھو گے تو تم غافلین میں نہیں لکھے جائو گے اور جب تم چار رکعات پڑھو گے تو تم عابدین میں لکھے جائو گے اور جب تم چھ رکعات پڑھو لے گو اس دن کوئی گناہ تمہارا پیچھا نہیں کرے گا اور جب تم آٹھ رکعات پڑھو گے تو تمہیں خاشعین میں لکھا جائے گا اور جب تم دس رکعات پڑھو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارا جنت میں گھر بنا دے گا۔ (سنن کبریٰ للبہیقی ج ٣ ص ٤٩۔ ٤٨)

امام ترمذی نے سند ضعیف سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے چاشت کی بارہ رکعات پڑھیں اللہ اس کے لئے جنت میں سونے کا محل بنادے گا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٤٧٣، جامع المسانید والسنن مسند انس رقم الحدیث : ٦٠٩) ہرچند کہ یہ حدیث ضعیف السند ہے مگر فضائل میں حدیث ضعیف السند پر عمل کرنا جائز ہے۔ (علامہ شامی متوفی ١٢٥٢ ھ نے لکھا ہے کہ احادیث صحیحہ کے مطابق چاشت کی زیادہ سے زیادہ رکعات آٹھ ہیں اور جو بارہ رکعات کہتے ہیں اس کی وجہ سے یہ ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف السند حدیث پر عمل کرنا بھی جائز ہے۔ (روالمحتارج ٢ ص ٤٠٥، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ) نیز علامہ ابراہیم حلبی متوفی ٩٥٦ ھ لکھتے ہیں :

صلوٰۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز) کا وقت سورج کے بلند ہونے سے لے کر زوال سے پہلے تک ہے اور اس کا مستحب وقت وہ ہے جب دن کا چوتھائی حصہ گزر جائے، کیونکہ حضرت زید بن ارقم (رض) کی حدیث میں ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اوابین کی نماز اس وقت ہوتی ہے جب گرم ریت کی شدت سے اونٹ کے بچے کے پائوں جلنے لگیں۔ (غنیۃ المستملی ص ٣٩٠۔ ٣٨٩، سہیل اکیڈمی، لاہور۔ ١٤١٢ ھ)

مثلاً آج ٣٠ مئی ٢٠٠٣ ء کو طلوع آفتا ٥ : ١٤ پر ہے اور غروب ١٦ : ٧ پر ہے، اس طرح دن تیرہ گھنٹے کا ہے اور اس کا چوتھائی حصہ سوا تین گھنٹے ہے اور زوال کا وقت ٤٦ : ١١ ہے، پس چاشت کا وقت آج صبح چھ بجے سے گیارہ بج کر ٤٦ منٹ تک ہے اور اس کو پڑھنے کا مستحب وقت سوانو بجے ہے۔

پہاڑوں اور پرندوں کا حضرت دائود کی تسبیح کے ساتھ تسبیح کرنا

(٧) حضرت دائود (علیہ السلام) کی فضیلت کی ساتویں وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا : سب ان کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ یعنی پہاڑ اور پرندے سب حضرت دائود (علیہ السلام) کی طرف رجوع کرتے تھے، حضرت دائود (علیہ السلام) جب تسبیح کرتے تھے تو پہاڑ اور پرندے بھی ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے اور اس سے پہلے جو فرمایا تھا : ہم نے پہاڑوں کو ان کے تابع کردیا تھا کہ وہ شام کو اور دن چڑھے ان کے ساتھ تسبیح پڑھیں اور جمع شدہ پرندے بھی، پہلے جملے میں اور اس جملے میں فرق یہ ہے کہ پہلے جملے سے معلوم ہوتا تھا کہ پہاڑ اور پرندے ان کے ساتھ تسبیح پڑھتے ہیں، لیکن اس جملے سے یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ ہمیشہ تسبیح پڑھتے ہیں اور جب جملہ اسمیہ کے ساتھ فرمایا : ” کل لہ اواب “ سب ان کی طرف رجوع کرنے والے تھے تو معلوم ہوا کہ پہاڑ اور پرندے ان کے ساتھ ہمیشہ تسبیح کرتے تھے۔

مذکورالصدر تفسیر اس تقدیر پر ہے کہ ” کل لہ “ میں ضمیر حضرت دائود (علیہ السلام) کی طرف لوٹ رہی ہو اور اگر یہ ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ رہی ہو تو پھر اس کا معنی ہوگا : حضرت دائود (علیہ السلام) ، پہاڑ اور پرندے سب اللہ کی طرف لوٹنے والے اور اس کی تسبیح کرنے والے تھے۔

امام ابن عساکر متوفی ٥٧١ ھ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عامر سے روایت کیا ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کو تمام مخلوق میں سب سے زیادہ حسین آواز دی گئی تھی۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ١٩ ص ٧٢، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)

پس جب حضرت دائود (علیہ السلام) کی آواز پہاڑوں تک پہنچتی تو وہ ان کی آواز کی لذت سے جھومنے لگتے اور جب پرندے ان کی آواز سنتے تو وہ بھی ان کے ساتھ سُر ملانے لگتے۔ بعض عارفین نے کہا ہے کہ پہاڑ اور پرندے حضرت دائود (علیہ السلام) کی تسبیح کے ساتھ اس لئے تسبیح کرتے تھے تاکہ ان کی تسبیحات کا اجروثواب بھی حضرت دائود (علیہ السلام) کو مل جائے، حضرت دائود (علیہ السلام) جب حمد اور تسبیح کے معنی میں بہت غور کرتے تھے تو وہ حمد اور تسبیح آپ کے اعضاء میں سرایت کر جاتی تھی، کیونکہ یہ اعضاء آپ کی روح کے مظاہر تھے، پھر آپ کے اعضاء سے حمد اور تسبیح کی صورت پہاڑوں اور پرندوں میں سرایت کرجاتی تھی، کیونکہیہ اعضاء آپ کی روح کے مظاہر تھے، پھر آپ کے اعضاء سے حمد اور تسبیح کی صورت پہاڑوں اور پرندوں میں سرایت کرجاتی تھی، اس وجہ سے پہاڑ اور پرندے بھی آپ کی تسبیح کے ساتھ تسبیح کرتے تھے، اس وجہ سے ان کی تسبیح کا فائدہ بھی آپ کی طرف لوٹتا تھا، شام کے وقت اور دن چڑھنے کے وقت اس تسبیح کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ ان اوقات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے انوارز اور اس کی برکت کے آثار بہت عظیم ہوتے ہیں کیونکہ جو مقربین اللہ تعالیٰ کی تجلیات میں مستغرق اور مخمور ہوتے ہیں وہ اس وقت اپنے استغراق اور خمار سے باہر آجاتے ہیں اور شام کے وقت میں نماز پڑھنے والے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی حاجات پیش کرتے ہیں اور اس سے مناجات کرتے ہیں۔

حضرت دائود (علیہ السلام) کی ہیبت

(٨) حضرت دائود (علیہ السلام) کی فضیلت کی آٹھویں وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” وشدد نا ملکہ “ اور ہم نے ان کی سلطنت کو مضبوط کردیا “ ان کی سلطنت کو مضبوط کرنے کا ایک محمل یہ ہے کہ چار ہزار آدمیوں کا لشکر دن رات ان کی سلطنت کی حفاظت کرتا تھا اور اس کا دوسرا محمل یہ ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) جن مقدمات کا فیصلہ کرتے تھے ان کی وجہ سے تمام لوگوں پر ان کی ہیبت چھا گئی تھی۔

امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے ان کے ایک بڑے آدمی پر کوئی زیادتی کی، پھر وہ دونوں حضرت دائود (علیہ السلام) کے سامنے پیش ہوئے، جس نے زیادتی کی تھی اس نے اپنے فریق مخالف کے متعلق کہا : اس شخص نے میری ایک گائے غصب کرلی ہے، حضرت دائود (علیہ السلام) نے اس سے پوچھا تو اس نے اس بات کا انکار کیا، پھر آپ نے مدعی سے کہا : تم گواہ پیش کرو، اس کے پاس کوئی گواہ نہیں تھا، پھر حضرت دائود نے ان دونوں سے کہا : ابھی تم چلے جائو، میں تمہارے معاملے میں غور کروں گا، وہ دونوں چلے گئے۔ حضرت دائود (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے خواب میں یہ وحی کی کہ جس شخص کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہے آپ اس کو قتل کردیں۔ حضرت دائودعلیہ السلام نے سوچا : یہ تو خواب ہے، میں اس معاملہ میں جلدی نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے دوبارہ ان کو خواب میں وحی کی کہ اس شخص کو قتل کردیں، پھر اللہ تعالیٰ نے تیسری بار ان کو خواب میں حکم دیا کہ وہ اس کو قتل کردیں، ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عتاب ہوگا، پھر حضرت دائود نے اس شخص کو بلوا کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ وحی کی ہے کہ میں تجھ کو قتل کردوں۔ اس شخص کہا : آپ مجھے بغیر گواہ کے اور بغیر کسی ثبوت کے قتل کردیں گے، حضرت دائود نے فرمایا : ہاں ! میں تم میں اللہ تعالیٰ کا حکم نافذ کروں گا، جب اس شخص کو یہ یقین ہوگیا کہ حضرت دائود اس کو قتل کردیں گے، تب شخص نے کہا : آپ عجلت نہ کریں حتیٰ کہ میں آپ کو اصل واقعہ کی خبر دے دوں، بیشک اللہ کی قسم ! میں نے اس معاملہ میں کوئی جرم نہیں کیا اور نہ اس وجہ سے میں گرفت میں آیا ہوں، بلکہ میں نے اس شخص کے والد کو دھوکے سے قتل کردیا تھا، سو اس وجہ سے مجھے قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، پھر حضرت دائود (علیہ السلام) کے حکم سے اس کو قتل کردیا گیا اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تفسیر ہے : وشددنا ملکہ۔ (جامع البیان رقم الحدیث ٢٢٨٩٩)

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ہم نے دائود کی سلطنت کو مضبوط کردیا اور یہ قید نہیں لگائی کہ ان سلطنت کو لشکر سے مضبوط کیا ہے اور نہ یہ قید لگائی ہے کہ بنی اسرائیل پر ان کی ہیبت طاری کرکے ان کے لشکر کو مضبوط کیا ہے، اس لئے اولیٰ یہ ہے کہ ان کی سلطنت کی مضبوطی کو کسی خاص قسم کے ساتھ مقید نہ کیا جائے اور اس کو اپنے عموم پر رکھا جائے۔ (جامع البیان جز ٢٣ ص ١٦٥، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

حضرت دائود کا محافظ ان کا لشکر تھا اور ہمارے نبی کا محافظ اللہ تعالیٰ تھا

اس آیت کی تفسیر میں ہم نے جامع البیان کے حوالے سے یہ ذکر کیا ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کی حفاظت چار ہزار نفوس پر مشتمل لشکر کیا کرتا تھا اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی حفاظت کے لیے کسی لشکر کی ضرورت نہ تھی، آپ کی حفاظت خود خدائے لم یزل کرتا تھا، قرآن مجید میں ہے :

واللّٰہ یعصمک من الناس۔ (المائدہ : ٦٧) اور اللہ لوگوں (کے شر) سے آپ کی حفاظت فرمائے گا۔

حضرت سیدہ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کی جاتی تھی حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی ” اور اللہ لوگوں (کے شر) سے آپ کی حفاظت فرمائے گا “۔ (المائدہ : ٦٧) تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیمہ سے اپنا سرباہر نکال کر فرمایا : اے لوگو ! واپس جائو، بیشک اللہ نے مجھے محفوظ کردیا ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٠٥٧، المستدرک ج ٢ ص ٣١٣)

حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عم محترم حضرت عباس (رض) ان مسلمانوں میں سے تھے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کرتے تھے، جب یہ آیت نازل ہوئی : ” اور اللہ لوگوں (کے شر) سے آپ کی حفاظت فرمائے گا “ (المائیدہ : ٦٧) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی حفاظت کے انتظام کو ترک فرما دیا۔

(المعجم الصغیررقم الحدیث : ٤١٨، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٣٥٣٤)

اللہ تعالیٰ کی حفاظت فرمانے کی ایک مثال یہ ہے :

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نجد کی طرف ایک غزوہ میں گئے اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس ہوئے تو وہ آپ کے ساتھ واپس آئے۔ ایک وادی جس میں خاردار درخت بہت زیادہ تھے اس میں دوپہر کے وقت انہوں نے قیام کیا۔ مسلمان منتشر ہو کر درختوں کے سائے میں آرام کرنے لگے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیکر کے ایک درخت کے نیچے اترے اور آپ نے اس میں تلوار لٹکا دی، حضرت جابر نے کہا : ہم لوگ سوگئے، اچانک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں بلایا، ہم آپ کے پاس پہنچے تو وہاں ایک اعرابی بیٹھا ہوا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں سویا ہوا تھا، اس شخص نے میری تلوار نکال لی، میں بیدار ہوا تو وہ تلوار اس کے ہاتھ میں سونتی ہوئی تھی، وہ مجھ سے کہنے لگا : آپ کو مجھ سے کون بچائے گا ؟ میں نے کہا : اللہ ! لو وہ یہ بیٹھا ہوا ہے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو کوئی سزا نہیں دی۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤١٣٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٤٣، مسند احمد رقم الحدیث : ٦٣٧٨، عالم الکتب جامع المسانید والسنن مسند جابر عبداللہ رقم الحدیث : ١١٩٢)

(٩) حضرت دائود (علیہ السلام) کی فضیلت کی نویں وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکمت عطا فرمائی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” واتیناہ الحکمۃ “ ہم نے ان کو حکمت عطا فرمائی۔

حکمت کی تعریفات

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٦ ھ لکھتے ہیں :

حکمت کا معنی ہے : علم اور عقل کے ذریعہ حق بات تک رسائی حاصل کرنا، اللہ تعالیٰ کی حکمت کا معنی یہ ہے : اشیاء کی معرفت اور ان کو نہایت مضبوطی کے ساتھ پیدا کرنا اور انسان کی حکمت کا معنی یہ ہے : موجودات کی معرفت اور نیک اور اچھے کاموں کا کرنا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : بعض اشعار میں ضرور حکمت ہوتی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦١٤٥) یعنی ان اشعار کا مضمون صحیح اور صادق ہوتا ہے۔(المفردات ج ١ ص ١٦٨، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ۔ ١٤١٨)

علامہ میر سید شریف علی بن محمد الجر جانی المتوفی ٨٠٦ ھ لکھتے ہیں : فلسفیوں نے حکمت کی تعریف اس طرح کی ہے : موجودات خارجیہ کے احوال کا واقع کے مطابق طاقت بشریہ کے اعتبار سے علم، اس کو حکمت کہتے ہیں، یہ علم نظری ہے اور یہ علم کسی دوسرے علم کا آلہ نہیں ہے۔

حکمت کی دوسری تعریف یہ ہے : یہ وہ قوت عقلیہ عملیہ ہے جو غریزہ اور بلاوت کے درمیان متوسط ہوتی ہے، غریزہ اس قوت کا افراط ہے اور بلاوت اس قوت کی تفریط ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : قرآن کی حکمت ہے : حلال اور حرام کو جاننا۔ ایک تعریف یہ کی گئی ہے کہ علوم شریعت اور طریقت کو حکمت کہتے ہیں۔

نیزحکمت کی تعریف میں حسب ذیل اقوال ہیں :

(١) لغت میں حکمت کا معنی ہے : علم کے تقاضے کے مطابق عمل کیا جائے۔

(٢) انسان اپنی طاقت کے مطابق اس چیزکو حاصل کرے جو نفس الامر اور واقع میں برحق ہو۔

(٣) ہر وہ کلام جو حق کے موافق ہو وہ حکمت ہے۔

(٤) ہر وہ کلام جو حق کے موافق ہو وہ حکمت ہے۔

(٥) ہر چیز کو اپنے مقام پر رکھنا حکمت ہے۔

(٦) جس چیز کا انجام قابل تعریف ہو وہ حکمت ہے۔

(٧) الحکمۃ الالھیۃ : جس علم میں ان موجودات خارجیہ کے احوال سے بحث کی جائے جو مادہ سے مجرد ہوں اور ہماری قدرت اور اختیار میں نہ ہوں۔

(٨) حقائق اشیاء جس طرح ہیں ان کا اسی طرح علم ہو اور علم کے مطابق ہو۔

(٩) جس حکمت سے سکوت کیا گیا ہے : یہ حقیقت کے وہ اسرار ہیں جن پر رسمی علماء اور عوام کما حقہ، مطلع نہیں ہوتے تاکہ وہ ان کو ضرر پہنچائیں یا ان کو ہلاک کردیں، جیسا کہ روایت ہے، حضرت عمر بن الخطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیدی باندیوں کے پاس گئے تو ایک قیدی عورت اپنا پستان نچوڑ کر ایک بچے کو دودھ پلارہی تھی، پھر اس نے اپنے بچے کو قیدیوں میں دیکھا تو اس کو اٹھا لیا اور اپنے پیٹ کے ساتھ چمٹایا اور اس کو دودھ پلایا۔ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے پوچھا : تمہارا کیا خیال ہے، کیا یہ عورت اپنے بچہ کو آگ میں ڈال دے گی ؟ ہم نے کہا : نہیں، بہ شرطی کہ اس کو آگ میں نہ ڈالنے پر قدرت ہو۔ آپ نے فرمایا : اللہ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے جتنا یہ اپنے بچوں پر رحم کرنے والی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٩٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٥٤، جامع المسانید والسنن مسند عمر بن خطاب رقم : ١٧، کتاب التعریفات ص ٦٦، دارالفکر، بیروت، ١٤١٨ ھ)

میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کے مقارب المعنی یہ حدیث بھی ہے :

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ گزر رہے تھے، ان کے راستہ میں ایک بچہ پڑا ہوا تھا، جب اس کی ماں نے ان لوگوں کو آتے ہوئے دیکھا تو اس کو یہ خطرہ ہوا کہ اس کا بچہ لوگوں کے پائوں تلے روندا جائے گا، وہ دوڑتی ہوئی آئی اور کہہ رہی تھی : میرا بیٹا، میرا بیٹا اور اس نے دوڑ کر اپنے بیٹے کو اٹھا لیا، لوگوں نے کہا : یارسول اللہ ! یہ اپنے بیٹے کو آگ میں نہیں ڈال سکتی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو چپ کراتے ہوئے فرمایا : اور اللہ کی قسم ! اللہ اپنے حبیب (دوست) کو آگ میں نہیں ڈالے گا۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ (مسند احمد ج ٣ ص ١٠٥ طبع قدیم، مسند احمد رقم الحدیث : ١٢٠١٨، مؤسستہ الرسالۃ ١٤١٨، مسند البزار رقم الحدیث : ٣٤٧٦، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٣٧٤٧، المستدرک ج ١ ص ٥٨، ج ٤ صظ ١٧٧، جامع المسانید والسنن رقم الحدیث : ١٣٦٧) اس حدیث میں آپ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کو دوزخ میں نہیں ڈالے “ اور کافر اللہ تعالیٰ کا حبیب نہیں ہے، اسی طرح جو مسلمان مرتکب کبیرہ ہے اور اپنے گناہوں پر توبہ نہیں کرتا، ان کو دوزخ میں ڈالنا آپ کیا رشاد کے خلاف نہیں ہے، اس طرح پہلی حدیث میں ہے : اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے جتنا رحم ماں اپنے بچوں پر کرتی ہے تو وہ اپنے بندوں کو دوزخ میں نہیں ڈالے گا، کافر اور مشرک اپنے آپ کو بتوں کا بندہ کہلواتے ہیں یا حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیز کا بندہ کہلواتے ہیں، یا سورج کا یا آگ کا یا کسی درخت کا یا کسی دیوی یا دیوتا کا بندہ کہلواتے ہیں اور فساق اور فجار اپنی خواہشات کی بندگی کرتے ہیں سو جو اپنے آپ کو صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ قرار دیتا ہو اور اس کے علاوہ اور کسی کی بندگی نہ کرتا ہو، اللہ تعالیٰ اس پر اس سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے جتنا ماں اپنے بچے پر رحم کرتی ہے اور وہ اپنے بندوں کو دوزخ میں نہیں ڈالے گا، لیکن افسوس اس پر ہے کہ لوگ اپنے آپ کو صرف اس کا بندہ نہیں کہلاتے اور اگر اس کا بندہ کہلائیں بھی سہی تو اس کی بندگی نہیں کرتے، اپنے نفس کی پابندی کرتے ہیں۔

فصل خطاب کی تفسیر میں متعدد اقوال

(١٠) حضرت دائود (علیہ السلام) کی دسویں فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو فصل خطاب عطا فرمایا۔ علامہ ابوالحسن بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ لکھتے ہیں : فصل الخطاف کی تفسیر میں پانچ اقوال ہیں :

(١) حضرت ابن عباس (رض) اور حسن بصری نے کہا کہ فصل خطاب سے مراد ہے عدل اور انصاف سے فیصلے کرنا۔

(٢) قاضی شریح اور قتادہ نے کہا : اس سے مراد ہے مدعی کو گواہ پیش کرنے کا مکلف کرنا اور مدعیٰ علیہ پر قسم لازم کرنا۔

(٣) حضرت ابو موسیٰ اشعری اور شعبی نے کہا : اس سے مراد ہے خطبہ کے بعد امابعد کہنا اور سب سے پہلے امابعد کے کلمات حضرت دائود نے کہے تھے۔

(٤) اس سے مراد ہے ہر غرض مقصود میں کافی بیان پیش کرنا۔

(٥) کلام سباق اور کلام لاحق کے درمیان فصل کرنا۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٨٤، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :

حکمت سے مراد ہے نبوت اور کمال علم اور پختہ علم، ایک قول ہے : اس سے مراد زبور ہے اور علم الشرائع اور ایک قول یہ ہے کہ ہر وہ کلام جو حکمت کے موافق ہو وہ حکمت ہے۔

اور فصل خطاب سے مراد ہے دو فریقوں کے درمیان حق کو باطل سے متمیز اور ممتاز کردینا، یا اس سے مراد وہ کلام ہے جو صحیح اور فاسد کے درمیان فارق اور فیصلہ کن ہو اور یہ حضرت دائود (علیہ السلام) کا وہ کلام ہے جو وہ مقدمات کے فیصلوں اور سلطنت کی تدبیروں اور مشوروں کے متعلق کرتے تھے اور بھی ہوسکتا ہے کہ فصل خطاب سے مراد ایسا کلام ہو جو متوسط ہو، نہ اس قدر مختصر ہو کہ اس سے اصل مراد واضح نہ ہو اور نہ اس قدر طویل ہو جس سے مخاطب اکتا جائے اور ملول خاطر ہو۔

امام ابن ابی حاتم اور دیلمی نے حضرت موسیٰ اشعری سے روایت کیا ہے کہ اس سے مراد اما بعد کے کلمات ہیں اور سب سے پہلے حضرت دائود نے یہ کلمات کہے تھے، امابعد کے کلمات حمد اور صلوٰۃ یا اللہ عزوجل کے ذکر کے بعدک ہے جاتے اور ان کا معنی یہ ہوتا ہے کہ حمد اور صلوٰۃ کے بعد یہ معلوم ہونا چاہیے یا حمد اور صلوٰۃ کے بعد یہ بیان کیا جاتا ہے۔ اور اما بعد سے مراد یہ مخصوص کلمات نہیں ہیں، کیونکہ یہ عربی زبان کے الفاظ ہیں اور حضرت دائود (علیہ السلام) خود عرب تھے نہ عربوں کے نبی تھے اور نہ وہ عربی زبان میں کلام کرتے تھے۔ بلکہ اس سے مراد ان کی زبان کے وہ کلمات ہیں جو ” امابعد “ کا مفہوم ادا کرتے ہوں اور میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ فصل خطاب سے مراد ایسا خطاب ہے جو کسی مقدمہ کے فریقین کے درمیان حق کو باطل سے اور صواب کو خطاء سے اور صحیح کو غلط سے متمیز اور ممتاز کردے اور یہ بہت زیادہ علم اور فہم اور افہام اور تفہیم کی خداداد صلاحیت پر موقوف ہے۔ (روح المعانی جز ٢٣ ص ٢٦١۔ ٢٦٠، دراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٧ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 17