أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

كِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰهُ اِلَيۡكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوۡۤا اٰيٰتِهٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ۞

ترجمہ:

یہ (قرآن) برکت والی کتاب ہے جس کہ ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ یہ (لوگ) اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور صاحبان عقل اس سے نصیحت حاصل کریں

تفسیر:

تدبر اور تذکر کا معنی

ص ٓ: ٢٩ میں قرآن مجید میں غور و فکر کرنے اور اس سے نصیحت حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اس آیت میں تدبر اور تذکر کے الفاظ ہیں، تدبر کا معنی ہے قرآن مجید کی آیات میں غور و فکر کیا جائے اور اگر ان آیات کے ظاہری معنی پر کوئی اشکال ہو تو اس کی مناسب تاویل تلاش کی جائے اور اس آیت سے عقائد اور احکام شرعیہ کی جو ہدایت حاصل ہو اس پر عمل کیا جائے۔ تدبر کا معنی ہے : کسی چیز کے نتیجہ اور انجام پر نظر رکھنا اور تفکر کا معنی ہے : الفاظ کے مطلوبہ معانی کی تلاش میں ذہن کو متوجہ کرنا۔

تذکرکا معنی ہے : نصیحت حاصل کرنا، اس کو صاحبان عقل کے ساتھ مخصوص کیا ہے، کیونکہ تذکر کا تعلق عقل کے ساتھ ہے اور کسی چیز سے نصیحت اس وقت حاصل کی جاتی ہے جب دل میں اللہ کا ڈر اور خوف پیدا ہوتا ہے اور یہ چیز صاحبان عقل کے ساتھ مخصوص ہے یعنی اکابر علماء کے ساتھ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب دل پر معصیت کے حجابات ہوں اس وقت تفکر کی ضرورت ہوتی ہے اور جب یہ حجابات اٹھ جائیں اس وقت تذکر کی ضرورت ہوتی ہے۔

قرآن مجید کے معانی پر غور و فکر نہ کرنا اور اس پر عمل نہ کرنا، اللہ تعالیٰ کے کلام کی ناقدری کرنا ہے

آج کل لوگ قرآن مجید کی تلاوت بہت کرتے ہیں لیکن اس کے معانی میں غور و فکر نہیں کرتے اور جب معانی میں غور و فکر نہیں کریں گے تو اس سے نصیحت کیسے حاصل کریں گے، ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے پاس اگر عربی زبان میں کسی کمپنی سے کوئی خط آجائے تو ہم صرف اس کے الفاظ کی تلاوت کرنے پر قناعت نہیں کرتے بلکہ کسی عربی زبان جاننے والے کو تلاش کرتے ہیں اور جب تک ہمیں اس کا معنی نہ معلوم ہوجائے اس وقت تک ہم چین سے نہیں بیٹھتے، تو ہم قرآن مجید کے صرف الفاظ کی تلاوت کرکے اس کا معنی اور مطلب سمجھے بغیر کیوں مطمئن ہوجاتے ہیں ؟ کیا ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے کلام اور اس کے پیغام کی اتنی بھی قدرومنزلت نہیں ہے جتنی قدرومنزلت کسی کمپنی سے آئے ہوئے مکتوب کی ہوتی ہے یا کسی عزیز کے بھیجے ہوئے ٹیلی گرام کی ہوتی ہے ؟ اسی طرح جب ہم بیمار پڑجاتے ہیں اور کسی ماہر ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور وہ ہمیں چند دوائیں لکھ کردیتا ہے، مثلا Vibramycin 1+1 اور Panadol1+1+1 تو کیا ہم صرف اس نسخہ کی تلاوت کرتے ہیں یا ڈاکٹر کی لکھی ہوئی دوائوں کو خرید کر کھاتے ہیں اور اس کی ہدایت کے مطابق پرہیز کرتے اور دن میں جتنی بار دوا کھانے کی ہدایت لکھی ہوتی ہے اس ہدایت کے مطابق دوا کھاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہم صرف اس نسخہ کی تلاوت کرنے پر اکتفاء نہیں کرتے، بلکہ اس نسخہ کا مطلب سمجھ کر اس پر عمل کرتے ہیں، سو جس طرح جسمانی بیماری کے لیے ہم دنیاوی ڈاکٹر کے نسخہ کو سمجھ کر اس پر عمل کرتے ہیں تو ہم تندرست ہوجاتے ہیں، اسی طرح خالق کائنات اور حکیم مطلق نے ہماری روحانی بیماریوں اور دائمی فوزوفلاح کے لیے ہمیں قرآن مجید کی صورت میں ایک نسخہ لکھ کر بھیجا ہے تو ہم اس کے معانی اور مطالب میں غور کرکے اس نسخہ پر عمل کیوں نہیں کرتے اور صرف اس کی تلاوت پر قناعت کیوں کرلیتے ہیں ؟ کیا ہمارے دلوں میں اس حکیم مطلق اور شافی حقیقی کی اتنی قدر بھی نہیں ہے جتنی ہمارے دلوں میں M.B.B.S ڈاکٹر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یونہی تو نہیں فرمایا تھا :

ماقدروا اللّٰہ حق قدرہ۔ (الانعام : ٩١) انہوں نے اللہ کی اس طرح قدر نہیں کی جس طرح قدر کرنے کا حق تھا۔

قرآن مجید کے احکا پر عمل کرنے کی ترغیب

قرآن مجید کے احکام پر عمل کرنے کی ترغیب میں حسب ذیل احادیث ہیں :

حضرت معقل بن یساررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے : قرآن پر عمل کرو، اس کے حلال کو حلال کرو اور اس کے حرام کو حرام کرو اور اس کی اقتداء کرو اور اس کی کسی چیز کا انکار نہ کرو اور اس کی جو چیز تم پر متشابہ ہو اس کو اللہ کی طرف لوٹا دو ، یا میرے بعد جو صاحبان علم ہیں ان کی طرف لوٹا دو ، وہ جس طرح تم کو اس کی خبر دیتے ہوں اور تورات، انجیل اور زبور پر ایمان لائو اور انبیاء کو جو کچھ ان کے رب کی طرف سے دیا گیا ہے اس پر ایمان لائو تاکہ قرآن تم کو شفا دے اور اس کا بیان تم کو شفا دے کیونکہ قرآن شفاعت کرنے والا ہے اور اس کی شفاعت قبول کی ہوئی ہے اور وہ تصدیق کرنے والا وکیل ہے اور اس کی ہر آیت قیامت تک کا نور ہے۔ الحدیث (المستدرک ج ١ ص ٥٦٨، السنن الکبری للبیہقی ج ١٠ ص ٩، مجمع الزوائد ج ١ ص ٦٩، جمع الجوامع رقم الحدیث : ٣٤٢١) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے قرآن مجید کو پڑھا اور رات میں اور دن کی نمازوں کے قیام میں قرآن مجید کو پڑھا اور اس کے حلال کو حلال کہا اور اس کے حرام کو حرام کہا تو اللہ تعالیٰ اس کے گوشت اور خون کو دوزخ کی آگ پر حرام کردے گا اور کراماً کا تبین کو اس کا رفیق بنادے گا حتیٰ کہ قیامت کے دن قرآن اس کے حق میں حجت ہوجائے گا۔ (المچجم الصغیر رقم الحدیث : ١١٢٠، مجمع الزوائد ج ١ ص ١٧٠)

علماء کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ ان کو جس قدر علم ہے جب وہ اس پر عمل نہیں کرتے تو پھر مزید علم کس لیے حاصل کرتے ہیں ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا : اے حاملینِ قرآن ! قرآن پر عمل کرو، کیونکہ عالم وہ ہے جو علم کے تقاضوں پر عمل کرے اور اس کا عمل اس کے علم کے موافق ہو اور عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو علم کو حاصل کریں گے اور علم ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا، ان کی خلوت ان کی جلوت کے خلاف ہوگی اور ان کا عمل ان کے علم کے خلاف ہوگا، وہ مختلف حلقوں میں بیٹھیں گے اور ایک دوسرے پر فخر کریں گے، حتیٰ کہ ان میں سے کوئی شخص اپنے ساتھی پر اس لیے غضب ناک ہوگا کہ وہ دوسرے شخص کے پاس کیوں بیٹھا ہے، یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے اعمال ان کی مجالس سے اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچیں گے۔ (کنزالعمال ج ١٠ ص ٢٧٢، رقم الحدیث : ٢٩٤١٩) حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اہل جنت کا ایک گروہ دوزخ میں جھانک کر دوزخیوں کے ایک گروہ کو دیکھ کر کہے گا : تم دوزخ میں کیسے داخل ہوگئے، ہم تو تمہاری تعلیم کی وجہ سے جنت میں داخل ہوئے ہیں ؟ وہ کہیں گے : ہم لوگوں کو (نیکی کا) حکم دیتے تھے اور خود اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ (کنزالعمال ج ١٠ ص ٢٧٢، رقم الحدیث ٢٩٤٢ )

حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ اس بات کا خوف ہے کہ وہ قرآن مجید کے صحیح محمل کے خلاف تاویل کریں گے۔ (کنزالعمال ج ١٠ ص ٢٧٠، رقم الحدیث ٢٩٤١٣)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 29