عیدین کی نماز
باب صلوۃ العیدین
عیدین کی نماز کاباب ۱؎
الفصل الاول
پہلی فصل
۱؎ عید عودٌسے بنا،بمعنی لوٹنا،چونکہ یہ خوشی کا دن ہے اس لیے نیک فالی کے لیے اسےعیدکہا گیا یعنی بار بار لوٹنے والی،اب ہرخوشی کے اجتماع کو عیدکہہ دیتے ہیں جیسےعیدمیلاد،عیدمعراج،ایک شاعرکہتاہے۔شعر
عِیْدٌ وَعِیْدٌ وَعِیْدٌ صِرْنَ مُجْتَمِعًا وَجْہُ الْحَبِیْبِ یَوْمَ الْعِیْدِ وَالْجَمَعَ
قرآن شریف میں ہے”تَکُوۡنُ لَنَا عِیۡدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا”۔نمازعید واجب ہے عیدالفطرعبادات رمضان کی توفیق ملنے کے شکریئے کی ہے،رب تعالٰی فرماتا ہے:”وَلِتُکَبِّرُوا اللہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمْ”اور بقرعیدحضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما الصلوۃ والسلام کی کامیابی کے شکریہ میں۔ابن حبان وغیرہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲ھ میں جب کہ شعبان میں روزۂ رمضان فرض ہوئے،پہلےنمازعید پڑھی،پھربقرعید۔نمازعید کے شرائط جمعہ کے سے ہیں،ہاں خطبۂ جمعہ شرط ہے اورخطبۂ عید سنت،خطبۂ جمعہ نماز سے پہلے ہے اور خطبۂ عید نماز کے بعد۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر کبھی نہ چھوڑی،بقرعید حج میں چھوڑی کیونکہ حاجی پرنماز بقرعید نہیں۔
حدیث نمبر 652
روایت ہے حضرت ابوسعید خدری سے فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید بقرعید کے دن عیدگاہ تشریف لے جاتے ۱؎ تو پہلی چیز جس سے شروع فرماتے نماز ہوتی پھر لوگ فارغ ہوتے تو لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے اور لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے ۲؎ انہیں نصیحت اور وصیت فرماتے احکام دیتے اورلشکرچھانٹنے کا ارادہ ہوتا تو وہاں ہی چھانٹ لیتے یا کچھ حکم کرنا چاہتے تو اس کا حکم کرتے پھر واپس ہوتے۳؎(مسلم،بخاری)
شرح
۱؎ جو شہر سے باہر جگہ تھی۔اس سے معلوم ہوا کہ نماز عیدین جنگل میں افضل ہے،دیکھو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں نماز عید پڑھی،حالانکہ وہ جگہ تمام مسجدوں سے بہتر ہے اِلَّا مسجد حرام،اب مدینہ پاک میں عیدگاہ مشہور ہے۔
۲؎ یعنی نماز عید پہلے پڑھتے خطبہ بعد میں مگر خطبۂ عید منبر پر نہ تھا کیونکہ اس زمانہ میں نہ تو عیدگاہ میں منبر بنا نہ مسجدنبوی سے وہاں پہنچایا گیا اسی لیے علماء فرماتے ہیں کہ عیدگاہ کا منبر بدعت حسنہ ہے۔فتح القدیر میں ہے کہ وہاں منبربناناجائز ہے مگر شہر سے لے جانا ممنوع و مکروہ،وہاں کے منبر کا موجد مروان ابن حکم ہے۔
۳؎ سبحان الله! ہماری مسجدیں اور عیدگاہ سیاست و عبادت کا مرکز تھیں،وہیں سے غازی بنتے تھے،وہیں سے نمازی۔مطلب یہ ہے کہ عیدگاہ میں ہی سپاہیوں کی بھرتی ہوجاتی اور وہاں سے ہی لشکر اسلام کی روانگی تاریخیں مقرر ہو جاتیں مگر یہ تمام کام خطبہ کے بعد ہوتے نہ کہ دورانِ خطبہ میں۔