حیض والیاں عیدگاہ سے الگ رہیں
حدیث نمبر 657
روایت ہے حضرت ام عطیہ سے ۱؎ فرماتی ہیں کہ ہم کو حکم دیا گیا تھا کہ ہم عیدوں میں حائضہ اور پردے والی عورتوں کو(عیدگاہ)لےجائیں۲؎ تاکہ وہ مسلمانوں کی جماعت اور دعاؤں میں حاضرہوں۳؎ حیض والیاں عیدگاہ سے الگ رہیں۴؎ ایک عورت نےعرض کیا یارسول اﷲ ہم میں سےبعض کےپاس چادرنہیں ہے فرمایا اس کی سہیلی اسے اپنی چادر میں سے اوڑھالے ۵؎(مسلم،بخاری)
شرح
۱؎ آپ کا نام نسیبہ بنت کعب یا بنت حارث ہے،کنیت ام عطیہ انصاریہ ہیں،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت غزوات میں رہیں،زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔
۲؎ یعنی تمام عورتوں کو عیدگاہ لاؤ جونماز کے قابل ہیں وہ نمازعید پڑھ لیں اور جونماز کے قابل نہ ہوں وہ دعا میں شریک ہوں۔علماءفرماتے ہیں کہ عہدِ فاروقی سے عورتوں کومسجدوں وعیدگاہوں وغیرہ سے روک دیا گیا،حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ اگرحضورصلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کےموجودہ حالات ملاحظہ فرمادیتے تو آپ بھی منع فرمادیتے جب اس وقت یہ حال تھا تو اس زمانہ کا کیا پوچھنا۔مگر خیال رہے کہ اب رفتار زمانہ کو دیکھتے ہوئے عورتوں کو باپردہ ان مجالس میں آنے کی اجازت دو کیونکہ جب عورتیں کالجوں،بازاروں،سینماؤں سےنہیں رک سکتیں تو یہاں سے روک دینا ان کے لیے تباہی کے اسباب جمع کردینا ہیں۔اس حدیث سےمعلوم ہورہا ہے کہ عیدگاہ اور اچھی مجلسوں میں سمجھ داربچوں کوبھی لے جاناچاہیئے۔(ازمرقاۃ)
۳؎ یعنی اگر نماز نہ پڑھیں گی تو مسلمانوں کی دعاؤں سے تو فائدہ ا ٹھائیں گی،اپنےمتعلق حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے وعظ سے شرعی احکام معلوم کریں گی،عید کی رونق بڑھائیں گی کیونکہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی۔اس سے معلوم ہوا کہ ذکر کی مجلسوں،صالحین کی صحبتوں میں حاضری دینا اور ان سے برکت حاصل کرنا سنت سے ثابت ہے۔
۴؎ یعنی نمازی عورتوں کی صفوں سے کچھ ہٹ کربیٹھیں کیونکہ اس زمانہ میں باقاعدہ عیدگاہ نہ بنی تھیں اور اب بھی عیدگاہوں پرمسجدوں کے سارے احکام جاری نہیں وہ جنگل کے حکم میں ہیں جیساکہ کتب فقہ میں مذکور ہے۔
۵؎ یعنی اگر اس کےپاس دوچادریں ہوں تو ایک چادرتھوڑی دیر کے لیے عاریۃً اس غریب سہیلی کو دے دے اور اگر ایک بڑی چادر ہوتو کچھ حصہ سے اسے ڈھانپ لے۔بہرحال اسے عیدگاہ پہنچانے کی کوشش کرے۔