وَاذۡكُرۡ عَبۡدَنَاۤ اَيُّوۡبَۘ اِذۡ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّىۡ مَسَّنِىَ الشَّيۡطٰنُ بِنُصۡبٍ وَّعَذَابٍؕ ۞- سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 41
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاذۡكُرۡ عَبۡدَنَاۤ اَيُّوۡبَۘ اِذۡ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّىۡ مَسَّنِىَ الشَّيۡطٰنُ بِنُصۡبٍ وَّعَذَابٍؕ ۞
ترجمہ:
اور ہمارے (خاص) بندے ایوب کو یاد کیجئے، جب انہوں نے اپنے رب سے ندا کی کہ بیشک مجھے شیطان نے سخت اذیت اور درد پہنچایا ہے
تفسیر:
حضرت ایوب (علیہ السلام) کا قصہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اور ہمارے (خاص) بندے ایوب کو یاد کیجئے، جب انہوں نے اپنے رب سے ندا کی کہ بیشک مجھے شیطان نے سخت اذیت اور درد پہنچایا ہے (ہم نے انہیں حکم دیا) اپنا پائوں زمین پر مارو، یہ نہانے کا ٹھنڈا پانی ہے اور پینے کا اور ہم نے انہیں ان کے گھر والے عطا فرمادیئے اور اتنے ہی اور ان کے ساتھ، ہماری طرف سے رحمت اور عقل والوں کی نصیحت کے لیے اور آپ اپنے ہاتھ میں تنکوں کی ایک جھاڑو لے کر ماریں اور اپنی قسم نہ توڑیں، بیشک ہم نے ان کو صابر پایا، وہ کیا خوب بندے ہیں، بیشک وہ بہت رجوع کرنے والے ہیں (ص ٓ: ٤٤۔ ٤١ )
حضرت ایوب (علیہ السلام) کو آزمائش میں مبتلا کیا جانا
علماء التفسیر اور علماء التاریخ نے یہ بیان کیا ہے کہ حضرت ایوب بہت مال دار شخص تھے، ان کے پاس ہر قسم کا مال تھا، مویشی اور غلام تھے اور زرخیر اور غلہ سے لہلہاتے ہوئے کھیت اور باغات تھے اور حضرت ایوب (علیہ السلام) کی اولاد بھی بہت تھی، پھر ان کے پاس سے یہ تمام نعمتیں جاتی رہیں اور ان کے دل اور زبان کے سوا ان کے جسم کا کوئی عضو سلامت نہ رہا جن سے وہ اللہ عزوجل کا ذکر کرتے رہتے تھے اور وہ ان تمام مصائب میں صابر تھے اور ثواب کی نیت سے صبح وشام اور دن اور رات اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ ان کے مرض نے بہت طول کھینچا، حتیٰ کہ اس کے دوست اور احباب ان سے اکتا گئے، ان کو اس شہر سے نکال دیا گیا اور کچرے اور کوڑے کی جگہ ڈال دیا گیا، ان کی بیوی کے سوا ان کی دیکھ بھال کرنے والا اور کوئی نہ تھا، ان کی بیوی لوگوں کے گھروں میں کام کرتی اور اس سے جو اجرت ملتی اس سے اپنی اور حضرت ایوب (علیہ السلام) کی ضروریات کو پورا کرتی۔
وہب بن منبہ اور دیگر علماء بنی اسرائیل نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیماری اور ان کے مال اور اولاد کی ہلاکت کے متعلق بہت طویل قصہ بیان کیا ہے۔ مجاہد نے بیان کیا ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) وہ پہلے شخص ہیں جن کو چیچک ہوئی تھی، ان کی بیماری کی مدت میں کئی اقوال ہیں، وہب بن منبہ نے کہا : وہ مکمل تین سال تک بیماری میں مبتلا رہے۔ حضرت انس (رض) نے کہا : وہ سات سال اور کچھ ماہ بیماری میں مبتلا رہے، ان کو بنی اسرائیل کے گھورے (کچراڈالنے کی جگہ) پر ڈال دیا گیا تھا اور ان کے جسم میں کیڑے پڑگئے تھے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے بیماری کو دور کردیا اور ان کو صحت اور عافیت عطا فرمائی۔ حمید نے کہا : وہ اٹھارہ سال بیماری میں مبتلا رہے، ان کے سارے جسم سے گوشت گل کر گرگیا تھا اور جسم پر صرف ہڈیاں اور گوشت باقی رہ گیا تھا، ایک دن ان کی بیوی نے کہا : اے ایوب ! آپ کی بیماری بہت طول پکڑ گئی ہے، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ آپ کو صحت اور عافیت عطا فرمائے۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے فرمایا : میں ستر سال صحت اور عافیت کے ساتھ رہا ہوں، حق تو یہ ہے کہ میں اب ستر سال صبر کروں۔ (البدایہ والنہایہ ج ١ ص ٣٠٩۔ ٣٠٨، مطبوعہ دارالفکر، بیروت، ١٤١٨ ھ)
حضرت ایوب (علیہ السلام) کے جسم میں کیڑے پڑنے کی تحقیق
حافظ ابوالقاسم علی بن الحسن ابن عساکر متوفی ٥٧١ ھ نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیماری کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے : زبان اور دل کے علاوہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کے تمام جسم میں کیڑے پڑگئے تھے، ان کا دل اللہ کی مدد سے غنی تھیا اور زبان پر اللہ تعالیٰ کا ذکر جاری رہتا تھا۔ کیڑوں نے ان کے تمام جسم کو کھالیا حتیٰ کہ ان کی صرف پسلیاں اور رگیں باقی رہ گئیں تھیں، پھر کیڑوں کے کھانے کے لیے بھی کچھ باقی نہ رہا، پھر کیڑے ایک دوسرے کو کھانے لگے، دو کیڑے باقی رہ گئے تھے، انہوں نے بھوک کی شدت سے ایک دوسرے پر حملہ کیا اور ایک کیڑا دوسرے کو کھا گیا، پھر ایک کیڑا ان کے دل کی طرف بڑھا تاکہ اس میں سوراخ کرے، تب حضرت ایوب (علیہ السلام) نے یہ دعا کی : بیشک مجھے (سخت) تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ٥ ص ١٠٧، مطبوعہ دارالفکر، بیروت، ١٤٠٤ ھ)
حضرت ایوب (علیہ السلام) کے جسم میں کیڑے پڑنے کا واقعہ حافظ عساکر اور حافظ بن کثیر دونوں نے بنی اسرائیل کے علماء سے نقل کیا ہے اور ان کی اتباع میں مفسرین نے بھی ذکر کیا ہے لیکن ہمارے نزدیک یہ واقعہ صحیح نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ انبیاء (علیہم السلام) کو ایسے حال میں مبتلا نہیں کرتا جس سے لوگوں کو نفرت ہو اور وہ ان سے گھن کھائیں۔
اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کے متعلق فرمایا :
انھم عندنا لمن المصطفین الاخیار (ص ٓ: ٤٧) یہ سب ہمارے پسندیدہ اور نیک لوگ ہیں حضرت ایوب (علیہ السلام) پر کوئی سخت بیماری مسلط کی گئی تھی لیکن وہ بیماری ایسی نہیں تھی جس سے لوگ گھن کھائیں۔ حدیث صحیح مرفوع میں بھی اس قسم کی کسی چیز کا ذکر نہیں ہے، صرف ان کی اولاد اور ان کے مال مویشی کے مرجانے اور ان کے بیمار ہونے پر صبر کا ذکر ہے۔ علماء اور واعظین کو چاہیے کہ وہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی طرف ایسے احوال منسوب نہ کریں جن سے لوگوں کو گھن آئے۔ اب ہم اس سلسلہ میں حدیث صحیح مرفوع کا ذکر کررہے ہیں۔
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک حضرت ایوب (علیہ السلام) اپنی بیماری میں اٹھارہ سال مبتلا رہے، ان کے بھائیوں میں سے دو شخصوں کے سوا سب لوگوں نے ان کو چھوڑ دیا خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا اور لوگ ہوں۔ وہ دونوں روز صبح وشام ان کے پاس آتے تھے۔ ایک دن ایک نے دوسرے سے کہا : کیا تم کو معلوم ہے کہ ایوب نے کوئی ایسا بہت بڑا گناہ کیا ہے جو دنیا میں کسی نے نہیں کیا۔ دوسرے نے کہا : کیونکہ اٹھارہ سال سے اللہ تعالیٰ نے اس پر رحم نہیں فرمایا حتیٰ کہ اس سے اس کی بیماری کو دور فرما دیتا۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے کہا : میں اس کے سوا اور کچھ نہیں جانتا کہ میں دو آدمیوں کے پاس سے گزرا جو آپس میں جھگڑ رہے تھے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کررہے تھے، میں اپنے گھر گیا تاکہ ان کی طرف سے کفارہ ادا کروں، کیونکہ مجھے یہ ناپسند تھا کہ حق بات کے سوا اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) اپنی ضروریات کے لیے جاتے تھے اور جب ان کی حاجت پوری ہوجاتی تو ان کی بیوی ان کا ہاتھ پکڑ کرلے آتی۔ ایک دن ان کو واپس آنے میں کافی دیر ہوگئی، اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی کی :
انھم عندنا لمن المصطفین الاخیار (ص ٓ: ٤٧) یہ سب ہمارے پسندیدہ اور نیک لوگ ہیں حضرت ایوب (علیہ السلام) پر کوئی سخت بیماری مسلط کی گئی تھی لیکن وہ بیماری ایسی نہیں تھی جس سے لوگ گھن کھائیں۔ حدیث صحیح مرفوع میں بھی اس قسم کی کسی چیز کا ذکر نہیں ہے، صرف ان کی اولاد اور ان کے مال مویشی کے مرجانے اور ان کے بیمار ہونے پر صبر کا ذکر ہے۔ علماء اور واعظین کو چاہیے کہ وہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی طرف سے ایسے احوال منسوب نہ کریں جن سے لوگوں کو گھن آئے۔ اب ہم اس سلسلہ میں حدیث صحیح مرفوع کا ذکر کررہے ہیں۔
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک حضرت ایوب (علیہ السلام) اپنی بیماری میں اٹھارہ سال مبتلا رہے، ان کے بھائیوں میں سے دو شخصوں کے سوا سب لوگوں نے ان کو چھوڑ دیا خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا اور لوگ ہوں۔ وہ دونوں روز صبح وشام ان کے پاس آتے تھے۔ ایک دن ایک نے دوسرے سے کہا : کیا تم کو معلوم ہے کہ ایوب نے کوئی ایسا بہت بڑا گناہ کیا ہے جو دنیا میں کسی نے نہیں کیا۔ دوسرے نے کہا : کیونکہ اٹھارہ سال سے اللہ تعالیٰ نے اس پر رحم نہیں فرمایا حتیٰ کہ اس سے اس کی بیماری کو دور فرما دیتا۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے کہا : میں اس کے سوا اور کچھ نہیں جانتا کہ میں دو آدمیوں کے پاس سے گزرا جو آپس میں جھگڑ رہے تھے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کررہے تھے، میں اپنے گھر گیا تاکہ ان کی طرف سے کفارہ ادا کروں، کیونکہ مجھے یہ ناپسند تھا کہ حق بات کے سوا اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) اپنی ضروریات کے لیے جاتے تھے اور جب ان کی حاجت پوری ہوجاتی تو ان کی بیوی ان کا ہاتھ پکڑ کرلے آتی۔ ایک دن ان کو واپس آنے میں کافی دیر ہوگئی، اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ وحی کی :
ارنض برجلک ج ھذا مغتسل بارد و شراب (ص ٓ: ٤٢) (زمین پر) اپنی ایڑی ماریے یہ نہانے کا ٹھنڈا اور پینے کا پانی ہے اللہ تعالیٰ نے ان کی ساری بیماری کو اس پانی میں نہانے سے دور کردیا (اور پانی پینے سے ان میں طاقت آگئی) اور وہ پہلے سے بہت صحت مند اور حسین ہوگئے۔ ان کی بیوی ان کو ڈھونڈتی ہوئی آئی اور پوچھا : اے شخص ! اللہ تمہیں برکت دے، کیا تم نے اللہ کے نبی کو دیکھا ہے جو بیمار تھے، اللہ کی قسم ! میں نے تم سے زیادہ ان کے مشابہ اور تندرست شخص کو نہیں دیکھا۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے فرمایا : میں ہی تو وہ شخص ہوں۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کے دو کھلیان تھے، ایک گندم کا کھلیان تھا اور ایک جو کا کھلیان تھا۔ اللہ تعالیٰ نے دو بادل بھیجے، ایک گندم کے کھلیان پر برسا اور اس کو سونے سے اس قدر بھر دیا کہ سونا کھلیان سے باہر گرنے لگا اور دوسرا جو کے کھلیان پر برسا اور اس کو چاندی سے بھر دیا حتیٰ کہ چاندی باہر گرنے لگی۔ (صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٢٨٩٨، مسند البزار رقم الحدیث : ٢٣٥٧، حلیۃ الاولیاء ج ٣ ص ٣٧٥۔ ٣٧٤، مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : ٣٦١٧، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٤٠، المستدرک ج ٢ ص ٥٨٢۔ ٥٨١، حاکم نے کہا : یہ حدیث صحیح ہے اور ہبی نے اس کی موافقت کی۔ حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کو امام ابویعلیٰ اور امام بزار نے روایت کیا ہے اور امام بزار کی سند صحیح ہے، مجمع الزوائد ج ٨ ص ٢٠٨)
بعض مفسرین کا حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیماری کو شیطان کی تاثیر قرار دینا
حضرت ایوب (علیہ السلام) نے اپنے رب سے یہ ندا کی کہ بیشک مجھے شیطان نے سخت اذیت اور درد پہنچایا ہے۔ ان کا جو مال ومتاع ضائع ہوگیا تھا اس سے ان کو رنج پہنچا تھا اور ان کے جسم میں جو بیماری پیدا ہوگئی تھی اس سے ان کو درد ہوگیا تھا۔ ص : ٤١ میں اس رنج اور درد پہنچانے کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے اور اس میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ شیطان کی طرف یہ نسبت حقیقتاً ہے یا مجازاً ہے۔ بعض مفسرین نے کہا : شیطان کی طرف بہ نسبت حقیقتاً ہے اور وہ اس سلسلہ میں یہ روایت بیان کرتے ہیں : امام عبدالرحمن بن محمد بن ادریس ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ روایت کرتے ہیں : ایک دن ابلیس نے اپنے رب سے یہ کہا کہ کیا تیرے بندوں میں کوئی ایسا بندہ ہے کہ اگر تو مجھ کو اس پر مسلط کردے تو وہ پھر بھی میرے فریب میں نہیں آئے گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہاں ! میرا بندہ ایوب ہے، ابلیس آکر حضرت ایوب (علیہ السلام) کو وسوسے ڈالنے لگا، حضرت ایوب (علیہ السلام) اس کو دیکھ رہے تھے، لیکن آپ نے اس کی طرف بالکل التفات نہیں کیا، تب ابلیس نے کہا : اے رب ! وہ میری طرف بالکل التفات نہیں کررہے، تو اب مجھے ان کے مال پر مسلط کردے، پھر ابلیس آکر حضرت ایوب (علیہ السلام) سے کہتا کہ تمہارا فلاں فلاں مال ہلاک ہوگیا، حضرت ایوب (علیہ السلام) اس کے جواب میں کہتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی وہ مال دیا تھا، اسی نے ہی وہ مال لے لیا اور پھر اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے رہے، پھر ابلیس نے کہا : اے رب ! ایوب کو اپنے مال کی کوئی پرواہ نہیں ہے تو مجھے اس کی اولاد پر مسلط کردے، پھر وہ آیا اور اس نے ان کے گھر کو منہدم کردیا اور ان کی تمام اولاد ہلاک ہوگئی، ابلیس نے آکر حضرت ایوب کو ان کی اولاد کے ہلاک ہونے کی خبر دی تو حضرت ایوب (علیہ السلام) نے اس خبر پر کسی افسوس کا اظہار نہیں کیا، تب ابلیس نے کہا : اے میرے رب ! ایوب کو اپنے مال کی پرواہ ہے نہ اولاد کی، سو تو مجھے ان کے جسم پر مسلط کردے، اللہ تعالیٰ نے اس کو اجازت دے دی، اس نیحضرت ایوب (علیہ السلام) کی کھال میں پھونک ماری تو ان کے جسم میں بہت سخت بیماریاں پیدا ہوگئیں اور بہت سخت درد ہوگیا اور وہ کئی سال ان بیماریوں میں مبتلا رہے، حتیٰ کہ ان کے شہر کے لوگ ان سے نفرت کرنے لگے اور وہ جنگل میں چلے گئے، ان کے قریب کوئی نہیں جاتا تھا، پس ایک دن شیطان ان کی بیوی کے پاس گیا اور کہا : اگر آپ کا خاوند مجھ سے مدد طلب کرے تو میں اس کو اس تکلیف سے نجات دے دوں گا، ان کی بیوی نے ان سے یہ ماجرا بیان کیا تو انہوں نے قسم کھائی کہ اگر اللہ نے ان کو شفا دے دی تو وہ اپنی بیوی کو سوکوڑے ماریں گے، پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی : بیشک مجھے شیطان نے سخت اذیت اور درد پہنچایا ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور ان کے پیر کے نیچے سے ایک ٹھنڈا اور پاکیزہ چشمہ پیدا کردیا، انہوں نے اس میں غسل کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تمام ظاہری اور باطنی تکلیفوں کو دور فرما دیا اور ان کے اموال اور ان کی اولاد کو بھی ان پر واپس کردیا۔ (تفسیر امام ابی حاتم رقم الحدیث : ١٨٣٦٠، ملخصا) امام الحسین بن مسعود الفراء البغوی المتوفی ٥١٦ ھ اور علامہ علی بن محمد خازن المتوفی ٧٢٥ ھ نے بھی اس کا خلاصہ بیان کیا ہے۔ (معالم التنزیل ج ٣ ص ٣٠٣ تفسیر القازن ج ٣ ص ٢٣٤)
محققین کے نزدیک شیطان کو کسی انسان کے جسم پر تسلط اور تصرف حاصل نہیں ہے
امام فخر الدین محمد بن عمررازی متوفی ٠٦ ھ لکھتے ہیں :
شیطان کو کسی انسان کے جسم میں مرض اور درد پیدا کرنے پر کوئی قدرت نہیں ہے اور اس پر حسب ذیل دلائل ہیں :
(١) اگر شیطان کو انسان کے جسم میں صحت اور بیماری پیدا کرنے پر قدرت ہو تو پھر اس کو انسان کی موت اور حیات پر بھی قدرت ہوگی، تو پھر ہمارے لیے یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوگا کہ تمام نعمتوں اور سعادتوں اور تمام خیرات اور سعادات کا عطا کرنے والا اللہ تعالٰ ہے۔
(٢) اگر شیطان کو اس پر قدرت ہو تو اس نے انبیاء (علیہم السلام) کو قتل کرنے اور ان کی اولاد کو ہلاک کرنے اور ان کے گھروں کو تباہ کرنے کا اقدام کیوں نہیں کیا ؟
(٣) اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ شیطان قیامت کے دن لوگوں سے کہے گا : وما کان لی علیکم من سلطن الا ان دعوتکم فاستجبتم لی۔ (ابراہیم : ٢٢ )
اور مجھے تم پر اس کے سوا اور کوئی تصرف حاصل نہ تھا کہ میں نے تم کو (گناہ کی طرف) بلایا اور تم نے میری بات مان لی۔ شیطان نے اپنے اس قول میں یہ تصریح کردی ہے کہ اس کو انسان پر صرف بُرائی کی طرف راغب کرنے کی اور گناہوں کا وسوسہ ڈالنے کی قدرت حاصل ہے اور ان لوگوں کا یہ کہنا غلط ہے کہ شیطان نے اپنی تاخیر سے حضرت ایوب (علیہ السلام) میں بیماری پیدا کردی تھی۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٣٩٧، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
حضرت ایوب (علیہ السلام) نے بیماری کو شیطان کی طرف جو منسوب کیا تھا اس کی توجیہات
حضرت ایوب (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں کہا تھا کہ بیشک شیطان نے مجھے سخت اذیت اور درد پہنچایا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شیطان کی تاثیر حضرت ایوب (علیہ السلام) کے جسم میں بیماری اور درد پیدا ہوگیا تھا، بلکہ بیماری اور درد تو ان کے جسم میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تھا، لیکن اس بیماری اور درد میں شیطان ان کے دل میں وسوسے ڈالتا رہتا تھا اور ان کو اللہ تعالیٰ کے خلاف شکایت کرنے پر ابھارتا رہتا تھا جس سے ان کے درد اور ان کی تکلیف میں اور اضافہ ہوتا تھا، اس لیے انہوں نے مجازاً اس بیماری اور درد کی نسبت شیطان کی طرف کردی، جب حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیماری پر ایک لمبا عرصہ گزر گیا، لوگ ان سے متنفر ہوگئے اور وہ ایک جنگل میں چلے گئے تو اس وقت شیطان ان سے آکر کہتا تھا : دیکھو تمہارے پاس کس قدر مال و دولت تھی، تم کس قدر عیش و عشرت سے رہتے تھے، تمہاری بہ کثرت اولاد تھی، تم صحت مند اور توانا تھے اور اب نہ وہ مال و دولت ہے، نہ اولاد ہے، نہ وہ صحت ہے، اگر تمہارا دین صحیح ہوتا اور تمہارا معبود واحد اور برحق ہوتا تو تمہاری کثرت عبادت کی وجہ سے تمہاری نعمتوں میں اور اضافہ ہوتا نہ یہ کہ تمہاری پہلی نعمتیں بھی واپس چلی جاتیں، شیطان کی اس قسم کی باتیں سن کر حضرت ایوب (علیہ السلام) کے درد اور ان کی تکلیف میں اور اضافہ ہوتا تھا، اس لیے انہوں نے کہا : بیشک شیطان نے مجھے سخت اذیت اور درد پہنچایا ہے۔ علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ اس مسئلہ پر لکھتے ہیں :
قاضی نے کہا ہے کہ جن لوگوں نے کہا کہ شیطان نے حضرت ایوب (علیہ السلام) پر بیماری مسلط کی تھی ان کو یہ جرأت اس وجہ سے ہوئی کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے دعا میں کہا کہ مجھے اذیت اور عذاب کے ساتھ شیطان نے مس کیا ہے (یعنی اس نے یہ تکلیف پہنچائی ہے) انہوں نے یہ دیکھا کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے مس شیطان کی شکایت کی تو اس بناء پر انہوں نے اس بیماری کے پیدا کرنے کی نسبت شیطان کی طرف کردی، حالانکہ واقعہ اس طرح نہیں ہے، تمام افعال خواہ نیک ہوں یا بد، ایمان ہو یا کفر، اطاعت ہو یا معصیت، ان سب افعال کا خالق اللہ عزوجل ہے اور ان افعال کی تخلیق میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے، لیکن ذکر اور کلام میں اس کی طرف شر کی نسبت نہیں کی جاتی، اگرچہ شر کو بھی اس نے ہی پیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ کے ادب اور اس کی تعظیم کا یہی تقاضا ہے، ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو جو دعائے قنوت کی تعلیم دی اس میں یہ جملہ ہے : والخیر فی یدیک والشر لیس الیک۔ اور ہر خیر تیرے قبضہ میں ہے اور کوئی شر تیری طرف منسوب نہیں ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٧١، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٧٧٤، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٥٣٢، سنن النسائی رقم الحدیث : ٨٩٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٠٥٤) اسی بناء پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا :
واذامرضت فھویشفین (الشعراء : ٨٠) اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ شفا دیتا ہے بیماری کی نسبت اپنی طرف کی اور شفا کی نسبت اللہ کی طرف کی اور اسی طریقہ کے مطابق حضرت یوشع بن نون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا :
وماانسنیہ الا لشیطن۔ (الکہف : ٦٣) مجھے (مچھلی کا واقعہ بتانے کو) صرف شیطان نے بھلایا تھا۔ اور اسی طریقہ کے مطابق حضرت ایوب (علیہ السلام) نے بطور ادب ایک بار بیماری کی نسبت اپنی طرف کرکے کہا :
وایوب اذ نادی ربہ انی مسنی الضر۔ (الانبیاء : ٨٣) اور ایوب کی اس حالت کو یاد کیجئے جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا، بیشک مجھے بیماری پہنچ گئی ہے۔ اور دوسری بار بیماری لگنے کی نسبت شیطان کی طرف کی :
انی مسنی الشیطن بنٹب و عذاب (ص ٓ: ٤١) بیشک شیطان نے مجھے اذیت اور درد کے ساتھ مس کیا گے (یعنی یہ تکلیف پہنچائی ہے)
اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بیماری کے متعلق کوئی حرف ثابت نہیں ہے، اس سلسلہ میں صرف یہ حدیث ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس وقت حضرت ایوب برہنہ غسل کررہے تھے ان کے اوپر سونے کی ایک ٹڈی گرپڑی، حضرت ایوب اس کو کپڑے سے پکڑنے لگے تو ان کو ان کے رب نے ندا کی : اے ایوب ! کیا میں نے تم کو اس سے غنی نہیں کردیا، انہوں نے کہا : کیوں نہیں ! تیری عزت کی قسم ! لیکن میں تیری برکت سے مستغنی نہیں ہوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٧٩، مسند احمد رقم الحدیث : ١٨٤٤، عالم الکتب)
قرآن اور سنت میں اس کے علاوہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کے متعلق اور کوئی ذکر نہیں ہے، پھر ان لوگوں کے پاس وہ کون سا ذریعہ ہے جس سے ان کو یہ معلوم ہوا کہ ابلیس نے حضرت ایوب کے بدن میں پھونک مار کر ان کو بیمار کردیا تھا، جس سے ان کے پھنسیاں نکل آئی تھیں اور وہ زخم خراب ہوگئے تھے اور ان میں کیڑے پڑگئے تھے اور کس کی زبان سے انہوں نے یہ روایات سنی ہیں، سو یہ اسرائیلی روایات ہیں جن کو علماء نے چھوڑا ہوا ہے، تم اپنے کانوں کو ان کے سننے سے بند کرلو، ان سے تمہارے دل و دماغ میں سوائے پریشانی کے اور کچھ نہیں ہوگا۔ (الجامع الاحکام القرآن جز ١٥ ص ١٨٨، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 41
[…] تفسیر […]