عید میں حاضر ہوئے
حدیث نمبر 655
حضرت ابن عباس سےپوچھا گیا کہ کیا آپ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید میں حاضر ہوئے فرمایا ہاں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو نماز پڑھی پھرخطبہ دیا اذان اورتکبیر کا آپ نے ذکر نہ فرمایا پھر عورتوں میں تشریف لے گئے تو انہیں وعظ و نصیحت کی اور صدقے کا حکم دیا ۱؎ میں نےعورتوں کو دیکھا کہ اپنے کانوں اور گلے کی طرف ہاتھ بڑھاتیں اور بلال کی طرف زیور پھینک دیتیں پھر آپ اور بلال اپنے گھر واپس ہوتے ۲؎(مسلم،بخاری)
شرح
۱؎ چونکہ عورتوں کی صفیں مردوں سے پیچھے ہوتی تھیں اس لیےحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ کی آواز وہاں تک نہ پہنچتی تھی لہذا یہاں سے فارغ ہوکر ان میں جاکرعلیٰحدہ وعظ فرماتے تھے،انہیں خصوصیت سے صدقہ و خیرات کا حکم دیتے تھے جس کی وجہ اگلی احادیث میں آرہی ہے۔خیال رہے کہ یہاں صدقہ سے مراد فطرہ نہیں ہے کیونکہ وہ تونماز عید سے پہلےاداکیاجاتاہے،نیز ان بیبیوں نے یہ حکم سن کر اپنے زیور پیش کئے ہیں،اگر فطرہ یا زکوۃ ہوتی تو حساب سے دی جاتی۔غالب یہ ہے کہ یہ صدقہ اسلامی فوجوں کے لیے تھا۔
۲؎ یعنی حضورصلی اللہ علیہ وسلم صدقہ کا حکم دیتے اورحضرت بلال وصول کرتے۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت بغیرخاوند کی اجازت خیرات کرسکتی ہے اپنے مال سے تو بہرحال اور خاوند کے مال سے جب جب کہ اسے عرفی اجازت ہو،یہ بھی معلوم ہوا کہ مسجدوعیدگاہ میں چندہ کرناجائزہے اور اپنے لیے سوال کرنا حرام،یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پردہ کرنا عورتوں پر فرض نہ تھا کیونکہ آپ ان کے لیےمثل والد کے تھے،حضرت بلال غالبًا اپنا منہ ڈھکے ہوتے ہوں گے۔خیال رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ وعظ خطبہ نہ تھا،وہ تو ہوچکا تھا بلکہ نصیحت کے طور پرتھا،ان بزرگوں کی ڈبل عید ہوتی ہوگی ایک عید،دوسرے جناب مصطفٰے کی دید،صلی اللہ علیہ وسلم۔